وہ یوں ہی پریشان سی سوچوں میں گم تھی کہ پیچھے سے دھڑام کی آواز سے دروازہ کھلا اور کوئی اندر داخل ہوا۔
“بہت ہوا آرام اب اٹھو اور یہ جوڑا پہن کر جلدی سے تیار ہوجاو ۔” علایہ کی پشت سے ایک مردانہ آواز ابھری جو سخت لہجے میں اس سے بات کرتا ہوا اس کے قریب آیا اور لال رنگ کا جوڑا اس کے قریب رکھ دیا۔
“ککک کون ہو تم اور مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟ میں نے کیا بگاڑا ہے تمہارا۔” علایہ اغوا کار کی آواز سن کر ہمت کر کے اٹھ بیٹھی۔ وہ اتنی خوفزدہ تھی کہ اسکی طرف دیکھنے سے گریز کر رہی تھی۔ وہ مسلسل اپنی انگلیاں مروڑ رہی تھی۔
“اے لڑکی زیادہ سوال جواب کیئے تو یہیں گولی مار دوں گا اور تیری بوٹیاں چیل کوؤں کو کھلا دوں گا۔ اگر جان پیاری ہے تو چپ چاپ یہ جوڑا پہن لو اور میرے صاحب سے نکاح کرلو۔” علایہ اسکے آخری دو لفظ سن کر چونک گئ۔ اس نے خوف اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ پہلی بار اس اغوا کار کو دیکھا۔ دکھنے میں وہ کافی ہٹا کٹا بڑی بڑی مونچھیں لمبا قد اور گہری گندمی رنگت کا وہ آدمی دکھنے میں جلاد لگ رہا تھا۔ علایہ پہلے ہی بہت خوفزدہ تھی اس جلاد نما اغوا کار کو دیکھ کر مزید خوفزدہ ہوگئ اور بس اتنا ہی کہہ پائ “کون ہے تمہارا صاحب اور کیوں شادی کرنا چاہتا ہے مجھ سے؟”
“اے لڑکی زیادہ سوال مت کر جان پیاری ہے تو جتنا کہا ہے اتنا ہی کر ۔ اور ہاں اگلے دس منٹ میں میرے صاحب قاضی صاحب اور چند گواہوں کے ساتھ آئینگے تو چپ چاپ نکاح نامے پر سائن کردینا۔ اگر زیادہ چوں چراں کی تو یاد رکھنا تیرے ساتھ تیرے باپ اور پورے خاندان کو اوپر پہنچا دوں گا۔ سمجھی۔۔۔” وہ انگلی کے اشارے سے دھمکاتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا اور دروازے کو باہر سے لوک کر گیا۔ علایہ جس نے اغواہ کار کی نکاح والی بات سن کے دل ہی دل میں فیصلہ کیا تھا کہ وہ مرنا تو پسند کرے گی پر کسی غنڈے موالی سے شادی نہیں کرے گئ۔ جیسے ہی اس جلاد نما غنڈے نے اسکے پاپا اور پوری فیملی کو مارنے کی دھمکی دی اسکی سوچ وہیں رک گئ اور نہ چاہتے ہوئے بھی شدید اذیت میں سے اپنا فیصلہ بدلنا پڑا۔ یہ سچ تھا کہ علایہ کو نہ تو اپنے باپ کی شفقت نصیب ہوئ اور نہ سوتیلی ماں اور بہن بھائیوں نے کبھی اہمیت دی۔ وہ اپنے قریبی رشتوں سے جتنی بھی بدظن تھی پر یہ بھی سچ تھا کہ وہ اپنے پاپا اور اپنے بہن بھایئوں سے بہت محبت کرتی تھی اور اس بات کا احساس بھی اسے آج ہی ہوا تھا۔ وہ یوں ہی سوچوں میں گم تھی کہ وہی دوبارہ کھلا اور چند لوگ اندر داخل ہوئے جن میں نکاح خواں بھی تھا۔ علایا نے لال جوڑا تو ابھی تک پہنا نہیں تھا تو اس نے جلدی سے اس جوڑے کا دوپٹہ ہی گھونگٹ کی طرح اوڑھ لیا۔ نکاح خواں نے علایا کے پاس آ کر اسے نکاح پڑھوایا اور علایا نظریں جھکائےغائب دماغی سے قاضی کی ہاں میں ہاں ملاتی گئ۔ نکاح کے بعد وہ لوگ کمرے سے باہر چلے گئے اور اس جلاد نما غنڈے نے دروازہ باہر سے بند کردیا اور علایا وہیں نڈہال سی ہو کر گر گئی۔
