آہل صبح کہ ٹائم واپس آیا تو آئمہ کو نماز میں روتا دیکھ کہ ٹھٹک گیا۔۔۔کتنی ڈرامے باز ہے یہ لڑکی۔۔۔سوچتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔ آئمہ نماز پڑھ کی بہت سکون محسوس کر رھی تھی وہ وہیں نیچے صوفے پہ سو گئی۔۔۔۔آہل جب نیچے آیا آئمہ کو سوتا دیکھ کے اس سا غصہ اور بڑھ گیا۔۔۔ہمیں بیچین کر کہ خود آرام سے سو رھی ھے۔۔۔آہل نے ٹھنڈا پانی آئمہ پہ اونڈیل دیا آئمہ گھبرا کہ اُٹھی۔۔۔اسے سمجھ نہیں آیا اس کہ ساتھ ایسا کیون ہو رھا ھے وہ ایک دم کھڑی ہو کہ آہل کو دیکھنے لگی۔۔۔مہارانی ہو کیا جو آرام سے سو رھی ھو آج کہ بعد میری اجازت کہ بغیر سونے یا کچھ بھی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ھے۔۔۔ورنہ ہر بات کی ایک سزا ھوگی یہان تمہارے لیے۔۔۔۔اب جاؤ جا کہ ناشتا بناؤ اور صرف میرے لیے نہیں یہیاں جتنے بھی نوکر ھیں ان سب کا ناشتا کھانا گھر کی صفائی اور ہر کام تم کروگی اور تم وہ کام بھی کروگی جو تمیہیں یہاں کہ نوکر کہیں گے۔۔۔اور جانتی ھو کیوں۔۔۔کیونکہ تمہاری حثیت اس گھر میں ان سب سے بھی گئی گذری ھے۔۔۔آئمہ نے ساری باتیں سنے کہ بعد بس اتنا کہا۔مجھے کھانا بنانا نہیں آتا دادی کہ گھر کبھی نہیں بنایا۔۔۔اس کا اتنا کہنا تھا کہ آہل نے اسے زوردار تھپڑ سے نوازا۔۔۔آئمہ دور جا گری اور رونے لگی آہل اس کہ پاس آیا اور کہا۔۔۔یہاں تمہیں منہ کھولنے کی اجازت نہیں ھے اور اس کہ بال اپنے ھاتھوں میں جکڑ لیے آئمہ درد سے کہرا اُٹھی۔۔۔۔آئندہ اگر بولا تو میں تمہیں اتنا مارون گا کہ ہ جو تمہارا مکار چھرا ھے نہ دھوکے باز اس کا نقشا بگاڑ دونگا۔۔۔۔آہل یہ کہتا آئمہ کو چھوڑتا چلا گیا۔۔۔آئمہ غم اور تکلیف کی شدت سے رونے لگی۔۔۔دادی اپنے تو کہا تھا کہ میں راج کرونگی۔۔۔۔پر یہاں تو کوئی نہیں جیسے میری پرواہ ہو۔۔۔
آئمہ کو آہل نے سرونٹ کواٹر میں رکھا ہوا تھا اور اس کی ہر بات ہر چیز پہ پابندی تھی وہ کہیں جا نہیں سکتی تھی ۔۔آج اسے داد دادی بہت یاد آرھے تھے اس نے ایک بار پوچھنے کا سوچا وہ سارا دن کام کرتی نوکروں کا کھانا بھی آہل اسے بنواتا اور کچھ ذرا سا خراب ہو جاتا آہل اسے دو تیں جڑ دیتا اور دروازے کے باھر کتنی کتنی دیر تک کھڑا رکھتا وہ بس اپنے آنسو ضبط کیے وھاں کھڑی رھتی اگر کہتی تو بھی کیسے بوڑھے دادا دادی کو وہ اس عمر میں دکھ نہیں دینا چاھتی تھی۔۔۔۔