” کیا ہوا ہے تمہارا سونے کا ارادہ نہیں ۔” احسن نے ٹی وی کے پاس جم کے بیٹھی زری سے کہا۔
” نہیں ۔آج ہم دونوں رت جگا کریں گے۔” زری مسکرا کر بولی۔
” کس خوشی میں ۔” اس نے سنجیدہ لہجے میں پوچھا۔
” کتنے دن ہوگئے ہیں ہم نے سکون سے ساتھ وقت نہیں گزارا۔باتیں نہیں کی ۔آج باتیں کریں گے مووی دیکھیں گے۔” زری پوری پلاننگ کر چکی تھی۔
” میں تو تھک چکا ہوں ۔سونے لگا ہوں۔تم نے جو کرنا ہے کمرے سے باہر جا کر کرو۔” وہ بیڈ پہ بیٹھتے ہوئے بولا۔
” یہ کیا بات ہوئی تم ہمیشہ ایسا کرتے ہو۔میری کسی بات کو نہیں مانتے۔”اس نے خفگی سے کہا.
” اور تم ہمیشہ بچکانہ حرکتیں کرتی ہوں ۔کتنی دفعہ یاد دلاؤں کہ تم اٹھارہ کی نہیں ہو۔ ” وہ گھڑی اتار کر سائیڈ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے بولا۔
” تم ہمیشہ یہ ہی طعنے دیتے ہو۔میں ہمیشہ تمہاری مجبوریوں کو سمجھتی ہوں لیکن تم نے کبھی میری خواہش پوری نہیں کی۔ میں تو ترس گئی ہو شادی سے پہلے والے احسن سے ملنے کے لیے۔”اس نے ناراضگی دکھائی ۔
” شب بخیر۔” احسن نے کمبل منہ پہ اوڑھتے ہوئے بولا۔
زری کی آنکھوں میں تیزی سے نمی آئی تھی ۔باہر نیویارک جاگ رہا تھا اندر زری۔
کل اتوار تھا اور اتوار کا دن بہت تھکا دینے والا ہوتا تھا۔اسے مشین لگانے کے ساتھ ساتھ پورے گھر کی تفصیلی صفائی بھی کرنی ہوتی تھی اوپر سے دنوں ٹائم کوئی اچھی سی ڈش ۔کیونکہ پورے ہفتے دال سبزی بنتی تھی ۔اتوار کے اتوار اچھی ڈشیں بنتی تھیں ۔
گھر کی باقی تین عورتیں کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتیں تھی۔ایک چیز جہاں پہ پڑی ہے بارش آئے یا طوفان وہ نہ اٹھائے تو کوئی نہ اٹھاتا تھا۔
چادر درست کرتی وہ سراج ہاؤس میں داخل ہوئی۔
” آپ کو کیا ہوا ہے؟” وہ عنایہ کو دیکھ کر پریشان ہوگئی۔اس کے بازو پہ پٹی لگی تھی۔
” میں کل خرگوش کے پیچھے بھاگتے ہوئے گر گئی۔اور پاپا نے خرگوش مالی بابا کو دے دیا۔” عنایہ نے رونی صورت بنا کر کہا۔
” آپ کو زیادہ چوٹ آئی ہے۔ٹانکے بھی لگے ہیں ۔” وہ فکرمندی سے بولی۔
” ذرا سا خون آیا تھا اور پاپا نے خرگوش گھر سے نکال دئیے۔” عنایہ نے منہ پھلایا۔
” میں آپ کے لیے جوس بناتی ہوں ۔”اس نے کہا۔
” تم باہر لے آؤ۔میں پاپا سے ناراض ہوں ۔” عنایہ نے کہا۔
وہ اثبات میں سر ہلاتی اندر کی طرف بڑھ گئی۔عنایہ کے پاس دوسری ملازمہ بیٹھی تھی۔
” آگیا یاد کہ یہاں آنا ہے۔” ابھی اس نے لاؤنج میں قدم ہی رکھا تھا کہ ارسلان صاحب کی پاٹ دار آواز سنائی دی۔
اس نے گھبرا کر ارسلان کو دیکھا ۔اب اس سے کیا غلطی ہوگئی تھی۔یہ راسلان صاحب تو اسے نوکری سے نکال کر رہیں گے۔
