(Last Updated On: )
“میں زمل کو لینے جا رہا ہوں تم خیال رکھنا سب کا یہاں پر۔۔ ” مدثر صاحب نے شہریار کو کہا ۔
“لیکن آپ کیوں جارہے ہیں بالاج سے کہیں کہ وہ زمل کو لے آئے ۔” شہریار نے پریشانی سے کہا ۔
“میں نے اُسے ٹیکسٹ چھوڑ دیا ہے کہ جمال کو ہارٹ اٹیک آیا ہے ۔ وہ میری کال ریسیو نہیں کررہا ہے لیکن مجھے زمل کو لے کر آنا ہے ورنہ اُس کے ساتھ زیادتی ہوگی یہ۔۔ “
“مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ آپ دونوں کچھ چُپھارہے ہیں۔۔؟ شہریار نے پوچھ ہی لیا ۔
“یہ ان سب باتوں کا وقت نہیں ہے ابھی جو میں نے کہا ہے بس وہ کرو اور مجھ سے کانٹیکٹ میں رہنا تم ۔”
“جی ٹھیک ہے
“تم باہر کیوں کھڑے ہو ۔۔؟” مدثر صاحب نے باری سے پوچھا ۔
“کب سے بیل کررہے ہیں کوئی نہیں کھول رہا ہے رکیہ بی بھی کب سے انتظار کررہی ہیں ۔” باری نے جواب دیا۔
“شکر ہے کے میں ایکسٹرا چابی لے کر آیا ہوں یہاں کی۔۔ “
مدثر صاحب نے لاک کھولتے ہوئے کہا ۔
“زمل بیٹی تو آُٹھ جاتی ہیں جلدی اللہ خیر کرے آج۔۔ “
“زمل کا روم کون سا یے۔؟ مدثر صاحب نے پوچھا ۔
“اوپر ہے بڑے صاحب ۔”
“لاک کھول کر لائٹس اون کی تو زمل کو بیڈ پر اوندھے منہ نیم بےہوش پایا ۔”
“پانی لائیں جلدی سے۔” مدثر صاحب نے سیدھا کرتے ہوئے کہا۔
______________
“زمل بیٹا آنکھیں کھولو دیکھو میں آپ کو لینے آیا ہوں ۔” مدثر صاحب نے اُسکا چہرہ تپھتپھایا ۔
“ماموں۔۔ آپ یہاں کیسے۔۔ ” زمل نے بمشکل جملا پورا کیا ۔
“پہلے یہ پانی پیو شاباش اُٹھو۔۔ ” انہوں نے سہارا دے کر اُسے بٹھانے میں مدد دی۔ اور پانی پلایا ۔
“ماموں آپ مجھے یہاں سے لے جائیں پلیز ورنہ میں مرجاؤں گی۔ پلیز ماموں مجھے بابا کے پاس لے جائیں میں نے اُنکو خواب میں روتے دیکھا ہے وہ مجھے بُلارہے تھے۔ پلیز مجھے بابا کے پاس جانا ۔” زمل کا رونا اُنہیں تکلیف دے رہا تھا انہوں نے اُسے اپنے ساتھ لگا لیا زمل کے رونے میں اور شدت آگئی ۔
“اچھا رونا بند کریں میں آپ کو ہی تو لینے آیا ہوں جائیں جلدی سے منہ دھوئیں میں آپکا سامان پیک کرواتا ہوں ۔” انہوں نے خود سے الگ کرتے ہوئے کہا ۔
“سچ کہہ رہے ہیں آپ۔۔؟ ” زمل نے بے یقینی سے پوچھا۔
“بلکل سچ۔۔ ” انہوں نے مسکرا کر کہا۔
“میں ابھی آتی ہوں ۔” زمل فوراً سے اُٹھ گئ ۔
“زمل یہ تمہارے پاؤں پر چوٹ کیسے لگی ۔۔؟” انھوں نے اُس کے پاؤں پر لگے زخم کو دیکھ کر پوچھا ۔
“ماموں کپ ٹوٹ گیا تھا بس اُسی سے۔۔ ” زمل نے نظریں چُرائی ۔
