“يہ كيسا دستور ہے الله اس دنيا كا اپنے ہى بے گانہ كر جاتے ہیں كيا ہوتا وه اگر مجھے اپنا ليتا اس قدر سنگ دل نكلے گا وه میں نے سوچا بهى نہیں تھا۔۔!
ياالله يه كيا ہو گیا ہے ، میں نے اس سے اظہار کیوں كيا اگرچہ جذبات دل میں ہى ركه ليتى تو كيا ہو جاتا !”
وه اپنى ہى سوچو میں گم تهى اسے پتا ہى نہیں چلتا كہ وه كتنى دير سے ایک ہى پوزيشن میں بیٹھى ہوہى ہے ، اگر زهرا اسے پكارتى نہیں ۔۔۔۔
“تم ابھی تک يہی ہو” ! وه حيران هو كر اسے ديكهتى هے۔۔۔۔ ” میں نے سوچا تھا اتنی بےعزتى كے بعد تم گهر چلى گئی ہو گى ! خير تم جيسى لڑکیوں میں شرم و حيا كہا ہوتى ہے ! اااو میڈم ایک بات ياد ركهنا صفيان صرف اور صرف ميرا ہے مجه سے چهينے چلى تهى تم ،! ” وه اتراتے ہوے اس كى طرف ديكهنے لگى۔امبرين كچه دير اسے ديكهتى رہى پهر اپنے اندر ہمت جمع كرنے لگى وه جانتى تهى وه جتنی كوشش كر لے اب بولنے كى ،وه نہیں بول پائے گى ليكن اسے بولنا تھا اگر نہیں بولى تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں وه اس سے اگے نہیں سوچ سكتى تهى۔ ۔۔۔۔
“زهرا میں كسى سے كچه نہیں چهينتى مجھے پتہ ہوتا کے تم دونوں ایک دوسرے میں انٹرسٹڈ ہو تو میں كبهى اپنے دل كا حال نہیں بتاتى ۔۔۔زهرا ۔۔۔”
” چپ ایک دم چپ اپنی اس گندى زبان سے ميرا نام مت لو كيونکہ تم يہ حق كہو چكى ہو ۔۔۔اور ایک بات اور ” وه جاتے جاتے پلٹى ” اج سے ميرا اور تمهارا راستہ الگ ميرے ليے تم اج سے اجنبی۔۔” وه غرائی ہوئی آواز میں بولى اس كا بس نہیں چل رہا تھا وه اسے كچا چباجاتى۔۔ليكن اس نے گهورنے سے كام چلایا اور چلى گئی۔۔۔۔۔
امبرين اسے دور جاتے ہوے ديكهتى رہى۔۔
دونوں اس بات سے انجان تهے كہ آنے والے وقت میں يہ پهر ملے گے ليكن اس وقت رونے كى بارى زهرا كى هو گى۔۔۔۔۔۔
!……………………………۔!
#یونیورسٹی میں يہ اس كا پہلا دن تھا ،وه بہت چپ اور اپنے آپ میں گم رہنے والى لڑكى تهى زهرا كو وه بہت اچهى لگى، معصوم سى موم سى لڑكى اس كے دل میں اتر رہى تهى اس نے اس سے دوستی كرنے كا سوچا۔۔
“ہائے سویٹ گرل!!” وه جو كتابوں میں گم تهى كسى كے پكارنے پر ايکے دم ڈر گئی ۔۔۔
اس نے اس طرف ديكها جس طرف سے آواز آئی تهى ۔
“۔اووو السلام عليكم ۔۔۔۔۔۔ كيسى ہے آپ ؟۔۔
“میں ٹھیک ۔۔تم سناؤں كہاں گم ہو كتابوں میں۔۔۔۔ خير ميرا نام زهرا اور اپ كا!”
