یار ایسی کوئی بات نہیں،وہ مجھے اچھی لڑکی لگی تو میں نے اسے اپنا نمبر دے دیا،یار اس کے چہرے پر اتنی رونق کیوں تھی”
“مجھے کیا پتا،شاید کسی اچھے پارلر سے فیشل کرواتی ہو”
“نہیں،مجھے تو ایسا کچھ نہیں لگتا،وہ جتنی دیندار لگتی ہے،میرا نہیں خیال کہ وہ پارلر جاتی ہو گی”
“تمھارا کیا مطلب ہے،پارلر خراب لڑکیاں جاتی ہیں”
رانیہ کو اس کی بات سن کر غصہ آگیا
نہیں یار میرا مطلب یہ نہیں تھا۔میں تو خود بھی پارلر جاتی ہوں۔میرا مطلب تھا کہ وہ شاید فیشن کو پسند نہ کرتی ہو،خیر چھوڑو تم بریانی کھاؤ”
بریانی کھانے کے بعد وہ کالج کے گیٹ کی طرف چلے گے۔کالج کے گیٹ کے باہر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا کافی رش تھا۔کچھ لوگ خود اپنے بچوں کو لینے آنے تھے۔تو کہیں بچے بچیاں خود اپنی گاڑیاں ڈرائیو کر رہے تھے گاڑیوں کا رش زیادہ ہونے کی وجہ سے اسے اپنی گاڑی نظر ہی نہیں آرہی تھی۔رانیہ کو اس کی گاڑی نظر آئی۔اور وہ دونوں پھر گاڑی میں جاکر بیٹھ گئیں۔کچھ دیر بعد گاڑی رانیہ کے گھر کے سامنے تھی۔اس کو گھر چھوڑنے کے بعد اس نے گاڑی کا رخ اپنے گھر کی طرف کیا۔
جیسے ہی وہ گھر کے اندر داخل ہوئی۔سامنے لان پر بیٹھے شخص نے زور سے اس کے دماغ کو جھٹکا دیا
_________
“تم میرے گھر میں کیا کر رہے ہو”
حیا نے حیرت زدہ ہوتے ہوۓ کہا
“اچھا تو تم سلیم انکل اور آسیہ آنٹی کی بیٹی ہو،وہ تو اتنے اچھے ہیں،پتہ نہیں تم کس پر گئی ہو،میں رضا احمد کا بیٹا ہوں”شہریار نے کہا
“او، اچھا، تو تم صائمہ آنٹی کے بیٹے ہو، رضا انکل اور صائمہ آنٹی بھی تو کتنی اچھی ہیں،پتہ نہیں تم بدتمیز کس پر گے ہو”حیا نے بھی اسی انداز میں کہا
“او حیا تم آگئی،میں تمھیں کال کرنے ہی والی تھی،ان سے ملو یہ رضا بھائی کے بیٹے شہریار احمد ہیں،اور تمھارے ہی کالج میں پڑھتے ہیں،تم جانتی ہو اس کو”آسیہ بیگم نے لان میں آتے ہوۓ کہا
“ہاں جانتی ہوں نہ ماما،ایک نمبر کے بدتمیز انسان ہیں یہ”حیا نے غصے سے کہا
حیا کی بات سن کر آسیہ بیگم اور شہریار حیران رہ گے۔شہریار حیا سے اتنی صاف گوئی کی امید نہیں رکھتا تھا۔
“یہ کیا کہ رہی ہو حیا،ایسا نہیں کہتے،بیٹا آپ اس کی باتوں کا برا نہ منانا،یہ دل سے نہیں کہ رہی”آسیہ بیگم نے شرمندہ ہوتے ہوۓ کہا
“کچھ نہیں ہوتا آنٹی مجھے ان کی عادتوں کا اچھی طرح پتہ ہے”شہریار نے مسکراتے ہوئے کہا
“اچھا،بچوں میں اندر چلتی ہوں ،شام کے کھانے کا انتظام کر لوں،حیا تم فریش ہو کر جلدی ڈرائنگ روم میں رضا بھائی اور صائمہ سے ملنے کے لیۓ جاؤ”آسیہ بیگم نے کہا
یہ کہ کر وہ چلی گئی۔حیا نے جب دیکھا کہ وہ چلی گئی ہیں۔تو شہریار کو انگلی دیکھاتے ہوۓ بولی
“تمھیں تو میں دیکھتی ہوں بعد میں”
“شوق سے دیکھنا،منع کس نے کیا ہے”شہریار نے ہنستے ہوۓ کہا
حیا یہ کہ کر اندر چلی گئی۔اسے اب جلدی تیار ہونا تھا۔وہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اوپر اپنے کمرے میں آگئی۔اس کا کمرہ کافی وسیع تھا۔کمرے میں پنک کلر کا پینٹ کروایا ہوا تھا۔ساتھ میں حیا کی پسند کے وائٹ کلر کے پردے لگاۓ ہوۓ تھے۔کمرے کے ایک سائیڈ واشروم کا دروازہ تھا۔جب کہ دوسری سائیڈ پر ایک بڑی سی الماری بنائی ہوئی تھی۔کمرے کے درمیان میں ایک بڑا سا بیڈ لگایا ہوا تھا۔اور بیڈ کے سامنے ایک بڑا سا ٹی۔وی دیوار پر لگایا ہوا تھا۔حیا نے الماری کھولتے ہوۓ کہا
“کون سے کپڑے پہنو،یہ پنک والا صیح رہے گا۔نہیں یہ تو کل پہنا تھا۔چلو پھر یہ بلیو کلر کی فراک پہن لیتی ہوں۔ساتھ میں جینز پہن لوں گی”
پانچ منٹ بعد اس نے کپڑے پہن لیۓ تھے۔اب وہ آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے بال بنا رہی تھی۔
“ایک کام کرتی ہوں کہ بال کھلے چھوڑ دیتی ہوں،بلکہ آدھے کھلے چھوڑتی ہوں،آدھوں کو کیچر لگا لیتی ہوں”
وہ بلیو کلر کی فراک اور جینز کے ساتھ بہت اچھی لگ رہی تھی۔ڈوپٹہ اس نے گلے میں رکھا ہوا تھا۔پنک لپسٹک،اور مسکارے نے اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دئیے۔وہ سیڑھیاں اترتے ہوئے نیچے آگئی۔اب اس کے قدم ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ رہے تھے
“السلام علیکم”
سامنے صوفوں پر بیٹھے ہوۓ لوگوں کو اس نے سلام کیا
“وعلیکم السلام،ماشاللہ ،ہماری بیٹی کتنی بڑی ہوگئی ہے. آخری دفعہ جب میں نے حیا کو دیکھا تھا تب وہ بہت چھوٹی تھی. اس کے بعد میری ٹرانسفر ہوگئی. کتنی پیاری لگ رہی ہے ہماری بیٹی۔”رضا صاحب نے کہا
“بیٹا،آپ شہریار کے ساتھ پڑھتی ہو نہ،تنگ تو نہیں کرتا،میرا شرارتی بیٹا”صائمہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
“جی۔آنٹی بہت کرتاہے”حیا نے ہنستے ہوئے کہا
“ادھر آؤ شہریار، ذرا میں تمھارے کان کھینچو”رضا صاحب نے کہا
“یہ آپ لوگ حیا کی سائیڈ کیوں لے رہے ہیں،مجھے بھی کوئی پوچھ لے،میں بھی آپ کا ہی بیٹا ہوں”شہریار نے مصنوعی ناراضگی سے کہا
“میں آپ کے ساتھ ہوں بیٹا”سلیم صاحب نے کہا
“اف بابا ،آپ اس کا ساتھ دے رہے ہیں”حیا نے ناراض ہوتے ہوۓ کہا
ابھی سلیم صاحب کچھ کہنے ہی والے ہوتے ہیں کہ ملازمہ ان سب کو کھانے کے لیۓ بلاتی ہے