“تم ڈاکٹر کے پاس نہیں گئی۔۔ بالاج کہاں ہے۔؟ ” انہوں نے پوچھ لیا۔
“میں سو گئی تھی جلدی میری اُن سے ملاقات نہیں ہوئی رات کے بعد سے۔۔ ” زمل نے چہرہ جُھکا کر کہا ۔
“اچھا تیار ہوجاؤ جلدی ۔” انہوں نے جانے دیا ۔
“رکیہ بی مجھے یہاں کی ساری بات بتائیں اور وہ بھی سب سچ کچھ نہیں چپھائیے گا مجھ سے۔ “
“بڑے صاحب میں نے آپ کو سب سچ بتا دیا ہے مجھ سے اب اور نہیں برداشت ہوتی ان کی یہ حالت آپ لے جائیں انکو یہاں سے۔۔ “
“ٹھیک ہے آپ جاکر زمل کا بیگ پیک کریں۔۔ ” انہوں نے سوچتے ہوئے کہا ۔
“باری تم بالاج کے بارے میں پتہ کرواؤ اور جیسے کچھ پتہ چلے مجھے انفارم کرو فوراً اور گھر میں کسی سے کچھ ذکر نہیں کرنا ۔اپنا کام کرکے واپس آجانا ہم نکل رہے ہیں میں زمل کو ڈاکٹر کے پاس بھی لے جاؤں گا ۔”
“بالاج میں اب آپ کےبارے میں کچھ نہیں سوچوں گی کبھی ۔ میں آپ کے گھر اور آپکی زندگی سے ہمیشہ کے لیے جارہی ہوں آپ یہ ہی چاہتے تھے نا۔۔” زمل بالاج کی تصویر کے سامنے سے ہٹ گئی تھی
****
“ائیر پورٹ سے نکلتے ہی زمل کار میں بیٹھی وہ سب تلخیوں کو بُھلائے صرف اپنوں سے ملنا چاہتی تھی۔ جبکہ جانتی تھی اب آگے کی جنگ بھی اُسے اکیلی ہی لڑنی ہے وہ خود کو تیار کر چُکی تھی ۔ گاڑی میں بیٹھ کر اُس نے اپنی آنکھیں موند لی ایسا لگ رہا تھا کہ پتہ نہیں کتنا لمبا سفر طے کر کے آئی ہے ۔”
گاڑی رکنے کی آواز پر اُس نے آنکھیں کھولی تو ہاسپٹل میں گاڑی کھڑی دیکھ اُس کے دل کوکچھ ہوا تھا ۔
“ماموں ہم یہاں کیوں آئے ہیں ہمیں تو گھر جانا تھا نا۔۔؟
“آپ اندر تو چلو بیٹا اور پریشان نہیں ہوتے ہیں۔۔ ” انہوں نے تسلی دی ۔
“ماموں پلیز بتائیں اندر کون ہے۔۔ ” زمل کو عجیب وہم آئے اُسے بالاج بھی یاد آیا اُس نے صبح اُسکے بارے میں بھی اچھا خواب نہیں دیکھا تھا ۔ لیکن بالاج کے لیے ایسا کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی ۔
“جمال ہے اندر۔۔ ” انہوں نے اُسے ساتھ لگایا ۔
“بابا” زمل کی سسکی نکلی اور وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر کی طرف بھاگی ۔ مدثر بھی اُسکے پیچھے گئے ۔
سامنے ہی سب کو دیکھ وہ شہریار کی طرف بھاگی ۔
“بھائی بابا کو کیا ہوا۔۔؟ وہ یہاں کیوں ہیں ؟ پہلے کیوں نہیں بتایا آپ لوگوں نے مجھے ۔ وہ مجھے بُلارہے تھے میرے بابا مجھے بُلارہے تھے میں کیوں نہیں آئی۔۔ ” زمل کے رونے سے وہاں موجود سب کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