” کل کیوں نہیں آئی تھی۔” اس نے تیز لہجے میں پوچھا۔
” کل اتوار تھا۔” وہ تھوک نگل کر بولی۔
” تو ۔” ابرو اٹھا کر پوچھا گیا۔
” کل چھٹی تھی۔” اس نے کہا۔
” آئندہ سے تمہاری اتوار کی چھٹی بند۔اب تم نے ہر روز آنا ہے۔” اس نے حکم نامہ جاری کیا۔
” میں اتوار کو نہیں آسکتی۔”اس نے فوراً سے انکار کیا ۔
” کس خوشی میں ۔”اس کے ماتھے پہ بل پڑے۔
” میں نے اتوار کو مشین لگانی ہوتی ہے اور گھر کی تفصیلی صفائی بھی کرنی ہوتی ہے۔” وہ سادہ سے انداز میں بولی۔
” تم تو بہت ہی مصروف ہوتی ہو۔پلیز یہاں آنے کا ٹائم نہ نکالا کرو۔” وہ تیز لہجے میں بولا۔
” مطلب ۔” وہ الجھی۔
” تم نوکری سے فارغ ہو۔” وہ اپنے الفاظ پہ زور دیتا صوفے سے اٹھا۔
” لیکن صاحب میرا کیا قصور ہے؟ “وہ روہانسی ہوئی۔
” عنایہ کو دیکھنے کے بعد بھی تم کہہ رہی ہو کہ تمہارا قصور کیا ہے۔”وہ تیز لہجے میں بولا۔
” تو میرا کیا قصور ہے صاحب جی۔اتوار کو تو چھٹی ہوتی ہے ۔آپ کو بھی تو دفتر سے چھٹی ہوتی ہے۔اور کل تو آپ اس کے پاس تھے تو اس کے گرنے میں آپ کا قصور ہوا نا۔میں تو اپنے گھر میں تھی۔”وہ روتے ہوئے نان سٹاپ بول رہی تھی۔
ارسلان نے حیرت سے اسے دیکھا۔عجیب لڑکی تھی کبھی تو اس سے ڈر کے بولتی نہیں تھی اور کبھی فر فر بولتی تھی۔
” صاحب آپ کی پہلی ہی نیت خراب تھی۔”وہ سوں سوں کرتے ہوئے بولی۔
” واٹ۔”حیرت کی زیادتی سے اس کی آواز پھٹی۔
” آپ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ میں یہاں پہ کام کرو۔تب ہی آپ نے یہ بہانہ بنایا۔کسی کے ساتھ اس طرح نہیں کرتے۔” وہ دوپٹے سے چہرہ صاف کرتے ہوئے بولی۔
” لیکن میں آپ کو بتا رہی ہوں میں بڑی بیگم صاحبہ کو آپ کی شکایت لگاؤں گی۔آپ نے اپنی غلطی مجھ پہ ڈال دی۔” یہ اس کی طرف سے دھمکی تھی۔جذباتی ہو کر اسے سمجھ نہیں آئی کہ وہ کس کے سامنے کیا بول رہی ہے۔
” دماغ درست ہے نا۔” وہ یہ ہی کہہ سکا ۔
” صاحب جی پلیز مجھے نوکری سے نہ نکالیں ۔اماں نے مجھے بڑا مارنا ہے اور کھانا بھی نہیں دینا۔”وہ منت کرتے ہوئے بولی۔اس کی تو جان نکل رہی تھی اگر نوکری سے نکال دیا گیا تو اس کی خیر نہیں تھی۔
” تم اتنے بہانے کیوں کرتی ہو۔”وہ حیرت سے بولا۔
” صاحب جی قسم لے لیں ۔میں جھوٹ نہیں بول رہی۔” وہ اپنی نیلی آنکھوں کو پورا کھول کر بولی۔
” مما تین دن کے لیے نہیں ہیں اگر تم یہاں تین دن رہو تو میں اس بارے میں سوچ سکتا ہوں ۔” وہ جانچتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
” نہیں نہیں صاحب میں نہیں رہ سکتی۔ایسے اچھا نہیں لگتا۔”اس کے منہ سے نکلا۔اس نے جلدی سے منہ پہ ہاتھ رکھ کر خود کو مزید کچھ کہنے سے روکا۔