کھانا ٹی۔وی لاونچ میں لگایا ہوا ہوتا ہے۔ٹی۔وی۔لاونچ باقی گھر کے مقابلے تھوڑا زیادہ بڑا ہوا ہوتا ہے۔ٹی۔وی لاونچ میں ایک طرف ڈائننگ ٹیبل ہوتا ہے۔جس پر اس ٹائم کھانا لگایا ہوا ہوتا ہے۔ایک سائیڈ صوفے لگاۓ ہوۓ ہوتے ہیں۔اور سیڑھیوں کے ساتھ جھولا بھی رکھا ہوتا ہے۔
سامنے کی دیوار پر ایک بڑی سی گھڑی لگائی ہوئی ہوتی ہے۔اور صوفوں کے سامنے والی دیوار پر ٹی۔وی لگائی ہوئی ہوتی ہے۔
ڈائننگ ٹیبل پر مختلف اقسام کے کھانے سجاۓ ہوۓ ہوتے ہیں
“واہ بھابھی،آپ کے ہاتھوں میں تو کافی ذائقہ ہے،ویسے کہنا پڑے گا،سلیم تو کافی خوش قسمت ہے کہ تجھے بھابھی جیسی بیوی اور حیا جیسی بیٹی ملی ہے”رضا صاحب نے کہا
“تم بھی تو بہت خوش قسمت ہو کہ تمھیں بھی صائمہ بہن جیسی بیوی اور شہریار جیسا بیٹا ملا ہے”سلیم صاحب نے کہا
“ویسے حیا تمھیں کوئی مسلۂ تو نہیں ہے نہ کالج میں،پڑھائی کیسی جارہی ہے تمھاری”رضاصاحب نے کہا
“نہیں انکل،سچ میں کالج بہت اچھا ہے،اور پڑھائی بھی اچھی ہے کالج میں”حیا نے مسکراتے ہوئے کہا
“بیٹا،کبھی آنا نہ ہمارے گھر”رضا صاحب نے کہا
“جی انکل،ضرور آؤ گی”حیا نے مسکراتے ہوئے جواب دیا
“بیٹا،تم لو نہ کچھ،تم کچھ لے ہی نہیں رہے ہو”آسیہ بیگم نے شہریار کو کہا جو مسلسل حیا کو ہی دیکھے جارہا تھا۔
“جی،آنٹی لیتا ہوں”شہریار نے کہا
__________________
وہ لوگ کھانا کھانے کے بعد اپنے گھر چلے گے۔اور جاتے جاتے ان کو بھی اگلے ہفتے اپنے گھر آنے کی دعوت دے کر چلے گے۔حیا ان کے جانے کے بعد اپنے کمرے میں آگئی۔اس نے جب موبائل چیک کیا تو اسے میسچ آیا ہوا تھا۔میسچ فاطمہ کا آیا تھا ۔جس میں اس نے السلام علیکم لکھا تھا۔حیا نے بھی اسے وعلیکم السلام کا جواب لکھ کر بھیجا۔
دس سکینڈ کے بعد اسے فاطمہ کا ایک اور میسچ آیا “آپ نے نماز پڑھی ہے؟”
اس کا میسچ پڑھ کر حیا حیران رہ گئی۔اسے تو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ اس نے لاسٹ ٹائم نماز کب پڑھی تھی۔یہ نہیں تھا کہ وہ شروع سے نماز پڑھتی نہیں تھی۔بلکہ جب وہ چھوٹی تھی تو اس کے ماں باپ اسے باقاعدگی سے نماز پڑھاتے تھے۔کبھی انعام کا لالچ دے کر تو کبھی نصحیتیں کر کے۔مگر جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی گئی۔اس کی روٹین تبدیل ہونے لگی۔صبح وہ لیٹ اٹھتی۔پھر کالج،اور اس کے بعد اکیڈمی ،پھر وہ گھر آکر سو جاتی۔آسیہ بیگم نے جب یہ بات نوٹ کی کہ وہ نماز نہیں پڑھتی تو اسے پیار سے سمجھایا،پھر غصے سے بھی سمجھایا مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔پہلے پہلے وہ اور سلیم صاحب اسے ٹوکتے تھے کہ نماز پڑھو مگر جب انھوں نے دیکھا اس پر کچھ اثر نہیں ہونے والا تو ان نے بھی کہنا چھوڑ دیا۔یہی وجہ تھی کہ وہ نماز کے ساتھ ساتھ اللہ سے بھی دور ہو چکی تھی۔
__________________
اس نے “ہاں پڑھ لی”کا میسچ لکھ کر فاطمہ کو بھیجا۔جس کے جواب میں فاطمہ نے اسے کہا”اچھا میں پڑھ لو،پھر بات کرتے ہیں،ایک کام کیوں نہیں کرتی آپ تب تک نفل پڑھ لو”۔اس نے اچھا لکھ کر بھیجا۔مگر وہ اپنے بیڈ سے نہ اٹھی۔اس کے خیال میں اتنی محنت سے لگائی گئی نیل پالش کو صاف کرنا بیوقوفی کا کام ہوگا۔وہ بیڈ پر ہی لیٹ کر اس کے میسچ کا انتظار کرنے لگی۔
کچھ دیر بعد فاطمہ کا میسچ آیا۔
_________
“حیا میں نے نماز پڑھ لی،اور پتا ہے کیا،آج میں نے اللہ سے کیا مانگا٬میں نے اللہ سے یہ دعا مانگی کہ وہ تمھیں بھی نماز پڑھنے کا عادی بنا دیں،مجھے بہت خوشی ہے اس بات کی کہ تم نے آج نماز پڑھی ہے،ویسے تم نے کیا دعا مانگی”فاطمہ نے میسچ کیا
“میں نے دعا مانگی کہ اللہ مجھے ایک لمبی عمر دے”حیا نے ایک اور جھوٹ بولا
“اچھا،اس کا مطلب تمھیں زندگی سے بہت پیار ہے کہ تم زندگی کو لمبا جینا چاہتی ہو”فاطمہ نے میسچ کیا
“ایک بات پوچھو،”حیا نے میسچ کیا
“ہاں پوچھو”فاطمہ کا میسچ آیا
“اگر ہم سارے نیک کام کریں،روزہ رکھیں،زکوۃ ادا کریں۔مگر نماز نہ پڑھیں تو کیا قیامت کے دن ہمارے بخشش ہو سکتی ہے”حیا نے میسچ کیا
“حیا،قبر میں سب سے پہلا سوال نماز کے بارے میں ہوگا. اور اگر ہمیں پہلے سوال کا ہی جواب نہ آۓ تو اس وقت ہماری کیا حالت ہو گی..جیسے پیپر میں کسی بچے کو پہلا سوال ہی نہ آۓ تو کتنا غلط تاثر پڑتا ہے. اس بات کا تمھیں بخوبی اندازہ ہے۔ حیا نماز کو کبھی بھی بوجھ نہ سمجھنا۔ہم نماز پڑھ کر کسی پر احسان نہیں کرتے۔ماشاللہ سے اللہ تعالیٰ کے پاس عبادت کے لیۓ فرشتوں کی کمی نہیں تو ہم نماز پڑھ کر کسی اور پر نہیں خود پر احسان کرتے ہیں۔ہم نماز پڑھتے ہیں تو ہمارے اپنے اعمال نامہ میں نیکیاں لکھی جاتی ہیں.نماز میں وہ سکون ہے جو دنیا کی تمام آسائشیں پانے کے بعد بھی نہیں حاصل ہوتا. جو لوگ نماز پڑھتے ہیں وہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہوتے ہیں۔اور تمھیں ایک بات بتاؤ ،بےنمازی کی دعا نہیں قبول ہوتی۔اس کی زندگی میں سکون نہیں رہتا۔وہ برائیوں کے گھنے جنگل میں پھنسا ہوا ہوتا ہے۔جبکہ وہ انسان جو نماز پڑھتا ہے اللہ اسے کبھی بھی مشکل وقت میں اکیلا نہیں چھوڑتا۔وہ برے کاموں سے بچا رہتا ہے کیونکہ نماز بےحیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔۔اور جو لوگ نماز پڑھتے ہیں اللہ ان کے چہرے کو ایمان کے نور سے چمکا دیتا ہے۔اب تم مجھے خود بتاؤ کہ دونوں میں سے کون فائدے میں رہتا ہے؟
حیا فاطمہ کا میسچ پڑھ کر تھوڑا حیران ہو گئی۔پہلے اس کا دل کیا کہ وہ ابھی ہی جاکر وضو کر کے نماز پڑھ لے۔مگر پھر اسے خیال آیا کہ کل ہی سے شروع کرۓ گی نماز۔ابھی سو جاتی ہے۔اس نے فاطمہ کو میسچ کیا
“شکریہ،اتنی معالومات دینے کے لیۓ،ابھی میں سو رہی ہوں کل بات ہوتی ہے”
دوسری طرف سے بھی شب بخیر کا میسچ آیا اور اس نے اٹھ کر کمرے کی لائٹ آف کر دی۔اور دوبارہ بیڈ پر آکر لیٹ گئی۔اور فاطمہ کی باتوں کے بارے میں سوچنے لگ گئی۔اسے پتہ بھی نہیں چلا اور وہ کچھ دیر بعد نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔
___________________
صبح اس کی آنکھ آٹھ بجے کھلی۔وہ آج لیٹ ہو گئی تھی۔اس نے بیڈ پر لیٹے ہوۓ ہی اپنے بال باندھے۔اور واشروم چلی گئ۔آئینے میں اپنی شکل دیکھ کر اسے یاد آیا کہ اس نے آج فجر کی نماز نہیں پڑھی۔
“اوہو ،آنکھ ہی نہیں کھلی،کل سے الارم لگایا کروں گی,اب ظہر کی نماز پڑھ لوں گی”اس نے خود کلامی کرتے ہوۓ کہا
یہ کہنے کے بعد وہ تیار ہونے لگی۔کچھ ہی دیر میں وہ تیار ہو چکی تھی۔اپنا موبائل بیگ میں ڈال کر،بیگ ہاتھوں میں اٹھا کر نیچے آگئی۔
“گڈ مارننگ ماما بابا”
“گڈ مارننگ بیٹا”سلیم صاحب نے کہا
“حیا،آج تم لیٹ نہیں ہوگئی”آسیہ بیگم نے کہا
“جی ماما آج واقعی میں لیٹ ہوگئی ہوں ،بس ناشتہ کرکے نکلتی ہوں”
حیا نے کہا
“آج تمھاری تائی جان کے گھر جانا ہے ہم سب نے،سدرہ کا رشتہ آیا ہے۔وہ لوگ آج اس کو دیکھنے آئیں گے تو ان نے ہمیں بھی اس خاص موقعے پر بلایا ہے۔”سلیم صاحب نے کہا
“بابا،آپ لوگ چلے جانا،مجھے ان کے گھر جانے کا کوئی شوق نہیں”
حیا نے تیوری چڑھاتے ہوۓ کہا
“کیا ہو گیا ہے حیا تمھیں،تمھاری تائی جان نے اتنے پیار سے بلایا ہے۔اور ویسے بھی تمھاری تائی جان نے تمھیں ڈوپٹہ رکھنے کا ہی تو کہتی ہیں،تو رکھ لیا کرو نہ،اب ویسی بھی تم بڑی ہوگئی ہو،ڈوپٹہ سر پر رکھ لیا کرو گی تو قیامت تھوڑے ہی آجاۓ گی۔ آسیہ بیگم نے غصے سے کہا
“ماما بات ڈوپٹہ رکھنے کی نہیں ہے،بات ان کے لہجے کی ہے،ان کی باتوں سے نصیحتوں کی مہک کم جبکہ طعنوں کی مہک زیادہ آتی ہے”حیا نے کہا
“حیا،بیٹا آپ لیٹ ہو رہی ہو آپ جاؤ ابھی کالج۔تھوڑے ہی تو دیر کی بات ہے چلی جانا،آپ کے بابا آپ کے ساتھ ہوں گے کوئی آپ کو کچھ نہیں کہے گا”سلیم صاحب نے کہا
“ٹھیک ہے بابا،میں چلتی ہوں اب اللہ حافظ، ”