“گڑیا خود کو سنبھالو بابا کو کچھ نہیں ہوگا وہ ٹھیک ہوجائیں گے۔ اب تم آگئی ہو نا دیکھنا وہ کیسے ٹھیک ہوں گے اب۔۔ شہریار نے روتی ہوئی زمل کواپنے ساتھ لگا کر سنبھالنا چاہا لیکن وہ بے ہوش ہو چُکی تھی
****
“جمال صاحب کے گھر آجانے کے ایک ہفتے بعد بالاج کے ہاسپٹل ہونے کی خبر نے سب کو ہلادیا تھا ۔ “
“بالاج پر کون حملہ کرواسکتا ہے مجھے سمجھ نہیں آرہی ہے۔۔ ” شہریار نے زین کو کھانا کھلاتی ثناء سے کہا ۔
“کیا معلوم شہریار کون ہو بالاج کون سا کچھ بتاتے ہیں ۔ اور ماموں نے بھی بابا اور زمل کو بتانے سے منع کیا ہوا ہے۔۔شکر ہے کہ بالاج ٹھیک ہے جو کوئی بھی تھا پوری پلاننگ سے فائر کرواکے گاڑی کا ایکسیڈنٹ کروایا ہے ۔۔ ماموں نے پتہ نہیں کروایا ہوتا تو کیا ہوتا سوچ کر ہی دل دہل جاتا ہے”
“ماموں نے کچھ تو چُپھایا ہے ہم سے خیر نیکسٹ ویک تک بالاج آجائے تب ہی کچھ پتہ چلے گا۔۔ بابا کی طبیعت ٹھیک ہے۔۔؟ شہریار نے پوچھا ۔
“ہاں الله کا شُکر ہیں کہ ٹھیک ہیں اور زمل تو اُن کے ساتھ سے بلکل نہیں ہٹ رہی ہے اپنا تو اُسے کوئی خیال ہی نہیں ہے شہریار ہم نے زمل کے ساتھ غلط کیا ہے لگتا۔۔ “
“صحیح کہہ رہی ہو تم زمل کا حال کیا سے کیا ہوگیا ہے۔ ماموں نے منع کیا ہے ورنہ میں زمل سے خود سب پوچھتا مجھ سے نہیں دیکھا جارہا اُسے اس حالت میں ۔” شہریار نے بھی تائید کی ۔
****
“یا الله۔۔ میں نے کبھی نہیں چاہا کہ بالاج کے ساتھ کبھی کُچھ بُرا ہو میں تو اُن کی زندگی سے نکل آئی تھی۔ اُن کے ساتھ کیوں یہ ہوگیا؟ پلیز الله پاک اُن کو ٹھیک کردیں میرا اُن کا ساتھ بھلے نا رہے لیکن میں اُن کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی ہوں آپ بس اُنکو ٹھیک کردیں ۔۔” زمل نے دُعا مانگ کر کھڑی ہوئی تو سامنے بھابھی کو بیٹھا پایا ۔
“آپ کب آئیں۔۔ ” زمل نے آنسو صاف کرتے ہوئے پوچھا۔
“یہاں آکر بیٹھو میرے پاس۔۔ ” بھابھی نے اپنے سامنے اُسے بٹھایا ۔
“تم اتنی بڑی اور بہادر کب سے ہوگئی ہو کہ اپنے سارے دُکھ خود اکیلی ہی برداشت کررہی ہو کیا ہماری محبتوں میں کوئی کمی رہ گئی ہے جو تم ہم پر یقین نہیں کر پارہی ہو۔۔ ؟” انہوں نے پیار سے پوچھا ۔
“ایسی بات نہیں ہے بھابھی آپ لوگ تو میری کُل کائنات ہیں ایسا نہیں بولیں پلیز ۔۔” زمل نے نگاہ اُٹھائے بنا کہا ۔
“زمل میری طرف دیکھو۔۔ ” انہوں نے ہاتھ بڑھا کر چہرہ اوپر کیا ۔ زمل اُن کے گلے لگ کر رو پڑی۔
“بھابھی نے اُسے رونے دیا تاکہ وہ اپنا دل ہلکا کرسکے۔۔ “