******♡♡♡♡♡******
شیبی نے نکاح کو بلکل سیریس نہیں لیا تھا ۔اس نے نکاح کے بعد بس اک سرسری سی نظر ملیحہ کو دیکھا تھا ۔اور اب وہ سٹیڈیز کے بہانے ابروڈ جانے کے لیئے باپ کو منانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور منانے میں کامیاب بھی ہو گیا تھا ۔آخر سیٹھ محی الدین جوان بیٹے کو گھر پر باندھ کر بھی نہیں رکھ سکتے تھے ۔ویسے بھی انکے خود سر بیٹے نے بنا بحث کے اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ ان کے ہاتھ میں دے کر ملیحہ سے نکاح کر لیا تھا ۔انکے لیئے اپنے بیٹے کی اتنی فرمانبرداری ہی کافی تھی ۔شیبی نے انکے مرحوم دوست کی آخری نشانی کو در در کی ٹھوکریں پڑنے سے بچا لیا تھا ۔اسی وجہ سے انہوں نے نا چاہتے ہوئے بھی اس کو ابروڈ جانے کی اجازت دے دی تھی۔ حالانکہ انکے دل کی شدید خواہش تھی کہ شیبی گھر پر رک کر ملیحہ کو وقت دے پر وہ جوان بیٹے کے ساتھ سختی کرنے کی بجائے اسے وقت دینا چاہتے تھے تاکہ وہ اکیلا رہ کر اس رشتے کی اہمیت کو سمجھے ۔انہیں یقین تھا کہ آہستہ آہستہ شیبی خود ہی ملیحہ کے قریب ہو جائے گا پر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
علایا کی آنکھ کسی کے نرم آواز میں پکارنے سے کھلی “”کوئی بہت پیار سے اسے پکار رہا تھا ۔
علایا نے گھبرا کر آنکھیں کھو لیں اور مڑ کر پیچھے دیکھا اک
دراز قد ہلکی سی شیو کھڑی ناک والا لڑکا براؤن پینٹ اور اوف وائٹ کلر کی شرٹ پہنے کھڑا تھا ۔
جس نے گھنے بالوں کو پف کی صورت میں بہت خوبصورتی سے جما رکھا تھا اور آنکھوں پر چشمہ لگا تھا۔
دکھنے میں کسی اچھے گھر کا اور بہت ڈیسنٹ سا لگ رہا تھا
علایا نے پہلے اسے خوفزدہ ہو کر دیکھا پر جیسے ہی وہ بولا اس کا سارا خوف کم ہو گیا “سنئے محترمہ آپکو میرے ہوتے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں یہاں آپکو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔
تم ہو کون جو میں تمہاری بات پر ایمان لے آؤں پہلی بار ملے ہو اور ہو بھی ان غنڈوں کے ساتھی اور بولتے ہو میرے ہوتے آپکو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اس کے لہجے کی نرمی اور آنکھوں میں دکھتی اپنائیت کو دیکھ کر علایا یہ سب باتیں بس سوچ کر ہی رہ گئی اور بہت سوچ کر بس اتنا ہی پوچھ پائی کے کون ہو تم ؟؟؟
جی میں۔۔۔۔۔۔
میں کیا بتاٰں کے میں کون ہوں بس یہ سمجھ لی جئے کہ آپکا خیر خواہ ہوں اور سہی وقت آنے پر آپکو یہاں سے نکال بھی دوں گا ۔
چلہں آپ اب ان باتوں کو چھوڑیں اور میں یہ کھانا لاہا ہوں اسے کھا لیں ۔
نہیں مجھے بھوک نہیں علایا نے بجھے دل کے ساتھ کہا ۔۔۔۔
