ہسپتال کی راہداری میں تیز تیز قدم اٹھاتے زیان کے پیچھے آنے والا اور کوئی بھی نہ تھا۔اس کے ساتھ آنے والوں میں کوئی بھی نہیں تھا۔وہ پنڈی سے ملتان اکیلا آیا تھا۔ ملتان آنے کی وجہ وہ فون کال بنی تھی جو انجبین کی رخصتی کے چند ہی منٹ کے بعد موصول ہوئی تھی۔ رخصتی ہوئے آج تیسرا دن تھا۔
زیان کی امی جس ٹرین سے واپس آرہی تھیں وہ ملتان کے قریب الٹ گئی تھی۔ اس حادثے کی اطلاع ملتے ہی زیان ملتان چلا آیا تھا۔نائلہ آپی اب تک اس سب سے لا علم تھی شاید۔ تب ہی تو انہوں نے کوئی فون نہیں کیا۔
زیان نے بھی انکو فون نہیں کیا تھا، یہ سوچ کر کے کہیں ان کے گھر کی خوشیاں ماند نہ پر جائیں۔
ماں کی حالت اتنی بھی خراب نہیں تھی کہ نائلہ کو پریشان کرتا۔
وارڈ کے باہر گھومتے ہوئے زیان کو ایسا لگا جیسے کوئی اسے آوازیں دے رہا ہے۔
زیان نے پلٹ کر دیکھا تو سامنے سے واجد بھائی اور نائلہ آپی آتے دیکھائی دیے۔
نائلہ نے پاس آتے ہی ایک زور دار چانٹا زیان کے گال پر دے مارا۔چانٹا اس قدر شدید تھا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آس پاس موجود لوگوں نے رک کر ان دونوں بہن بھائی کو ضرور دیکھا۔”بہت بڑے ہو گئے ہو تم؟ باتیں چھپاؤ گے زیان؟ مجھ سے بھی۔ میری ماں یہاں موت کے منہ میں ہے اور تم اپنا غصہ دیکھا رہے ہو کیا ثابت کرنا چاہتے ہو بولو؟؟؟۔
شرم کے مارے زیان کا سر جھک گیا۔
واجد: “خدا کے لیے تماشہ مت بناؤ یہاں” انہوں نے اپنی بیوی کا بازو پکڑ کے پیچھے کیا،”امی کس روم میں ہیں زیان؟”۔
زیان نے ہاتھ کے اشارے سے کمرے کی جانب رہنمائی کی۔ لیکن خود بت بنا ادھر ہی کھڑا رہا۔ اس کے قدم زمین میں گڑھ گئے تھے۔وہ ہلنے کی کوشش تو کر رہا تھا لیکن بےکار تھا یہ سب بھی۔
شرم کے مارے زیان سے کھڑا نہیں ہوا جا رہا تھا سمسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ ابھی گر جائے گا۔
نہ جانے کتنی دیر کے بعد اسے کسی نے سہارا دے کر بینچ پر بیٹھا دیا تھا۔وہ اس مددگار کا چہرہ نہیں دیکھ پایا تھا۔بینچ پر بیٹھتے ہی زیان نے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا تھا۔۔
__________________
چار دن کے بعد زیان اپنی امی کے ساتھ گھر واپس آگیا۔
ماں کے زخموں کی نوعیت کافی گھمبیر تھی۔
چوٹیں بہت شدید تھیں اس وجہ سے زیان کافی پریشان تھا کہ کیسے اماں کو اکیلا چھوڑ کر دفتر جائے گا۔کون ماں کا خیال رکھے گا۔
نائلہ اور واجد تو عمرہ کی ادائگی کے لیے رات کو ہی چلے گئے تھے۔۔شمائلہ تو خود اس قابل نہیں تھی کہ وہ سفر کرتی اور یہاں آکر ماں کا خیال رکھتی۔
زیان انہیں سوچوں میں گم بیٹھا تھا کہ ماں نے زیان کو آواز دی، زیان بھاگ کر ماں کے پاس آگیا۔
زیان:جی امی کیا ہوا؟ آپ ٹھیک تو ہیں نا؟ زیان ماں کےقریب بیٹھ گیا۔
ماں: کیوں جاگ رہے ہو اب تک زیان؟ بیٹا کتنے دن ہو گئے تم سوئے بھی نہیں اچھی طرح، سو جاو چلو۔
زیان: امی آپ اکیلی ہوں گی تو کسی چیز کی ضرورت پر سکتی ہے آپکو۔ میں بھی سو گیا اگر تو پھر آپ کیا کریں گی۔ زیان نے ماں کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور اپنے ہونٹوں سے لگا لیا۔
ماں: میں بلا لوں گی اگر ضرورت ہوئی اب چلو سو جاؤ اچھا یہاں سو جاؤ بستر لگا لو چلو۔۔۔ ماں نے پیار بھری ڈانٹ سے زیان کو سونے کے لیے منا لیا۔
