جیسے ہی عروج کلاس میں داخل ہوئی آمنہ اس کی طرف دیکھ کر پوچھنے لگی تم ٹھیک تو ہو نا عروج جی یہ کہہ کر عروج اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی۔
آمنہ ایک بات کہوں عروج نے آمنہ کو مخاطب کیا۔
جی کہو آمنہ نے کتاب کے ورق پلٹتے ہوئے کہا۔
آمنہ کبھی بھی مان مت توڑنا میرا مجھے تم پر بہت بھروسہ ہے۔
کیا ہوا عروج کی طرف دیکھتے ہوئے آمنہ نے عروج کی طرف دیکھتے ہی ہو پوچھا۔
جی بس ایسے ہی کہہ رہے تھی دوستی کا رشتہ بہت مضبوط ہوتا ہے۔
کبھی نہیں ٹوٹےگا عروج بے فکر رہو آمنہ نے عروج کے گلے میں بازو ڈالتے کہا۔
اوکے شکریہ یہ کہہ کر عروج اپنے کتاب پڑھنے میں مگن ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمر کیا واہیات حرکت کی ہے تم نے کچھ تو خیال کر لیتے
تمہیں شرم آنی چاہیے پرنسپل سر نے غصہ سے بولتے ہوئے کہا۔
سوری سر عمر نے معصومیت سے جواب دیا۔
کیا تمہارے سوری سے اس کا مان واپس لوٹ آئے گا تم اتنے گھٹیا ہو سکتے ہو تمہاری اور بھی شکایات موصول ہوئی ہیں اس لیے تمہیں یونیورسٹی سے نکالتا ہوں یہ لو تمہارا سرٹیفکیٹ پرنسپل سر نے منہ مارتے ہوئے کہا ۔
دفع ہو جاؤ یہاں سے عمر دو بارہ نظر نہ آنا مجھے ۔
عمر یہ سنتے ہی سرٹیفکیٹ تھامے اوفس سے نکل گیا۔
اسکا سامنا ابدال سے ہوگیا باہر نکلتے ہی تمہں تو دیکھ لوں گا یہ کہتے ہوئے عمر یونیورسٹی سے نکل گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھٹی کے بعد عروج جیسے ہی گھر پہنچی اور پہنچتے ہی اس نے اپنی مما کو مخاطب کیا ۔
ماما مجھے آپ سے بات کرنی ہے جی بیٹا عروسہ نے ٹی وی بند کرتے ہوئے کہا۔
سحر کا بھائی ہے نا ماما وہ بہت دنوں سے مجھے تنگ کر رہا تھا بیٹا بتایا کیوں نہیں ماما میں نے اسے بلاک کردیا تھا اچھا پھر ٹھیک ہے۔
آج اس نے ماما میرا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔
کیا کہا عروج!
اس کی ہمت کیسے ہوئی؟؟؟
ماما پھر ابدال آگیا تھا اور اس کے سر نے تھپڑ مارا اور پھر پرنسپل آفس آنے کو کہا۔
بیٹا سچ کہوں مجھے وہ لوگ بلکل پسند نہیں آئے تھے لیکن تمہارے بھائی کی وجہ سے رشتہ کیا۔
بیٹا مجھے اپنی بیٹی پر بہت اعتبار ہے میری بیٹی میرا اعتبار کبھی نہیں توڑے گی”
اس لئے بیٹا سپورٹ ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے ہمیشہ ساتھ رہے گا جب تک زندگی رہے گی۔
کیا بھروسہ کب سانس رک جائے اور بلاوا آ جائے۔
مما عروج کی آنکھوں میں آنسو آگئے ایسی باتیں مت کیا کریں اچھا چلو پریشان نہ ہوں کھانا کھا کر آرام کرو اللہ پر بھروسہ رکھو۔
کبھی بھی ناامید نہیں کرتا ہے۔ اوکے پیاری مما عروج یہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جنت کے گھر میں ہر طرف گہما گہمی کا سماں تھا کیونکہ جنت اور رئیس کا رشتہ طے ہو گیا تھا ۔
سب خوش تھے سوائے جنت کے اداسی تھی مگر بامشکل مسکرا رہی تھی۔
مگر ماں باپ کے فیصلے پر کچھ نہیں کہہ سکتی تھی۔
اللہ ناخوش مگر آپ کے ہر کام میں بہتری ہوتی ہے۔
آپ کے فیصلے کبھی غلط نہیں ہوتے۔
ہر طرف شہنائی تھی ۔
جنت کے دل میں اداسی تھی۔
“”” یہ اداسی میرے دل پر چھا رہی ہے
کون جانے کب کہا کیا گزر رہی ہے
کون سناشا ہے میرے دل کی کیفیت سے یارب
بس تو ہی جانتا ہے جو بھی دل میں چھپا ہے”””
جنت مبارک ہو تمہیں اجالا نے کمرے میں داخل ہوتے کہا آخر رئیس بھائی نے تمہیں چن لیا۔
اچھا شکریہ جنت نے بس اتنا کہا۔
خوش نہیں لگ رہی اجالا نے مٹھائی کھاتے پوچھا۔
ایسی کوئی بات نہیں اب کیا بھنگڑا ڈالو اجالا نے مسکراتے کہا۔
ہاہاہاہا یہ بھی چلے گا کسی کو نہیں بتاؤں گی ۔