“بھابھی بالاج کے ساتھ یہ کیوں ہوگیا میں اُنکو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتی ہوں ہمارے درمیان لاکھ رنجشیں صحیح لیکن میں اُن کو اس حال میں نہیں دیکھ سکتی ہوں۔۔ ” زمل نے روتے ہوئے کہا ۔
“میرے بھائی کو اور انکل کو اس حال میں لانے والی تم ہی ہو زمل۔۔ ” انعم جو اُنکی باتیں سن رہی تھی سامنے آکر بولی ۔
“یہ کیا کہہ رہی ہو انعم ہوش میں تو ہو تم۔۔ “؟ بھابھی درمیان میں بول پڑی۔
“ہوش میں تو اب آئی ہوں بھائی صحیح اصلیت دکھانا چاہتے تھے اسکی۔ ہم سب ہی بےوقوف بن رہے تھے۔ بھابھی آپ بھی واقف ہو جائیں تو اچھا ہے ۔ مجھے اپنی لاسٹ کال پر سنانے کا جوافسوس تھا وہ یہ جان کر دور ہوگیا ہے کہ بھائی اُس رات ان دونوں کی لڑائی کی وجہ سے گئے تھے اور اُس دن ہی انکا ایکسیڈنٹ ہوا تھا انکل کو ہارٹ اٹیک بھی اُسی دن آیا دونوں کی زمہ دار زمل ہے ۔” انعم کا لہجہ آگ برساتا تھا ۔
“بس انعم بہت بول چُکی ہو تم بہتر ہوگا یہاں سے جاؤ ایسا نہ ہو میں بھی سارے لحاظ بھول جاؤں اور خود پر کنٹرول کرو ایسا نا ہو کہ تمہیں بعد میں پچھتانا پڑے۔۔ ” بھابھی کے لہجے کی سختی نے انعم کو مزید بولنے سے باز رکھا اور وہ وہاں سے چلے گئی ۔
****
“زمل اتنی خاموش کیوں رہتی ہو تم۔۔؟ ” شہریار نے اُسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا ۔
“ایسی تو کوئی بات نہیں ہے بھائی میں بس یوں ہی بیٹھی تھی۔۔ ” زمل نے مسکرا کر جواب دیا ۔
“تم ثناء کے ساتھ شاپنگ پر کیوں نہیں جاتی ہودل ہی بہل جائے گا تمہارا۔۔ “
“بھائی آپ جانتے ہیں مجھے شاپنگ کرنا شروع ہی سے ناپسند رہا ہے۔۔ خیر چھوڑے یہ بتائیں کہ آپ کے لیے چائے بناؤں۔۔؟ زمل نے بات بدلی ۔
“ہاں ٹھیک ہے بناؤ میں فریش ہوکر آتا ہوں پھر ساتھ مل کر پیتے ہیں ۔”
****
“زمل تم نے آگے کا کیا سوچا ہے۔۔؟ ماموں کے ڈائیریکٹ سب کے سامنے یہ پوچھنے کی امید نہیں تھی زمل کو ۔
“اس بار وہ ہی ہوگا جو تم چاہتی ہو کوئی اب تم پر اپنا فیصلہ مسلط نہیں کرے گا ہم سب تم سے پہلے ہی بہت شرمندہ ہیں۔۔ اب پھر سے وہ غلطی نہیں کریں گے۔”
“ماموں آپ مجھے شرمندہ نہیں کریں ایسا کہہ کر پلیز ۔۔ میں آگے مزید پڑھنا چاہتی ہوں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ۔ ” زمل نے نظریں ملائیں بنا اُن سے کہا اور وہاں سے چلے گئی ۔
“آپ لوگ اُسے وقت دیں بھائی کی اپنی غلطی مان کر معافی مانگ لینے سے بات ختم نہیں ہوجاتی ہے ۔ ” حماد کے کہنے پر سب خاموش ہی رہے۔