زیان ماں کی ہدایات کے مطابق بستر لگا کر ماں کے پاس زمین پہ لیٹ گیا۔
_________________
“زیان بیٹا جاگ جاؤ دفتر نہیں جانا کیا”؟ ماں کی آواز سنتے ہی زیان ایسے اٹھ بیٹھا جیسے وہ رات بھر سویا ہی نہیں، جیسے وہ اس انتظار میں جاگتا رہا ہو کہ کب ماں اسکا نام لیں اور کب یہ ان کی خدمت کے لیے اٹھ کھڑا ہو۔
زیان: اماں آج ہفتہ ہے،مجھے چھٹی ہے۔ زیان اٹھ کر بیٹھ گیا۔اسکی آنکھوں کی سرخی میں اب تک کمی نہیں آئی تھی۔
ماں: سوئے نہیں بیٹا؟ ماں نے بیٹے کی آنکھوں کی لالی کو دیکھ لیا تھا۔
زیان: امی سویا تھا نا ابھی آپکی آواز سے جاگ اٹھا۔۔۔زیان نے اپنی پوری قوت صرف کردی تازہ دم نظر آنے کے لیے۔
ماں: اچھا ماں سے بھی جھوٹ بولو گے اب، چلو دیکھو کؤن آیا ہے۔
بیٹے کو بھیج کر ابھی ماں نے آنکھیں بند ہی کی تھیں کہ باہر سے کسی کی زیان کے ساتھ باتوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ “کون ہے زیان”
“کون ہو سکتا ہے آنٹی، میں ہوں جبین” جبین تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔ زیان کی امی جبین کو دیکھ کر مسکرا دیں، انہوں نے ہاتھ بڑھا کر جبین کے سر پہ ہاتھ رکھا۔
جبین اپنی امی کے ساتھ آئی تھی۔ ان لوگوں کو کل رات ہی تو خبر ملی تھی کہ زیان کی والدہ کے ساتھ اتنا بڑا حادثہ پیش آیا ہے۔
جبین: یہ دیکھیں آنٹی آپ تو زخمی ہو کر بیڈ پہ ہیں میری اماں ایسے ہی سلو موشن ہو گئی ہیں۔ آجائیں اماں کہاں رہ گئی۔ جبین نے جیسے ہی آواز دی اس لمحے زیان کلثوم آنٹی کا ہاتھ تھامے ہوئے اندر داخل ہوا۔
جبین کی امی کو گھٹنوں کی تکلیف تھی جس کے باعث ان کے چلنے کی رفتار بے حد سست تھی۔
“پتہ نہیں یہ زیان کہاں رہ گیا؟” زیان کی امی فکرمندی سے بولیں، “چائے ہی بنا دیتا آپ لوگوں کو”۔
جبین: چائے میں بنا لاتی ہوں آنٹی انکو کیوں زحمت دیتی ہیں! بتایں کس طرف ہے کچن؟ وہ اٹھتے ہوئے بولی۔ ہمدردی کا جزبہ بدرجہ عتم موجود تھا جبین میں۔ اس کا بس چلتا تو مدر ٹریسا بن جاتی۔
زیان کی امی نے ہاتھ کے اشارے سے کچن کا راستہ سمجھایا تو جبین فوری طور پہ کچن کی جانب چلی گئی۔
(چولہے پہ رکھی چائے کی پتیلی میں ابال آتے جا رہے تھے اور زیان نہ جانے کن خیالوں میں کھویا ہوا تھا)۔
جبین نے آگئے بڑھ کر چولہے کی آنچ کم کر دی اور زیان کے چہرے کے قریب ہاتھ لے جا کر چٹکی بجائی،جبین کے ایسا کرنے پر زیان ایک دم سے خیالوں کی دنیا سے جیسے واپس لوٹ آیا تھا۔۔
جبین: کیا سوچ رہے تھے آپ؟ جبین نے چائے بناتے ہوئے سوال کیا۔
زیان چائے کے لیے پیالیاں تلاش کر رہا تھا، اس نے پلٹ کر جبین کو دیکھا اور چند لمحے دیکھنے کے بعد اس نے
جبین کا پوچھا ہوا سوال دوہرایا من ہی من میں۔
زیان کے چہرے سے اس کے دل کی حالت کا پتہ لگانا بہت مشکل کام تھا۔
وہ کیا سوچ رہا ہے کب سے سوچ رہا ہے یہ بات کسی کو معلوم نہیں ہو سکتی تھی۔
زیان: واصف علی واصف صاحب کہتے ہیں “جس نے اپنی پریشانی کا تزکرہ کسی سے کیا اس نے گویا اپنی پریشانی میں اضافہ کیا”۔
زیان نے بسکٹ اور نمکو کو پلیٹس میں ڈالا اور جبین کو چلنے کا اشارہ کیا۔
جبین نے ٹرے لینا چاہی کہ وہ لے جائے گی مگر زیان نے انکار کر دیا، “آپ مہمان ہیں ہماری کام کرنے نہیں دوں گا”.