بس اب چپ ہو جاؤ باہر مہمان بیٹھے ہیں جنت نے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔
اچھا جی یہ کہہ کر اجالا کر خاموش ہو گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کے وقت عمر نے گھر میں داخل ہوتے ہی عروج کو پکارا۔
عروج کدھر ہو ؟؟؟
کیا ہوا عمر بیٹا چلا کیوں رہے ہو۔
ماما آج آپ کچھ نہیں بولیں گی بس خاموش رہیں گی۔
بس بتاؤ گے تم میرا دل بیٹھا جا رہا ہے صوفہ پر بیٹھتے ہی عروسہ بولی۔
جی بھائی عروج نے کمرے سے نکلتے ہی کہا۔
عروج ،عمر نے موبائل سامنے کرتے ہوئے کہا تمہاری تصویریں ابدال کے ساتھ وہ بھی سوشل میڈیا پر تمہاری ہمت کیسے ہوئی ۔
کیا کہہ رہے ہیں بھائی میں ایسا کیوں کروں گی۔
بکواس بند کرو عروج یہ کہتے ہوئے زوردار تھپڑ رسید کیا ۔
عروج فرش پر جاگری چلی اور چہرہ کرسی کی نوک پر لگنے سے خون بہنے لگا۔
اللہ میری بچی عروسہ چلائی
ماما دور رہیں آپ عمر نے ہاتھ سے روکا۔
کیا ہوا عمر بہن پر کیوں ہاتھ اٹھایا احمد نے کمرے سے نکلتے ہی پوچھا ۔
بابا آپ لوگوں کو نہیں پتہ یہ کیا گل کھلا رہی ہے۔
نہیں بابا ایسا نہیں ہے یقین کریں میرے کردار پہ تہمت مت لگاؤ بھائی کو کہو عروج نے روتے ہوئے کہا۔
بھائی میرا کردار پاک دامن ہی بھائی میرا کردار پاک دامن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری غلطی نہیں ہے بھائی مما آپ بھی بولیے نہ کچھ عروج نے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوۓ کہا۔
اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے درد کی شدت چہرے سے واضح ہو رہی تھی ”
بابا آپ تو جانتے ہیں نا آپکی بیٹی بیٹی کبھی بھی غلط نہیں ہوسکتی عروج نے اپنے بابا کی طرف دیکھ کر کہا۔
آنسو جاری تھے خون بھی نکل رہا تھا چہرے سے درد کی لہر واضح ہو رہی تھی۔
مگر دیکھتا کون سوائے عروسہ کے کوئی محسوس نہیں کرسکتا تھا۔
وہ خود بے بسی سے سب دیکھ رہی تھی اور روئے جا رہی تھی۔
میرا یقین کریں بابا آپ کو مجھ پر یقین تھا نا بابا کچھ تو بولیے عروج نے بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑا۔
عروج ،عمر نے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا ۔
بیٹیاں تو مان رکھتی ہیں ماں باپ کی کا تمہاری طرح عزت کا جنازہ نہیں نکالتی۔
عمر نے غصہ بھرے لہجہ میں کہا۔
ایسا مت کہو بھائی خدا کا واسطہ مجھ پر اتنی بڑی تہمت مت لگاؤ عروج نے روتے ہوئے کہا۔
مما بولیے آپ بھی آپ کی خاموشی برداشت نہیں ہو رہی عروج چلائی۔
چلاؤ مت عروج انگلی کے اشارے سے عمر نے کہا۔
عمر عروسہ نے درد بھری آواز میں پکارا۔
صوفہ سے اٹھتے ہی اچانک درد کی شدت دل میں اٹھی اور فوراً عروسہ صوفہ پر گر گئی۔
عروج ماں کی حالت دیکھ کر لپکی۔
ماما، ہائے! اللّہ میری ماما
عروج نے صوفہ کے قریب پہنچتے ہی کہا۔
مگر عمر نے ہاتھ پکڑ کر پیچھے کردیا۔
دفع ہو جاؤ ہمارے گھر سے تمہاری کوئی جگہ نہیں ہے عمر نے ہاتھ چھوڑتے ہوئے کہا۔
احمد بت بنا کھڑا تھا
ایسے لگ رہا تھا جیسے سانس ہی نہ لے رہا ہو۔
عمر میری بیٹی پ پہ پاک د دامن بس عروسہ کے منہ سے اتنے ہی الفاظ نکلے۔
اور صوفہ پر گرتے ہی بے ہوش ہوگئ۔
ماما عروج چلائی۔
ماما عروج اپنی نے ماما کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
اٹھیں ماما روتے ہوئے کہنے لگی بھائی پلیز ڈاکٹر کو بلاؤ او مما کو ہسپتال لے چلو عروج نے فرش پر نیچے بیٹھتے ہوئے کہا ۔
رو رو کر عروج کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔
بال گئے تھے چہرے پر آنسوؤں کے نشانات واضح ہورہے تھے۔
منہ خون ابھی بھی نکل رہا تھا عمر نے جو تھپڑ مارا تھا اس کے چہرے پر واضح انگلیوں کے نشانات بھی واضح محسوس کیے جارہے تھے۔
پلیز مما اٹھیں آپ کی بیٹی آپ کو بلا رہی آپ کے بنا تو کچھ نہیں ماما چاروں اطراف میں اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔
عروج کی آواز میں اتنا درد تھا جیسے دیکھ کر کوئی بھی رودیتا۔
ماما میں سب کچھ برداشت کر سکتی ہوں لیکن آپ کی حالت نہیں ماما اٹھیے عروج درد سے کراہتے ہوئے بولی۔
اٹھو عروج اچانک احمد بولے اور تم نے ہماری عزت کو داغدار کر دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر طرف شہنائیاں بج رہی تھی جنت سرخ جوڑے میں ملبوس بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔
سرخ لہنگا ساتھ میں سبز کرتی اور سرخ دوپٹہ زیب تن کیے میچنگ جیولری اور میچنگ جوتا پہنے وہ کسی پری سے کم نہیں لگ رہی تھی۔
جنت کیا بات ہے بڑی لش لش رہی ہو اجالا نے دیکھتے ہی کہا جنت یہ سن کر شرما گئی۔
اتنے میں نکاح خواں آگیا تھا نکاح خواں نے نکاح پڑھایا سب ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرنے لگے ۔
جنت اپنی شادی کا لڈو تو کھاؤ اجالا نے لڈو جنت کے آگے کرتے ہوئے کہا۔
ویسے جنت میں نے سنا ہے شادی کا لڈو جو کھائے وہ بھی پچھتائے
جو نا کھائے وہ بھی پچھتائے ہاہاہا اجالا لڈو کھاتے ہوئے بولی۔
اجالا فضول بکواس مت کیا کرو جنت گھورتے ہوئے بولی۔
چلو جی آج کا دلہن صاحبہ کی مان لیتی ہو کیا یاد رکھو گی اجالا نے لڈو کھاتے ہوئے جواب دیا۔
شکریہ اجالا جنت نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔
برات کو کھانا کھلایا جا رہا تھا رئیس بھی سفید شیروانی پہنے اور سفید کھوسہ پہنے بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔
ہائے! جنت رئیس بھائی بھی کتنے پیارے لگ رہے ہیں اجالا نے کھڑکی کھولتے ہی کہا۔
کتنے دلوں پر تیر چلا رہے ہیں بیٹھے کیا کمال لگ رہے ہیں۔
اجالا اپنی حرکتوں سے بازآجاؤ میڈم شرما بھی رہی ہیں اجالا نے جنت کی طرف دیکھتے ہی کہا۔
جنت شرماتے ہوئے چہرہ نیچے کر کے بیٹھ گئی۔
رخصتی کے وقت رئیس جنت کے ساتھ موجودجود نہ تھا ۔
اپنی گاڑی میں بیٹھا تھا جنت بھی گھر والوں سے مل کر گاڑی میں آ کر بیٹھ گئی تھی۔
رئیس نے ایک نظر بھی جنت کو نہیں دیکھا تھا جنت بھی خاموشی سے بیٹھ گئی تھی۔
پانچ منٹ کے بعد گھر پہنچی تو پورا گھر لائٹوں سے سجایا گیا تھا رنگ برنگی روشنیاں رات کے وقت آسمان کو چھو رہی تھی پورا گھر روشنیوں میں گھرا ہوا تھا۔
جنت کو کمرے لے جایا گیا۔
پورا کمرہ پھولوں کی خوشبو سے مہک رہا تھا۔
پورا کمرہ گلاب کے پھولوں سے آراستہ کیا گیا تھا۔
جنت بیڈ پر بیٹھ جاؤ کنزہ نے ناگواری سے کہا۔
جنت اپنا لہنگا ہاتھ میں اٹھائے بیڈ پر بیٹھ گئی۔
عورتوں اور لڑکیوں کا ہجوم ہو گیا تھا سب بہت تعریف کر رہی تھی اور جنت کو پیسے بھی دے رہی تھی مگر جنت خاموش بیٹھی تھی۔
چلو سب اب جاؤ دلہن تھک گئی ہے جس نے دیکھنا ہے صبح آجانا یہ سنتے ہی سب عورتیں چلی گئیں اور جنت تم آرام کرو میں رئیس کو بھیجتی ہوں۔
یہ کہہ کر کنیز کمرے سے چلی گئی۔
رئیس کمرے میں داخل ہوا اور دروازہ بند کردیا ۔
اور آتے ہیں جنت کے پاس بیٹھ گیا۔
جنت کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی اور اسے ہلکے ہلکے پسینے آنے لگے۔
ہاہاہا اتنا کیوں ڈر رہی ہو جنت ابھی تو کچھ کیا ہی نہیں رئیس نے ہنستے ہوئے کہا ۔
نہیں ایسی بات نہیں ہے جنت نے رومال سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہا۔
جنت تم نے مجھے بہت انتظار کروایا ہے۔
رئیس نے جنت کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لیا ۔