” تم کیا چیز ہو۔”وہ حیران ہوا۔
” میں اماں سے بات کروں گی ۔اگر انہوں نے اجازت دی تو میں جب تک آپ آفس سے نہیں آئیں گے یہاں رک جاؤں گی ۔اگر انہوں نے منع کردیا تو پھر آپ بےبی کے لیے کوئی اور ملازمہ رکھ لیجیے گا۔” وہ اداسی بھری مسکراہٹ کے ساتھ بولی ۔اس کے علاوہ وہ کچھ نہیں کرسکتی تھی۔
ارسلان کو اس کی اداسی اچھی نہ لگی۔
” اماں میری شادی کراؤ۔”فہد تخت پہ ماں کے برابر بیٹھتے ہوئے بولا۔
” کس خوشی میں ۔”انہوں نے کڑے تیوروں سے اسے گھورا ۔
” کیا مطلب کس خوشی میں ۔میرے سارے دوستوں کی شادی ہوگئی ہے ایک میں ہی کنوارہ بیٹھا ہوں ۔” اس نے ناراضگی دکھائی ۔
” پہلے تیری بہنوں کی شادی ہوجائے پھر بہو لاؤں گی۔” انہوں نے کہا۔
” مطلب ساری زندگی میں کنوارہ رہوں گا۔” وہ تیز لہجے میں بولا۔
” کیا مطلب ہے اس بات کا۔”ناعمہ کمر پہ رکھ کر غصے سے بولی۔
” مطلب یہ کہ تم بھینسوں کی تو شادی ہونی نہیں ہے اس چکر میں میں بوڑھا ہوجاؤں گا۔”وہ طنزیہ انداز میں بولا۔
رفعت بیگم پان کھانا شروع ہوگئی ۔یہ سب تو روز کا معمول تھا۔
” اور تم جیسے نکمے اوو بیروزگار کو کون اپنی بیٹی دے گا۔” ناعمہ بھنا کر بولی۔
” اچھا خاصا سمارٹ ہوں ۔مجھے تو لوگ خوشی خوشی رشتہ دیں گے ۔اور جہاں تک بات روزگار کی ہے تو ابا کی دکانیں میری ہی ہیں ۔”وہ اترا کر بولا۔بہنوں کی نسبت وہ ابا کی طرح گندمی رنگ کا تھا۔
” خوش فہمی ہے تمہاری ۔تمہارے جیسے پھتر ہٹاؤ دس نکلتے ہیں ۔”ناعمہ استہزایہ انداز میں بولی۔
” اپنی زبان کو لگام دو۔” وہ تخت سے اٹھتے ہوئے انگلی دکھا کر بولا۔
ناعمہ نے اس کو ہاتھ سے دفع ہونے کا اشارہ کیا ۔
” ارے کمبختوں میں کہتی ہوں چپ ہوجاؤ ۔کیا کتوں کی طرح لڑتے رہتے ہو۔”رفعت بیگم ہمیشہ کی طرح معاملہ گرم ہوتے دیکھ کر بیچ میں کودیں ۔
” اماں سمجھا لو انہیں ۔ایسی لڑکیاں گھر نہیں بساتی۔” فہد تیز لہجے میں بولا۔
” چل تُو باہر جا۔” انہوں نے فہد کو پچکارا۔
” تُو ہی کچھ زبان کو لگام دے دیتی۔”فہد کے جانے کے بعد انہوں نے ناعمہ کو گھورا۔
” بس اماں ہر وقت اس کا ساتھ ہی دیتی رہنا ۔” ناعمہ پیر پٹختی اندر چلی گئی۔
رفعت بیگم نے سر تھام لیا ۔ان کی اولاد میں اتفاق نہ ہونے کے برابر تھا۔
آج اس کا ارادہ عنایہ کے ساتھ گھر میں وقت گزارنے کا تھا ۔اس لیے اس نے آفس سے چھٹی کر لی۔اسے ضروری میلز کرنی تھی تو لیپ ٹاپ گود میں رکھے لاؤنج میں بیٹھ گیا۔پاس ہی عنایہ کھیل رہی تھی۔
وہ گاہے بگاہے عنایہ پہ بھی نظر ڈال رہا تھا اسے افسوس ہوتا تھا کاش وہ اپنی بیٹی پہ پہلے بھی اتنی ہی توجہ دیتا۔آفس اور زری اس کی یہ دو ہی مصروفیات تھیں ۔عنایہ تو زیادہ تر مما کے پاس ہوتی تھی۔
