ہما اپنے شوہر کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ امریکہ سے آنے والے تھے۔ اس نے دونوں نھنی کلیوں کو تیار کر دیا تھا اس کی بیٹی گوری چٹی بلکل باربی ڈال تھی جبکہ دوسری بچی موٹے نقوش والی سانولی بچی تھی۔
ہما کی سوتیلی نند بچی کو جنم دیتے ہی چل بسی۔ وہ اس کی فرینڈ بھی رہ چکی تھی۔ بیوی کے مرتے ہی اس کے شوہر نے بچی اس کے حوالے کر دی۔ اس نے بھی شوہر کی بہن ہونے کے ناطے اور دوستی کا حق نبھانے کے لیے اس زمہ داری کو قبول کر لیا۔ حالانکہ اس نے دو بچیوں کی زمہ داری کو احسن طریقے سے نبھایا۔ شوہر نے کوئی خاص اعتراض نہ کیا کیونکہ بہن سوتیلی ہی سہی بہن تو تھی۔ شوہر کو بہن سے خاص لگاؤ نہ تھا مگر اسے پالنے پر اعتراض نہ کیا۔ وہ اپنے شہر میں اکیلی رہتی تھی۔ شوہر بھی باہر تھے۔ اب وہ پاکستان میں آ کر بزنس کرنا چاہتے تھے۔ شوہر کے آنے سے چند دن پہلے ہما کی بہن نے اسی شہر میں گھر بنا لیا۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا۔ ساس سسر گاوں میں رہنا پسند کرتے تھے۔
ہما کی بہن نرگس اپنی بھانجی پر جان چھڑکتی۔ وہ ہما سے دو سال بڑی تھی مگر دبلی پتلی پتلے نقوش والی تھی۔ جبکہ ہما گوری چٹی اور قدرے موٹی تھی۔ اس کے شوہر نے ابھی تک بیٹی سے ملے نہ تھے مگر اپنی پری جیسی خوبصورت بیٹی سے ملنے کو بےقرار تھا۔ ڈھیروں تحائف اس کے لیے خریدے تھے۔
اج اس نے آنا تھا وہ بچیوں کو تیار کر کے اس کی پسندیدہ ڈشیں بنانے کے لیے نرگس کے ساتھ کچن میں مصروف تھی۔ نرگس اس کی ہیلپ کے لیے ا گی تھی۔ اس کا بیٹا ہما کی بیٹی سے دو سال بڑا تھا۔
بچوں کو کارٹون لگا کر دے کر ساتھ میں کھلونے دیکر کام والی ماسی کو ان کے پاس بٹھا دیا تھا۔ کیونکہ بچوں کی کھلونوں پر لڑائی ہو جاتی تھی۔ اور ہما یا نرگس کام کے دوران ا کر لڑائی نبٹھاتی تھی۔
نرگس بہن کو اکثر سناتی رہتی کہ آجکل اپنے بچے پالنا مشکل ہے اوپر سے تم اس مصیبت کو گھر لے آئ ہو۔ کیا ضرورت ہے۔ میں تو کہتی ہوں اسے اب بھی وقت ہے واپس اس کے باپ کو دے آو۔ خود شادی کر کے عیش کی زندگی بسر کر رہا ہو گا۔ نرگس کہتی اس کا پتا کرواو۔ ہما جواب دیتی کہ اس نے اس کے ساتھ بھاگ کر شادی کی تھی۔ اس لیے گھر والوں نے اس سے ناتہ توڑ لیا تھا۔ اس کے شوہر سے بھی ملنا گوارا نہ کیا۔
ہما نے بچی لیتے ہوئے اس سے کہا تھا کہ وہ اب دوبارہ اس سے رابطہ نہیں کرے گا۔ اس نے اپنے گھر والوں کو اس شادی کے بارے میں کچھ بتایا نہیں تھا۔ بیوی مر گئی اور اس نے چند ماہ بعد ہما سے فون پر بچی کا پوچھا تو ہما نے بہت افسوس سے بتایا کہ بچی کو نمونیہ ہو گیا تھا اور وہ جانبر نہ ہو سکی اور فوت ہو گئی۔ میں سوری آپ کی امانت کو سنبھال نہ سکی۔ آپ کو بدلے میں اپنی بچی دینے کو تیار ہوں۔ اس نے کہا نہیں۔ مجھے بچی کا افسوس تو ہے۔ اور آپ پر بھی بھروسہ ہے۔ مگر مجھے بچی کی طرف سے فکر لگی رہتی تھی۔اب کم از کم اس کی فکر سے آزاد ہو گیا ہوں وہ اللہُ تعالیٰ کے حکم سے ماں کے پاس چلی گئی ہے۔ آپ کے تعاون کا شکریہ۔