ارے ایسے کیسے بھوک نہیں آپکو دیکھیں ذرا آپکا چہرہ کیسے پیلا پڑ رہا ہے “” چلئے چپ چاپ کھانا کھائیے اور ویسے بھی اگر کھانا نہیں کھائیں گی تو انرجی نہیں آئے گی جسم میں اور اگر انرجی نہ ہوئی تو آپ میں بلکل ہمت نہیں رہے گی اور اگر ہمت نا رہی تو آپ یہاں سے نکلنے کے بارے میں کیسے سوچ پائیں گی بتائیں ذرا؟؟؟
شرارت سے کہتا وہ لڑکا خود ہی علایا کے پاس آبیٹھا اور اس سے ریکوئسٹ کرنے لگا کہ وہ کھانا کھا لے ۔
علایا جو دل میں فیصلہ کئے بیٹھی تھی کے کچھ بھی نہیں کھائے پئے گی اور کچھ دن نا کھانے پینے سے خود ہی اسکی جان چلی جائے گی ۔۔۔کب اسکے نرم لہجے سے متاثر ہو کر کھانا کھانے لگی اسے خود پتہ نا چلا۔
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلآخر سبحان اکرم کے شیطانی دماغ نے اسے اک راستہ دکھا ہی دیا جس سے وہ سیٹھ شہاب الدین سے اک بڑی رقم نکلوانے میں کامیاب ہو سکتا تھا ۔سبحان اکرم نے کرائے کے چند گنڈے لئے اور انہیں اپنا پلان سمجھانے لگا دیکھو یہ ہے سیٹھ شہاب الدین کی کوٹھی , یہاں سے صبح کے وقت سفید یونیفارم میں اک لڑکی نکلے گی کالج جانے کے لئے تم لوگوں نے اس کو اغواء کرکے میرے اڈے پر پہنچانا ہے ۔اور ہاں دیہان رہے کہ لڑکی تم لوگوں کا چہرہ نا دیکھ پائے “” بہت چالاکی سے یہ کام انجام دینا ہے سمجھے غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ورنہ مجھے تو تم لوگ اچھے سے جانتے ہی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔سبحان اکرم نے سخت لہجے میں کہا ۔
جی جی صاحب آپ بے فکر رہئے ہم سب کام بڑے طریقے سے کر دیں گے اور کسی کو آپ پے شک بھی نہیں ہوگا اک موٹے سے غنڈے نے شیطانی مسکراہٹ کے ساتھ کہا “”گڈ چلو اب سب اپنے اپنے کام پر لگ جاؤ کہتا ہوا سبحان اکرم واپسی کے لئے چل پڑا اور ان میں سے اک غنڈے کو سیٹھ شہاب الدین کی کوٹھی کے باہر نظر رکھنے کے لئے بھیجنا
شیبی کی ابروڈجانے کی تیاری مکمل تھی ,بس اک رات کی دوری تھی اسکے اور ابروڈ کے بیچ میں وہ بہت خوش تھا ۔
وہ آج صبح ہی اٹھ گیا تھا اس نے آج سارا دن اپنے بابا سیٹھ محی الدین کے ساتھ گزارا تھا اب شام ہوئی تو وہ کچھ وقت اپنے دوستوں کو دینے کے بہانے اپنی پسندیدہ جگہ آگیا تھا””
وہاں وہ اپنے جیسے بگڑے ہوئے امیر زادوں کے ساتھ شراب کو پانی کی طرح پی رہا تھا ۔
تقریبا رات کے2 بجے وہ نشے میں جھومتا ہوا گھر پہنچا ۔وہ اکثر جب وہ اپنے آوارہ دوستوں کے ساتھ وقت گزار تا تو دیر رات کو گھر آتا تاکہ اسکے بابا اسکو نشے کی حالت میں نا دیکھ سکیں آج بھی ایسا ہی ہوا تھا آدھی رات کو جب وہ اپنے کمرے میں پہنچا تو اسے یاد ہی نا تھا کے اس کے علاوہ اک اور وجود بھی اب اس کمرے کا مالک ہے ۔
