واسع رافع سے ایک سال هی بڑا تها جبکہ دونوں کا رشتہ دوستوں کا سا تها جبکہ احسن اور احمد دونوں جڑواں تهے واسع سے تین سال جبکہ رافع سے دو سال چهوٹے…… اور حریم سے تین سال بڑے…..
.
.
.
دوسری طرف شاہ میر تها رافع اور واسع کا بچپن کا مشترکہ دوست….
.
شاہ میر کے والدین مجید صاحب کے قریبی دوستوں میں شمار هوتے تهے اسکے والد بهی وکالت کے شعبے سے منسلک تهے
کچهه سال پہلے شاہ میر کے والدین ایک بهیانک پلین کریش میں زندگی کی جنگ هار گئے تهے تبهی واسع اور رافع کی فیملی نے آگے بڑھ کر اس مشکل وقت میں اسے سنبهالا
.
شاہ میر کی ایک بڑی بہن بهی تهی جیسے والدین نے اپنی زندگی میں هی اپنے گهر کا کردیا تها اور وہ امریکہ میں اپنے شوهر اور بچوں کے ساتھ مقیم تهی….
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
آج حریم کی برتھ ڈے تهی صبح صبح جب وہ اٹهی تو اسکا پورا کمرہ گلاب کے پهولوں سے مہک رها تها بیڈ سے لے کر فرش تک گلاب هی گلاب تهے اور ایک کونے میں ڈهیروں تحفے رنگ برنگی پیکنگ میں پڑے تهے… دیواروں پہ وشنگ کارڈ لگے هوۓ تهے
حریم کو خوشگوار سی حیرت هوئی
ابهی وہ حیران هو ہی رہی تهی کہ سب لوگ اندر داخل هو”هیپی برتھ ڈے”
“هیپی برتھ ڈے حریم”
سب نے اسے وش کیا تها اور دهیڑوں دعائیں دی تهیں
تبهی احسن اسکا پسندیدہ چاکلیٹ کیک لے آیا
“ایکسوزمی لیڈیز راستہ دیں پلیز”
کیک اوپر کرکے دادی اور حنا بیگم سے بولا
“هیپی بڑتھ ڈے مائی ڈیئر سسٹر”
کیک اسکے سامنے رکھ کر بولا اور وہ مسکرا کر سب کو دیکهنے لگی
“چلو بیٹا اب جلدی سے کٹ کرو”
مجید صاحب بولے
“جی تایا ابو”
.
.
اور پهر شام کو گهر پہ هی چهوٹی سی پارٹی کا اہتمام کیا گیا
گهر والوں کے علاوہ شاہ میر کو بهی مدعو کیا گیا تها
“بهابی میں نے بریانی کو دم لگا دیا هے لائیں یہ میں فرائی کرتی هوں آپ جا کر ریڈی هوجائیں”
سلمہ بیگم نے حنا سے کہا جو کباب فرائی کر رهی تهی
“ارے نہیں میں کر لیتی هوں اٹس اوکے”
حنا بیگم خوشدلی سے بولیں
“بهابی میں کر لوں گی آپ جا کر حریم کو بهی وہ ریڈی هوئی کہ نہیں”
“چلو ٹهیک هے تم بهی آ جانا جلدی سے”
حنا بیگم بولیں تو سلمہ نے سر ہلا دیا
.
“بیٹیاں بهی کتنی جلدی بڑی هوجاتیں هیں نا”
سلمہ بیگم بولیں تو فاروق صاحب بهی مسکرا دئیے
“تم کیوں اداس هو…”
فاروق صاحب بولے
“نہیں بس سوچ رہی هوں آج میری بیٹی بیس سال کی هوگئی هے اور پتہ هی نہیں چلا کل کیبات لگتی هے پوری گهر میں چهوٹے چهوٹے قدموں سے گهمومتی پهرتی تهی”
“یہی تو بات هوتی هے آج یہاں تو کل کسی اور کے آنگن میں رونق بخشیں گی یہ بیٹیاں”
فاروق صاحب بهی اداس هوگئے
“فاروق. سلمہ کہاں هو تم دونوں”
نزهت بیگم کی آواز پہ دونوں چونکے اور پهر مسکراتے هوۓ باهر کی جانب چل دئیے…
.
“اسلام و علیکم انکل”
فاروق صاحب کو دیکهکر شاہ میر نے جلدی سے سلام کیا
سب اس وقت لاونج میں بیٹهے تهے
“وعلیکم سلام. جیتے رهو کیسے هو بیٹا”
فاروق صاحب گرم جوشی سے ملے
“اللہ کا احسان هے انکل آپ کیسے هیں”
“بهئی تمهارے سامنے هوں”
فاروق صاحب بولے تو سب مسکرا دئیے
“گهر وغیرہ سیٹ هوگیا”
سلمہ بیگم نے پوچها
“بس آنٹی ایک دو دن میں هوجاۓ گا”
“اور عمارہ کیسی هے بچے وغیرہ”
حنا بیگم نے اسکی بہن کے بارے میں پوچها
“جی آنٹی سب ٹهیک هیں”
.
اور پهر خوش گپیوں کے بعد سب ایک بڑے سے هال میں آ گئے جیسے چاروں بهائیوں نے خوب محنت سے سجایا تها
کیک واسع لے آیا تها جبکہ گفٹس وغیرہ رافع نے احمد احسن کے ساتھ ملکر ٹیبل پہ رکھ دئیے تهے
“ارے بهئی یہ برتھ ڈے گرل کدهر هے”
دادی نے پوچها
تبهی حریم هال میں انٹر هوئی
اور سب نے اسے نظروں کےحصار میں لے لیا جبکہ شاہ میر کو اپنی هارٹ بیٹ مس هوتی محسوس هوئی
بےبی پنک کلر کے فراک سفید دوپٹہ ڈالے اور چوڑی دار پاجامہ پہنے پاؤں میں نازک سی سینڈل براؤن بالوں کو کهولے هلکے سے میک اپ کے ساتھ وہ سیدهی شاہ میر کے دل میں اتری….