“امبرين ميرا نام امبرين ہے !!” وه كہ كر كتابيں سائيڈ پر كرنے لگى اور اپنے ساته بيٹهنے كا كہا ۔۔۔۔۔۔۔۔
“وااؤؤ گڈ سویٹ نیم۔۔۔۔۔”
“تھنک یو زهرا جى ۔۔۔”
“ہاہاہاہاہا۔۔جسٹ سے زهرا نوٹ ،زهرا جى ۔۔۔۔۔۔۔”
زهراكو اس كا اس كے نام كے اگے جى لگانا مسكرانے پر مجبور كر گيا ۔۔۔۔۔
امبرين بهى مسكرا پڑى ،،
“اوو اور سناؤں تم يہاں كيا كر رہى ہو ہمارے ساتھ آؤ ہمارى gathering انجوائے كرو ”
۔۔”جى ضرور كرتى پر میں ابھی كسى كو جانتى نہیں اور میں دوست بهى كم بناتى ہو ۔۔۔۔۔۔آپ سے مل كر اچها لگا اب میں كام كرنے لگى ہو وه ميرا ایڈميشن بهى ليٹ ہوا ہے تو كافى كام ہے مجهے بهت كچه كور كرنا ہے ۔۔۔۔۔۔سو پليز ۔۔!”
“هههمممم۔۔جيسى تمهارى مرضی ۔۔۔مگر ميرا ہاته ہميشہ دوستى كے لیے اٹها رہے گا جب چاہوں اپنا لينا ۔۔۔۔”
“ههممم ضرور”
” ۔۔چلو يار میں چلتى ہو سب ویٹ كر رہے ہونگے۔۔۔۔۔”
“جى ضرور ۔۔۔۔۔”
وه دونوں ايک دوسرے كو ديكه كر مسكرائی ۔۔۔۔۔
امبرين اس كے چلے جانے كے بعد كتنى دير اسى جگہ كو ديكهتى رہى ہے جہاں سے وه ابھی گئی تهى ۔۔۔۔۔۔
اچانک ديكهتے ديكهتے منظر بدل گيا سامنے اوپر جاتى سيڑيا ايک دم غائب ہو گئی اور ارد گرد كا شور ختم ہو گيا اور اس كے كانوں میں ايک آواز گوجنے لگى ۔۔۔۔۔۔۔۔
“آپ۔۔۔
!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
“اماں آپ ميرے ساتھ ايسا كيسے كر سكتى ہے۔۔۔۔۔۔۔؟
اماں بوليں !” وه اماں كى آنكهوں ميں انسو ليے كافى دير ديكهتى رہى ليكن وہاں سرد مہرى كے سوا كچه نہیں تھا۔۔۔ دوسرى طرف كہڑى خاتون كے چہرے پر اج ايسى خوشى تهى ايسى چمک تهى جسے ديكه كے امبرين لرز گئی تهى۔۔۔۔۔۔ اج تو خوشى كا دن تھا اماں كے لئے اسى دن كا تو انتظار تھا اماں كو اج رات وه اپنے بهائی كى خواہش پورى كر رہى تهى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وه اس خوشى میں اتنا گم تهى امبرين كا بهى خيال نہ آيا ۔۔۔۔۔۔
“تم چپ كر جاؤں اچها اكبر كے ساتھ تيرا نكاح ہو جائے گا پهر سے ہم بہن بھائی ایک ہو جائے گے اب اٹھ رونا دھونا بند کر ” اتنا کہہ کر اماں وہاں سے چلی جاتی ہے امبرین کو روتا دھوتا چھوڑ کر ۔۔۔
آج کافی دنوں بعد اسے ماما اور بابا یاد ا رہے تھے بہت ذیادہ ۔۔ “ماما اپ واپس آجائیں نہ کیوں مجھے چھوڑ گئی ہیں ابو اپ کہاں چلے گئے ہیں” وه اپنا چہرا ہاتھوں میں چھپا کر کتنی دیر روتی رہی اسے خود نہیں معلوم آج وه بہت روئی اتنا آج تک نہیں روئی تھی وه۔۔۔۔۔۔۔۔
!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
“امبرین تم یہاں comfortable محسوس کر رہی ہونا بیٹا ۔۔۔۔
“جی خالہ بلکل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“اووو گوڈ اچھا رات میں تم جلدی سو گئی تھی بیٹا میں آج اسلام آباد جا رہی ہو آفس کے ورک کی وجہ سے جا رہی ہو ورنہ طبیعت ایسی نہیں کے جاؤ ۔۔۔”
آپ نہیں جاہے نہ پھر خالہ” ۔۔۔امبرین خالہ کی طبیعت کا سن کر پریشان ہو گئی تھی اور کیوں نہ ہوتی یہ وہی خالہ ہے جنہو نے اس کی ہر مشکل میں مدد کی تھی ۔۔۔
“کیا سوچ رہی ہو بیٹا ۔۔۔۔”
“ہاں۔۔۔ نہیں کچھ نہیں بس یوہی ۔”۔۔۔
“ھمممم اچھا بیٹا سفیان یہاں موجود ہے ریحان بھی اور الشبا کل تک آجائے گی تم اپنے کو اکیلا نہ سمجھنا ۔۔۔”۔
“اوکے خالہ……۔ سنے ۔۔۔۔۔۔” نسرین جو صوفےپے بیٹھی کب سے امبرین کی الجھن کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی جو بہت پریشان تھی ۔
“ادھر آؤ امبرین بیٹا میرے پاس آؤ ۔۔”
“۔۔۔۔جی خالہ”
” ۔۔۔۔میری طرف دیکھو”
” ۔۔۔جی ۔” ۔۔امبرین کے لئے یہ كام سب سے مشکل تھا وه اسی وجہ سے کب سے ادھر ٱدهر دیکھ رہی تھی
“جی خالہ کیا ہوا ۔۔”
“۔بیٹا پریشان ہو ۔” ۔۔اس جملے پر امبرین سے ان کی طرف دیکھنا مشکل ہو گیا تھا ۔۔۔۔
“جی خالہ ۔۔نہیں خالہ وه میں “۔۔اس کے گلے میں آنسو کے گولے پهسنے لگے ۔۔۔۔”کاش آج میں یہاں نہیں آتی اف اللّه میں کیا کرو ان امڈتے آنسو کو کیسے روکو ۔۔”۔۔
“کیا ہو گیا ہے بیٹا مجھے بتاؤ کسی نے کچھ کہا ہے ۔۔۔”…۔
ٹھنڈےپانی میں پھينک کر آنسو۔۔
ہم ،نے دریا ۔۔۔۔۔ جلا دیا صاحب۔
“وہ خالہ نہیں کسی نے کچھ نہیں کہا خالہ اپ سے کچھ پوچھنا تھا ۔۔۔۔۔۔”
“ہاں بیٹا پوچھو ۔۔۔۔”
“خالہ وہ میں کہہ رہی تھی کہ ۔۔۔”
“کیا ہوا امبرین بیٹا بولو کیا بولنا ہے “۔امبرین کا رکھ رکھ کے بولنا انہیں اور تشویش میں ڈال گیا۔۔۔۔
“خالہ یہ کہ سفیان اور زهرا کا اپس میں کیا relation ہے”۔۔اتنا سا کہہ کر وہ پسینہ پسینہ ہو گئی وہی جانتی تھی کے اسے کتنی تکلیف ہوہی ہے اتنا سا بھی پوچھنے میں ۔۔۔۔۔۔
نسرین ایسے سوال کے لئے تیار نہیں تھی وہ امبرین کو یک ٹک ديکھے گئی واقی میں یہ بچی بہت معصوم ہے ۔۔یہ تو بلکل اپنی ماں کی طرح ہے بھولی سی معصوم سی یہ تو فرح کی شکل صورت اور عادات والی تھی وہ اسے دیکھتی رہی پل بھر کے لئے انہیں لگا سامنے وہ نہیں فرح ہو ۔۔۔۔۔
“مجھےآج لگ رہا ہے میرے سامنے تم نہیں تمہاری ماں بيٹھی ہوہی ہے وہ بھی اسی طرح ہر بات پر پریشان ہو جاتی تھی ایک دن ایسے ہی وہ میرے پاس بیٹهى تھی (اپی اجمل اور اپ صرف اچھے دوست ہے نہ۔۔ہاں پر تم کیوں پوچھ رہی ہو ۔۔۔۔۔وہ بس ویسے ہی میں نے اماں ابّا کو اپ دونو کی شادی کی باتيں کرتے سنا ہے ۔۔۔۔۔سچی تم سچ کہہ رہی ہو ۔۔۔ہاں اپی کیوں اپ کیوں اتنی خوش ہے وہ تو اپ کے صرف دوست ہے نہ دوست” ۔۔۔اس نے دوست پر بہت زور دے کر بولا تھا ۔۔)۔۔۔اس وقت میں نے دل میں سوچا تھا کتنی بیوقوف ہے یہ لڑکی یہ کیا جانے ہماری دوستی کب محبت میں بدل گئی ۔۔۔۔