جبین زیان کے اس انداز سے بے حد متاثر ہوئی۔
زیان نے چائے امی اور آنٹی کو ڈال کر دی،اور خود کمرے سے جانے لگا تو ماں نے روک لیا کہ جبین کو بھی ساتھ لے جاو گھر دیکھا دو۔ہم بوڑھی عورتوں میں بیٹھ کر اسے اکتاہٹ ہی محسوس ہوگی۔
جبین: جی آنٹی بلکل ٹھیک کر رہی ہیں آپ! ان کو تو بس میری شادی کی ہی جلدی ہے۔ جبین نے تیز تیز بولتے ہوئے چائے کا گھونٹ بھر لیا۔ چائے گرم تھی،اس کا اندازہ جبین کو نہ ہو سکا وہ تو بس بچوں کی طرح چہک چہک کر بات کر رہی تھی (ہائے امی اففف میرا منہ) جبین منہ پہ ہاتھ رکھے باہر کو بھاگی۔ لیکن کیا فائدہ اب تو جو ہونا تھا ہو چکا۔
اس سے پہلے کے جبین کی اماں اس کی اس احمقانہ حرکت پر غصہ کا اظہار کرتیں۔ زیان جلدی سے چینی کا ڈبہ اٹھا لایا۔
زیان: یہ لیجے منہ میں ڈال لیں اس سے جلن کم ہو گی۔ زیان نے چینی سے بھڑا چمچ جبین کی جانب بڑھادیا۔
اس دن کے بعد سے جبین اور زیان کے بیچ میں دوستی کا آغاز ہو گیا۔
__________________
وقت اپنی رفتار سے ہی چلتا ہے، چاہے وہ وقت خوشی کا ہو یا وہ لمحے درد بھرے ہوں۔ فرق صرف اس بات کا ہوتا ہے کہ ہم احساس نہیں کرتے۔ خوشی ملتے ہی ہم یہ سمجھ لیتے ہیں جیسے یہ دائمی خوشی ہمارے لیے ہی تو ہے، ہم اسے کبھی ختم ہونے نہیں دیں گے۔نہ ہی اس بات کا تصور کرتے ہیں۔ بلکل اسی طرح ہم غمی کے، دکھ،تکلیف رنج و الم میں سب سے پہلے یہ ہی سمجھ لیتے کہ اب یہ گھڑیاں بیتیں گی ہی نہیں۔کبھی یہ دور بیتنے کا نہیں۔
کچھ ایسا ہی زیان نے سوچ رکھا تھا کہ پے در پے آنے والی مشکلات کبھی اس کی زندگی سے جائیں گی ہی نہیں۔غم کی اس طویل رات کی کوئی صحر نہیں ہو گی۔ زیان نے اپنی ہمت ہار دی تھی۔وہ اکیلے سفر کر کے تھک چکا تھا۔ تب اللہ تعالی نے اس کی زندگی میں جبین کو داخل کیا۔ کچھ لوگ ہماری زندگیوں میں بس یوں ہی بیٹھے بیٹھائے شامل ہو جاتے ہیں۔جن کے آنے سے ہماری زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں بھی آتی، اور کچھ لوگ ہمیں سبق دے کر دور چلے جاتے۔
جبین کی شکل میں زیان کو زندگی میں پہلی بار کوئی دوست ملا تھا۔زیان کی امی جب تک بستر سے لگی رہیں، تب تک ہر روز جبین زیان کے گھر آتی،گھر کی صاف صفائی اور کھانے پینے کا سب کام نبٹا کر ہی جاتی۔
زیان کی امی نے آج جو بات زیان سے کی تھی اس کو سن کر زیان الجھ کر رہ گیا تھا۔ بات صرف زیان تک کی ہوتی تو کوئی بات بھی تھی۔ انہوں نے تو یہ بات جبین کی امی سے بھی کر لی تھی۔
سب کچھ ایسی عجلت میں ہوا کہ وہ دونوں آپس میں ایک دوسرے سے بات نہیں کر سکے۔
دونوں مائیں اس بات کا بے حد مان کرتی تھیں کہ ان کی اولاد ان کے فیصلے کے خلاف کبھی جا ہی نہیں سکتی۔
ماں کے بات کرنے کے بعد شمائلہ نے بھی فون کر کے زیان سے اسی بارے میں بات کی تھی۔
بہن سے بات کرنے کے بعد زیان اس بات پہ غور کرتا رہا۔
“بہت کم وقت لگتا ہے جب کوئی عام انسان خاص ہو جاتا ہے۔
ضروری نہیں ہوتا کے وہ ایک خاص جزبہ محبت کا ہی ہو۔وہ جزبہ محبت سے بھی خاص ہوتا ہے۔جب آپ تکلیف میں ہوں سہارا دینے کو تو بہت سے لوگ پاس آتے ہیں، مگر کوئی ہوتا ہے جو ان خاص لمحات میں کسی انسان کے لیے بہت خاص ہو جاتا ہے”۔
________________
امی منگنی ضروری ہے؟؟؟ زیان نے ٹیبل پہ رکھے ہوئے اخبار کو اٹھایا اور چلتا ہوا ماں کے قریب رکھی کرسی پہ بیٹھ گیا اور ماں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔
ماں: “ہاں ہے ضروری،ایک ماں کے لیے بہت ضروری ہے۔ایسی ماں جس کا ایک ہی بیٹا ہو۔
ماں نے عینک کے اوپر سے بیٹے پہ ایک نظر ڈالی اور کتاب بند کر دی۔ عینک اتار کر زیان کی طرف متوجہ ہوئی۔
ماں کی کہی ہوئی باتوں کا زیان کے پاس فوری طور پہ کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ کوئی الٹی سیدھی بات کر کے ماں کا دل دکھانا نہیں چاہتا تھا۔
بہت دیر خاموش رہنے کے بعد زیان نے ماں کی طرف دیکھا۔ “آپی سے بات کر لی آپ نے؟ ان کی نند والا مسئلہ حل ہوگیا امی؟”۔ زیان نے ماں کی توجہ اس معاملے کی طرف بھی دلوائی۔
ماں نے چونک کر زیان کو دیکھا اور غصہ سے عینک اتاری اور گھورتے ہوئے زیان کو دیکھنے لگیں۔
ماں: تم اس واہیات لڑکی میں انٹرسٹڈ ہو زیان؟۔۔۔۔
زیان کی امی کو سچ مچ ہی غصہ آگیا تھا وہ وہاں سے اٹھ کر چلی جاتیں اگر ان کے پاؤں میں بندھا ہوا پلستر انہیں اس کام سے باز نہ رکھتا۔
زیان: امی میں اور اس میں؟؟؟ آپ بھی کمال کرتی ہیں۔ زیان کی آنکھوں میں شرارتی سی مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔
ماں: تو پوچھا کیوں پھر؟ بولو۔
زیان: أپ جانتی تو ہیں امی ہو آپی کو، وہ اس بات پر بھی تماشہ لگا دیں گی۔ زیان کے لہجے میں بیزاری تھی۔
ماں: نمبر ملاؤ بہن کے گھر کا میں بات کرتی ہوں۔تمھارے سامنے فون کرتی ہوں تا کہ تمہیں کوئی بھی وجہ نہ ملے انکار کی۔ ماں نے پیار سے زیان کا کان کھینچا۔
زیان نے مسکراتے ہوئے موبائل سے نمبر ڈائل کرنا شروع کر دیا۔ لیکن پھر رک بھی گیا۔
“امی گھر والے پر کرنے کی کیا ضرورت ہے، موبائل پہ کرتا ہوں نا” زیان نے ماں کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
ماں: موبائل خراب ہے شمائلہ کا، تب ہی کہ رہی ہوں۔اور پہلے بات خود کرنا۔ بات اس سے کرتے نہیں پھر کہتے ہو وہ غصہ کرتی ڈانٹ دیتی۔ ماں نے بیساکھی کا سہارا لیے اور اپنے کمرے میں چلی گئیں۔
ماں کو جاتے دیکھ کر زیان نے چاہا کہ وہ اٹھ کر ان کی مدد کرے لیکن انہوں نے اشارے سے بیٹھے رہنے کو کہا۔کال مل جانے کی صورت میں فون اندر لے آنے کی ہدایت کرتی ہوئی وہ کمرے میں چلی گئیں۔۔۔۔۔
_____________________
شادی کی پہلی ہی رات ہے اور یہ محترم پہلی ہی رات اتنے لیٹ ہیں۔ ہونہہ! انجبین نے سر تکیہ سے لگا کر گھڑی کی طرف دیکھا اور غصہ سے منہ موڑ لیا۔
راولپنڈی سے لاہور تک کے سفر نے انجبین کو تھکا کر رکھ دیا تھا۔لیکن ذہنی طور پر وہ اب بھی تازہ دم تھی۔ گھر سے آتے ہوئے فاصلہ تہہ کرتے ہوئے وہ اداسی اور رونا دھونا تو کہیں پیچھے ہی رہ گیا تھا۔ انجبین ابھی انہیں سوچوں میں کھوئی ہوئی تھی کہ کمرے کا دروازہ کھلنے کی آواز سنتے ہی ایک دم سے روائیتی دلہنوں کی طرح بیٹھ گئی۔
وہاب کمرے میں داخل ہوا تو انجبین کو ٹھیک ہوتے بیٹھتے دیکھ کر مسکرا دیا۔
آہستہ آہستہ چلتے ہوئے وہاب بیڈ کے قریب آچکا تھا۔ وہاں وہاب کا قدم اٹھتا یہاں انجبین کے دل کی دھڑکنیں مزید تیز ہونے لگ جاتیں۔
وہاب کے سلام کرنے کے جواب میں انجبین کی آواز حلق میں ہی اٹک کر رہ گئی۔اس کے وہ تمام پلان جو بنا رکھے تھے دیر سے آنے کی سزا کے طور پر وہ یک دم سب دماغ سے مٹ گئے تھے۔۔۔۔ انجبین کے نروس ہونے کا یہ عالم تھا کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور ماتھے پہ پسینے کے قطرے نمودار ہونے لگے تھے۔ “شکر خدا کا کہ ابھی تک گھونگھٹ نہیں اٹھایا گیا ورنہ وہاب تو بہت مزاق بناتے ہائے اللہ جی!” انجبین نے آنکھیں بند کر لی تھی۔