اسے وہ دن یاد آیا جب زری اور اس کی طلاق ہوگئی تھی۔وہ شکستہ حال بستر پہ پڑا تھا۔تب پانچ سالہ عنایہ اس کے پاس آئی تھی اور اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کر بولی۔
” پاپا میں آپ کو مما کی طرح چھوڑ کر نہیں جاؤں گی۔” وہ دن اس کا اور اس کی بیٹی کی دوستی کا پہلا دن تھا۔
اس نے مسکرا کر لیپ ٹاپ سے سر اٹھایا ۔عنایہ کو سامنے نہ دیکھ کر اس کی مسکراہٹ غائب ہوگئی ۔
لیپ ٹاپ چھوڑ کر وہ باہر کی جانب بھاگا۔
عنایہ اسے کھلے گیٹ سے سامنے گلی میں کسی خرگوش کے پیچھے بھاگتی نظر آئی۔تب ہی اس کی نظر پیچھے سے آتی تیز رفتار بائیک پہ پڑی ۔
” عنایہ۔” اس کو لبوں سے نکلا۔دل حلق تک پہنچ چکا تھا۔
آج اس کے سر میں درد تھا اور ہلکا ہلکا بخار بھی تھا۔لیکن اسے رفعت بیگم کی طرف سے چھٹی کرنے کی اجازت نہیں تھی۔پھر ارسلان صاحب بھی تو ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑے تھے۔
ایک تو ہر کوئی اس سے ہی خفا رہتا تھا ۔پتا نہیں کیوں وہ کسی کو خوش نہیں کرسکتی تھی۔
” کیا ہوا چاچا۔” رکشہ رکنے پہ وہ اپنے خیالات سے چونکی۔
” لگتا ہے رکشے میں کوئی مسئلہ ہوگیا ہے ۔چل نہیں رہا۔” رکشے والا بولا۔وہ ادھیڑ عمر شخص اس کا ابا کا دوست تھا۔
” میں پیدل ہی چلی جاتی ہوں۔یہ ایک گلی کا فاصلہ ہے۔آپ واپسی پہ لازمی لینے آئیے گا۔” وہ کہتی ہوئی رکشے سے اتری۔
وہ گھر کے پاس پہنچنے والی تھی جب اس عنایہ کچھ دور گلی میں خرگوش کے پیچھے بھاگتی نظر آئی۔
” اب بندہ صاحب جی کو کہے نا خود ہی دھیان نہیں دیتے۔”وہ بڑبڑائی۔
تب ہی اسے پیچھے سے سکوٹر کی آواز آئی۔اس نے گردن موڑ کر دیکھا کہ کہیں اس کی طرف تو نہیں آرہا لیکن وہ سکوٹر راستے کے درمیان میں تھا۔
اس نے اطمینان سے آگے دیکھا۔پھر پیچھے مڑ کے سکوٹر کو دیکھا اور ایک دم سے عنایہ کی طرف دوڑ لگائی۔
سکوٹر کے پہنچنے سے پہلے وہ عنایہ کو گھسیٹ کر دیوار کے ساتھ کرچکی تھی ۔اس بچانے کے چکر میں اس کے ہاتھ نے دیوار کے ساتھ رگڑا۔ہاتھ کی پشت پہ ننھے ننھے خون کے قطرے نمودار ہوئے تھے۔
” آپ ٹھیک ہو۔” اس نے خوف سے پیلی پڑتی عنایہ سے پوچھا۔
” عنایہ ۔” ارسلان بھاگتا ہوا آیا۔اور ایک دم سے عنایہ کو ساتھ لگایا۔آج اگر عنایہ کو کچھ ہوجاتا تو وہ خود کو معاف نہ کرتا۔
” میری غلطی نہیں ہے۔” وہ نفی میں سر ہلا کر بولی۔اور ہاتھ کو چادر سے دبایا۔
ارسلان نے احسان مندی سے اسے دیکھا تاہم بولا کچھ نہیں ۔وہ نہ آتی تو کیا ہوتا۔
وہ عنایہ کو اٹھائے گھر کی جانب چل دیا۔عنایہ یہ چہرے پہ خوف تھا۔
وہ ہاتھ کو دباتی پیچھے چلنے لگی۔
” میں پانی لاتی ہوں۔” لاؤنج میں داخل ہو کر اس نے کہا۔
