روبی نے سر دوبارہ جھکالیا اور رندھی ہوئی آواز میں کہا” میں جانتی تھی حسن انکل۔۔۔۔۔ یہ سب جان کر آپ مجھ سے نفرت کرنے لگیں گے۔۔۔۔” حسن کچھ دیر اسکو دیکھتے رہے پھر اپنی جگہ سے اٹھ کر روبی کے برابر میں آکر بیٹھ گئے۔۔۔۔۔ روبی نے گردن اٹھا کر دیکھا۔۔۔۔ حسن نے اسکے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہنے لگے۔۔۔۔” روبی مجھے تم سے نفرت نہیں ہورہی بلکہ فخر ہورہا ہے تم نے جس طرح اور جس جگہ اپنی زندگی کے یہ دو سال گزارے ہیں اس جگہ پہ بھی تم نے اللّٰہ کو یاد کرنا نہیں چھوڑا۔۔۔۔۔ ہر پل اللّٰہ سے مدد مانگی اپنا ایمان مضبوط رکھا اللّٰہ پہ یقین رکھا وہ بھی کامل یقین۔۔۔۔۔ میں کہتا ہوں میں نے اپنی زندگی میں تم جیسی باہمت لڑکی کہیں نہیں دیکھی۔۔۔۔۔ مجھے تم پہ فخر ہے بیٹا۔۔۔۔ اور دیکھو یہ تمہارا یقین ہی تھا نا اللّٰہ پہ کہ آج تم اس دلدل سے نکل آئی ہو۔۔۔۔ اور یہ تو اللّٰہ نے قرآن میں فرمادیا ہے کہ ” ہر مشکل کے بعد آسانی ہے، بے شک مشکل کے بعد آسانی ہے” تو دیکھو اب مشکل وقت ختم ہوگیا ہے تمہارا۔۔۔۔۔!!!
روبی نم آنکھوں سے حسن کو دیکھ رہی تھی پھر بے ساختہ کہہ اٹھی۔۔۔۔” انکل۔۔۔ انکل آپ سچ کہہ رہے ہیں۔۔۔؟
ہاں بیٹا بلکل سچ کہہ رہا ہوں۔۔۔۔ تمہارے جیسی بیٹیاں نفرت کے قابل نہیں ہوتیں بلکہ محبت اور فخر کے قابل ہوتی ہیں اور اب تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اب سے تم بھی میری بیٹی کی طرح ہی ہو اور میرے ساتھ رہو گی میرے گھر میں۔۔۔۔۔” اور مجھے انکل نہیں ابو کہو گی۔۔۔۔ وہ مسکرا کر بولے۔۔۔۔
مگر انکل آپکی فیملی۔۔۔۔۔ وہ۔۔۔؟
انکی تم فکر نا کرو میں سنبھال لوں گا۔۔۔۔
روبی انکا شکریہ ادا کرنے لگی تو حسن نے کہا۔۔۔۔ بیٹیاں شکریہ نہیں کہتیں بدھو۔۔۔۔۔
روبی بےساختہ ہنس پڑی۔۔۔۔ اسکے ساتھ حسن بھی ہنسنے لگے۔۔۔ پھر کہا۔۔” بیٹا ابھی تو میں ملتان جارہا ہوں کچھ کام ہے مجھے وہاں اک دن رکوں گا تو میرے اک دوست کا گھر ہے ادھر اسکو معلوم ہے کہ میں آرہا ہوں اسنے مجھے بہت اصرار کیا اپنے ہاں رکنے کا۔۔۔ اس،وقت تو میں اکیلا تھا مگر اب تم ہو ساتھ تو کوئی مسئلہ تو نہیں ہے وہاں رکنے پہ۔۔۔؟؟؟؟ بس اک رات کی بات ہے اسکی بھی تین بیٹیاں ہیں۔۔۔۔” روبی نے کہا۔۔۔ نہیں انکل مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے مگر وہ آپ سے پوچھیں گے میرے بارے میں تو پھر۔۔۔؟؟
افف روبی تم کتنا پریشان ہوتی ہو اتنا مت سوچو اس بارے میں اور میں نے کہا تھا کہ تم میری بیٹی ہو مجھے انکل مت کہنا اب۔۔۔۔
ہاہا اچھا ابو۔۔۔۔ روبی ہنستے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ پھر کہا ویسے ابو آپ مجھے رومانہ ہی کہیں میرا اصل نام رومانہ ہے یہ تو بس وہاں رکھ دیا گیا تھا۔۔۔۔
حسن نے تائید کی
ٹرین ملتان اسٹیشن پہ رکی تو وہ دونوں بھی اتر گئے حسن کے پاس اک چھوٹا سا بیگ تھا حسن نے رومانہ سے کہا۔۔۔۔” بیٹا پہلے مارکیٹ چلو میں تمہیں کچھ کپڑے اور اک بیگ دلوادوں۔۔۔ رومانہ نے منع کردیا اور کہا ابو ابھی نہیں پھر کبھی۔۔۔۔ ابھی آپ تھک گئے ہونگے اتنا لمبا سفر تھا اور پھر آپکو کام بھی ہے اپنا۔۔۔۔ مگر حسن نے اسکی اک نا سنی اور باہر آکر ٹیکسی کی اور وہاں سے مارکیٹ چلے گئے۔۔۔۔ مارکیٹ پہنچ کر انہوں نے رومانہ کے لیے کچھ تیار شدہ سوٹ خریدے اور اک بیگ بھی لیا پھر رومانہ سے کہا کہ اس بیگ میں رکھ لو کپڑے۔۔۔ رومانہ حسن کی بہت مشکور ہورہی تھی مگر زبان سے کچھ نا کہا کہ اب تو ڈانٹ پڑ جائے گی۔۔۔ اس نے اعتراف کیا کہ واقعی دنیا میں ابھی اچھے اور نیک لوگ باقی ہیں۔۔۔۔۔۔ وہ اللّٰہ کا جتنا شکر ادا کرتی کم تھا۔۔۔ وہ لوگ مارکیٹ سے نکلے اور حسن نے ٹیکسی والے کو اپنے دوست کے گھر کا پتہ بتادیا۔۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ دونوں وہاں حسن کے دوست کے گھر پہنچ گئے، انکے دوست نے بہت اچھی طرح استقبال کیا اور کہا کہ یار معذرت میں لینے نہیں آسکا تمہیں وہ اک عذر پیش کرنےلگا، حسن نے اپنے دوست کی معذرت قبول کی پھر رومانہ کا تعارف کروایا اور کہا یہ میری بیٹی ہے رومانہ۔۔۔۔ حسن کے دوست نے حسن کی بیٹیوں کو دیکھا ہوا نہیں تھا کیونکہ کبھی وہ سامنے نہیں آئیں تھیں اور بیٹیوں کی شادی کا تو علم تھا مگر وہ دونوں بیٹیوں کی شادی میں شرکت نا کرسکا تھا جس پہ حسن کو افسوس بھی تھا۔۔۔۔ انکے دوست نے پوچھا کہ تمہاری تو دونوں بیٹیوں کی شادی ہوگئی پھر یہ۔۔۔تو حسن نے کہا یہ بھی میری بیٹی ہے۔۔۔۔ اب تفصیل ہی پوچھتے رہو گے یا فریش ہونے کا بھی کہو گے۔۔۔۔۔؟؟
اوہ سوری یار۔۔۔۔ تم فریش ہوجاؤ اور رومانہ بیٹی تم بھی فریش ہوجاؤ پھر میں کھانا لگواتا ہوں اور تم لوگ آرام کرو پھر۔۔۔ تھک گئے ہونگے۔۔۔۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے اپنی بیوی سے کھانے کا کہنے چلا گیا اور حسن اور رومانہ فریش ہونے۔۔۔۔ اسکے بعد ان دونوں نے نماز پڑھی کھانا کھایا، تھوڑی دیر باتیں کی پھر انکی بیوی نے رومانہ کو کمرہ دکھایا۔۔۔حسن کے دوست کی بیوی اور بیٹیا بھی بہت اچھے طریقے سےملی تھیں رومانہ سے اور بہت اخلاق سے پیش آئیں۔۔۔۔ رومانہ تھکی ہوئی تھی جلدی لیٹ کر سوگئی۔۔۔۔ ناجانے آج کتنے عرصے بعد اسکو سکون کی نیند آئی تھی، فجر کے وقت اسکی آنکھ کھلی تو لمحہ بھر کو تو وہ بھول گئی کہ وہ کہاں ہیں مگر پھر اسکو سب یاد آگیا اور وہ اللّٰہ کا شکر ادا کرنے لگی، حسن اپنے دوست کے ساتھ دوسرے کمرے میں سوئے تھے اور رومانہ حسن کے دوست کی بیوی کے ساتھ سوئی تھی، فجر کے وقت ہی سب لوگ اٹھ گئے تھے کیونکہ دو بیٹیاں کالج اور چھوٹی بیٹی اسکول جاتی تھی تو نماز پڑھ کے ہی سب نے تھوڑی دیر بعد ناشتہ کیا اور اسکول اور کالج چلی گئیں، حسن بھی صبح صبح اپنے دوست کے ساتھ واک کرنے کے لیے قریبی پارک چلے گئے تھے،انکے واپس آنے کے بعد ہی باقی سب نے ناشتہ کیا اور حسن اپنے دوست کے ساتھ ہی اپنے کام کے لیے نکل پڑے اور رومانہ سے کہہ دیا کہ میں شام تک واپس آجاؤں گا۔۔۔۔ رومانہ نے کہا ٹھیک ہے ابو۔۔۔
******
امیراں نے روبی کے جانے کے بعد سوچ لیا تھا کہ وہ اپنا کوٹھا اب بند کردے گی اور اپنی باقی کی زندگی اچھے اور نیک کاموں میں صرف کرے گی۔۔۔ روبی نے اسکی آنکھیں کھول دیں تھی بےشک وہ ہدایت کا جگنو لے کر آئی تھی اپنے ساتھ۔۔۔۔۔ اور یہی وجہ تھی کہ امیراں نے اس رات آنے والوں سے بہت تلخ لہجے میں بات کی تھی۔۔۔۔ رقص کی محفل اس رات بھی سجی تھی اور اس رات دو لڑکے اس کے پاس آئے تھے جس میں سے اک لڑکا کافی پریشان دکھائی دے رہا تھا جبکہ دوسرا لڑکا اسکو سنبھالے ہوئے تھا اور روبی کا پوچھ رہا تھا جس پہ امیراں نےبہت تلخ اور طنزیہ لہجے میں جواب دیا تھا۔۔۔۔ پہلا لڑکا روبی کے جانے کا سن کر اک دم رو پڑا تو اسنے دوسرے لڑکے سے پوچھا کہ کیا بات ہے کیوں رو رہا ہے یہ۔۔؟؟ تو دوسرے لڑکے نے بتایا کہ یہ روبی سے محبت کرنے لگا ہے بس اسلیے۔۔۔۔ اسکی بات سن کر امیراں طنزیہ مسکراہٹ اپنے لبوں پہ لائی تھی۔۔۔۔۔ وہ دونوں جب چلے گئے تو امیراں کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے اس نےجان بوجھ کے نہیں بتایا تھا روبی کا کہ وہ کس شہر گئی ہے وہ جانتی تھی روبی وہاں نہیں گئی ہوگی وہ ارادوں کی مضبوط لڑکی تھی اور اسنے جب ارادہ کیا تھا کہ اب وہ ایسی جگہ نہیں جائے گی تو وہ نہیں گئی ہوگی۔۔۔۔ مگر وہ گئی کہاں ہوگی۔۔۔۔؟؟؟ امیراں نے سوچا اور پھر کہا رب اسکی حفاظت کرنا۔۔۔۔ وہ جہاں کہیں بھی ہو اسکو اپنی امان میں رکھنا۔۔۔۔۔!!!!
چند روز بعد امیراں نے اپنا کوٹھا بندکردیا وہاں موجود چھ لڑکیاں اور تین عورتیں تھیں ان سب کو اس نے اک ادارےمیں لگوادیا تھا جہاں مختلف کورسس سکھائے جاتے تھے۔۔۔۔ سب حیران تھے اور اس سے پوچھ رہے تھے مگر اسنے بس اتنا کہا کہ اللّٰہ جب ہدایت دینا چاہے دے دیتا ہے۔۔۔۔۔ اس نے ساتھ ساتھ خود بھی نماز سیکھی اور ان سب کو بھی سیکھائی اور تاکید کی کہ نماز نہیں چھوڑنا اب۔۔۔۔۔ بعد میں اسنے دینی تعلیم بھی حاصل کی اور اک گھر کرائے پہ لے لیا۔۔۔۔ جن لڑکیوں نے اس ادارے میں جو کچھ بھی سیکھا تھا وہ اپنے ہنر کو امیراں کے ساتھ رہ کر آزما رہیں تھیں اور پھر اللّٰہ نے بھی ان سب کا ساتھ دیا۔۔۔۔ کچھ عرصے بعد امیراں نے اپنی دینی تعلیم کے ساتھ اک مدرسہ کھول لیا وہاں وہ بچوں کو دینی تعلیم دینے لگی تاکہ اس نے جو علم سیکھا ہے وہ آگے پہنچے۔۔۔۔۔ اسکے دل سے ہر پل روبی کے لیے دعا نکلتی تھی۔۔۔۔
حسن شام کو اپنے دوست کے ساتھ ہی واپس آگئے تھے، کھانا انہوں نے باہر ہی کھایا تھا گھر آکر چائے پی، نماز سے فارغ ہوکر تھوڑی دیر گپ شپ کی۔۔۔۔ رات کا کھانا بھی بہت مزےدار تھا رومانہ نے بہت عرصے بعد دوپہر اور رات کا کھانا ٹھیک سے کھایا تھا ورنہ تو بس وہ وہاں اتنا ہی کھاتی تھی جتنا کہ وہ ضروری سمجھتی تھی۔۔۔ کھانے کے بعد سب سونے چلے گئے، صبح حسن نے کراچی جانا تھا اور وہ تھکے ہوئے بھی تھے سو لیٹتے ہی سوگئے جبکہ رومانہ کو نیند نہیں آرہی تھی وہ کروٹیں بدلتی رہی اور رات کے کسی پہر اسکی آنکھ لگ گئی، صبح فجر کے وقت اسکی آنکھ کھلی تو حسب معمول سب جاگ گئے تھے، اور وہی روٹین تھی۔۔۔۔۔ حسن واک کرکے آئے تو ان لوگوں نے ناشتہ کیا۔۔۔۔ کچھ دیر باقی تھی پھر انکو اسٹیشن کے لیے نکلنا تھا۔۔۔۔ حسن اپنے دوست کے ساتھ باتوں میں مصروف ہوگئے، اور رومانہ انکی بیوی کے ساتھ کچن میں چلی آئی کچھ دیر وہاں انکے ساتھ کھڑی باتیں کرتی رہی پھر حسن کی آواز آئی چلو بیٹا اسٹیشن چلنا ہے وہ کچن سے باہر آگئی اور کمرے سے اپنا سامان اٹھایا چادر اوڑھی اور حسن کے پاس آگئی، انکے دوست اور انکی بیوی دونوں سے ملے اور انکی بیوی نے رومانہ کو بہت پیار کیا اور پھر آنے کے لیے کہا۔۔۔۔۔ حسن کے دوست نے ان دونوں کو اسٹیشن چھوڑا اور ان سے مل کر گھر واپس چلے گئے۔۔۔۔۔ وہ دونوں ٹرین میں چڑھ گئے اور اپنی جگہ پہ بیٹھنے کے بعد حسن نے اپنے گھر کال کی اور خیر خیریت پوچھنے لگے دوسری طرف شاید انکی بیوی نے فون اٹھایا تھا تو انہوں نے کہا۔۔۔” ہمیں رات ہوجائے گی پہنچتے پہنچتے۔۔۔۔!! دوسری طرف سے کچھ پوچھا گیا تھا جس کے جواب میں حسن نے کہا کہ۔۔۔” ہاں رات کے کھانے کی اچھی سی تیاری کرنا میرے ساتھ میری بیٹی ہے۔۔۔۔ تفصیل گھر آکر بتاؤں گا۔۔۔”یہ کہہ کر انہوں نے فون بند کردیا۔۔۔۔ رومانہ ہکا بکا انکو دیکھ رہی تھی کہ کیسے انہوں نے اتنی آسانی سے اپنے گھر والوں سے بھی کہہ دیا تھا کہ میرے ساتھ میری بیٹی ہے۔۔۔! رومانہ نے پوچھا۔۔۔” ابو آپ کے گھر والے کچھ کہیں گے نہیں مطلب آپ نے اتنے آرام سے ان سے کہہ دیا کہ ساتھ میری بیٹی ہے۔۔۔”
حسن ہنسنے لگے اور کہا نہیں کچھ نہیں کہیں گے تم بے فکر رہو۔۔۔۔” رومانہ کچھ مطمئن اور کچھ پریشان بھی ہوگئی،۔۔۔۔۔
حسن کے اندر انسانی ہمدردی کا جذبہ بہت تھا، انکی اپنی اک ہی بیٹی تھی جس کی وہ دو سال پہلے شادی کرچکے تھے اور اک بیٹی کو انہوں نے پالا تھا جو اک یتیم بچی تھی۔۔۔۔ وہ اپنے اک کام کے سلسلے میں کسی شہر گئے تھے وہاں انکو کسی کے توسط سے اس بچی کا پتہ چلا تھا انکو اس پہ بہت ترس آیا اور وہ اسکو اپنے گھر لے آئے اور یہی کہا تھا کہ یہ آج سے میری بیٹی ہے اسکی پرورش اور تعلیم سب میری ذمہ داری ہے۔۔۔۔ اللّٰہ کا ان پہ خاص کرم تھا انکو بہت نوازا ہوا تھا سو انکو کسی قسم کی کوئی مالی پریشانی نہیں تھی اور انکے گھر والوں کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا۔۔۔۔ انکی بیوی نے بہت اچھے طریقے سے اس بچی کی پرورش کی اور وقت آنے پہ اسکی اچھی جگہ شادی بھی کردی۔۔۔۔
سو جب انہوں نے اپنے گھر فون کرکے کہا تو اسی وجہ سے کوئی اعتراض نہیں کیا گیا تھا۔۔۔۔۔
ٹرین میں وہ دونوں ہنستے بولتے کھاتے پیتے، باتیں کرتے اللّٰہ کو یاد کرتے ہی اپنا سفر گزار رہے تھے۔۔۔۔۔
اور پھر رات کے وقت وہ لوگ کراچی اسٹیشن پہنچ گئے۔۔۔ وہاں سے وہ اپنے گھر پہنچے اسٹیشن سے انکے گھر کا فاصلہ تھوڑا ہی تھا جلد ہی وہ گھر پہنچ گئے، دروازہ انکی بیوی نے کھولا۔۔۔۔۔
رومانہ نے چادر سے چہرے کو ڈھانپا ہوا تھا۔۔ وہ مسکرا کر اس سے ملیں اور حسن کو سلام کیا پھر وہ لوگ اندر چلے گئے، اندر پہنچ کر انہوں نے رومانہ سے کہا بیٹا تم چینج کرلو فریش ہوجاؤ اتنے میں کھانا لگاتی ہوں پھر آرام کرلینا۔۔۔۔ رومانہ نے سر ہلادیا وہ اسکو اک کمرے میں لے گئیں اور کہا کہ آج سے یہ تمہارا کمرا ہے کسی بھی چیز کی ضرورت ہو بلاجھجھک کہہ دینا۔۔۔۔۔ رومانہ نے مسکرا کر انکا شکریہ ادا کیا۔۔۔۔ تو انہوں نے بھی حسن والے الفاظ ہی کہے۔۔۔” جب حسن تمہیں بیٹی بناکر لائے ہیں تو اس طرح سے میں بھی تمہاری ماں ہوں اور بیٹیاں ماں باپ کو شکریہ نہیں کہتیں۔۔۔۔ سمجھیں۔۔۔۔ چلو اب تم فریش ہوجاؤ جلدی سے۔۔۔۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئیں۔۔۔۔رومانہ کی آنکھوں میں بے ساختہ آنسو آگئے اسنے انکو صاف کیا اور سوچنے لگی کہ اتنے اچھے ہیں یہ لوگ۔۔۔۔ مجھے جانتے نہیں میرا ان سے خون کا رشتہ نہیں مگر پھر بھی اتنا خیال اتنی پرواہ۔۔۔ اتنی محبت اور اتنا خلوص۔۔۔۔۔ وہ کیسے سمیٹے گی ان محبتوں کو۔۔۔۔۔ اسکو اک دم اصغر اور سکھی یاد آگئے وہ رونے لگی انکو یاد کرکے۔۔۔۔۔۔۔ انکے لیے دعائیں کرنےلگی۔۔۔ پھر تھوڑی دیر بعد اٹھی اور فریش ہونے چلی گئی۔۔۔۔اوروہ سوٹ پہنا جو حسن نے اسکو دلوایا تھا اسکا دوپٹہ سر پہ اوڑھا اور باہر آگئی۔۔۔۔۔ حسن کی بیوی اسکوبلانے ہی آرہی تھیں اسکو باہر آتا دیکھا تو کہنے لگیں میں تمہیں ہی بلانے آرہی تھی چلو آؤ کھانا لگ گیا ہے وہ کہتے کہتےمڑ گئیں اور رومانہ انکے پیچھے چلنے لگی۔۔۔۔۔ حسن صاحب کی والدہ بھی رومانہ سے بہت خوش دلی سے ملیں۔۔۔۔ پھر سب کھانا کھانے بیٹھ گئے۔۔۔۔ حسن کی بیوی کی نظر کھانا کھاتے کھاتے اک دم رومانہ پہ پڑی انکو ایسا لگا جیسے انہوں نے اسکو کہیں دیکھا ہے۔۔۔۔ وہ غور سے اسکو دیکھنے لگیں۔۔۔۔ رومانہ کھانا کھانے میں مصروف تھی۔۔۔۔۔ اسنے پانی لینے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو اسکی نظر ان پہ پڑی جو اسکو ہی دیکھ رہیں تھیں جیسے پہچاننے کی کوشش کررہی ہوں۔۔۔۔ رومانہ گھبراگئی۔۔۔ وہ سوچنے لگی کہ یہ ایسے کیوں دیکھ رہیں ہیں۔۔۔؟؟ کیا مجھے یہ کہیں دیکھ چکیں ہیں۔۔۔۔؟؟ اگر انہوں نے مجھے دیکھا ہوا ہوگا اور مجھے پہچان لیا تو کیا ہوگا۔۔۔۔۔؟؟؟ طرح طرح کے وہم اسکے دماغ میں آرہے تھے۔۔۔۔ اسکی بھوک یک دم بند ہوگئی۔۔۔۔۔۔ حسن نے اسکو دیکھا تو پوچھا۔۔”کیا ہوا بیٹا کھانا کیوں نہیں کھارہیں۔۔۔۔۔”؟؟ وہ اک دم گھبراگئی اور کہنے لگی۔۔۔” ابو وہ۔۔۔ بس سفر سے آئی ہوں نا تو تھکن کی وجہ سے کھایا نہیں جارہا۔۔۔۔میں آرام کرنا چاہتی ہوں۔۔”
حسن نے کہا اچھا چلو ٹھیک ہے جب بھوک لگے کھالینا تم آرام کرلو۔۔۔۔ وہ جیسے انکی اجازت کی منتظر تھی فورا اٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔۔۔۔ حسن کی بیوی نے بھی کھانا چھوڑ دیا تھا۔۔۔۔ اور گم صم سی بیٹھی تھیں۔۔۔۔حسن نے انکو دیکھا تو پوچھا۔۔۔” ارے بیگم صاحبہ آپکو کیا ہوا۔۔۔۔؟ آپ کیوں نہیں کھارہیں کھانا۔۔۔۔؟؟؟؟ وہ جیسے چونکنے والے انداز میں حسن کو دیکھنے لگیں۔۔۔۔۔ حسن نے ہاتھ ہلا کر کہا۔۔۔۔۔ بیگم صاحبہ کہاں کھوگئیں کیا ہوا ہے۔۔۔۔؟؟؟