****
“انعم یہ کیا کررہی ہو تم۔۔؟ زمل نے اپنے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑی انعم سے کہا ۔
“زمل میں تم سے معافی چاہتی ہوں ۔ میں جانتی ہوں میں نے بہت غلط کیا تمہارے ساتھ خود کو تمہاری دوست ہونے کا دعویٰ کرتی ہوں اور تمہیں سمجھ نہیں سکی میں بہت شرمندہ ہوں اور بہت مشکل سے ہمت کرکے یہاں آئی ہوں ۔کیونکہ میں جانتی ہوں میں اس لائق نہیں ہوں کہ تم معاف کرو ۔۔” انعم کے آنسو اُسکے لفظوں کے گواہ تھے ۔
“دوست کہتی اور ایسے غیروں جیسی باتیں بھی کرتی ہو۔۔ میں تم سے ناراض ہوں ہی نہیں تو معافی کیسی۔۔؟ زمل نے اُسکے ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے گلے لگا لیا ۔
“زمل تم بلکل نہیں بدلی پہلے کی طرح ابھی بھی بلکل ویسے ہی جیسے پہلے سب کو معاف کردیا کرتی تھی زمل تم بہت اچھی ہو ۔ بھائی نے بہت غلط کیا تمہارے ساتھ ۔”
“یہ سب کے لیے بدل سکتی ہے سوائے بھائی کے لیکن اب کچھ کچھ آثار لگتے ہیں کیونکہ زمل میڈم صرف اُن کے لیے ہی اتنا بڑا دل کرتی ہیں جن کو یہ چاہتی ہیں۔۔ اور شاید بھائی بھی اب اُن لوگوں میں شامل ہیں صحیح کہا نا میں نے ؟۔حماد نے زمل کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔
“کیا کہہ رہے ہو مجھے نہیں پتہ “زمل نظریں چُراتے ہوئے وہاں سے چلے گئی ۔
****
“بھابھی آپ دیکھ رہی ہیں اسکی بدتمیزی یہ میری شادی میں کیا کررہی ہے میرے ساتھ ۔۔ایک بار بھی جو شاپنگ پر گئی ہو میرے ساتھ ۔” انعم غصے میں بول رہی تھی ۔
“زمل ویسے بہت بری بات ہے ۔صحیح کہہ رہی ہے انعم ۔ میں بھی دو جگہ پھنس چُکی ہوں ۔ تم تھوڑاتو ساتھ دو ۔” بھابھی نے بھی زمل کو ٹوکا ۔
“اچھا بابا آپ لوگ ناراض نہیں ہوں میں جا رہی ہوں بس ۔” زمل کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ اُٹھ کھڑی ہوئی ۔
“شکر ہے تمہیں بھی ہمارا احساس ہوا اب جلدی سے تیار ہوجاؤ ۔ “
“تیار تو ہوں میں۔۔ ” زمل نے بالوں کو کیچر لگاتے ہوئے کہا ۔
“واٹ۔۔؟ زمل تمہارا دماغ ٹھیک تم اب تو خود کو بدل لو ابھی بھی ہر جگہ سر جھاڑ چل پڑتی ہو اب تو شادی شُدہ ہو ۔” انعم کو بولنے کے بعد احساس ہوا کہ وہ کیا کہہ گئی ہے ۔
“میں ایسے ہی ٹھیک ہوں۔ تمہیں چلنا ہے میرے ساتھ تو بتاؤ۔۔؟ زمل نے خود کو نارمل رکھا۔
“اچھا چلو یار۔۔” انعم نے بھی فوراً وہاں سے جانا چاہا ۔
“یہ کسے لے آئی ہوتم ساتھ۔۔؟ حماد نے زمل کو چڑانے کے لیے کہا ۔