اورمجھے تو بعد میں پتا چلا بیوقوف وہ نہیں میں تھی جو سمجھ ہی نہیں سکی کے میری بہن جو اجمل کو بے انتہا چاہتی تھی اور یہ چاہت دل میں چھپاہے سلمان کے گھر اس کی بیوی بن کر چلی گئی اور تمہاری پیدائش کے بعد دونو اس دنیا سے چلے گۓ ۔۔۔۔وہ جو کافی دیر سے خالہ کی باتيں سن رہی تھی اس کا دل کر رہا تھا بھاگ جائے کہی ۔۔۔اس نے جو سنا تھا ۔۔۔اپنے والدین کے بارے میں وہ سب جھوٹ تھا ۔۔
“خالہ آپ سچ کہہ رہی ہے امی ابو ایک ایکسیڈنٹ پر فوت ہوئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔”
“جی بيٹا بلکل میں سچ کہہ رہی ہو۔کیوں تمہیں نہیں پتہ”۔۔۔
“مجھےتو اماں نے کہا تھا میری ماں مجھے چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی تھی اور ابو نے اسی وجہ سے امی کو مار دیا جب وہ ریلوے سٹیشن میں ملی تھی ماما کا خون دیکھ کر اس کے عاشق نے پاپا کو بھی مار دیا”۔۔اتنا سا کہنے کے بعد اس کی سانسیں اکھڑ نے لگی ۔۔۔۔
“چی چی چی ۔۔۔۔اتنی گندی ذہنیت ۔۔بیٹا یہ سب جھوٹ ہے ۔۔شادی کے بعد فرح نے تو مجھ سے تعلق ہی ختم کر دیا اجمل کی وجہ سے اور اجمل تو اسے آج بھی اپنی چھوٹی بہن ہی سمجھتے ہے میری بہن نے کبھی سلمان کو تکلیف نہیں دی ۔۔۔سلمان تو خود کہتا تھا میری بیوی جیسی بیوی کسی کی نہیں وہ دونو بہت خوش تھے اپنی میرڈ لائف میں لیکن کبھی کبھی انسان کی خوشيوں کو بہت بری نظر لگ جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔”
امبرین اپنا کیا گیا سوال بھول بھال کر اپنی ماں کے بارے میں سوچنے لگی اس کا دل گوائی دیتا تھا اس کی ماں ایسی نہیں ہو سکتی تھی وہ اج تک اپنی امی سے نفرت نہ کر سکی ۔۔۔۔۔۔
“اور بیٹا جہاں تک سفیان اور زهرا کا تعلق ہے تو بیٹا وہ دونو ایک دوسرے کے ساتھ منسوب ہیں پر بیٹا ۔۔۔پتا نہیں کیوں مجھے زهرا نہیں پسند میں اپنے بیٹے کی وجہ سے چپ ہو ورنہ میں نے اسے بہت سے لڑکو کے ساتھ پارٹیز اور کلبز میں دیکھا ہے” ۔۔۔
“۔ خالہ اپ زهرا کو اپنی بہو نہیں بنانا چاہتی”۔۔۔امبرین بلکل پھیکے لہجے میں بولى تهى ۔۔۔
“ہاں بیٹا میں تو نہیں چاہتی پر چھوڑو بیٹا وہ دونو خوش تو میں بھی خوش ۔۔”
“اوووو ۔۔۔اچھا اپ جا رہی ہے پیکنگ ہو گئی اپ کی ۔”۔
“جی بیٹا ہو گئی ہے ۔۔چلو اب میں کچھ فائلز دیکھ لو تم بھی کچھ کھا لو جا کر ۔۔۔”۔
دونو ایک دوسرے کو مسکرا کر دیکھتى ہے ۔۔۔۔وہ ووڈن کی لمبے سے دروازے کو واہ کرتی ہوہی بوگن ویلہ کی بیل کو دیکھتی ہوہی سیڑیو کی طرف چل پڑی ایک نئی سوچ کے ساتھ وہ سیڑیو سے اترتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
!!!!!!!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!