“اللہ حافظ” آسیہ بیگم اور سلیم صاحب نے ایک ساتھ کہا
___________________
وہ جب کالج کے گیٹ پر پہنچی تو اسے شہریار نظر آیا۔وہ اپنی نیو ماڈل کرولا سے نکل رہا تھا۔حیا کو دیکھتے ہی اس نے حیا کو روکنے کا اشارہ کیا۔اور خود چل کر اس کے پاس آنے لگا۔
“”کیسی ہو چیڑیل شہریار نے ہنستے ہوئے کہا
“میں ٹھیک ہوں،تم سناؤ،تم کیسے ہو مسڑ بندر”حیا نے کہا
“اتنے پیارے اور معصوم بچے کو بندر کہنا اس معصوم کی توحین ہے”شہریار آنکھ مارتے ہوۓ اپنی طرف اشارہ کیا۔
“آپ کی توحین کا تو مجھے پتا نہیں،آپ کو بندر کہنا،ضرور بندروں کی توحین ہے”حیا نے ہنستے ہوئے کہا
“خیر چھوڑیں،میری دشمنی کو آپ برداشت نہیں کر پائیں گی،تو چلے آئیں دوستی کرلیتے ہیں ہم”شہریار نے کہا
“صاف صاف کیوں نہیں کہتے،میری دشمنی آپ کو راس نہیں آرہی”حیا نے کہا
“جی،کچھ ایسا ہی سمجھ لیجیئے،خیر چھوڑیں آج آپ کا یہ دوست آپ کو آج ٹریٹ دیے گا”شہریار نے ہنستے ہوئے کہا
“کس بات کی ٹریٹ”حیا نے کہا
“آج ہماری دوستی کا پہلا دن ہے تو میں آپ کو ٹریٹ دوں گا”شہریار نے کہا
“شوق سے دینا ٹریٹ،ابھی کلاس میں تو چلو ،پہلے ہی لیٹ ہونگے ہیں”حیا نے کہا
“آپ جائیں حیا،میں نے ایک دوست سے ملنا ہے ابھی،بعد میں بات ہوتی ہے”شہریار نے کہا
“جی ٹھیک ہے”حیا نے کہا
حیا شہریار کو کالج کے گیٹ پر چھوڑ کر کلاس کی طرف جانے لگی کہ اسے رانیہ گروانڈ میں پھرتے ہوۓ نظر آئی۔وہ ایسے چل رہی تھی کہ جیسے اس کی کوئی چیز گم گئی ہو اور وہ ڈھونڈ رہی ہو
“کیا ڈھونڈ رہی ہو یار پیسے چاہیے تو مجھ سے مانگ لو”حیا نے ہنستے ہوئے کہا
“کہاں مر گئی تھی تم،کب سے پاگلوں کی طرح ڈھونڈ رہی تھی تمھیں”رانیہ نے غصے سے کہا
“کچھ نہیں یار،وہ کالج کے گیٹ پر شہریار مل گیا تھا۔اور تمھاری لیۓ خوشخبری ہے آج شہریار ٹریٹ دیے گا”حیا نے ہنستے ہوئے کہا
“یہ کیا کہ رہی ہو،تمھاری شہریار سے لڑائی نہیں تھی۔تمھیں تو وہ برا لگتا تھا نہ۔پھر آج کیسے وہ تمھیں ٹریٹ دے رہا ہے”رانیہ نے حیرت زدہ ہوتے ہوۓ کہا
“یار وہ جو کل بابا کی دوست کی فیملی آئی تھی نہ ہمارے گھر،وہ فیملی شہریار کے بابا کی تھی۔اس طرح ہماری دوستی ہوگئی”حیا نے کہا
“او،اچھا، پھر تو آج مزہ آۓگا،تمھیں اس لڑکی کا کوئی میسچ تو نہیں آیا”رانیہ نے کہا
” نہیں یار نہیں آیا”حیا نے کہا
حیا نے اس سے اس لیۓ جھوٹ بولا تاکہ وہ اس کی باتوں کا مزاق نہ اڑائیے. اتنا تو وہ جانتی ہی تھی رانیہ کو . کبھی بھی کسی کی باتوں کو سیریس نہیں لیا کرتی تھی.اور مزاق میں اڑا دیا کرتی تھی.