وہ یونہی گڑتا پڑتا لڑکھڑاتا ہوا اپنے بیڈ تک پہنچا اور لیٹ گیا , جیسے ہی اس نے کروٹ دائیں طرف لی تو نائٹ بلب کی روشنی میں اک خوبصورت وجود کو سوتا ہوا دیکھ کر دیکھتا ہی رہ گیا ۔
صبح جب شیبی اٹھا تو کمرہ خالی تھا وہ اٹھا فریش ہوا اور اپنی پیکنگ مکمل کی۔اور ناشتے کی ٹیبل پر اپنے بابا کو ملا اور ساتھ بیٹھے وجود کو مکمل نظر انداز کرتا ہوا چلا گیا ۔
ملیحہ یہ جانتی تھی کے شیبی کے لئے یہ نکاح ان چاہا ہے پھر بھی شیبی کی طرف سے ہونے والی اس پہل سے وہ خوش تھی کہ اب انکا رشتہ مضبوط ہو گیا لیکن اگلے ہی دن شیبی کا یوں نظر انداز کرنا اسے تکلیف دے گیا تھا ” پھر بھی اس با ہمت لڑکی نے خود کو یہ کہہ کر سمجھا لیا کہ ہو سکتا ہے وہ جلدی میں ہو فلائیٹ کا بھی تو ٹائم۔ہو رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن صبح ہی صبح وہ لڑکا پھر ناشتہ لے کر آگیا۔ اپمے اچھے اخلاق سے اک۔بار پھر علایا کو باتوں میں لگا کر کھانا کھلا دیا ۔
آپکا کیا نام ہے علایا نے جھجکتے ہوئے پوچھا ”
میرا نام ہہہممم آپ مجھے میرو کہہ سکتی ہیں اس لڑکے نے نرم لہجے میں کہا ۔
میرو پلیز مجھے بتائیں مجھے یہاں کون لایا ہے اور کیوں ؟؟؟
دیکھیے میم میں یہ سب باتیں آپکو نہیں بتا سکتا میری ابھی مجبوری ہے پلیز میری مجبوری کو سمجھیے ہاں پر اتنا زرور کہوں گا میرے ہوتے آپکو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں میرے ہوتے آپکو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔
میں ہر لمحہ آپکے ساتھ ہوں میں نے پہلے بھی کہا تھا بس مجھے اپنا خیر خواہ سمجھیں ۔جانے اس لڑکے کے لہجے میں ایسا کیا تھا کہ علایا نا چاہتے ہوئے بھی اس کی ہر بات پر یقین کر رہی تھی ۔اچھا بات سنیں اگر آپ میرے اتنے ہی خیرخواہ ہیں تو پلیز مجھے یہاں سے نکالیں میرا یہاں دم گھٹتا ہے علایا نے معصومیت سے کہا ۔
اگر آپ یہ کہنا چاہ رہی ہیں کے میں آپکو یہاں سے بھگا دوں تو ابھی یہ ممکن نہیں پر ہاں میں وعدہ کرتا ہوں کے صحیح وقت آنے پر آپکو صحیح سلامت ہیاں سے نکال کر آپکے گھر پہنچا دوں گا ۔میں سمجھ سکتا ہوں آپ کے لئے آپ کے گھر والے پریشان ہو رہے ہوں گے پر یقین کریں میری بھی ابھی مجبوری ہے میں ابھی آپکو یہاں سے نکالنے کی غلطی نہیں کر سکتا کیونکہ ایسا کرنا بہت رسکی ہو سکتا ہے چلیں اب میں چلتا ہوں شام کو ملاقات ہو گی پیاری سی سمائل کے ساتھ کہتا وہ واپس چلا گیا۔
ہہہن میرے لئے کون پریشان ہوگا اس گھر میں الٹا شکر ہی کیا ہوگا انہوں نے میں تو ویسے بھی اک بوجھ تھی ان کے لئے علایا تلخی سے سوچتی ہوئی پھر سے اس چٹائی پر لیٹ گئی اور بےآواز رونے لگی اور روتے روتے کب اسکی آنکھ لگی اسے پتہ ہی نا چلا ۔
شام کو دروازہ کھلنے کی آواز سے اسکی آنکھ کھلی اور میرو اندر آتا دکھائی دیا میرو کو اندر آتا دیکھ کے وہ اٹھ بیٹھی اور اپنا دوپٹہ۔ٹھیک کرنے لگی ۔