جنت کے دل کی دھڑکن اور تیز ہو گئی اور نظریں جھکا لی۔ جنت میں نے تمہیں پانے کے لئے بہت پاپڑ بیلے ہیں بہت دھمکیاں دی تب کہیں جا کر تم ملی۔
جنت سب سن کر مسکرا دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتنے میں ایمبولینس آ گئی تھی عروسہ کو اسٹریچر پر لٹا دیا گیا تھا۔
میں نے بھی جانا ہے مما کے ساتھ عروج نے فرش سے اٹھ کر کہا۔
نہیں تم نہیں جاسکتی عمر نے ہاتھ پکڑ کر پیچھے کرتے ہوئے کہا۔
عروج نے عمر کا پاؤں پکڑ لیا یے چھوڑو میرا پاؤں نہیں لے جاسکتے تمہیں اپنے ساتھ آج جو بھی مما کے ساتھ ہوا اس کی ذمہ دار تم خود ہو۔
عروج بھائی پلیز عمر نے اپنا پاؤں چھوڑاتے ہی ایک لات رسید کی جس سے عروج کچھ قدم فرش پر دور جا گری۔
اس کا سر فرش پر جالگا تھا۔
خون کا فوارہ اس کے چھوٹ پڑا تھا۔
آ ہ عروج کے حلق سے آواز نکلی۔
وہ درد سے کراہ رہی تھی مما اس کے حلق سے بس اتنا ہی نکلا۔
خون کی بوندیں اس کے چہرے پر گر رہی تھی۔
وہ درد سے بےحال ہورہی تھی۔
اور وہ روئے جارہی تھی۔
مگر کوئی اس کی سننے والا نہ تھا کوئی اس کے درد کی شدت کو محسوس کرنے والا نا تھا خون آبشاروں کی مانند بہنے لگا تھا۔
مما درد کی شدت کی وجہ سے الفاظ جیسے ہی حلق میں اٹک گئے تھے۔ سب جا چکے تھے وہ اکیلی پورے گھر میں درد کی شدت سے بے حال فرش پر پڑی تھی۔۔
عروج ابدال نے گیٹ میں داخل ہوتے ہی عروج کی بدتر حالت دیکھ کر پکارا۔
میری مما پلیز مما کو بچالو ابدال فرش سے اٹھتے ہی عروج نے کہا۔
اچھا کچھ نہیں ہوگا آنٹی تم اٹھو وہ یہ کیا حالت ہوگئی کس نے کیا ہے سب ابدال نے عروج کی حالت دیکھ کر پوچھا۔
مما، جو پوچھ رہا ہوں عروج اس کا جواب دو رومال سے خون صاف کرتے ہوئے ابدال نے کہا۔
ابدال کسی نے میری تصویریں اپ لوڈ کر دی ہیں ۔
اوہ شٹ میں بھی یہی دیکھ کر بھاگا بھاگا آیا ہوں۔
یہ سب اس گھٹیا انسان عمر نے کیا ۔
عمر نے؟؟؟ عروج نے ہچکی لیتے ہوئے کہا.
لیکن ابدال اس کے پاس تو میری کوئی تصویریں نہیں تھیں۔
عروج اس نے تمہاری تصویریں تمہاری دوست آمنہ کو بلیک میل کر کے لی ہیں ۔
اور پھر میری تصویروں کی ساتھ ایڈٹ کر کے سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دی ہیں۔
ہائے! اللہ …
آمنہ میں تو کتنا اچھا سمجھتی تھی اس نے میری عزت خاک میں ملا دی اپنی عزت بچانے کے لئے۔
یا رب میں کیا کروں عروج چیختے ہوئے بولی دوست بھی دشمن نکلی۔
عروج زیادہ مت بولو چلو ہاتھ پکڑ کر اٹھو۔
ابدال نے عروج کو اٹھاتے ہوئے کہا۔
اتنے میں عمر گھر میں داخل ہوا تم دونوں اب بھی رنگ رلیاں منا رہے ہو۔
عمر نے دیکھتے ہی دونوں کو کہا ۔
عمر بھائی زبان سنبھال کر بات کریں آپ بڑے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں آپ کچھ بھی بولتے جائیں گے ابدال غصہ سے بولا بھائی ماما کدھر ہیں درد بھری آواز میں عروج نے پوچھا ۔
وبارہ نام مت لینا ماما کا دفع ہو جاؤ تم دونوں یہاں سے دوبارہ اپنی شکل مت دکھانا مرگئ تم ہمارے لیے عمر نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا اور بازو سے پکڑ کر ابدال کے ساتھ عروج کو گھر سے باہر نکال دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے یہی بہت بہت زہر لگی کہ میں نے تمہارے لئے پاپڑا بیلے اچانک رئیس کے تیور بدل گئے تھے نفرت کرتا ہوں میں تم سے رئیس نے جنت کا ہاتھ جھٹک کر کہا۔
جنت بھی حواس باختہ ہوگئی تھی۔
رئیس کو اچانک بدلتا دیکھ کر اس کے چہرے پر پریشانی نمودار ہوگئی تھی۔
اٹھو جنت ابھی بیڈ سے نیچے اترو تم اس قابل نہیں کہ میرے ساتھ بیٹھو۔
جنت کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔
آپ پتا نہیں کیوں اتنا خوف آ رہا ہے یہ خوف تب کہاں تھا جب میری بےعزتی اس لڑکے کے سامنے کی تھی رئیس نے سگریٹ کا کش لیتے ہوئے کہا۔
تم میرے لیے تب نا محرم تھے۔
جنت نے ڈرتے ہوئے جواب دیا۔
ارسلان محرم تھا اس کے ساتھ پھر رہی تھی۔
پلیز رئیس میرا کردار پاکدامن ہیں مجھ پر اتنی بڑی تہمت مت لگاؤ جنت نے روتے ہوئے کہا۔
ہاہاہا ہاں پاکدامن ہاہا گھٹیا عورت ہواور تم اپنے پاس رکھو پاکدامنی کے قصے مجھے مت سناؤ رئیس نے ہنستے ہوئے کہا۔
تمہارا غرور توڑنا تھا ہاہاہا یہ کہہ رئیس نے بازو سے پکڑ کر نیچے اتارا۔
اور زور دار تھپڑ رسید کیا۔
زور دار تھپڑ پڑنے سے وہ زمین پر جا گری تھی
اسکا سر چارپائی سے جا لگا تھا۔
ہائے اماں! اسکے حلق سے آواز آئی
درد کی شدت سے کراہ رہی تھی۔
اسکے چہرے سے تکلیف جھلک رہی تھی۔
چارپائی کے سرے کی نوک سر پر لگنے کی وجہ سے خون بہہ رہا تھا۔
رحم کریں اسنے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
چپ کر جاہل عورت اسکالہجہ بہت تلخ تھا۔
احساس کی شدت سے عاری مرد تھا۔
وہ زاروقطار رو رہی تھی۔
خون بہہ رہا تھا۔
چہرہ پر انگلیوں کے نشانات واضح نظر آرہے تھے۔
مگر اس نے اف تک نہ کی۔
بے قصور تھی پھر بھی معافی مانگے جارہی تھی۔
وہ سنگدل بنا کھڑا تھا۔
وہ جانتی تھی۔
ان اللّہ مع الصابرین۔
” بے شک اللّہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے”
میں تمہیں اپنے ساتھ رکھوں تم اس قابل نہیں ہو۔
وہ زور سے چلایا تھا۔
ایسا مت کہیں ہاتھ جوڑتی ہوں۔
وہ اسکے سامنے بے بس زمین پر بیٹھی ہاتھ جوڑ رہی تھی۔
دفع ہو جاؤ میری نظروں کے سامنے سے اسنے لات رسید کی ۔
وہ بری طرح دور جا گری تھی۔
اللّہ ،اللہ میرا گھر بچا لے ۔
درد اسکے لفظ سے عیاں ہو رہا تھا۔
تباہ کردی تونے میری زندگی گٹھیا عورت میں ایسا نہیں تھا تمہارے غرور نے بنا دیا۔
اسکا دل چاہا وہ چیخ چیخ کر پوچھے کیا قصور ہے اسکا۔
مگر سوائے بے بسی کے کچھہ نہ تھا۔
سوائے صبر کے۔
ہاں بیٹا نکال اسے اپنے گھر سے رئیس کی ماں بھی آواز سن کر آگئ تھی۔
اسکی سسکیوں کی آواز بھلا کون سنتا۔
درد کی لہر اسکے اندر دوڑ رہی تھی۔
“””” کون آشنا ہوتا ہے یارب میرے درد سے
بس تو ہی جانتا ہے ہر درد کی شدت”””””۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر پہنچتے ہیں ابدال نے عروج کو اپنے کمرے میں بٹھایا کیوں کہ اس کے والدین ہسپتال گئے ہوئے تھے ۔
عروج مسلسل روئے جا رہے تھی”
عروج چپ کرو ابدال نے تلخ لہجے میں کہا۔
ابدال اب تم بھی میرے ساتھ ایسا کرو گے ظاہر سی بات ہے جب تک تم چپ نہیں ہو گی اور اپنی پٹی نہیں کرواؤ گی میں ایسے ہی ڈانٹوں گا اب تمہاری کوئی آواز نہ آئے ابدال کاٹن پر پایوڈین لگاتے ہوئے بولا۔
ابدال نے اپنا ہاتھ میں کاٹن لیے پایوڈین زخم پر لگانے کے لیے آگے بڑھایا۔
ابدال روکو عروج نے کہا۔
کیوں کیا ہوا عروج ابدال نے ہاتھ پیچھے ہٹاتے پوچھا۔
مجھے پکڑاؤ کاٹن میں خود لگالو گی عروج ابدال کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔
ٹھیک ہے اگر اتنی ہی ضد ہے آج بھی، تم خود کر لو یہ کہہ کر ابدال کرسی پر بیٹھ گیا اور نظارہ دیکھنے لگا۔
عروج نے چہرے پہ تو پایوڈین لگا لی۔
مگر سر پر چوٹ تھوڑا پیچھے کی جانب لگی تھی اس لئے اس کا ہاتھ وہاں نہیں پہنچ رہا تھا”
عروج ہار کر اٹھ کھڑی ہوئی اور شیشے کے سامنے جاکر کھڑی ہو گئی۔
عروج نے ہاتھ سے اپنی پیشانی کے بال پیچھے کیے اور آہستہ آہستہ سے اس جگہ کو دیکھنے لگی جہاں چوٹ لگی تھی آہ اس کے حلق سے ایک دم آواز نکلی۔
چھوڑو ابدال نے عروج کے ہاتھ سے سے کاٹن لیتے ہوۓ کہا..!!