وہ کوئی احمقانہ حرکت نہیں کرنا چاہتی تھی اس لیے خاموش رہی۔اور وہاب کی اگلی بات کا انتظار کرنے لگی۔سلام کے جواب میں اس نے بس سر ہلانے میں ہی آفیت جانی۔
وہاب: شادی مبارک ہو انجبین۔ وہاب نے بات کا آغاز کرنے کے لیے مبارک دینے سے بہتر اور کچھ نہ جانا۔
انجبین نے تب تک اپنی حمت جمع کر لی تھی، مبارک کے جواب میں اس نے بھی وہاب کو مبارکباد دی۔
وہاب نے گھونگھٹ اٹھانے کے لیے ہاتھ آگئے بڑھایا ہی تھا کہ انجبین بول اٹھی،
انجبین: یہ کیا کر رہے ہو آپ؟ پیھے ہٹیں چلیں! انجبین تیزی سے بولنے کو تو بول گئی مگر اسے جلد ہی احساس ہو گیا کہ اب یوں بات کرنا اچھا نہیں لگے گا اب وہ بچی نہیں رہی۔یہ بات سوچتے ہی اس نے سوری کہ دیا ہلکا سا۔
وہاب: کیوں انجبین میں شوہر ہوں تمھارا۔ وہاب کے لہجے سے لگ رہا تھا جیسے وہ بھی بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔اور بے حد نروس بھی۔
انجبین: مسٹر شوہر آپ کچھ بھول رہے ہیں کہ گھنگھٹ اٹھانے سے پہلے آپ کونجھے منہ دیکھائی بھی دینی ہے۔ انجبین ناراض ہوتے ہوئے بولی۔
وہاب: میں ہوں نا تمھارا گفٹ۔ وہاب کی آواز میں جادو تھا شاید جسے سنتے انجبین نرم پر جاتی تھی۔
انجبین: آپ تو گاڈ گفٹڈ ہیں نا۔میں تو اپنی منہ دیکھائی کا تحفہ مانگ رہی ہوں آپ ہو کہ کنجوسی کر رہے۔۔
انجبین کی بات سن کر وہاب نے جیب سے ایک باکس نکال کر انجبین کی جانب بڑھا دیا۔ یہ رہا آپکا گفٹ اب تو دیکھنے دو نا! مزید صبر نہیں ہوتا نا۔
انجبین: نو نو شوہر جی پہلے یہ گفٹ کھول کر پہنائیں مجھے چلیں شاباش۔
وہاب تو جانے کب سے اس انتظار میں تھا اس نےباکس کو کھول کر اس میں سے ایک بہت پیاری گھڑی نکال کر ہاتھ میں رکھی اور دوسرا ہاتھ انجبین کی کلائی پہ۔
“یا خدا” یہ تھا وہ جملہ جو انجبین کے منہ سے اچانک نکل گیا جب وہاب نے انجبین کی کلائی کو تھاما کہ گھڑی پہنا سکے۔
وہاب: کیا ہوا؟ درد ہو رہی ہے کیا؟ وہاب نے انجبین کی نرم ملائن کلائی کو اپنے مظبوط ہاتھوں سے سہلاتے ہوئے پوچھا۔
انجبین کو وہاب کے لمس نے جیسے اس دنیا سے ایک لمحے میں ہی انجان کر دیا تھا۔وہ اپنا ہاتھ پیچھے کر رہی تھی،اپنی سی تمام کوشش کر رہی تھی کہ وہاب اسکی بازو چھوڑ دے،ساتھ ہی دل کی یہ تمنا کہ کاش مجھے یوں ہی پکڑے رہیں۔مجھے نہ چھوڑنا پلیز! ۔۔
انجبین سے سوال جا جواب نہ دیا جا سکا،وہ اپنے آپ میں سمٹنے سی لگی تھی۔وہاب نے انجبین کی بے چینی دیکھی تو ہاتھ کی گرفت مزید سخت کر دی اور اچانک سے اس نے گھنگھٹ بھی اٹھا دیا۔۔۔۔
انجبین اس طرح اچانک سب کچھ ہوتے دیکھ کر بوکھلا گئی اور کلائی آزاد کروا کر اس نے اپنا چہرہ اپنے ہاتھوں میں چھپا لیا۔ “یوں مت دیکھیں نا مجھے پلیز!” انجبین خود میں سمٹتی جا رہی تھی۔اور بے حد نروس بھی ہو رہی تھی۔ وہاب نے آگے بڑھ کر انجبین کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور ہاتھ میں لگی مہندی دیکھنے لگا۔یہ سب کچھ اس قدر تیزی سے ہوا کہ گفٹ وہیں کا وہیں رہ گیا۔
انجبین نے ہاتھ پیچھے کھینچ لیے اور ابرو کا وہ مخصوص سا انداز بنا کر بولی،
انجبین: پہلے یہ گھڑی تو پہنائیں اور اس کے ساتھ لگی انگوٹھی بھی۔
وہاب نے دونوں باتوں پہ ایک ہی منٹ میں عمل کر دیا اور پھر موئدب ہو کر بیٹھ گیا۔
وہاب: معلوم ہے یہ گھڑی کس لیے؟ اور انگوٹھی بھی۔
انجبین جو ان کی وجہ نہیں جانتی تھی اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