” تم عنایہ کے پاس بیٹھو میں لاتا ہوں ۔” وہ ہاتھ کے اشارے سے اسے منع کرتے ہوئے بولا۔
اس نے حیرت سے صاحب کو دیکھا ۔ کڑوا کریلا آج میٹھا کیسے ہوگیا۔
” آپ ٹھیک ہیں نا۔” وہ عنایہ کی طرف متوجہ ہوئی۔
” تمہیں ہاتھ میں کیا ہوا۔” عنایہ نے اس پوچھا۔
” کچھ نہیں ۔”اس نے ہاتھ چھپایا۔
” یہ لو۔”پانی کا گلاس عنایہ کے پاس کھڑی ماہم کی طرف بڑھاتے ہوئے وہ بولا۔
ماہم نے حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے گلاس تھاما۔یہ صاحب اتنے اچھے کیوں ہورہے ہیں ۔کہیں مجھے نوکری سے نکالنے تو نہیں لگے۔
ارسلان نے عنایہ کو پانی پلایا۔
” پاپا ماہم کے ہاتھ سے خون نکل رہا تھا۔” پانی پیتے پیتے عنایہ کو یاد آیا۔
اس نے ایک دم ماہم کی طرف دیکھا جس نے گھبرا کر نفی میں گردن ہلائی ۔
” دیکھاؤ۔” وہ سنجیدہ لہجے میں بولا۔
” وہ جی تھوڑا سا آیا ہے۔اتنے سے زخم پہ دوائی نہیں لگاتے ۔” وہ ہاتھ چادر سے نکالتے ہوئے بولی۔
ارسلان نے اس کے ہاتھ کو دیکھا ۔سفید ہاتھ سرخ ہورہا تھا. اور اس پہ ہلکا سا خون لگا تھا۔
” میں صفائی کر لوں ۔بےبی آپ کے لیے کیا بناؤ ۔”اس نے پوچھا۔
” رانی۔” ارسلان نے اونچی آواز میں اوپر والے پورشن میں موجود ملازمہ کو پکارا۔
” صاحب جی سچی میں میری غلطی نہیں ہے۔میں تو آج وقت سے پہلے آگئی تھی۔اور میرے بنگلے میں داخل ہونے سے پہلے ہی بےبی باہر کھیل رہی تھی ۔”وہ گھبرا کر بولی۔اسے لگا ارسلان دوسری ملازمہ کو اس کے حصے کا کام کہنے لگا ہے۔
” ریلکس۔ایسا کچھ نہیں ہے جیسا تم سمجھ رہی ہو۔”وہ نرم لہجے میں بولا۔
ماہم نے پریشان چہرے کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا۔
” فرسٹ ایڈ باکس لے آؤ۔”اس نے ملازمہ سے کہا۔
” زخم صاف کر کے یہ ٹیوب لگا لو۔” باکس آنے کے بعد وہ ٹیوب اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا
” شکریہ صاحب جی۔”وہ احسان مندی سے بولی۔صاحب جی اتنے بھی برے نہیں تھے۔
عنایہ ارسلان کے موبائل میں گم ہوچکی تھی۔
” اور پھر چھٹی کر جاؤ۔” اس نے کہا۔آج اسے لگا کہ ماہم کے بارے میں اس کی سوچ غلط تھی۔
” کیوں؟ ” اس کی نیلی آنکھوں میں خوف چھایا۔
” تم آج کے دن ریسٹ کرو۔ویسے بھی میرا اور عنایہ کا تو آج باہر کا پلان ہے۔” وہ عنایہ کے بالوں پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے بولا۔
” آپ ایسے کہہ کر مجھے نوکری سے نکال رہے ہیں نا۔کل آپ مجھے اپنے گھر میں نہیں گھسنے دیں گے۔” وہ یقین سے بولی۔
” ایسا نہیں ہے۔” وہ ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔وہ کبھی ملازموں سے بات نہیں کرتا تھا پھر اس ملازمہ کے ساتھ تو بات سے بات نکلتی تھی۔