میں احسان نہیں لیتی کسی کا عروج نے آنکھیں دکھاتے ہوئے ڈھٹائی سے جواب دیا””
چلو جب موقع ملے احسان اتار دینا آئی سمجھ چلو شاباش بیڈ پر بیٹھو ابدال عروج کو اشارہ کرتے ہوئے بولا..!!! ع
روج خاموشی سےے بیڈ پر بیٹھ گئی تھی اس نے رونا بھی بند کر دیا تھا مگر دل میں ایک ہی دعا کیے جا رہی تھی یا اللہ میری مما حفاظت کرنا ان کو ٹھیک کر دے جلدی “”
سیدھی بھی ہو جاؤ ابدال نے پیشانی سی بال پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا ۔
عروج کو بہت عجیب محسوس ہو رہا تھا کیونکہ اس نے آج تک کبھی بھی کسی کو اتنے قریب نہیں آنے دیا تھا اور ابدال کے ساتھ تو بات بھی بہت کم ہوتی تھی۔
ابدال نے جیسے ہی پیشانی سے بال پیچھے کیے عروج نے فورا آنکھیں موندھ لی۔
ابدال نے جب عروج کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی پھر وہ کاٹن سے خون صاف کرنے لگا اور پٹی کرنے میں مصروف ہوگیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلو بیٹا آج کی رات اسے یہی رہنے دو کنیر نے جنت کی طرف دیکھتے ہی کہا صبح ہوتے ہی طلاق دے کر فارغ کردینا ”
ٹھیک ہے اماں یہ کہہ کر رئیس گھر سے باہر چلا گیا ۔۔!!
طلاق ہائے!اللہ جنت درد سے کراہتے ہوۓ بولی ایسی قسمت اللہ کسی کو نہ دے وہ بھی شادی کی پہلی رات اتنا ظلم ہائے! اللہ یہ کہتے ہوئے جنت کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے طلاق نہیں اللہ میں سب کچھ برداشت کر لونگی مگر طلاق نہیں یہ دھبہ نہیں یہ تو ساری زندگی کے لئے روگ بن جاتا ہے جنت چارپائی پر بیٹھتے ہوئے بولی””
اتنے میں اسے فجر کی اذانیں سنائی دینے لگی
۔
جنت اذان سنتے ہی آہستہ سے چارپائی سے اٹھی اور کپڑے تبدیل کرنے کے لئے واش روم کی جانب بڑھی سب سے پہلے پانی کا نل کھولا خود کو شیشے میں دیکھا کچھ گھنٹے پہلے کتنا بشاش چہرہ لگ رہا تھا اب صدیوں کی ویرانی واضح ہو رہی تھی اللہ میری قسمت جنت نے پانی کے چھینٹے منہ پر مارتے ہوئے کہا ۔
چہرے کی ساری تازگی ختم ہو گئی تھی چند گھنٹوں میں اس کی زندگی اندھیروں میں گھر چکی تھی”
جنت نے کپڑے تبدیل کیے اور وضو کیا اور جائے نماز بچھا کر نماز ادا کی ۔
اور ابھی دعا کیلئے ہاتھ ہی اٹھائے تھے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اے میرے اللہ آپ تو جانتے ہیں مجھے میں بدکردار نہیں ہوں میں تو پاک دامن ہوں””
ارسلان کو بھی ہمیشہ میں نے اپنا بھائی مانا ہے۔
اور رئیس نے تو میرے کردار پر تہمت لگائی ہے اللہ آپ تو میرے کردار سے اچھی طرح واقف ہے نا..!!
ایک لڑکی کے لیے اس کا کردار ہی سب سے بڑھ کر ہوتا ہے کردار سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا یا اللہ آپ اس تہمت کو ختم کر دیجئے پلیز ختم کر دیجئے یہ کہتے ہوئے جنت سجدہ ریز ہو گئی۔۔۔!!!
صبح کے وقت شور کی وجہ سے جنت کی آنکھ کھلی جنت اچانک اٹھی اور باہر چلی گئی۔
دیکھ کر خوفزدہ ہوگئی رئیس کی حالت بہت بری تھی پورا گھر اس کے چاروں طرف موجود تھا ڈاکٹر بھی پاس کھڑا تھا اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی تھی ۔۔۔!!!
اس کا رات ہی ایکسیڈنٹ ہوا جب وہ گھر سے باہر غصہ میں بائیک پر گیا تھا سامنے سے آتی کار سے اس کا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا”
ساری رات درد سے تڑپتا رہا تھا گاؤں میں رات کے وقت ڈاکٹر کا ملنا بہت مشکل تھا۔
صبح جب ڈاکٹر آیا رئیس کی جان میں جان آئی۔””
جب سارا گھر رئیس کے ارد گرد موجود تھا تب جنت دور سے کھڑی سب دیکھ رہی تھی ڈاکٹر نے رئیس کا علاج گھر پر ہی کیا تھا رئیس کو بعد میں کمرے میں لے جایا گیا جنت بھی آنسو چھپائے پیچھے چل دی۔
اماں جی ڈاکٹر صاحب بولے رئیس کا بہت اچھے سے خیال رکھنا ہے ایک مہینے تک یہ چل نہیں سکتا۔
ایک مہینہ یہ سن کر رئیس کے رونگٹے کھڑے ہوں گئے۔
جیسے ہی اس نے جنت کی طرف دیکھا اس کی آنکھیں شرمندگی اور بےبسی دکھا رہی تھیں۔
اللہ رئیس درد سے کراہ یا یہ کیسی سزا دے دی یا رب تو نے یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔
میں نے ایک بے گناہ پر تہمت لگائی اسی کا نتیجہ یہ سب کہتے آنکھوں سے آنسو چھلکنے لگے””
اتنے میں جنت آگئی بڑھی رئیس کو بیڈ سے ٹیک لگا کر بٹھایا۔
جنت ،رئیس نے مخاطب کیا ”
جی کہیے رئیس ،جنت نے آ ہستہ سے کہا۔
میں نے تمہارے ساتھ اتنا برا کیا تم پھر بھی میری تیماداری کر رہی ہو رئیس آنکھوں میں آنسو لیے بولا۔۔!!!!