اماں کے چلے جانے کے بعد وہ اٹھی اور اپنے کمرے سے نکل کر بڑے والے کمرے میں ا گئی جہاں اس کی بچپن سے لے کر جوانی تک کی ساری تصویرے تھی وہ ایک ایک کر کے سب تصویروں کو دیکھتی رہی اور روتی رہی اچانک سامنے پڑا لینڈ لائن بجنے لگا وہ بھاگی فون کی طرف اور اٹھیا
“ہیلو۔۔”۔اگے سے کوئی جواب نا آیا ۔۔۔
“ہیلو۔۔۔”امبرین جو کسی انجان آواز کو سن کر اکبر کی آواز سمجھی
“۔۔تم اکبر بھائی ہو نہ۔”۔ وہ گلے کے بل چیلائ تھی ۔”۔تم میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے میں ایسا ہونے نہیں دونگی سنا تم نے”۔۔۔۔ چیلانے اور رونے کی ششدت سے اس کی آواز روند گئی وہ اگے بھی بہت کچه بولنا چاہتى تھی بول نہ پائی۔۔۔۔۔۔
“مس امبرین میں اکبر نہیں سفیان ہو اور یہ اکبر بھائی ہيں کون اور یہ کیا کر رہے ہيں”۔۔۔سفیان چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ لیے بولا
“جی وہ سفیان کون ۔۔اپ نسرین خالہ کے بیٹے تو نہیں”۔۔۔وہ اپنے پر کافی کابو پا چکی تھی ۔۔
“جی آپ نے بلکل ٹيكه پہچانا” ۔۔۔۔۔
“اپ میری خالہ سے بات کروائے جلدی ”
“وہ ابھی گھر میں نہیں ہیں آپکی طرف انے کا کہہ کر گئی تھی سیل فون بھی روم میں چھوڑ گئی وہی سے اپ کے گھر کا نمبر ،ملا ہے” ۔،۔۔۔سفیان نے ساری بات بتا کر لمبا سانس لیا ۔۔۔
“وہ ابھی تک نہیں آئی ۔۔۔سفیان اپ میری مدد کريں پلیز ورنہ اماں مجھے اکبر بھائی سے بیا دے گی وہ الریڈى شادی شدہ ہيں اور ان کے بچے مجھ جتنے ہے مجھے بچا لئے پلیز ”
وہ روتے ہوے بولے جا رہی تھی اسے پتہ نہیں تھا کی پیچھے کھڑا کوئی اس کی باتیں سن رہا ہے ۔۔۔
“واہ بی بی واہ جیسی ماں ویسی بیٹی ۔۔۔جو گل اس نے کھلائے تو بھی تو وہی کھلائےگی اکبر نیچے مولوی صاحب کے پاس بیٹھا ہے چل نیچے ۔۔۔۔”
اماں غصے میں اسے كهينچتى ہوہی گھسیٹ رہی تھی اور وہ بار بار کہہ رہی تھی “سفیان مجهے بچا لیں اپ کو خدا کا واسطہ ہے بچا لیں ۔۔۔۔۔۔”
دوسری طرف سفیان اس کی چیخيں سن کر غصے میں آ گیا ۔۔۔۔
“یہ لوگ اتنے ظالم بھی ہو سکتے ہيں۔”اس کو یہ سوچ کر بڑا تعجب ہوا ۔۔اسےامبرین کے لفظ یاد آنے لگے۔۔
“سفیان مجهے بچا لے اپ کو خدا کا واسطہ ہے مجهے بچا لے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...