تب سکھیوں نے اسے اٹھا کر پلنگ پر لٹایا۔ پھر اس کا بدن تمام ٹھنڈا ہوگیا۔ ہونٹ سوکھ گئے۔ ایسی بے خبری ہوئی کہ اپنے درد کی سرت نہ رہی۔ بدن اس کا ہو گیا بے سانس، سکھیوں کو اس کے جینے کی نہ رہی آس۔ تو بھی اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے دیے اور دوا دارو کرنے لگیں۔ جب کچھ فائدہ نہ ہوا تب تدبیر سے تھکیں۔ رونہاک ہو کر کہنے لگیں کہ “اِسے برہ کے سانپ نے ڈسا ہے۔ اس کا ہم پاس منتر نہیں۔ مگر کانوں سے لگ کر اس کے دوست کا نام جپو سب!”
یہ بات من میں ٹھہرا مادھو مادھو پکاریں۔ اس نام کے سنتے ہی ہوش میں آئی۔ آنکھیں کھول چاروں طرف دیکھا۔ جب مادھو نظر نہ آیا، پھر درد دوری سے حال اس کا ایسا تغیر ہوا جیسے کنول بن تالاب مرجھائے اور مچھلی بن پانی تڑپنے لگے۔
غرض کتنی دیر میں بحال ہو کہنے لگی: “کیسا میرا دل پتھر ہے کہ یار کے جاتے ہی ٹکڑے نہ ہوا اور جی بھی ایسا بے حیا ہے کہ اس کے ہاتھ سے نکل نہ گیا۔ یہ سچ ہے ؎
جسے عشق کا تیر کاری لگے
اسے زندگی جگ میں بھاری لگے
حیف ہے کہ وہ جاوے اور میری جان نہ جاوے۔ تعجب ہے کہ ایسے درد جدائی کے سہوں اور میں اب تلک جیتی رہوں۔ وہ دوست بروگی پونجی سکھ اور چین کی لے گیا۔ آنکھیں اور جان و تن جدائی کے بس میں ہو، دکھ سہنے کو رہ گئے۔ اب دیکھیے وہ دل کی نگری کا لوٹنے والا کچھ میری تسلی کو کب بھیجتا ہے سندیسا”۔
یہ کہہ کر یوں بولی: “سچ ہے جو پردیسی سے پیت کرے تو پھر وہی دکھ بھرے۔ مشہور ہے کہ جوگی، بھونرا، پردیسی تینوں اپنے نہیں ہوتے۔ ایک پل میں دل موہ لے جاتے ہیں۔ دوست کر دوست کا دکھ درد نہیں جانتے اور ملتے وقت بچھڑنے کا دل میں اندیشہ نہیں لاتے۔ جیسے چکور کے دکھ کو چاند نہیں جانتا، اور وہ اس بغیر اندھیری رات بے کلی سے سر ہے دھنتا”۔
یوں ہی مادھو بن شب و روز درد فراق میں گرفتار تھی لیکن جب رات ہوتی تو گھر سے باہر اور باہر سے اندر گھبرائی گھبرائی اُدھر کی ادھر اور اِدھر کی ادھر پھرتی۔ کبھی اس کا نام لے لے کر پکارتی، کبھی دیوانی سی رو رو چیخیں مارتی ؎
آباد تم نے اور کہیں کا نگر کیا
جوں شمع ہم نے زیست کو رو رو بسر کیا
آتش فراق سے شعلے کی مانند جلتی۔ کف افسوس ملتی۔ نہ رات کو نیند نہ دن کو بھوک۔ اور جدائی کے تپ کی بھڑک سے سیج پر نہ سوتی۔ تمام رات منہ ڈھانک ڈھانک روتی، تب کہیں صبح منہ دکھاتی اور دن کی شکل نظر آتی۔ جب دن ہوتا تو رات رات جپتی اور رات ہوتی تو دن دن رٹتی۔ از بس کہ درد جدائی نے اُس کے دل میں گھر کیا تھا۔ آٹھوں پہر بے تاب رہتی تھی۔ ہر آن اپنے پر دکھ سہتی، دھیان گیان بدیا سب بھول گئی تھی۔
ناچنا گانا سگھڑائی چترائی کچھ یاد نہ رہی۔ حق ہے برہ کی پیڑ جس کے تن کو لگے وہ سوکھ جائے اور اس کے ست سوکھ جائیں۔ چاؤ اور خوشی کبھی گرد نہ آئیں۔ جس کے بدن میں یہ بلا رہے وہ زندگی میں بھی مرتا رہے۔
القصہ وہ جی ہارے من مارے رہتی تھی، پر اپنا درد دل کسی سے نہ کہتی تھی۔ گھڑی ہوش میں آتی تھی، کبھی بے ہوش ہو جاتی۔ ہر دم اُسے سانپ کے کاٹے کی سی لہریں آتی تھیں۔ آنسو آنکھوں سے لال لال نکلتے تھے اور استخوان آسانی سے سانس لیتے ہلتے۔ رنگ زرد تھا۔ لہو بدن کا سوکھ گیا تھا۔ ضعف اس قدر تھا کہ ہوا کا لگنا بھی اُس کو ایک صدمہ تھا۔ غرض ایسی بے حال ہوگئی تھی کہ سکھیاں غش میں اسے دیکھ کر ‘مر گئی مر گئی’ پکار اٹھتیں اور کبھی گلاب کے چھینٹے دینے لگتیں اور پانی منہ میں چواتیں۔ گھڑی چندن گھس گھس بدن پر لگاتیں۔ پھولوں کی سیج پر سلاتیں۔ تد بھی وہ عشق کی آگ سے جلی جلی پکارتی۔ چاندنی اور رات کی ٹھنڈی ہوا اس کے بدن کو آگ سی لگتی تھی۔ کوئل اور مور کی آواز دل کے گھاؤ پر زہر کا سا اثر کرتی۔ اس کے کبت اور کہانیاں، گیت اور باجے حق میں اُس کے سم تھے۔
سچ ہے کہ جتنی لگانے اور سننے کی چیزیں ہیں سکھیوں کو سکھ دیتی ہیں اور دکھیوں کو دکھ۔