“حماد میں پاپا کو بلاؤں۔۔؟ انعم نے دھمکایا ۔
“تمہاری ایک بار شادی ہو اگر تمہیں میں نے یہاں آنے بھی دے دیا دوبارہ ۔” حماد نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا ۔
“ہنہ آئے بڑے مجھے روکنے والے ۔” انعم چُپ ہونے والوں میں سے کہاں تھی ۔
“انعم بڑی ہو جاؤ اب تو شادی ہونے والی ہے تمہاری ۔” زمل نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
“ہاں جیسے تم اپنی شادی کے بعد بڑی بی بن گئی ہو نا۔ ” حماد کی زبان سے فوراً بات پھسلی ۔
“الله نہیں کرے کہ میرے جیسی ہو اس کی شادی کی لائف۔۔ ” زمل کی مسکراہٹ سمٹی تھی اور اُس نے چہرے کا رُخ باہر کی طرف کرلیا تھا ۔
___________
“زمل تمہیں ساتھ لانے کا کیا فائدہ ہوا۔۔ذرا جو ہیلپ کری ہو تم نے میری ۔ انعم نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
“میں نے تو پہلے ہی کہا تھا تمہیں ہی شوق تھا مجھے ساتھ لانے کا ” زمل نے تھکن ذدہ لہجے میں کہا ۔
“تم لوگوں کی کتنی شاپنگ رہتی ہے۔۔؟ حماد نے سیل میں مصروف انداز میں پوچھا ۔
“ابھی تو مجھے بہت کچھ لینا ہے۔” انعم منمنائی ۔
“میری طرف سے صاف انکار ہے کل آجانا مجھ میں ہمت نہیں ہے۔۔ ” زمل نے منع کیا ۔
“انعم زمل تھک چُکی ہے اور مجھے بھی ایک ضروری کام ہے تم کل آجانا اب ۔ “
انعم کو اپنا ارادہ ترک کرنا پڑا ۔
پارکنگ ایریا میں باری اور بالاج کو دیکھ کر زمل وہاں ہی رُک گئی ۔ وہ دونوں بھی انہیں دیکھ چُکے تھے ۔
یہ یہاں کیا کررہے ہیں ۔؟” زمل نے حماد سے پوچھا ۔
“کیوں انکی انٹری بند ہے یہاں؟؟ حماد نے بات کو مزاق میں اڑایا ۔
“حماد تم بتا رہے ہو یا؟
“اچھا نا یار سیریس نہیں ہو مجھے ضروری کام سے جانا تھا اور یہ لوگ بھی شاپنگ کے لیے آئے تھے۔ ابھی تم لوگ ان کے ساتھ گھر چلی جاؤ پلیز ۔” حماد نے سمجھانا چاہا ۔
“امپاسبل ۔۔ میں خود چلے جاؤں گی۔۔ ” زمل نے انکار کیا ۔
زمل باری کے کزن بھی ساتھ ہے پلیز وہ کیا سوچے گا ۔” حماد نے آخری کوشش کی۔
“مجھے فرق نہیں پڑتا ۔۔ میں نہیں جاؤں گی۔ ” زمل انکاری ہوئی ۔
“ٹھیک ہے میرا بزنس میں بڑا نقصان ہوتا ہے ہو جا ئے میں اپنی بہن کے لیے برداشت کر لوں گا ۔” حماد نے سیریس ہوکر کہا ۔
“زمل پلیز میری خاطر میرے سُسرال میں یہ بات جائے گی تو وہ ہماری فیملیز کے بارے میں کیا سوچیں گے پلیز۔۔ ” انعم نے بھی لجاجت بھرے انداز میں کہا ۔
“لاسٹ ٹائم ہے یہ آئندہ اگر ایسا ہوا تو۔۔ “
“کبھی نہیں ہوگا اب چلو پلیز ۔۔” حماد نے بات کاٹ کر کہا۔