” آپ مسکرا رہے ہیں ۔مطلب آپ ایسا ہی کریں گے۔بےبی بتاؤ نا میں آپ کا اچھے سے خیال رکھتی ہوں ۔”وہ روہانسی ہوتے ہوئے پہلے ارسلان اور پھر عنایہ سے بولی۔
” پاپا یہ بہت اچھی ہے اور میرا بہت خیال رکھتی ہے۔ اگر آپ نے اسے نکال دیا تو میں آپ سے کٹی ہوجاؤں گی۔” عنایہ نے دھمکی دی۔
” مجھے پتا ہے یہ بہت اچھی ہے۔اور سچ میں میں نہیں نکال رہا۔دیکھو میں سنجیدہ ہوں ۔اور اگر تم نے گھر نہیں جانا تو بےشک نہ جاؤ۔” ارسلان سنجیدگی سے بولا۔
ماہم نے اثبات میں سر ہلایا۔تاہم وہ گھر واپس نہیں گئی کیونکہ اسے صاحب پہ یقین نہیں تھا۔
” کیسی ہو؟ “بیگم سراج نے ویڈیو کال پہ زری سے پوچھا۔وہ ابھی تک لاہور ہی تھیں ۔
” میں ٹھیک ہوں ۔آپ کیسی ہیں؟” اس نے پوچھا ۔
” تم ٹھیک ہو نا۔” وہ تشویش ہوئی۔
” ٹھیک ہو۔آپ کو کیوں یقین نہیں آرہا۔” زری زبردستی مسکرائی تھی۔
” تمہاری احسن سے لڑائی ہوئی ہے۔”انہوں نے پوچھا۔
” میاں بیوی میں لڑائی کون سا نئی بات ہے ۔” اس نے خود کو نارمل ظاہر کیا۔
” لیکن شادی کی تین مہینے بعد ہی لڑائی۔یاد ہے ارسلان سے تمہاری ساڑھے چھ سالہ شادی میں کبھی لڑائی نہیں ہوئی۔ارسلان نے ہمیشہ تمہیں سمجھا۔” انہوں نے اسے ماضی یاد دلایا۔
” مما بس کردیں۔آپ ہر وقت مجھے ماضی یاد نہ دلایا کریں ۔مجھے لگتا ہے اس وجہ سے ہی میں احسن سے بحث کرتی ہوں ۔فار گاڈ سیک مجھے احسن کے ساتھ خوش رہنے دیں۔”زری جھلا کر بولی۔
” میں تمہاری ماں ہوں دشمن نہیں ۔”وہ پیار سے بولیں ۔
” اس ٹاپک کو رہنے دیں ۔آپ این جی او کے کسی کام کے سلسلے میں آئی تھیں۔ اس کا کیا ہوا؟ “زری نے بیزاری سے موضوع بدلا۔
بیگم سراج نفی میں سر ہلاتے ہوئے اسے تفصیلات بتانے لگیں ۔
ماہم نے حسرت سے ناعمہ اور آئمہ کے ہاتھ میں موجود سونے کی بالیاں دیکھیں ۔
وہ تینوں رفعت بیگم کے کمرے میں موجود تھیں ۔وہ اماں کی ٹانگیں دبا رہی تھی اور ناعمہ، آئمہ سونے کے بالیاں پہن کر چیک کر رہی تھیں ۔
رفعت بیگم کی کمیٹی نکلی تھی جس سے انہوں نے دونوں بیٹیوں کے جہیز میں رکھنے کے لیے بالیاں لی تھیں ۔
ہر مہینے اس کی تنخواہ سے رفعت بیگم اپنی بیٹیوں کے لیے کچھ نہ کچھ لے لیتیں ۔اور دونوں بہنیں اسے دیکھا دیکھا کر جلاتی ۔
پہلے وہ سوچتی تھی کہ اماں ان دونوں کا جہیز جمع کرنے کے بعد اس کا بھی جمع کریں گی ۔اسلیے وہ مطمئن رہتی۔پر اب تو اماں اس کی شادی ہی نہیں کر رہی تھیں ۔اس لیے یہ چیزیں دیکھ کر اسے دکھ ہو رہا تھا۔
کتنی خواہش تھی اس کی کہ اس کے پاس بھی پیارے پیارے کپڑے ہو اور جیولری وغیرہ ہو۔لیکن اماں تو اس کی شادی ہی نہیں کر رہی تھیں ۔