اسلام علیکم میم کیسی ہیں آپ بور تو نہیں ہوئیں نا اکیلی میرو نے مسکرا کر کہا ۔
جی آپ بتائیں ذرا آپ کسی کی قید میں ہوں تو کیا انجائے کریں گے علایا نے تنز کیا
میرو اپنی ہی بات پر شرمندہ سا ہو گیا علایا کا جواب سن کر حالانکہ اس کا مقصد علایا کو فریش کرنا تھا الٹا وہ چڑ گئی تھی اسکی بات سے”” چلیں چھوڑیں کھانا کھاتے ہیں اس نے ماحول کو بہتر کرنے کے لئے بات بدلی
جی نہیں مجھے بھوک نہیں آپ خود ہی کھائیں کھانا علایا نے جلے دل سے کہا ۔
ہہہہمممم اچھا جی چلیں چھوڑیں کھانے کو ہم کچھ اچھا سا کرتے ہیں جیسے کرکٹ کھیلیں ؟؟؟ میرو نے علایا کا موڈ اچھا کرنے کے لئے جلدی میں بول گیا ۔
کیا۔۔۔۔۔آپ اس بند کمرے میں کرکٹ کھیلیں گے علایا کو اس کی دماغی حالت پر شک ہوا اف اللہ یہ انسان کہیں پاگل واگل تو نہیں علایا نے دل ہی دل میں سوچا ۔
ااارے وہ میں معذرت چاہتا ہوں زبان پھسل گئی میری میں نے کہنا تھا کے چلیں لڈو کھیلتے ہیں میرو نے کھسیانی سی ہنسی ہنس کر کہا ۔
اب یہ لڈو کہاں سے آئے گی اس بند کمرے میں علایا ابھی بھی اسے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے سامنے کوئی پاگل بیٹھا ہو ۔
ارے میں لڈو سٹار کی بات کر رہا ہوں چلئے میرے پاس 2 موبائل ہیں یہ لی جئے میرو نے اسکا موڈ اچھا کرنے کی اک اور ناکام کوشش کی ۔
جی نہیں لڈو سٹار تو مجھے زہر لگتی ہے میں نہیں کھیلوں گی ۔اس بار علایا نے دو ٹوک لفظوں میں کہا تو میرو بیچارہ اپنا سا منہ لے کر بیٹھ گیا ۔5 منٹ یونہی کمرے میں خاموشی رہی ۔
ویسے یہ ۔بیچارہ دنیا کا وہ واحد انسان ہے جو تم سے اتنی عزت سے بات کر رہا ہے اور تم کچھ زیادہ ہی نخرے دکھا رہی ہو علایا کے دل نے اسے ڈپٹا ۔اچھا چلیں ایسا کرتے ہیں آپ باہر سے کھانا لینے تو جائیں گے ہی آتے ہوئے اک لڈو بھی لے آئیے گا مجھے اصلی لڈو پسند ہے گو کہ میں نے کبھی کھیلی نہیں پر آپ اتنا کہہ رہے ہیں تو کھیل لوں گی ۔
اوکے تھینکس الاٹ میم میں ابھی گیا اور ابھی آیا میرو کہتا وہاں سے نکل گیا ۔
اور علایا حیران سی اس خوش اخلاق کو جاتا دیکھتی رہی ۔
اس کے ساتھ کبھی کسی نے اتنے پیار سے بات نہیں کی تھی گھر میں بچپن ہی سے محرومیاں تحفے میں ملی تھیں اسے گھر میں کبھی توجہ نا ملنے کی وجہ سے اس میں اعتماد کی بہت کمی تھی ۔یہی وجہ تھی کے وہ سکول سے لیکر کالج تک کوئی دوست نہیں بنا پائی تھی اسکے لئے دئے انداز کی وجہ سے کلاس کی لڑکیاں بھی اسے زیادہ مخاطب نہیں کرتیں تھیں ۔اسکے چپ چپ رہنے کی وجہ سے لڑکیاں ا سے مغرور سمجھتی تھیں پر کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ مغرور نہیں بلکہ زندگی کی خوشیوں سے دور محرومیوں کا شکار تھی اور میرو تھا کہ صرف 2 دن پہلے ملا تھا اور اسے مسلسل خوش کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔علایا کا حیران ہونا تو پھر جائز تھا۔