آج بہت خواہش تھی اپنے جان سے پیارے دادا دادی کو دیکھنے کی وہ صبح سے کام کرتی رھی آہل کہ سارے کام بھی آہل اسی سی کرواتا تھا آہل رات میں جتنی بار کافی پیتا اسے اُٹھواتا نہیں پینی ہوتی تو بھی جان بوجھ کہ بنواتا اور آئمہ بس چپ چاپ سب برداشت کر رھی تھی۔۔۔۔کوئی ایسا تھا نہیں جیسے وہ کچھ کہتی ایک دوست رانیہ تھی جو شادی ھو کہ امریکا شفٹ ہو گئی تھی۔۔۔اب وہ کبھی کبھی کال کرتی تو اسے وہ اپنے دکھ کیا بتاتے وہ بس اس کہ دکھ سن کہ اسے دلاسے دینے لگتی۔۔۔آہل جب آیا تو اسے کھانا دے آئمہ وہیں کھڑی ھو گئی ورنہ آہل جب تک کھانا کھاتا تھا وہ گیٹ کہ پاس کھڑی رھتی تھی اگر اسےتھوڑی دیر ھاجاتی آہل اسے مارنے سے باز نہ آتا وہ یہ سب جان بوجھ کہ کر رھا تھا اپنے دوست کا بدلا لینے کہ لیے اس کی نظر میں آئمہ دنیا کی سب سی بری لڑکی تھی جس کہ ساتھ وہ جس طرح کا سلوک چابے کر سکتا تھا۔۔۔۔آہل نے کھانا کھا لیا تو آئمہ کافی لی کہ آئی۔اور وہیں کھڑے رھ کہ انگلیاں آپس میں مروڑنے لگی۔۔۔۔کیا مصیبت پڑ گئی ھےجو میرے سر پہ نازل ہو گئی ہو۔۔۔۔وہ۔۔۔مہ۔۔۔۔میں کچھ کہنا چاھتی ھوں۔۔۔۔۔مجھے فضول بکواس سنے کی عادت نہیں اب تم جا سکتی ہو۔۔۔۔آئمہ کو آنکھیں نم ھو گئیں۔۔۔مجھے۔۔۔دادا دادی کہ پاس جانا ھے آئمہ کہہ کہ رونے لگی۔۔۔آہل کہ دل کو اس وقت کچھ ھوا۔۔۔پر اس نے صاف منع کرکہ آئمہ کو کمرے باھر نکال دیا۔۔
کتنے دیر رات تک آئمہ روتی رھی۔۔آہل نے دیکھا پر یہ سوچ کہ نظر انداز کردیا کہ اس نے بھی تو نبیل کو کتنا رلایا ھے۔۔۔۔آئمہ فجر کی نماز کہ بعد سے کام میں لگتی تھی اسے رات دیر تک کام کرنا پڑتا تھا۔۔۔جو اپنے گھر میں رانیوں کی طرح رھتی تھی آہل نے اسکہ ساتھ نوکروں سے بد تر سلوک کیا ہوا تھا شروع میں وہ بیمار ہو جاتی کام کر کہ پر اب اسے عادت پڑ گئی تھی بس جیسے اُٹھتی کام میں لگ جاتی تھی۔۔۔۔پر نماز اور قرآن باقائدگی سے پڑھتی تھی اب بھی اور اس کی یہی بات آہل کو پریشان کرتی کہ کوئی کتنا ڈرامہ کر سکتا ھے اور ڈرامہ تب ھو جب میں دیکھوں میں تو بے ٹائم آتا ہوں اور تب بھی میں نے اس لڑکی کو عبادت کرتے اور خدا کہ سامنے روتے دیکھا ھے۔۔اب آہل کی سمجھ سے باھر ہو گیا تھا سب وہ سمجھ ھی نہیں پا رھا تھا کہ کیا غلط ہے کیا صیح۔۔۔وہ اسی سوچ میں ڈوبا ڈراونگ کر رھا تھا کہ آگے کوئی چیز آئی اور وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پایا اور گاڑی سیدھی جا کہ کھائی میں گر گئی۔جاری ہے۔۔