آپ نے جو کیا وہ آپ کا ظرف تھا میں جو کر رہی ہو یہ میرا ظرف ہے ”
اگر برائی کا بدلہ برائی سے تو دوں آپ میں مجھ میں کیا فرق رہ جائے گا جنت یہ کہہ کر وہاں سے پلٹنے لگی۔
جنت روکو ادھر آؤ رئیس نے جنت کو اشارے سے بلایا ۔
جنت ڈرتی ڈرتی، آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے رئیس کے پاس آئی ۔
جنت ڈرو مت اب میں بے بس ہوں یہ کہہ کر رئیس کی آنکھیں بھر آئی۔
جنت میری طرف دیکھو رئیس نے جنت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
جنت نظریں نیچے کئے کھڑی تھی رئیس کی ہاتھ کی انگلیوں کے نشان ابھی تک گال پر موجود تھے ۔
جنت نے رئیس کی طرف دیکھا تو رائس ہاتھ جوڑے معافی مانگ رہا تھا ۔
جنت میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں پلیز مجھے معاف کر دیں رئیس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے تھے۔
جنت، رئیس کی حالت دیکھ کر حیران رہ گئی.!!!
جنت حیران ہو رہی ہوں کہ میں ایسے کیسے ابھی رات تو کیسا حیوان بنا ہوا تھا اور اب میں تمہارے سامنے گڑ گڑا رہا ہو””
رئیس نے روتے ہوئے کہا جنت میں نے تم پر تہمت لگائی ہے اس کی سزا مل چکی ہے اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے تمہارا کردار پاکدامن ہے جنت تم پاکدامن لڑکی ہو یہ کہتے ہوئے رئیس کی ہچکی بندھ گئی۔””
جنت سے رئیس کی بے بسی نہ دیکھی گئی اس نے جھٹ سے رئیس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
پلیز رئیس رونا بند کریں آپ جنت خود بھی روتے ہوئے کہنے لگی۔
پہلے مجھے معاف کر دو جب تک تم نہیں کروں گی میں ہمیشہ یہ بوجھ دل پر لیے پھرتا رہوں گا رئیس نہیں جواب دیا۔
جنت سے رئیس کا یوں رو نا اور درد سے کراہنا برداشت نہیں ہو رہا تھا۔
رئیس میں نے آپ کو معاف کیا کیا ۔
کیا کہا رئیس نے جنت کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
میں نے آپ کو معاف کیا جنت نے رئیس کے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا۔۔
یا اللہ تیرا شکر ہے اس نے جنت کی پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے کہا””
جنت آج کے بعد ہمیشہ خوشیاں ہی خوشیاں دیکھو گی اب ہر غم تجھ سے دور ہو گا ہر خوشی تیرا نصیب ہو گی یہ سن کر جنت مسکرا دی۔
اچھا اب آپ آرام کریں میں کچھ کھانے کے لئے لاتی ہوں یہ کہہ کر مسکراتے ہوئے جنت کچن میں چلی گئی۔
کیونکہ ایک خوبصورت زندگی کا آغاز ہوگیا تھا”””””””
…………………………………..
گیٹ کی ڈور بیل بجی عروج کے بھائی عمر نے دروازہ کھولا تو سامنے اس کا ہونےوالا سالا عمرشاہ کھڑا تھا۔
عمربھائی، عمرشاہ نے دیکھتے ہی گلے لگا لیا۔
کیا ہوا عمر نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا؟؟
سحر !!! کیا ہوا سحر کو عمر نےگلے سے ہٹاتے ہوئے پوچھا.