“یہ گھڑی میرے اور تمھارے درمیان ایک رابطہ ہے۔یہ میری نشانی ہے جسے میں ہر وقت تمھاری کلائی میں دیکھنا چاہتا۔اسی کلائی میں جہاں میں نے پہلی بار چھوا تھا تم کو۔۔۔”
وہاب کی نظروں میں کچھ ایسا تھا، جسے انجبین نے آج سے پہلے اپنے لیے کسی اور کی آنکھوں میں نہیں دیکھا تھا۔ ” یہ انگوٹھی تمھاری آنکھوں کے نام، شفاف موتیوں جیسی یہ خوب صورت آنکھیں۔۔۔۔
وہاب کا میٹھا لہجہ گہری باتیں اپنا اثر دیکھا رہی تھیں۔
چند لمحے قبل تک لڑنے کے لیے تیار بیٹھی انجبین اب وہاب کی آغوش میں سمٹی ہوئی بیٹھی تھی۔ سر وہاب کے سینے پر رکھے وہ اس کے دل کی دھڑکن کو سن سکتی تھی۔مدھم سی دھک دھک کی لیے پہ چلتا دل۔۔۔اور انجبین کی نرم انگلیوں سے کھیلتے وہاب کے مضبوط ہاتھ۔۔۔ رات نہ جانے کتنی ہی دیر وہ دونوں باتیں کرتے رہے۔۔۔۔
______&&_________
اٹھ بھی جائیں کتنا سوتے ہیں وہاب آپ، دس بج رہے ہیں اور نائلہ آپی دو بار ناشتے کے لیے بلانے آچکی ہیں۔ انجبین وہاب کے پاس کھڑی تھی اور جھک کر اس کا ہاتھ تھپک رہی تھی۔ اس میں اب بھی ایک جھجک سی باقی تھی۔ وہ کھل کر اپنی موجودگی احساس وہاب کو کیسے دلائے یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔جبین نے بھی تو کوئی “ایس ایم ایس” نہیں کیا۔
“یا اللہ کیسے اٹھاؤں میں انکو” حمت کر کے انجبین وہاب کے قریب بیٹھ گئی اور سوچنے لگی کیا کروں۔
(چائے بنا کر لاتی ہوں گرم گرم چائے میں ہاتھ ڈالتی ہوں،فلموں ڈراموں میں بھی تو ایسا ہوتا ہے، ہاں یہی ٹھیک ہے)
اسی خیال کو سوچتے ہوئے انجبین کمرے سے باہر نکلنے ہی لگی تھی کہ یاد آیا کہ وہ ابھی ایک دن کی دلہن ہے اور ایک روز کی دلہن کو بھلا کون کچن میں چائے بنانے دے گا۔ یہ خیال آتے ہی وہ واپس پلٹ آئی۔جہاں وہاب گھری نیند میں سو رہا تھا۔
پاس خاموشی سے بیٹھنے کی کوشش میں، درھم سے بیڈ میں جا گری۔۔ اسے کچھ سمج میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیسے ہوگیا اچانک سے۔
انجبین نے پلٹ کر دیکھا تو اس کے پاؤں میں پہنی ہوئی ہائی ہیل والی سینڈلز میں سے ایک سینڈل کی ہیل ٹوٹ چکی تھی۔ اس کے ٹوٹنے کے باعث وہ ایک دم سے سلپ ہوئی اور وہاب ک اوپر گرنے سے بال بال بچی۔۔ انجبین کے حواس ابھی پوری طرح سے بھال نہیں ہوئے تھے کہ اچانک اسے اپنی کمر پہ کسی چیز کا بوجھ محسوس ہونے لگا۔ انجبین نے جلدی سے اٹھنے کی کوشش کی مگر یہ کیا۔ اسکا بازو تو وہاب کی گرفت میں تھا اور کمر پے بھی یہی ہاتھ تھا جس سے ڈر کر انجبین نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن جب وہ اٹھی وہاب نے بازو سے پکر کر واپس کھینچ لیا۔ اس طرح زور سے کھینچنے کی وجہ سے انجبین لڑکھڑا گئی، بیٹھنا تو دور وہ سیدھی وہاب کے سینے پہ جا کر گری۔ سر دل کی جگہ اور تمام محنت اور لگن سے سنوارے ہوئے بال بکھر گئے جن میں انجبین کا چہرہ چھپ سا گیا تھا۔۔
انجبین: ہائے اللہ! کیا کرتے ہیں وہاب اگر میں گر جاتی تو؟ انجبین نے غصہ سے پوچھا اور بالوں کو سمیٹنے لگی۔
بال سمیٹتے دیکھ کر وہاب نے انجبین کا ہاتھ پکڑ لیا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں یہ پیغام دیا کہ بال کھلے رہنے دو۔۔۔۔
وہاب: گرنے دے سکتا ہوں بھلا؟ اتنا دم کس میں ہے جو گرا سکے میری زوجہ کو؟؟ وہاب انجبین کے قریب ہو رہا تھا کہ انجبین اٹھ کر دور جا کھڑی ہوئی۔