انکی بیوی نے پوچھا۔۔۔” حسن۔۔ یہ لڑکی۔۔۔۔ اسکا نام کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟؟؟
حسن نےحیران ہوتے ہوئے کہا کیوں کیا ہوا۔۔۔؟؟؟
آپ بتائیں تو کیا نام ہے اسکا۔۔۔۔؟؟؟؟؟ انکی بیوی اضطراب کے عالم میں پوچھ رہی تھیں۔۔۔۔
رومانہ نام ہے اسکا۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔حسن نے اپنی بات مکمل نہیں کی تھی کہ وہ پوچھ بیٹھیں۔۔۔ اس۔۔ اسکے باپ کا نام کیا ہے۔۔۔۔؟؟؟
حسن حیران پریشان انکو دیکھنے لگے اور کہا۔۔۔ بیگم بات کیا ہے آپ ایسے کیوں پوچھ رہی ہیں۔۔۔؟؟؟؟
وہ کچھ جواب نا دے پائیں اور اپنی جگہ سے اٹھ کر رومانہ کے کمرے کی طرف چلی گئیں۔۔ رومانہ بیڈ پہ بیٹھی ہوئی رو رہی تھی۔۔۔۔۔ وہ کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آگئیں۔۔۔۔ رومانہ انکو دیکھ کر گھبراگئی اور کھڑی ہوگئی۔۔۔۔۔ اسکو یہ ڈر تھا کہ اگر انہوں نے اسکو پہچان لیا تو کیا ہوگا۔۔۔۔۔
وہ اسکے قریب آئیں اور اسکے سر پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔” تم رومانہ ہو۔۔۔۔ رومانہ شاہ میر۔۔۔۔؟؟؟
رومانہ کے دل کی دھڑکنیں رکنے لگیں تھیں۔۔۔۔ پیچھے حسن بھی آگئے تھے۔۔۔۔
رومانہ کی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہے۔۔۔۔
بولو رومانہ تم رومانہ شاہ میر ہو نا۔۔۔۔ شاہ میر اور روشانے کی بیٹی۔۔۔۔۔ حسن انکو حیران نظروں سے دیکھ رہے تھے جیسے انکو اپنے کانوں پہ یقین نا آرہا ہو۔۔۔۔۔۔!!!
جج۔۔جی۔۔۔ آنٹی۔۔۔۔ رومانہ نے ڈرتے ڈرتے کہا۔۔۔۔
وہ بے حد رورہی تھیں اور اسکو بے تحاشہ پیار کررہی تھیں۔۔۔۔ انہوں نے اسکو خود میں بھیینچ لیا۔۔۔۔ رومانہ کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔۔۔۔۔انہوں نے کافی دیر اسکو اپنے ساتھ لگائے رکھا تو رومانہ کہنے لگی۔۔۔۔ آنٹی کیا ہوا۔۔؟؟
انہوں نے اسکو خود سے الگ کیا اور کہا۔۔۔۔۔۔ اولاد تو شاید نہیں پہچان پاتی اپنی ماں کو مگر ماں کو لمحہ نہیں لگتا اپنی اولاد کو پہچاننے میں۔۔۔۔ چاہے وہ کتنی مدت بعد ہی کیوں نا ملے۔۔۔۔۔ رومانہ نا سمجھی سے انکو دیکھ رہی تھی۔۔۔۔ انہوں نے اسکو پیار کیا اور کہا کہ میں روشانے ہوں تمہاری سگی ماں۔۔۔۔۔ اور رومانہ ہکا بکا انکو دیکھنے لگی۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...