___________
آہل کہ ہاتھوں میں اور ایک ٹانگ میں فریکچر آیا تھا وہ اُٹھ بیٹھ نہیں سکتا تھا خود سے اور نہ ھی کچھ کھا سکتا تھا اپنے ہاتھوں سے۔۔۔آئمہ کو اس کی حالت دیکھ کہ دکھ ہوا ۔۔۔وہ جانتی تھی آہل خود سے کھا پی اور چل نہیں سکتا تو اس کی مدد کرنے گئی پر آہل نے اسے کمرے سے نکال دیا اور اپنے لیے ایک لڑکا رکھا جو اس کی مدد کرتا کھانا کھلانے میں اور چلنے میں۔۔۔۔آج بھی وہ اس لڑکے کو ڈانٹ رھا تھا کہ ٹھیک سے کھلائے۔۔۔لیکن اسے ھو نہیں رھا تھا آئمہ نے سوچا جا کہ آہل کی مدد کرے پر پہر دروازے کہ باھر ٹھر گئی پر اندر نہیں گئی۔۔۔
رات کہ وقت آئمہ کو کچھ گرنے کی آواز آئی وہ نیچے سروینٹ کواٹر میں واضع آواز سن سکتی تھی اس نے اُٹھ کہ باہر دیکھا تو آواز اب بھی آرھی تھی اور وہ آواز آہل کہ کمرے سے تھی پہلے وہ سوچتی رھی کہ جائے یا نہ جائے پہر ہمت کر کہ گئی تو دیکھا آہل نیچے گرا ہوا تھا اور جو لڑکا آہل نے ہائر کیا ھوا تھا وہ مزے سے سو رہا تھا۔۔۔آئمہ فورن دوڑ کہ آہل کہ پاس گئی۔۔۔۔اور جیسے اسے اُٹھانے لگی آہل نے ہاتھ جھٹک دیا اور گلاب کو بلانے لگا لیکن گلاب تو گدھے گھوڑے بیچ کہ سویا ہوا تھا۔۔آئمہ وہیں کھڑی رہی کچھ دیر تک آہل آواز دیتا رہا پر جب اس پہ کوئی اثر نہ ہوا تو آئمہ نے سہارہ دے کہ آہل کو اُٹھایا اس بار آہل بھی چپ تھا مجبوری کی وجھ سے۔۔۔ ۔۔
صبح آہل نے گلاب کو فارغ کردیا اور آئمہ کو کمرے میں بلایا۔۔۔جی آئمہ نے کہا۔۔۔آج سے میرا ہر کام تم کروگی بہت شوق ھے نہ تمہیں رات میں میرے کمرے میں آکہ میری مدد کر کہ مجھے یہ جتانے کا کہ میں مجبور ہوں تو آج سے یہ سارے کام تم کروگی مجھے کھانا بھی تم کھلاؤگی۔۔اور ایک بات وہ دروازہ دیکھ رہی ہو تم وہاں سوؤ گی آج سے۔۔۔جی وہ اتنا کہہ کہ جا ے لگی تو آہل نے اسے بلایا ادھر آؤ مجھے واشروم تک لے چلو۔ ۔آئمہ آہل کہ پاس گئی اسے اُٹھانے کہ لیے جھکی تو آہل کہ اتنے پاس آ کے اسے بہت ڈر لگ رھا گھا اور آہل یہ بات سمجھ چکا تھا اور اس نے آئمہ کو اور قریب کرلیا۔۔۔آئمہ نے گھبرا کہ ایک دم آہل کو چھوڑ دیا وہ گر پڑا۔۔۔۔تم پاگل ہو کیوں چھوڑا اُٹھاؤ مجھے۔۔۔۔جی وہ۔۔۔ہاں میں اُٹھاتی ہوں۔۔۔جاھل چھوڑا کیوں تھا ۔۔۔آہل کا غصہ ساتویں آسمان پہ جا پہنچا۔۔۔وہ آپ نے۔۔۔کیا میں نے۔۔۔وہ آپنے قریب کیا۔۔۔۔آئمہ نے ڈرتے ڈرتے کہا۔۔۔قریب کیا تو کیا ۔۔۔بیوی ہو میری ۔۔۔