انجبین: نہ نہ اب بس بھی کر جائیں اتنا رمینٹک مت ہوں۔ چلیں ناشتہ کے لیے دیر ہو رہی ہے۔۔۔اور شام کو ولیمہ بھی ہے۔۔ مجھے پارلر بھی جانا اور وہ بھی آپ کے ساتھ۔۔
کپڑے تیار رکھے آپکے اب اٹھ جائیے۔۔۔اپنی ہی دھن میں مگن انجبین بولتی چلی جا رہی تھی۔
انجبین اور وہاب کی شادی کے بعد سے دونوں کہیں بھی گھومنے نہیں جا سکے تھے۔وہ دونوں گھر میں ہی اپنی چھوٹی سی جنت بسائے بیٹھے تھے۔
انجبین کا وہ تمام چڑچڑا پن، غصہ اور بات بات پہ الجھنا سب ختم ہوتا جا رہا تھا۔ وہ وہاب کے پیار کی بدولت بدل گئی تھی۔اس کی زندگی میں بلکل ویسا سکون چھا گیا جیسے بلند و بالا پہاڑوں کی چٹانوں سے سر پٹختا شور مچاتا دریا میدانی علاقوں کی زرخیز زمین کی آغوش میں پہنچتے ہی پر سکون ہو جاتا ہے۔
شور مچاتی انجبین کو کھلے میدانوں جیسے کھلے دل والا وہاب مل گیا تھا۔
_____________________
“ہیلو! جی کون؟”۔ کچن سے باہر نکلتے ہی فون کی گھنٹی بجنے پر انجبین نے فون اٹھا لیا۔ وہ وہاب کے پسندیدہ کوفتے تیار کر رہی تھی۔ اس لیے زرا جلدی میں تھی۔۔فون کی دوسری جانب خاموشی چھا گئی تھی۔۔ بار بار ہیلو کرنے کے باوجود دوسری جانب سے جوئی جواب نہ ملا تو انجبین نے تنگ آکر آخر کار فون کا رسیور نیچے رکھ دینے کی دھمکی دی۔ ب دوسری جانب سے زیان کی بھاری اور بارعب آواز سنائی دی۔
“جی میں زیان بات کر رہا نائلہ آپی سے بات کرنی ہے” زیان کی آواز سنتے ہی انجبین کی آنکھوں کے سامنے اپنے نکاح کا وہ تمام منظر گردش کرنے لگا۔ زیان کی لال سرخ آنکھیں۔ ان آنکھوں کا خیال آتے ہی انجبین کے جسم میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی اور وہ رسیور ہاتھوں میں لیے بت سی بن گئی تھی جیسے۔
نائلہ: کون ہے انجبین کس کی فون ہے؟ نائلہ سلسبیل کا ہاتھ پکڑے چھت پر سے اتر رہی تھیں۔ وہ حیرانگی سے بہت دیر تک پہلے تو انجبین کو ایسے کھڑے دیکھتی رہی۔”وہاب کی کال ہے کیا؟”۔
نائلہ کی آواز پر انجبین چونک گئی اور خود کو سنبھالتے ہوئے بولی، ” آپی یہ آپ کے لیے فون ہے،زیان،،،،،” زیان کے نام کے ساتھ وہ کیا بولے۔بس زیان کہنا ٹھیک لگے گا کیا؟ ۔۔۔۔اب تو کہ چکی۔ انجبین مزید الجھتے ہوئے پھر سے گم سم ہوگئی۔۔
پلوشہ: زیان کی کال ہے لاو میں سنتی ہوں۔ پلوشہ نے بھاگ کر رسیور اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ “جی زیان بولیں” پلوشہ کا انداز اس قدر عجیب تھا کہ ایک لمحہ کو زیان بھی چکرا کر رہ گیا۔۔
زیان: آپی کو بلایں امی نے بات کرنی ہے۔ زیان کا لہجہ سپاٹ تھا۔جس میں کوئی جھول کوئی لچک نہیں تھی۔۔۔
پلوشہ نے فون نائلہ کو دے دیا اور پاؤں پٹختی ہوئی اپنے کمرے کی طرف چل دی۔
زیان: آپی لیں امی سے بات کریں۔ زیان نے موبائل ماں کی جانب بڑھا دیا، بہن کا جواب سنے بغیر ہی۔
نائلہ سے جس قدر کم بات ہو اتنا ہی اچھا ہوتا ہے۔ بات کا پوسٹ مارٹم کر دیتی ہے۔اب جانتے ہو کیا ہوا زیان؟ ماں نے کال بند کر کے زیان سے سوال کیا۔ زیان نے کندھے اچکائے کہ وہ نہیں جانتا۔ ماں نے سلسہ کلام جاری رکھا، “پتہ نہیں کیوں دشمن بنی بیٹھی ہے اس گھر کی، پلوشہ سے آگے تو کوئی نظر نہیں آتا اس کو”۔
زیان کے لیے یہ باتیں اب کوئی معنی نہیں رکھتی تھیں۔وہ تو اپنا سب کچھ پہلے سے ہی ہار چکا تھا۔ اپنی پسند کو تو دفن کیے ہوئے بھی بہت دن گزر چکے تھے۔۔۔