ہما نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ اب آپ کو مجھ سے کھبی بھی رابطے کی ضرورت پڑے گی۔ پلیز آپ اب دوبارہ کال کھبی مت کیجئے گا۔ میں بچی کی فوتگی کی کال کرتی مگر مجھ سے آپ کا نمبر ڈلیٹ ہو گیا تھا۔ اچھا ہوا آپ نے خود کر لی ورنہ میں بہت ٹینشن میں تھی۔
اس نے بہت شکریہ ادا کیا اور دوبارہ کھبی کال نہ کرنے کا وعدہ کیا۔
ہما کے شوہر آے اور اپنی پری سے ملکر نحال ہو گے۔ بولے ہما تم نے مجھے اس پری کا تحفہ دے کر خوش کر دیا ہے۔ تمھیں پتہ ہے میں حسن پرست ہوں۔ بیٹا ہو یا بیٹی بس خوبصورت ہو۔ اگر میری اپنی بیٹی میری بہن کی بیٹی جیسی ہوتی تو میں دیکھتا بھی نہ۔ شکر ہے کہ یہ خوبصورت ہے۔ بلکہ پری ہے۔ یا اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ تو نے میرے دل کی مراد پوری کی۔
نرگس اکثر اسے پرائ بچی پا لنے پر طنز کا نشانہ بناتی رہتی۔ وہ اس بچی کو ڈانٹ ڈپٹ کرتی رہتی۔ اور اپنی بھانجی پر جان وارتی۔
جب اچھے اسکول میں داخلے عروبہ اس کی بیٹی اور نتاشا اس کی نند کی بیٹی کو داخل کروانا تھا تو نرگس نے اس کے شوہر کے سامنے اتنے کچھ بولی کہ وہ بھی convince کر دیا کہ وہ بھی اسے اسکول داخل کروانے کے خلاف ہو گیا۔ اسے گھر کی نوکرانی بنا کر رکھو اور ہر کام سکھاو۔ یہ میری عروبہ کی خدمت کرے گی۔
نرگس کی شخصیت بہت رعب دار تھی۔ ہما کا شوہر اس کی بہت عزت کرتا۔ اس کو آپا پکارتا۔ نرگس کا شوہر اس کے لئے موم کا گڈا تھا جدھر موڑو مڑ جاتا۔ جبکہ ہما کا شوہر ضدی ہٹ دھرم اور رعب جمانے اور اپنی بات منوانے والا تھا۔ بیوی کو غصہ دیکھاتا مگر دوسروں کے ساتھ بہت اچھا تھا۔ وہ نرگس اور ان کے شوہر کی بہت عزت کرتا اور پروٹو کول دیتا۔ جس کی وجہ سے ہما کے گھر پر اس کا پورا hold رہتا۔
ہما اپنے شوہر کی وجہ سے بہن کو کچھ کہہ نہ سکتی۔ کیونکہ وہ عروبہ کے لئے چیزیں لاتی اس پر جان چھڑکتی اس وجہ سے وہ ہما کے شوہر کی نظر میں عزت پاتی۔ کیونکہ عروبہ میں باپ کی جان تھی۔
نرگس کا بیٹا سعد بھی عروبہ کا خیال رکھتا۔ جس کی وجہ سے عروبہ کا باپ سعد سے پیار کرتا اور اس کے لیے بھی تحفے لاتا۔ وہ خوش ہوتا اور نرگس بھی خوش ہوتی۔
ہما سوچتی کہ اس نے اس کی بہتر تربیت اور پڑھانے لکھانے اور دوسروں کے عتاب سے بچانے کے لیے اس کے باپ سے جھوٹ بولا کہ وہ مر گئی ہے تاکہ وہ یکسوئی سے اس کی تربیت کر سکے۔ مگر یہاں تو اسے اسکول داخل کروانا دشوار تھا۔ وہ اس بن ماں کی بچی کو سینے سے لگا کر پیار کرتی۔ وہ بہت سمجھدار بچی تھی اور صبر والی بھی۔ ہما کا شوہر اسے غصے سے گھورتا اور ڈانٹتا رہتا۔ وہ کوئی شرارت نہ کرتی۔ نہ ہی عروبہ سے لڑتی یا کھلونے مانگتی۔ ہما اس کے لیے سستے کھلونے لا کر دیتی۔ شوہر کا حکم تھا کہ اس پر پیسے ضائع کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ خود پڑھی لکھی تھی مگر شوہر نے جاب کی اجازت نہ دی۔