آئمہ کے ہوش اڑ گیے آہل کی بات سن کہ اس نے حیرت سے آہل کو دیکھتے کہا۔۔۔جی۔۔۔۔کیا جی اُٹھاؤ مجھے۔۔۔۔آئمہ نے احتیاط سے آہل کو اُٹھایا اور واشروم لے گئی اور خود باہر انتطار کرنے لگی۔۔۔ اور سوچنے لگی ابھی جو بات آہل نے کہی وہ بات تو آئمہ بلکل فراموش کر چکی تھی اور دعا کرنے لگی کی آہل کو دوبارہ کبھی یاد نہ آئے کہ میں اس کی بیوی ہوں وہ تو پہلے کہہ چکا ھے کہ وہ مجھے چھوڑ دے گا۔۔۔بس اپنا حق نہ مانگے کبھی وہ دعا مانگے میں مگن تھی تب آہل دروازے تک آیا۔۔۔اور دروازے کو پکڑ کے لمبے سانس لینے لگا۔۔۔۔ک۔۔کیا ہوا آپکو۔۔۔چل نہیں سک رہا اب اندر تمہیں بلاتا کیا اس لیے خود سے آیا ہوں تو یہ حالت ہے آئندہ پوچھا تو تمہیں ہی بلاؤگا اندر بھی۔۔۔آئمہ نہیں کہتی چپ ہو گئی۔۔۔آہل کا بایاں ہاتھ کچھ کام کرنے لگا تھا اب بھی اسے چلنے میں بہت مشکل پیش آرھی تھی وہ خود سے زیادہ نہیں چل پا ریا تھا۔۔۔۔آئمہ آہل کو بیڈ تک لے گئی۔۔۔۔اور پوچھنے لگی۔۔۔کھانا لا دوں۔۔۔۔کیا مطلب ھے لادوں۔۔۔کھلائگا کون۔۔۔وہ میں۔۔۔ہاں تو جاؤ پہر لے آو۔۔۔جی کہتی آئمہ کھانا لینے چلی گئی اور جب آہل کو کھانا کھلاتی آہل کی نظرین مسلسل آئمہ پہ جمی رہتی اور اس بات سے آئمہ کو پریشانی ہوتی وہ آہل کہ سارے کام کرتی رات میں آہل کو دوائیں دے سلا دیتی اور خود دروازے کہ پاس بغیر کسی تکیے یا رزائی کہ سوتے کیونکہ وہ جانتی تھی آہل اسے ہر طرح کی تکلیف دینا چاھتا ہے وہ یہ سب رکھوا دے گا اس لیے وہ لائی ھی نہیں بس آہل کہ کمرے میں ہیٹر چلتا تھا اس لیے اسکی سردی سے بچت ہو رھی تھی لیکن وہ ھی جانتی تھی اتنی سردی میں ایسے سونا کتنا مشکل تھا۔۔۔۔۔
عمومٍ تو آہل صبح ہی اٹھتا تھا پر آج اس کی آنکھ 5 بجے کھل گئی۔۔اس نے کروٹ لے کہ دیکھا آئمہ کو جیسے دروازے کہ پاس اس نے سونے کا کہا تھا وہ ویسے سو رھی تھی اور بغیر کسی چیز کہ آہل کو حیرت ہوئی ۔۔اور سوچنے لگا میں نے یہ کب کہا تھا کچھ پہن کہ مت سوئے اتنی سردی میں پاگل ۔ر گئی تو نبیل کو کیا منہ دکھاؤگا۔۔۔۔۔اور وہ سوچتے سوچتے آئمہ کو دیکھنے لگا۔۔۔۔اس کی نظریں بار بھٹک رھی تھی اپنا حق طلب کر رھی تھی۔۔۔۔نہیں آہل ایسا نہیں کر سکتے تم اپنے دوست کہ ساتھ آئمہ کو تو چھوڑنا ھی ھے مجھے۔۔۔وہ. اسے دیکھتے دیکھتے سوچ رھا تھا کہ آزان اآنے لگی اور اس نے دیکھا آئمہ آزان کی آواز کہ ساتھ اُٹھی ھے وہ سوتا بن گیا پر چور آنکھوں سے دیکھنے لگا۔۔۔