” کیا بٹر بٹر دیکھ رہی ہے؟” آئمہ نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔
” نظر لگائی نا تو یہ بلی جیسی آنکھیں نکال کر ہاتھ میں پکڑا دوں گی۔” ناعمہ نے دھمکی دی۔
وہ منہ بسورتے ہوئے نیچے دیکھنے لگی۔
” ویسے اماں تُو نے اس کے بال نہیں کاٹے۔” ناعمہ اس کے لمبے براؤن بالوں کو حسد سے دیکھتے ہوئے بولی ۔
ماہم نے گھبرا کر نفی میں گردن ہلائی۔اتنی مشکل سے تو اس کے بال بڑے ہوئے تھے۔
” اماں اس کے بال دیکھ کر تو مجھے خالہ شکورن کی بکری یاد آجاتی ہے۔” آئمہ نے بھی اپنی جلن نکالی۔
رفعت بیگم ہنسنا شروع ہوگئی ۔
” اماں میرے بال نہ کاٹنا۔اتنی مشکل سے بڑے ہوئے ہیں ۔” وہ نم ہوتی آنکھوں کے ساتھ بولی۔
” ویسے کیا فائدہ تیرا اتنا حسین ہونے کا۔شادی تو تیری ہو نہیں سکتی کیونکہ توں تو پاگل ہے۔” رفعت بیگم نے کہا۔
” اب خیر اتنی بھی پیاری نہیں ۔” ناعمہ نے منہ بنایا۔
” اماں میرے بال تو نہیں کاٹیں گی نا۔”ماہم کی سوئی وہاں ہی اٹک گئی۔
” نی تُو اپنی ماں کے ساتھ ہی کیوں نہ مر گئی۔ہا شبیر احمد ساری زندگی کچھ نہ دیا سوائے اس نمونے کے ۔”وہ اسے ایک ٹانگ رسید کرتے ہوئے بولیں ۔
وہ چارپائی سے نیچے گر گئی۔ماتھا چارپائی کی پائنتی سے لگا تھا۔
ناعمہ اور آئمہ ہنسنے لگیں ۔وہ شرمندگی سے زمین سے اٹھی اور دوبارہ سے رفعت بیگم کی ٹانگیں دبانے لگی۔
” میں عنایہ کو لے کر بہت پریشان ہوں ۔” ارسلان نے اپنے دوست حمزہ سے کہا۔
” کیوں کیا پھر سے عنایہ کی ملازمہ تمہارے رویے کی وجہ سے نوکری چھوڑ گئی۔” حمزہ نے پوچھا ۔
” نہیں اس دفعہ تو ملازمہ بہت اچھی ہے۔اور عنایہ اس کے ساتھ بہت اٹیچ ہے۔” وہ نفی میں سر ہلا کر بولا۔
” پھر؟ ”
” اس دن میری موجودگی میں عنایہ کا ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتے بچا۔میں سوچ رہا ہوں کوئی ایسی ملازمہ ہو جو ہر وقت اس کے ساتھ رہے۔”اس نے اپنا مسئلہ بتایا۔
” تو اس ہی ملازمہ کو زیادہ تنخواہ پہ رکھ لو۔”حمزہ نے مشورہ دیا۔
” مما سے کہا تھا انہوں نے کہا کہ شاید اس کی فیملی اجازت نہ دے۔اور مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔”وہ پیشانی مسلتے ہوئے بولا۔
” تم شادی کر لو۔”حمزہ نے اگلا مشورہ دیا۔
” میں سنجیدہ ہوں ۔” وہ ناگواری سے بولا۔
” تو میں بھی سنجیدہ ہی ہوں ۔نوکرانی اتنا خیال نہیں رکھ سکتی جتنا ماں رکھے گی۔”حمزہ سنجیدگی سے بولا۔
” سوتیلی ماں۔”
” ہاں وہ ہی۔”
” اس کی سگی ماں نے اس کی پروا نہیں کی ۔ایک غیر عورت کیوں کرے گی۔” اس کے لبوں پہ طنزیہ مسکراہٹ آئی۔
” سب ایک جیسے نہیں ہوتے۔دنیا میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں ۔” حمزہ نے اسے تصویر کا دوسرا رخ دکھایا۔