ہما جب عروبہ کو پڑھانے بیٹھتی تو ساتھ نتاشا کو بھی پڑھاتی۔ اس طرح اس نے میٹرک کا اسے امتحان دلوا دیا وہ درمیانے نمبروں سے پاس ہوئی جبکہ عروبہ پڑھائی میں بہت لاہق تھی۔
ایف ایس سی کے بعد عروبہ نے مہنگے کالج میں داخلہ لے لیا۔ وہ میرٹ پر آئی تھی۔ نتاشا کو ہما نے آرٹس کی بکس لا دیں۔ وہ اس میں محنت کرنے لگی۔
ہما اور اس کا شوہر الاونج میں بیٹھے چاے پی رہے تھے کہ عروبہ کے کمرے سے بہت زور زور سے چلانے کی آوازیں آنے لگیں۔ سب اس کے کمرے کی طرف بھاگے۔
ہما اور اس کا شوہر عروبہ کے کمرے کی طرف دوڑے جہاں سے اس کے چلانے کی آوازیں ا رہی تھی۔ وہ باتھ روم میں تھی اور spider کی رٹ لگا کر چلا رہی تھی۔ نتاشا بھاگ کر چابی لے آی اور اندر جا کر اسے مارا اور تیزی سے باہر نکل آئی۔ ماں نے ڈانٹ کر کہا کہ تم بچی ہو کیا۔ اس کے تو دانت بھی نہیں ہوتے کاغذ جیسا تو وہ معصوم ہوتا ہے۔ شوہر اسے ڈانٹنے لگا کہ خبردار جو میری بیٹی کو کچھ کہا تو۔ میں دیکھ رہا ہوں آجکل تم اس پر کچھ زیادہ ہی سختی کرنے لگی ہو۔ اپنی لاڈلی نتاشا کو تو موم کچھ کہتی نہیں ہیں مجھے ہی ہر وقت ڈانٹتی رہتی ہیں عروبہ نے باپ کی شہہ ملتے ہی فوراً باپ سے شکایت لگائی۔ باپ نے بیوی کو گھورا۔
ہما شوہر کو چاے دینے گئی تو شوہر نے پھر سے اسے کہا کہ تم آجکل میری بیٹی کو زیادہ ڈانٹنے لگی ہو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا تم جانتی ہو کہ میں اس کے معاملے میں کتنا sensitive ہوں۔ بیوی تپ کر بولی ساری زندگی آپ نے اسے بے جا لاڈ دیکر بگاڑا ہے۔ اسے گھر داری نہیں آتی۔ بس سارا فارغ وقت وہ کانوں میں ہیڈ-فون لگا کر لیب ٹاپ پر لگی رہتی ہے۔ آپ اسے بگاڑ رہے ہیں۔ تو باپ نے بڑے وثوق سے کہا تم فکر نہ کرو اس کا کوئی بوائے فرینڈ نہیں ہے میں نے بہانے سے اس سے کئی بار اس سے پوچھا اس کا لیب ٹاپ چیک کیا موبائل چیک کیا۔ مگر شکر ہے کچھ نہیں ملا۔ تو وہ طنزیہ مسکراتے ہوئے بولی ہو سکتا ہے جوانی میں جب آپ نے بھی اپنی گرل فرینڈ نہیں سب شادی شدہ تھیں زیادہ ان کے نام پلمبر، نائ، مستری، قاضی وغیرہ کے نام سے save کیے ہوں۔ وہ اپنی شرمندگی چھپاتے مسکراتے ہوئے بولا نہیں میں نے سب چیک کر لیے ہیں۔