آئمہ نے اُٹھتے کلمہ پڑھا پہر واشروم گئی وضو کیا اور ہیں کمرے میں نمازپڑھنے لگی۔۔۔۔آہل اسے دیکھتا رھا اور سوچتا رھا یہ سب کیا ہے اگر یہ اتنی بری ھے جتنا سب نے بتایا تو آج تک مجھے کوئی برائی کیوں نہیں دیکھی۔۔۔۔اور ڈرامہ تو سب کہ سامنے سوتا ھے اکیلے میں نہیں۔۔۔اس وقت وہ نماز میں دعا مانگ رھی تھی اور اس کی دعا میں کتنی شدت تھی وہ آہل دیکھ سکتا تھا وہ پوری طرح نماز میں کھوئی ہوئی تھی اس کہ بعد اُٹھی اور آہل کی رزائی ٹھیک کی اور صوفے پہ بیٹھ کہ قرآن کریم پڑھنے لگی اور آہل بہت حیران ہوا یہ دیکھ کہ کہ وہ موبائل کہ ٹورچ پہ قرآن کریم پڑھ رھی تھی تا کہ آہل کی نیند نہ خراب ہو۔۔۔یہ سب دیکھ کہ آہل کا سر چکرا گیا یہ سب ہو کیا رھا ھے آخر۔ وہ سوچتا سوچتا سو گیا۔۔۔۔
اس دن کہ بعد آہل آئمہ کو کچھ دن روز صبح اُٹھ کہ دیکھتا اور جب اس نے دیکھا اس کا روز یہی روٹین ھے تو اس نے آئمہ کو تنگ کرنا چھوڑدیا اسے مارنا بیعزت کرنا سب آہل کو گناہ لگنے لگا۔۔۔۔آہل کی طبیعت اب پہلے سےبہتر تھی اس کے ہاتھ اور ٹانگ ٹھیک ہو گئے تھے لیکن وہ جان بوجھ کہ آئمہ سے سب کرواتا تھا۔۔۔پہلے تنگ کی غرض سے پر اب اسے یہ سب اچھا لگنے لگا تھا۔۔۔۔
آئمہ۔۔۔۔آہل۔زور سے اسے آواز دے رہا تھا اور وہ کچن سے بھاگتی اوپر آئی۔۔۔جی۔۔۔کہاں ہو تم صبح سے کھانا کون کھلائگا مجھے۔۔۔۔پر آپکا ہاتھ تو۔۔۔کیا میرا ہاتھ آہل نے اس کی بات بیچ میں کاٹ دی آئمہ کو لگا وہ اسے تنگ کرنے کی غرض سے یہ سب کر رہا ہے اب بھی۔۔۔۔اور. وہ لاتی ہوں کہہ کہ کہ نیچے چلی گئی۔۔۔اور کھانا لا کہ آہل کو کھلانے لگی آہل اسے ھی دیکھ رھا تھا اس کہ چھرے پہ چھائی معصومیت چیخ چیخ کہ گواھی دے رہی تھی کہ وہ کبھی کچھ غلط نہیں کر سکتی۔۔۔۔پر پہر بھی وہ اپنے دوست کو کیسے غلط سمجھ سکتا تھا جو دو بار آئمہ کہ لیے سوسائٹ اٹیمپ کر چکا تھا۔۔۔۔ایک جھٹکے سے آہل نے کھانا گرا دیا اور آئمہ سے کہا دفع ہو جاؤ میری نظروں سے۔۔۔۔نبیل کی طبیعت اب بہتر تھی آج آہل اسے آن لائن بات کر رہا تھا اسے ٹھیک دیکھ کہ اسے بہت خوشی ہوئی۔۔۔۔آہل آئمہ ملی۔۔۔۔نبیل کہ سوال پر آہل نظریں جھاتا چپ ھو گیا اور بس اتنا کہا نہیں۔۔۔۔تو جھوٹ کہہ رہا ھے میں جانتا ہوں پر تو آٰئمہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا وعدہ کر۔۔۔۔آہل نے کال کاٹ دی اور نبیل سمجھ گیا وہ اس کہ بات سے اتفاق نہیں رکھتا۔۔۔۔