بھائی وہ گھر سے بھاگ گئی ہے۔
کیا یہ سنتے ہی عمر کے پاؤں سے زمین نکل گئی مگر وہ تو مجھ سے محبت کرتی تھی۔
عمر نے گھبراہٹ کے عالم میں کہا۔
اچھا وہ کسی اور سے پیار کرتی تھی بھائی اور اسی کے ساتھ چلی گئی ہے مجھے معاف کر دیں میں آپ سے معافی مانگنے آیا ہوں عمرشاہ ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔
معافی کس بات کی معافی اور مجھ سے کیوں مانگ رہے ہو عروج کے بھائی عمر نے حیرانی سے پوچھا۔
وہ عروج کیا عروج کیا کہنا چاہتے ہو عمر پریشان ہوتے بولا۔
بھائی میں نے ہی عروج کی تصویریں اپ لوڈ کی تھی ۔
کیا کہا تم نے جی ہاں سچ کہہ رہا ہوں بھائی اس کی دوست آمنہ کو بلیک میل کرکے تصویریں لی تھی عمر شاہ نظریں جھکائے بولا۔
گھٹیا انسان تمہاری اس حرکت کی وجہ سے میں نے اپنی پاک دامن بہن پر تہمت لگائی۔
اور تمہاری ایک سوری کیا اس کے کردار پر لگا دھبہ مٹا دے گی۔
عمر نے زوردار تھپڑ عمرشاہ کے گال پر رسید کرتے ہوئے کہا۔
پلیز بھائی مجھے معاف کر دے میں یہ بات بھول گیا تھا کہ دنیا میں بھی مکافات عمل ہوتا ہے۔
میں اللہ کی پاک ذات سے بے خبر تھا۔
ہمارے گھر کے عزت خاک میں مل گئی ہے ہم کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے میں نے کسی پاکدامن لڑکی پر تہمت لگائی آج اسی کی وجہ سے میں یہ دیکھ رہا ہوں عمرشاہ نے آنکھوں میں آنسو لیے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ۔
تمہاری وجہ سے میں نے اپنی بہن کو مارا تمہاری وجہ سے اسے گھر سے باہر نکالا تمہاری وجہ سے اس پر تہمت لگائی یا اللہ عمر نے عمر شاہ کا گریبان پکڑتے ہوئے کہا۔
تم نے مجھے گناہگار کر دیا عمر روتے ہوئے بولا۔
پلیز میں نے اس کی سزا پالی ہے ۔
اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے “”
کسی پاک دامن پر تہمت لگانے کا نتیجہ بھگت لیا ہے میں اب اور نہیں بھگتنا چاہتا پلیز مجھے معاف کر دیں عمر شاہ جوڑے بولا۔
دونوں نے گاڑی کی آواز سنی تو پیچھے دیکھنے کے لیے پلٹے گیٹ پر احمد، عروج اور ابدال کھڑے تھے ۔
احمد نے دونوں کی باتیں سن لی تھیں۔
اس لئے عروج اور ابدال کو بلا لیا تھا ۔
عروج کو دیکھتے ہی عمرشاہ عروج کی طرف لپکا۔
عروج مجھے معاف کردو وہ گھٹنوں کے بل ہاتھ جوڑتے ہوئے عروج کے قدموں میں جا بیٹھا۔
پیچھے ہٹوں بابا اسے کہو پیچھے ہٹو عروج دیکھتے ہی بولی۔
اور گھبراہٹ کی عالم میں ابدال کا ہاتھ پکڑ لیا””
عروج خدا کا واسطہ دیتا ہوں مجھے معاف کردو عمرشاہ روتے ہوئے بولا تمہارا کردار تو پاک دامن ہے اور ہمیشہ رہے گا میں نے تمہارے کردار پر تہمت لگائی ہے میں نے اس کی سزا ہے اپنی بہن کی صورت میں پالی ہے عروج مکافات عمل ہو گیا میری بہن گھر سے چلی گئی”
عروج کو یہ سنتے ہی جھٹکا سا لگا ۔۔!!!!
مجھے معاف کر دو عمر بھی آگے بڑھتے ہوئے بولا تم پر اعتبار نہیں کیا میری بہن میں یہ جان گیا ہوں جو آنکھیں دیکھا تصویروں کا سچ نہیں ہوتا پہلے ساری صورتحال جان لینی چاہئے مجھے معاف کر دو میں نے تم پر اتنی بڑی تہمت لگا دی تم لوگ ہم دونوں کو معاف کردو۔
میں نے تم دونوں کو معاف کیا۔!!!
“”” بے شک اللہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے”””
جاؤ اب معاف کیا دونوں کو..!!!
عمرشاہ یہ سن کر شکریہ ادا کرنے لگا گیٹ سے باہر نکل گیا۔۔۔!!!
ابھی عروج تھوڑا آگے ہی بڑھی تھی۔
گیٹ کی طرف پلٹ کر دیکھا۔
عروسہ اور ابدال کی ماما کھڑی تھیں۔
مما عروج ،عروسہ کو دیکھ کر آنسو پونچھتے ہوئے پلٹی ۔
اور جا تے ہی عروسہ کے گلے لگ گئی اور رونا شروع کر دیا عروج بیٹا چپ بھی کرو مما میں نے آپ کے لیے کتنی دعائیں کی تھیں روتے ہوئے کہنے لگی۔
اچھا پیچھے ہٹو عروسہ پیشانی پر بوسہ دیتے ہوئے کہنے لگی۔
میری بیٹی میرا غرور ہے””
یہ سن کر عروج اور ابدال مسکرانے لگے۔
میں چلتا ہوں یہ کہہ کر ابدال وہاں سے جانے لگا۔
ابدال جی آنٹی ابدال عروسہ کی آواز پر پلٹا۔
بیٹا آج سے آنٹی نہیں مما کہا کرو جیسے میں عروج کی ماما ہو ایسے ہی تمہاری …!!!
عروج نے ابدال کی طرف مسکرا کر دیکھا پھر نظریں جھکا لی۔
چلو آؤ ابدال کھانا کھاتے ہیں عروسہ نے ابدال کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے کہا۔
پھر چلے جانا یہ سنتے ہی ابدال، عروج کی طرف دیکھ کر مسکرایا عروج بھی مسکرا رہی تھی۔
دونوں عروسہ کے ساتھ چل دیے۔۔۔
ایک نئی خوشحال آنے والی زندگی ان کا انتظار کر رہی تھی.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ختم شدہ)
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...