” پتا نہیں ۔میرے دل میں اب کسی عورت کے لیے کوئی جذبات نہیں ہوسکتے ۔اور کوئی عورت اتنی اچھی کیوں ہوگی کہ وہ محض ایک بچی کی پرورش کے لیے مجھ سے شادی کر لے گی۔” وہ استہزایہ انداز میں بولا۔
” تم کسی ایسی عورت سے شادی کر لو۔جو مجبور ہو جسے چھت چاہیے ہو۔” حمزہ نے کہا۔
” مجھے اس ٹاپک پہ بات نہیں کرنی۔” وہ ہاتھ اٹھا کر بولا۔
کمرے کے باہر کھڑی بیگم سراج کچھ سوچتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں ۔
” ابھی تو ارسلان دوسری شادی سے انکار کر رہا ہے لیکن کل کو وہ عنایہ کی بھلائی دیکھتے ہوئے مان جائے گا۔اور دوسری طرف زری اور احسن میں بھی اختلافات شروع ہوگئے ہیں ۔چھ آٹھ مہینوں تک یہ رشتہ ختم ہوجائے گا۔لیکن تب تک میں ارسلان کو نہیں روک سکتی۔
اسلیے بہتر یہ ہی ہے کہ میں خود ارسلان کے لیے کوئی لڑکی دیکھ لو۔ایسی لڑکی جو پیسے لے کر کچھ عرصے تک یہ رشتہ نبھانے کے لیے تیار ہوجائے ۔
جب زری واپس آئے گی تو اس کی حالت دیکھ کر ارسلان خود ہی اسے معاف کردے گا۔”بیگم سراج بستر پہ لیٹی جوڑ توڑ میں مصروف تھیں ۔
” زخم کیسا ہے تمہارا۔”ارسلان نے عنایہ کو کھانا کھلاتی ماہم سے پوچھا۔
” جی اب ٹھیک ہے۔”وہ حیران ہوتے ہوئے بولی۔
” پاپا اس کے ماتھے پہ بھی زخم لگا ہے۔”عنایہ نے کہا۔
ارسلان نے حیرت سے سامنے بیٹھی ماہم کی طرف دیکھا۔جو ماتھے پہ بنا گھومڑ چادر سے چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔
” یہ تو گھر میں گرنے کی وجہ سے بنا ہے۔” وہ نیچے دیکھتے ہوئے بولی۔
” تمہارا بہت بہت شکریہ۔اس دن تم نہ آتی تو پتا نہیں کیا ہوتا۔”وہ ٹھہر ٹھہر کر بول رہا تھا۔کسی کا شکریہ ادا کرنا اسے ہمیشہ سے مشکل لگا تھا۔
” آپ کیا مجھے نوکری سے نکالنے لگے ہیں؟” وقت خوفزدہ لہجے میں بولی۔
” نہیں ۔میں اب تمہیں نوکری سے نہیں نکال رہا۔” وہ مسکرا کر بولا۔
” بہت بہت شکریہ صاحب ۔”وہ بھی جواباً مسکرائی۔
ارسلان کو اس کی مسکراہٹ بھلی معلوم ہوئی۔
” تمہارے لیے میرے پاس ایک آفر ہے۔”وہ اصل بات کی طرف آیا ۔
” کیسی آفر۔”
” کیا تم عنایہ کے ساتھ رات میں بھی رک سکتی ہو ۔”اس نے پوچھا۔
” نہیں صاحب جی ۔اماں اجازت نہیں دیں گی ۔گھر میں بہت کام ہوتے ہیں ۔”وہ عنایہ کے منہ میں نوالا ڈالتے ہوئے بولی ۔
” میں تمہیں تین گنا زیادہ تنخواہ دوں گا۔” اس نے کہا۔
” اماں کبھی بھی نہیں مانیں گی۔اصل میں میری بہنوں کو کوئی کام نہیں آتا۔اسلیے سارے کام مجھے ہی کرنے پڑتے ہیں ۔”وہ سادگی سے بولی۔
” پھر بھی تم ایک دفعہ ان سے بات کر لینا۔” وہ صوفے سے اٹھتے ہوئے بولا۔
سیڑھیوں کے پاس کھڑی بیگم سراج کو لڑکی مل گئی تھی۔