_________________
یہ کہنے کے بعد حیا نے رانیہ کا ہاتھ پکڑا اور کلاس میں چلی گئیں۔آج فاطمہ شاید کالج نہیں آئی ہوئی تھی۔کیونکہ وہ کلاس میں نہیں دکھائی دے رہی تھی۔آج لیکچر سننے کا اس کا دل نہیں کر رہا تھا۔وہ اور رانیہ رجسٹر پر لکھ کر باتیں کر رہی تھی۔وہ دونوں کھاڈی اور دوسرے برینڈ کے نۓ ڈیزائن کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ وہ بریک ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔کیونکہ آج مفت کی بریانی جو مل رہی تھی۔آدھے گھنٹے بعد ان کا انتظار ختم ہوا۔اور گھنٹی بجی۔سرعمر کلاس سے باہر نکل لے گے۔سب اسٹوڈنٹس کلاس سے باہر نکل رہے تھے۔وہ بھی رانیہ کا ہاتھ پکڑ کر کلاس سے باہر آئی۔اسے شہریار کالج کے ایک کونے میں کسی لڑکے سے باتیں کرتا ہوا نظر آیا۔شہریار نے اسے دیکھ کر روکنے کا اشارہ کیا۔اور کچھ دیر بعد وہ مسکراتا ہوا ان لوگوں کی طرف آتا ہوا دکھائی دیا۔
“ہیلو بندر،کیسے ہو”حیا نے ہنستے ہوۓ کہا
“یہ بندر کیوں بولا،اب تو شاید ہم دوست بن گے ہیں نہ،بلکہ آج ہی تو ہماری دوستی کا پہلا دن ہے”شہریار نے مصنوعی ناراضگی سے کہا
“میں تو پھر بھی بندر ہی بولو گی،مجھے تمھیں بندر کہنا پسند ہے”حیا نے ہنستے ہوۓ کہا
“اوکے،چلیں،آپ کو پسند ہے تو مجھے قبول ہے،ویسے بیوٹیفل لیڈیز،آپ نے یہ نہیں بتایا ابھی تک کہ آج کیا کھانے کا ارادہ ہے،اگر باہر سے کچھ کھانا ہے تو مجھے کوئی مسلۂ نہیں ہے،ہم آف ٹائم کے بعد چلے جائیں گے”شہریار نے مسکراتے ہوۓ کہا
“نہیں،ایسا تو ممکن نہیں،آج میں نے گھر جلدی جانا ہے،مجھے ضروری کام ہے”حیا نے کہا
“شہریار بھائی،آپ ہمیں یہی سے بریانی اور بوتل پلا دیں،بڑی مہربانی ہوگی آپ کی،کے۔ایف۔سی کا برگر پھر کسی دن”رانیہ نے ہنستے ہوئے کہا
“تو چلیں،منع کس نے کیا ہے”شہریار نے مسکراتے ہوئے کہا
وہ تینوں کینٹین کی طرف چلیں گے۔کینٹین میں معمول کے مطابق بہت رش تھا۔وہ تینوں بینچ پر جاکر بیٹھ گے۔
“آپ لوگ ادھر بیٹھ کر مفت کا مال نہ اڑائیں،یہ لے پیسے اور جاکر بریانی لے کر آئیں،تب تک میں جاکر بوتلیں لے کے آتا ہوں”شہریار نے ہنستے ہوئے کہا
“جو ٹریٹ دے رہا ہے وہی جاکر لے کر آۓگا،ورنہ مجھے کوئی ٹریٹ نہیں چاہیے”حیا نے غصے سے کہا
“اف او،ناراض کیوں ہو رہی ہو جنگلی بلی،میں ہی جاکر لے آتا ہوں ،میڈم صاحبہ”شہریار نے ہنستے ہوۓ کہا
یہ کہنے کے بعد وہ چلا گیا
اس کے جانے کے بعد رانیہ نے حیا سے کہا
“مجھے تو دال میں کچھ کالا لگ رہا ہے”
“کیا مطلب ہے تمھارا،مجھے سمجھ نہیں آئی”حیا نے مسکراتے ہوئے پوچھا
“یار مطلب میرا دل کیوں کہ رہا ہے ،شہریار تمھیں دوست سے زیادہ سمجھ رہا ہے”رانیہ نے کہا
“نہیں یار ایسا کچھ نہیں ہے،اتنی مشکلوں سے تو ہماری دوستی ہوئی ہے”حیا نے چہرے پر آۓ ہوۓ بالوں کو ٹھیک کرتے ہوۓ کہا
“میری نظریں تم دونوں پر رہیں گی یاد رکھنا”رانیہ نے قہقہے لگاتے ہوۓ کہا
اس کی بات سن کر حیا ہسنے لگی۔کہ اچانک سامنے سے شہریار آتا ہوا دکھائی دیا۔وہ دونوں چپ کرکے بیٹھ گئی۔اس نے ہاتھوں میں بوتلیں پکڑی ہوئی تھی۔اور اس کے پیچھے کینٹین کا لڑکا ہاتھوں میں بریانی کی پلیٹیں لے کر کھڑا تھا۔