.
“ماشاءاللہ میری بچی کو نظر نہ لگ جاۓ”
سلمہ بیگم بولیں
“میری گڑیا تو بہت هی پیاری لگ رهی هے”
حنا بیگم اسے گلے لگاتے هوۓ بولیں
باری باری سب سے ملی اور سبهی نے اسکی بے حد تعریف کی
“میری بیوٹی فل چڑیل هیپی برتھ ڈے”
رافع اسے اپنے ساتھ لگاتے آهستہ سے بولا
“تهینکس رافع بهائی”
“هیپی برتهه ڈے مس حریم”
سب سے آخر میں شاہ میر نے وش کیا
اور وہ مسکرا دی
“چلو جلدی کاٹو کیک”
دادو بولیں تو سب نے انکی هاں میں هاں ملائی بے حد خوشگوار ماحول میں کیک کاٹا گیا اور پهر کچهه دیر کے بعد ڈنر بهی سب نے ساتهه ملکر کیا…
.
.
اس دوران نزهت بیگم کے دماغ میں بس ایک هی بات چل رهی تهی اور وہ بات رات کو انہوں نے اپنے بیٹوں اور بہوؤں کے ساتھ شیئر کی…
“مجهے تو شاہ میر میں کوئی برائی نظر نہیں آرهی اپنے گهر کا بچہ هے آنکهوں کے سامنے بڑا هوا هے تم لوگ بتاؤ کیا کہتے هو”
نزهت بیگم باری باری سب کی طرفدیکهتے هوۓ بولیں
“مگر اماں وہ امریکہ میں رها هے دو سال اگر وهاں کوئی شادی…..؟
حنا بیگم نے دانستہ بات ادهوری چهوڑی جبکہ سلمہ بیگم نے بهی حنا کی بات سے اتفاق کیا
“نہیں حنا…. شاہ میر نے ایسا کچھ نہیں کیا هے میں نے اپنے دوست سے سب پوچهه لیا هے وہ وهاں شاہ میر کی مکمل رپورٹ رکهتا تها”
مجید صاحب بولے شاہ میر کے روز و شب کی خبر رکھ کر انہوں نے صحیح معنوں میں دوستی کا حق ادا کیا تها
“پهر تو بهائی صاحب همیں زیادہ سوچنا نہیں چاهیے کیوں سلمہ”
فاروق صاحب بولے
“جی جیسے آپکو ٹهیک لگے”
شاہ میر کی پرسنلٹی سب کو پسند آئی تهی یہ بات فی الحال گهر کے بچوں کو نہیں بتائی گئی تهی
.
.
.
“دادو آپ سو تو نہیں رهیں”
رات ایک بجے کے آس پاس حریم نے نزهت بیگم کے کمرے کے دروازے پہ ناک کرکے پوچها
“نہیں نہیں بیٹا اجاؤ وهاں کیوں کهڑی هو آجاؤ میرا بچہ”
دادی پیار سے بولیں
“کیا بات هے میری گڑیا کو نیند کیوں نہیں آرهی”
“پتہ نہیں دادو”
وہ آکر انکی گود میں سر رکهه کے لیٹ گئی
“اچها لا بالوں میں تیل لگا دیتی هوں پهر اچهی نیند آجاۓ گی کیسے جهاڑ جیسے بال هو رهے هیں
”
اسکے بالوں کو دیکهتے هوۓ بولیں
“دادو نہیں میں نے آج هی شاور لیاتها پلیز تیل نہیں”
وہ تیل سے شدید الرجک تهی
“دادو…..”
“هاں دادو کی جان”
اسکے سر پہ پیار سے بوسہ دیا
“دادو کیوں نا هم واسع بهائی کے لئے اچهی سی لڑکی ڈهونڈیں”
حریم بولی تو نزهت بیگم مسکرا دیں
“واسع کی باری بعد میں پہلے تو میں اپنی گڑیا بیٹی کی شادی کروں گی”
نزهت بیگم بولیں
“آپکو اتنی جلدی هے مجهے نکالنے کی”
آنکهیں دکها کر بولی
“بیٹی جتنی جلدی اپنے گهر کی ہوجاۓ اتنا هی اچها هوتا هے”
“وہ تو هے دادو…. مگر میرے لئے ذرا اچها سا شوهر ڈهونڈنا آپ”
“بے شرم ایسے نہیں بولتے اپنے منہ سے”
هلکا سا ہاتھ اسکے گال پہ مارتے هوۓ بولیں
“تو پهر کس کے منہ سے بولتے هیں دادو”
وہ بهلا کہاں هار ماننے والی تهی
“تیرے سے کوئی نہیں جیت سکتا”
“دادو بتا رہی هوں آپکو بس ایک چیز هو اس میں”
“کیا؟؟”
“خوبصورتی بہت پیارا هو بس یہ میرا خواب هے”
“کیسا فضول خواب هے تیرا… شوہر خیال کرنے والا عزت اور پیار کرنے والا هونا چاهیے خوبصورتی کا اچار ڈالنا هے”
“بس مجهے خوبصورتی اٹرئکٹ کرتی هے دادو”
“اچها بس سو جا اب جاکر”
نزهت بیگم بولیں
“اوکے گڈ نائٹ دادو”
چٹ پٹ انکا منہ چوم کر یہ جا وہ جا….
جبکہ نزهت بیگم اسکی سوچ پہ مسکرا دیں
“پاگل لڑکی “
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...