پولیس والوں کیلئے آج کا دن عام دنوں کی طرح ہی تھا۔ پولیس سٹیشن میں آفیسر مائکل اور اسکے ساتھی انٹرن دوپہر کا کھانا کھانے کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ ٹیلیفون کی گھنٹی چیخ اٹھی۔ ما ئکل نے رسیور اچک کر کان سے لگا لیا اور دوسرے طرف کی آواز سننے لگا۔
” ہیلو۔ مجھے نہیں معلوم کہ نمبر صحیح لگا ہے کہ نہیں نہ ہی میں یہ جانتی ہوں کہ مجھے کسے فون کرنا چاہیئے لیکن میں حقیقتا” بہت بھوکی ہوں”
اپنے بیس سالہ پولیس کیریر میں یہ اپنی قسم کی پہلی کال تھی جو مائکل نے موصول کی ۔
اس نے انٹن کی جانب دیکھتے ہوئے جواب دیا۔ ” اپنا پتہ لکھوائیے مادام۔ ٹھیک ہے ہم دس منٹ میں پہنچ رہے ہیں”
انٹن کو پہلے اس کال سے کوئ دلچسپی محسوس نہیں ہوئ۔ وہ اسے کسی کا مذاق سمجھ رہا تھا لیکن مائکل کو سنجیدہ دیکھ کر وہ بھی اس کے ساتھ دئے گئے پتے پر پہنچ گیا۔ یہ ایک بہت ہی بوسیدہ مکان تھا جو اپنے مکین کی زبوں حالی بیان کر رہا تھا۔ گندگی اس طرح ہر طرف پھیل رہی تھی جیسے سالوں سے وہاں کی صفائی ستھرائی نہ ہوئ ہو۔
اندر پہنچنے پر انہوں نے ایک اسی سالہ بزرگ خاتون کو کرسی پر بیٹھے دیکھا۔ ۰اس کے جسم پر کپڑوں کے نام پر میلے کچیلے چیتھڑے جھول رہے تھے اور اسکا ایک ہاتھ بینڑیج میں لپٹا ہوا تھا۔ مائکل نے خاتون کے قریب آکر پوچھا ” بتائیں محترمہ کیا معاملہ ہے ؟”
خاتون بولیں ” کچھ ہفتہ قبل میں اپنا ہاتھ تڑوا بیٹھی۔ پھر بھی سمجھ رہی تھی کہ اپنے لئے کھا نا بنا سکتی ہوں لیکن کچھ روز سے درد میں اضافے کی وجہ سے میں کچھ نہ کرسکی اور تب سے ہی بھوکی ہوں۔میرے پاس اسقدر رقم بھی نہیں ہے کہ ایک خانساماں یا کھانے کی اشیاء کا انتظام کرسکوں کیونکہ چند مہینوں سے میرے بیٹے نے میرا ماہانہ خرچہ بھیجنا بھی موقوف کردیا ہے ۔ مجھے نہیں سوجھ رہا تھا کہ کسے مدد کیلئے بلاوں اس لئے پولیس سے مدد طلب کرنے کی کوشش کی” خاتون کی درد بھری روداد سن کر مائکل کا دل پسیج گیا۔ اس نے خاتون کے کمرے میں موجود فریج کو کھول کر دیکھا جس میں کچھ معمولی سی اشیاء موجود تو تھیں لیکن وہ کسی کام کی نہ تھیں۔ مائکل۔نے انٹن کو وہیں رکنے کی ہدایت کی اور خود سپر مارکیٹ اشیائے خورد و نوش لینے چلا گیا۔ واپس آکر اس نے خاتون کیلئے کھا نا پکایا اور اپنے ہاتھ سے اسے کھلایا۔ خود مائکل اور انٹن نے بھی وہیں کھانا کھایا۔ اور وافر مقدار میں کھانے کے سامان سے فریج کو بھر دیا۔
کھانے سے فارغ ہوکر وہ خاتون کو نزدیکی ہسپتال لے گئے تاکہ اسکے ہاتھ کا علاج کراسکیں۔وہاں پتہ چلا کہ آپریشن کرانا ہوگا جس کیلئےایک کثیر رقم کی ضرورت ہوگی۔ ان دونوں کے پاس اسقدر رقم نہ تھی۔تب ایسی بات ہوگئ کہ ہسپتال کا پورا عملہ سکتے میں آگیا۔ مائکل نے پولیس کے افسروں کو ہسپتال میں بلوایا اور ان سے مدد کی درخواست کی۔ سب نے کچھ نہ کچھ عطیہ دیدیا اور خاتون کے ہاتھ کا آپریشن ہوگیا۔ یہ واقعہ اخباروں کی زینت بھی بنا اور ٹی وی پر بھی دکھایا گیا۔ہر طرف سے پولیس والوں کی سراہنا ہونے لگی۔ یہ کہانی اتنی عام ہوئ کہ لوگ خاتون کے بینک اکاونٹ میں آن لائن عطیات جمع کرنے لگے۔ خاتون اب صحت مند ہے اور سکون سے زندگی کے دن گزار رہی ہیں۔
ہم نے پولیس کو عام طور پر منفی کردار نبھاتے ہی دیکھا ہے لیکن اس واقعے نے یہ سمجھنے پر مجبور کردیا کہ انسان مرا نہیں۔ انسانیت زندہ ہے ابھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...