“تھینک یو سو مچ,ادھر رکھ دیں”شہریار نے لڑکے کو کہا۔وہ لڑکا چیزیں دکھ کے واپس چلا گیا۔
شہریار اب دونوں کو بریانی اور بوتلیں پیش کر رہا تھا۔بریانی کی مہک رانیہ کے دل ودماغ پر چڑھ گئی تھی۔اس لیۓ اس نے بریانی کھانا شروع کر دیا تھا۔شہریار نے بھی اس کو جوائن کیا اور بریانی سے انصاف کرنے لگا۔جبکہ حیا ہاتھوں میں بریانی کی پلیٹ پکڑیں،خاموشی سے دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
“اب، آپ کی بریانی سے بھی کوئی ناراضگی ہے”شہریار نے رانیہ کو آنکھ مارتے ہوۓ کہا جو بریانی کھانے مصروف تھی
“نہیں،ایسی کوئی بات نہیں،الٹے لوگوں کے علاؤہ میری ہر ایک سے دوستی ہے”حیا نے کہا اور بریانی کھانے لگ گئی۔
پندرہ منٹ بعد وہ بریانی کھا کر فارغ ہو چکے تھے۔
“چلو،اللہ حافظ کل ملتے ہیں”شہریار نے کہا
یہ کہنے کے بعد وہ دو منٹ بھی نہ رکا۔اور کچھ ہی دیر بعد وہ نظر سے اوجھل ہوگیا تھا۔
“میرا خیال ہے کہ اب ہمیں بھی چلنا چاہیے،ویسے بھی مجھے جلدی گھر جانا ہے”حیا نے کہا
“ہاں چلو”رانیہ نے کہا
________________
وہ دونوں کالج کے گیٹ پر تھی۔اور رانیہ کے ڈارئیور کا انتظار کر رہی تھی کہ اچانک شہریار کی گاڑی انکے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔
“کیا ہوا،آپ کی گاڑی نہیں آئی،آئیں میں آپ لوگوں کو چھوڑ آتا ہوں”شہریار نے مسکراتے ہوئے کہا
“نہیں شکریہ،بس گاڑی آنے ہی والی ہے”رانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا
ایک منٹ بعد رانیہ کی گاڑی انکے سامنے کھڑی تھی۔وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ گئی۔ان کو گاڑی میں بیٹھا دیکھ کر اس نے بھی اپنی گاڑی سٹارٹ کی اور کچھ ہی پل میں نظروں سے اوجھل ہوگیا۔
_______________
وہ جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی۔ماما بابا کو گھر میں نہ پاکر اس نے ماما کے نمبر پر کال کی
” ہیلو،ماما کہاں پر ہے آپ”حیا نے پوچھا
“بیٹا میں اور تمھارے پاپا تمھارے تایاجان کے گھر آگے ہیں۔تم لیٹ ہوگئی تھی،تو ہم چلے گے۔کھانا فریج میں رکھا ہے گرم کرکے کھا لینا،ابھی میں تھوڑا بزی ہوں،آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں،اللہ حافظ”
“اللہ حافظ”حیا نے کہا اور فون بند کر دیا۔
وہ سیڑھیاں چڑھتے ہوۓ اوپر اپنے کمرے میں آگئی۔اس نے سب سے پہلے اپنا بیگ بیڈ پر پھینکا۔اور واشروم میں منہ دھونے چلی گئی۔اپنے آپ کو آئینے میں دیکھ کر وہ آج ہونے والی باتوں کو سوچ کر ہنسنے لگ گئی۔اس نےالماری سے کپڑے نکالے اور واشروم چلی گئی۔ دس منٹ بعد اس نے کپڑے پہن لیۓ تھے۔ٹی شرٹ اور ٹراؤزر میں وہ بالکل کسی سکول کی بچی لگ رہی تھی۔اب وہ آرام سے بیڈ پر بیٹھ کر اپنا فون استعمال کر رہی تھی۔اس نے فیس بک کھولی ہوئی تھی۔اچانک اسے شہریار کی فرینڈ ریکوئسٹ آئی۔جو اس نے ایک دم قبول کرلی۔کچھ ہی دیر بعد اسے فاطمہ اور شہریار کا میسچ آیا۔فاطمہ نے اس سے ظہر کی نماز کے بارے میں پوچھا تھا۔اسے پتا تھا کہ اس کا کیا جواب ہوگا تو اس نے جواب ہی نہیں دیا۔جبکہ اس نے شہریار کے ہیلو کا جواب دے دیا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...