ہما بولی ایک بار واش روم کا نل خراب ہو گیا اس دن آپ موبائل گھر بھول گئے تھے میں نے پلمبر کے نمبر پر فون کیا تو آگے سے عورت بولی میں چونک گئی۔ پھر میں نے اسے میسج کیا کہ میں بات نہیں کر سکتا ہم میسج پر بات کریں گے۔ میں اسے جانو لکھتی وہ اور جوش میں میری جان، ہنی اور کیا کچھ لکھتی رہی۔ پھر میں نے اس کے شوہر کا نمبر بہانے سے پوچھا کہ اس کا کونسا نیٹ ورک ہے وہ بولی u میں نے کہا اس کے آخر میں 236 آتا ہے کیا وہ بے دھیانی میں بولی نہیں یہ نہیں یہ آتا ہے اور پورا نمبر بول گئ۔ پھر میں نے اسے بتایا کہ میں کون ہوں اور اب میں یہ ساری میسجیز تمھارے شوہر کو فارورڈ کروں گی۔ وہ منتیں کرنے لگی۔ میں نے اسے دھمکی دی کہ اگر تم نے میرے شوہر کا پیچھا نہ چھوڑا تو اس نے بات بھی نہ پوری کی اور وعدہ کیا کہ وہ نہ تمھارے شوہر کو اس بارے میں بتاے گی اور نہ اب کھبی اس سے تعلق رکھے گی۔ میں نے اسے ڈانٹا کہ تم جیسی گھریلو آوارہ عورتوں کی وجہ سے کچھ مرد پہلے تو ایسی عورتوں سے دوستی رکھتے ہیں پھر شادی کے بعد اپنی شریف بیوی پر شک کرتے عمر گزار دیتے ہیں۔ اور اس معصوم عورت کی زندگی جہنم بنی رہتی ہے۔ تب سے میں سمجھ گئی کہ تم دل پھینک ہو۔ شوہر شرمندہ ہوتے ہوئے بولا تم نے مجھ سے بہت لڑائی بھی کی تھی۔ میں بھی ڈھیٹ بن گیا تھا اور تمھیں مرد کے پاس جو ہتھیار ہوتا ہے طلاق کی دھمکی دی اور اس کے بعد تم گھر سے نہ گی اور مجھے بھی عقل آ گی میں اندر سے ڈرتا تھا کہ تم مجھے چھوڑ نہ جاو۔ دراصل مرد کو باہر لفٹ ملے تو وہ پھر بیوی کو نہیں گردانتا۔ بظاہر مرد بیوی پر حاوی ہو ظاہر کرے کہ وہ اس سے ڈرتا نہیں ہے مگر بیوی آخر بیوی ہوتی ہے۔ وہ آخر میں واپس اسی کی طرف ہی آتا ہے۔ بیوی بھی گھر چھوڑ کر نہ جائے صبر سے کام لے اور پیار سے دبے لفظوں میں سمجھاتی رہے تو وہ اثر لیتا ہے۔ غصے اور زور زبردستی سے تو وہ ضدی ہو جاتا ہے۔
وہ بیوی کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بولا تمھارا شکریہ کہ تم نے مجھے سمجھا اور میری خامیوں کے باوجود میرا ساتھ نہ چھوڑا۔ مجھے پیاری سی پری جیسی بیٹی دی۔
نتاشا جو ہما سے چاے کا پوچھنے آ رہی تھی۔ کمرے میں سے باتوں کی آواز ا رہی تھی تو اس نے سن لیں۔ ہما کو شبہ ہوا وہ اسے چاے کا کہہ کر آی تھی وہ اٹھ کر کچن میں آئ تو وہ چاے بنا رہی تھی ہما نے کہا چاے بناتے دیکھا تو سمجھ گئی کہ پرانی چاے ٹھنڈی ہو چکی تھی ہما نے پوچھا کیا تم نے سب سن لیا تو اس نے سر جھکا لیا۔ ہما نے کہا ہوں۔ دیکھو بیٹا کچھ مرد ایسے ہوتے ہیں کچھ عورتیں بھی ایسی ہوتی ہیں۔ مگر پھر وقت کے ساتھ ساتھ سب کو عقل آ جاتی ہے۔ ان لوگوں کو زیادہ تر توجہ اور پیار کی کمی ہوتی ہے جو وہ دوسروں میں ڈھونڈتے ہیں۔ وقت کے ساتھ میچورٹی اے یا کوئی ٹھوکر لگے تو ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں انسان ہیں۔ غلطی ہو جاتی ہے۔ شوہر تو بلکل برداشت نہیں کرتا اور گھر اجاڑ دیتا ہے کچھ عورتیں بھی برداشت نہیں کرتی اور گھر اجاڑ کر مرد کو سزا دینے کی بجائے خود سزا میں پڑ جاتی ہیں۔ میں بھی غلطی کرتی چھوڑ کر جاتی تو آج اس گھر کی مالکہ نہ ہوتی۔ اور اپنی بچیوں کو کہاں چھوڑتی۔ نتاشا اس کے گلے لگ کر بولی آپ نے مجھے سگی ماں سے بڑھ کر پیار کیا ہے۔ اتنے میں عروبہ کچن میں آئی اور بولی یہ کیا تم میری موم کو اموشنل کرتی رہتی ہو۔ یہ صرف میری موم ہیں کہنے سے یا پیار کرنے سے تمھاری موم نہیں بن جاہیں گی۔ ماں نے کہا عروبہ ایسی باتیں نہیں کرتے۔ اسے نتاشا نے چاے پکڑائی۔ تو اس نے زور سے زمین پر پٹخ دی۔ اور اونچی آواز میں روتی ہوئی کمرے میں ناراض ہو کر چل دی۔ باپ شور سن کر بھاگ کر آیا کچن میں چاے گری اور ٹوٹا کپ دیکھا تو سمجھ گیا اور تیزی سے بیٹی کے کمرے کی طرف گیا تو وہ منہ ادھر کیے لیٹی رو رہی تھی۔ باپ نے جا کر اس کے کندھے کو ہلایا اور پکارا کیا ہوا میری معصوم کلی کو۔ وہ زاروقطار روتے ہوئے بولی۔ میں اس گھر میں فالتو ہوں صرف یہی موم کی سگی ہے ہر وقت اس پر پیار لٹاتی ہیں اور مجھے ڈانٹتی ہیں۔ شوہر نے بیوی پر غراتے ہوئے کہا کہ تم جانتی ہو کہ میں اس کے معاملے میں کتنا sensitive ہوں۔ اگر اس کی آنکھوں میں آنسو اہے تو جی چاہتا ہے ساری دنیا کو آگ لگا دوں۔ اور رلانے والے کو بھی۔ عروبہ اٹھ کر بیٹھی ٹکر ٹکر باپ کو زبان سے شعلہ برساتے دیکھ رہی تھی جبکہ نتاشا دروازے کی چوکھٹ سے سمٹی کھڑی سہم رہی تھی۔ ماں پریشان حال کھڑی تھی۔ شوہر بولا اے نادان عورت اپنی سگی اولاد کو کمپلیکس کا شکار کر کے پرائ اولاد کو پیار جتاتی ہو۔ تم اپنی دوستی نبھانے کے لئے ہم باپ بیٹی کو زہنی کرب میں مبتلا کرتی ہو۔ بیوی صفائی دیتے ہوئے بولی۔ بچپن میں میں نے بولا تھا کہ اگر آپ کو مسئلہ ہے تو اسے یتیم خانے چھوڑ آتے ہیں آپ ہی نہیں مانے تھے کہ نہیں میری بہن کی بیٹی ہے بےشک سوتیلی ہی سہی۔ وہ شرمندہ ہوتے ہوئے بولا مگر اب تو اس سے جان چھڑا لو اس کی شادی کر دو۔ عروبہ بولی کسی چوکیدار۔،ڈرائیور کا رشتہ جلدی سے ڈھونڈ کر ڈیڈ اسے اس گھر سے نکالیں۔ باپ نے بیٹی کو لاڈ پیار کیا اور اسے گاڑی نکال کر شاپنگ پر لے گیا۔
نرگس اور اس کا بیٹا سعد آے۔ سعد نے آہستہ سے نتاشا کے کان کے قریب جاکر پوچھا وہ گوری چڑیل کدھر ہے تو وہ جو اداس تھی ایک سعد ہی تھا جو اس سے ہنس بول لیتا تھا۔ اسے اداس دیکھ کر بولا آج پھر اس چڑیل نے کچھ ڈرامہ کیا ہے۔ سنڈے کو اس نے انکل کی شہ میں کچھ نہ کچھ create ضرور کرنا ہوتا ہے اس بہانے پروٹو کول بھی ملتا ہے اور شاپنگ بھی ہو جاتی ہے۔ چلو چھوڑو تم دل پے مت لیا کرو۔ جب تم دونوں اس گھر سے شادی ہو کر چلی جاو گی تو جان چھوٹ جائے گی اور ہاں چاے پلاو اور ہمیشہ کی طرح مزے دار پکوڑے بھی بنانا۔ وہ مسکراتی ہوئی کچن میں چل پڑی۔
ماں نے فون کر دیا کہ تمھارے خالہ آی ہیں۔ سب چاے پکوڑے کھا رہے تھے کہ عروبہ ڈھیر سارے شاپرز ہاتھ میں اٹھاے چہکتی مسکراتی داخل ہوئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...