________________
شمائلہ کو بھی لے آتے ہیں امی، شادی میں بھی شریک ہو لے گی اور ویسے بھی تو عاصم بھائی باہر جا رہے “یو این” کے مشن کے ساتھ۔تو اکیلی کیسے رہے گی شمو”۔ زیان مہمانوں کی فہرست بنا چکا تو ماں کی طرف سے فائنل اپرول کے لیے لسٹ دیکھانے آگیا۔
ماں: ابھی تو بس منگنی ہو رہی ہے نا زیان۔شادی تو نہیں تم ابھی سے یہ لسٹ کیوں بنانے بیٹھ گئے ہو؟ ماں نے لسٹ لیتے ہوئے سوال کیا۔ ماں کے سوال کے جواب میں زیان کو ہنسی آگئی۔
زیان: اماں، میرے نہ تو بہت سارے دوست ہیں نہ کوئی بھائی نہ کزن۔جو کچھ کرنا ہے وہ مجھے ہی کرنا ہے۔ عاصم بھائی بھی ملک میں نہیں ہوں گے۔ واجد بھائی تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔
“زیان بری بات” ماں کو اپنے داماد کے لیے یہ الفاظ اچھے نہیں لگے تھے اسی لیے انہوں نے زیان کو ٹوکا تھا۔ مگر زیان کہاں رکنے والا تھا۔ ٹھیک کو ٹھیک اور غلط کو غلط کہنا زیان کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔
واجد سچ مچ میں پیسے کمانے والی مشین بن کر رہ چکا تھا۔اسی بات کی وجہ سے وہاب اور پلوشہ کی نگرانی بھی وہ اچھے سے نہیں کر پائے تھے۔
ماں: مہجبین سے بات ہوئی؟ ماں نے لسٹ کو پڑھتے ہوئے اچانک رک کر سوال کیا۔
زیان:مہجبین کون؟ زیان نے گھؤم کر ماں کو دیکھا۔
ماں: تمھاری ہونے والی بیوی!
زیان:وہ تو جبین ہے؟ مہجبین کہاں سے آگئی؟؟ زیان کو سچ مچ میں حیرت ہو رہی تھی۔
ماں: بدھو اس کا اصل نام مہجبین ہے سب نے نک نیم جبین رکھا ہوا ہے۔اب بتاؤ کب بات کرو گے اس سے۔
زیان: امی آج جائیں گے ہم شاپنگ کے لیے ہو سکتا ادھر ہی بات ہو۔ابھی تک تو نہیں کی بات۔مجھے اندازہ ہی نہیں ہے کہ وہ کیسا رئیکٹ کرے گی۔ زیان نے گہری سانس لی اور یوں ہی بنا مقصد کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔۔
آنٹی مہجبین سے بات ہو سکتی ہے؟ جھجکتے ہوئے زیان نے سلام دعا کے بعد جبین کی امی سے سوال کیا۔
زیان کو کافی عجیب محسوس ہو رہا تھا یوں کال کر کے کسی لڑکی کی ماں سے ایسے انکی بیٹی کا پوچھنا۔ کہاں زیان اپنی بہنوں کے سسرال میں فون کرنے سے ہچکچانے والا آج ایک اجنبی لڑکی کو فون کر رہا۔
کلثوم آنٹی اس بات سے بخوبی واقف تھیں کہ زیان کے لیے بات کرنا کس قدر دشوار کام۔اس لیے انہوں نے اپنی ہنسی کو روکتے ہوئے کہا “بیٹا کرواتی ہوں ہولڈ کریں،اور امی کیسی ہیں؟”۔
انہوں نے یہ بات اس انداز سے پوچھی جیسے بہت دنوں سے بات ہی نہ ہوئی ہو۔ جبکہ یہ دونوں مائیں ہی تھیں جنہوں نے زیان کی جھجک دور کرنے کے لیے یوں فون کرنے کا آئیڈیا سوچا تھا۔ان دونوں کو ماوں نے پابند کر رکھا تھا کہ یہ اپنے ذاتی موبائل سے ایک دوسرے سے رابطہ نہیں کریں گے۔جو بھی بات ہو گی گھر کے فون پر۔ سوشل میڈیا پہ بھی رابطہ کی سختی سے پابندی تھی۔ جہاں زیان اس سب سے بہت خوش تھا وہیں جبین کا موڈ اس قسم کی پابندیوں سے بگڑا ہوا تھا۔
آج بھی ملنے کی اجازت صرف اس لیے دی گئی تھی تا کہ جبین اپنا شادی کا جوڑا خرید سکے۔
کلثوم آنٹی: بیٹا وہ بات نہیں کرنا چاہتی۔ آپ کب آو گے بیٹا مارکیٹ جانا ہے نا۔۔۔
زیان: آنٹی بس نکل ہی رہا تھا۔ زیان اپنے لہجے سے اداسی کا عنصر چھپا نہ سکا۔
فون بند کر کے اداس سا چہرہ لیے زیان کپڑے بدلنے چلا گیا۔ ” مجھ سے بات کیوں نہیں کی جبین نے، وہ ناراض ہے کیا؟” زیان بار بار اپنے آپ سے یہی سوال کرتا ہوا جبین کے گھر پہنچ چکا تھا، وہ گاڑی میں بیٹھ کر مہجبین کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...