اگرچہ اک زمانہ ہو گیا ترک تعلق کو تمھاری یاد اب بھی بار ہا تکلیف دیتی ہے
اگر تکلیف جائز ہو تو ہم سہہ لیں خاموشی سے گلہ یہ ہے کہ دنیا ناروا تکلیف دیتی ہے
دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا
کسی کے منہ سے نہ نکلا یہ میرے وقت دفن کہ اس پہ خاک نہ ڈالو یہ ہیں نہائے ہوئے
دوست بن کر بھی نہیں ساتھ نبھانے والا وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا
اب اسے لوگ سمجھتے ہیں گرفتار میرا سخت نادم ہے مجھے دام میں لانے والا
توں تو سرمایہ ہستی ہے تیرا ذکر ہی کیا
ہم تو دشمن کو بھی اے دوست دعا دیتے ہیں
سخت نادم ہے مجھے دام میں لانے والا وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا
کیا کہیں کتنے مراسم تھے ہمارے ان سے وہ جو اک شخص ہے منہ پھیر کے جانے والا
تیرے ہوتے ہوئے آ جاتی ہے ساری دنیا توں نہیں ہے تو کوئی بھی نہیں آنے والا
منتظر کس کا ہوں ٹوٹی ہوئی دیلیز پہ میں کون آئے گا یہاں کون ہے آنے والا
تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فرازؔ دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا