برہمن آباد سے ایک کوس کے فاصلے پر جےرام کو اپنا قافلہ دکھائی دیا۔اس نے داسو کے ساتھ قافلے میں شریک ہونا خلافِ مصلحت سمجھتے ہوئے اپنا راستہ تبدیل کردیا اور دوسرے دروازے سے شہر میں داخل ہوا۔برہمن آباد میں نرائن داس نامی ایک آدمی اس کا پرانا دوست تھا۔جےرام نے داسو کو اس کے گھرٹھہرا کر شاہی مہمان خانے کا رخ کیا۔تھوڑی دیر بعد پرتاپ رائےسپاہیوں اور قیدیوں سمیت وہاں پہنچ گیا۔اس نے جےرام کو دیکھتے ہی کہا۔”مجھ سے تم نے شکار کا بہانہ کیوں کیا؟ تم نے صاف یہ کیوں نا بتایا کہ تم مجھ سے پہلے مہاراج سے ملنا چاہتے تھے۔اب بتاو! تمہاری بہن کی کہانی سننے کے بعد مہاراج نے کیا کہا؟“
”میں ابھی تک مہاراج سے نہیں ملا اور نہ میری یہ نیت تھی۔“
پرتاپ رائے نے مطمئین ہوکر کہا۔”جےرام! میرا خیال ہے کہ اپنی بہن کے غائب ہوجانے کے متعلق تم نے جھوٹ نہیں کہا تھا۔میں عربوں کے علاوہ سراندیپ کے قیدیوں سے بھی پوچھ چکا ہوں وہ سب تمہارے پہلے بیان کی تصدیق کرتے ہیں۔اگر انھوں نے راجہ سے شکایت کی کہ تمہاری بہن کے علاوہ ایک مسلمان لڑکی بھی جہاز سے غائب ہوئی ہے تو ممکن ہے کہ راجہ مجھے اس بات کا ذمہ دار ٹھہرائے ۔“
میں راجہ کے سامنے یہ کہنے کے لیے تیار ہوں کہ میری بہن جہاز پر نہیں تھی اور مسلمان لڑکی کے غائب ہوجانے کا واقع بھی صحیح نہیں۔“
”لیکن جب قیدی یہ شکایت کریں گے کہ وہ جہاز سے غائب ہوئی ہیں تو تمہارا بیان راجہ کو مطمئین نہیں کرسکے گا۔“
جےرام نے پریشان ہوکرکہا۔” آخر آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ پہلے آپ نے زبیر اور علی کو اذیت پہنچا کر مجھے یہ تسلیم کرنے پر مجبور کیا کہ میری بہن غائب نہیں ہوئی اور اب آپ یہ ثابت کرنے پر مصر ہیں کہ عرب لڑکی اور میری بہن جہاز سے غائب ہوئی ہیں۔“
پرتاپ رائے نے جواب دیا۔”میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کون سی مجبوری ہے جس نے تمہیں اپنی بہن کا راز چھپانے پر مجبور کیاہے؟“
”آپ یہ جانتے ہیں کہ زبیر میرا مہمان ہے۔ اس نے میری جان بچائی تھی اور میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ اس واقعہ کی آڑ لے کر اسے اذیت پہنچائیں۔“
”تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم صرف زبیر کی خاطر اپنے صحیح دعوے سے دستبردار ہوئے۔تم زبیر کی دوستی پر اپنی بہن کو قربان کرنے کے لیے تیار ہو لیکن تمہارا دل یہ گواہی دیتا ہے کہ تمہاری بہن کو میں نے اغوا کیا ہے اور صرف تمہاری بہن ہی نہیں ایک عرب لڑکے اور لڑکی کے غائب ہوجانے کی ذمہ داری بھی مجھ پر ہی عائد ہوتی ہے۔“
جےرام نے کہا۔”نہیں! نہیں! مجھے آپ کے متعلق جو غلط فہمی تھی وہ دور ہوچکی ہے۔“
”کب؟“
جےرام نے اچانک محسوس کیا کہ پرتاپ رائے اس کے لیے پھر ایک پھندا تیار کررہا ہے۔اس نے چونک کر کہا۔” آخر ان باتوں سے آپ کا مطلب ہے میں آپ سے وعدہ کرچکا ہوں کہ میں راجہ کے سامنے اپنی بہن کا ذکر نہیں کروں گا۔“
پرتاپ رائے نے سردمہری سے کہا۔”تم جو کچھ خود نہیں کہنا چاہے وہ عربوں کی زبان سے کہلواو گے۔اس سے میرے لیے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔پہلے جس راز کو تم ظاہر کرنا چاہتے تھے، اسے میں چھپانا چاہتا تھا۔اب جس راز کو تم چھپانا چاہتے ہو، اسے میں ظاہر کرنے پر مجبور ہوں۔میرے متعلق اگر تمہاری غلط فہمی دور ہوئی ہے تو اس کی کوئی وجہ ہے۔ اور میں وہ وجہ معلوم کرنا چاہتا ہوں۔میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ تم ایک عرب کے لیے اتبی بڑی قربانی دےسکتے ہو۔کوئی عقل مند آدمی یہ ماننے کے لیے تیار نا ہوگا۔“
”تو تمہارا مطلب ہے کہ میں نے خود اپنی بہن کو غائب کردیا ہے؟“
”تمہاری بہن کا مسئلہ میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا لیکن عرب لڑکی کا سراغ لگانے کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے۔بہت ممکن ہے کہ عربوں نے بھی راجہ کو مجھ سے بدظن کرنے کے لیے ایک لڑکی کے غائب ہوجانے کا بہانہ تراشہ ہو لیکن اگر دربار میں اس کے غائب ہوجانے کا سوال اٹھایا گیا تو ہم میں سے ایک کو یہ ذمہ داری اپنے سر لینا پڑے گی۔“
جےرام نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا۔”جس طرح میں نے آپ سے انتقام لینے کے لیے اپنی بہن کے غائب ہو جانے کا جھوٹا افسانہ تراشہ تھا۔اسی طرح انھوں نے مجھے آپ کا شریکِ کار سمجھ کر محض انتقام لینے کے لیے یہ بہانہ تلاش کیا ہے۔میں زبیر کو سمجھا سکتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ وہ میرے کہنے پر راجہ کے سامنے جھوٹی شکایت نہیں کرے گا۔“
پرتاپ رائے نے بےرخی سے کہا۔”تم کسی قیدی سے بات چیت نہیں کرسکتے۔ میں نے سپاہیوں کو حکم دیا ہے کہ راجہ کے سامنے پیش ہونے سے پہلے تمہیں اپنا صندوق کھول کر دیکھنے کی اجازت بھی نہیں۔“
جےرام کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن فوج کے ایک افسر نے آکر اطلاع دی کہ مہاراج آپ کو یاد فرماتے ہیں۔
جےرام نے پرتاپ رائے کے ساتھ جانا چاہا لیکن اس نے کہا۔”مہاراج مجھے یاد فرماتے ہیں تمہیں نہیں۔تم اطمینان سے بیٹھے رہو! جب تمہیں بلایا جائے گا میں تمہارا راستہ نہیں روکوں گا۔“
پرتاپ رائے جہاز سے لوٹا ہوا مال اٹھا کر چلا گیا اور جےرام پریشانی کی حالت میں ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔زبیر باقی قیدیوں کے ساتھ ہی ایک کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔اس نے ٹہلتے ٹہلتے اندر جھانک کردیکھا لیکن پہرےدار نے اسے ایک طرف دھکیلتے ہوئے دروازہ بند کردیا۔جےرام سے ایک معمولی پہرےدار کا یہ سلوک دیکھ کر زبیر اور اس کے ساتھیوں کو یقین ہونے لگا کہ وہ اور ان کے ساتھی ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔
غروبِ آفتاب سے کچھ دیر پہلے راجہ کے ایک سپاہی نے جےرام کو اطلاع دی کہ مہاراج آپ کو بلاتے ہیں۔جےرام کا کاٹھیاوار کے راجہ کے تحائف کا صندوق اٹھوا کر راجہ کے محل پہنچا۔پہرےدار اسے محل کے ایک کمرے میں لےگئے۔
راجہ دہر سنگِ مرمرکے چبوترے کے اوپر سونے کی کرسی پر بیٹھا تھا۔پرتاپ رائے کے علاوہ دیبل کے ایک حاکمِ اعلی اور سیناپتی ادھے سنگھ اور اس کا ایک نوجوان بیٹا بھیم سنگھ جو ارور سے راجہ کے ساتھ آئے تھے، اس کے سامنے کھڑے تھے۔
(نوٹ: ”ارور“ سندھ کا دارالحکمومت ضلع نواب شاہ میں بیرانی کے قریب ایک قدیم شہر کے کھنڈرات موجود ہیں، جسے دلور کہا جاتا ہے۔بعض محقیقین کے خیال میں دلور، ارور کی بگڑی ہوئی صورت ہے۔لیکن بعض تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ ارور کا شہر موجودہ روہڑی آس پاس آباد ہے۔ اور دریائے سندھ نے اس کا نشان تک نہیں چھوڑا۔)
جےرام نے راجہ کو تین بار جھک کرسلام کیا اور ہاتھ باندھ کرکھڑا ہوگیا۔دو سپاہیوں نے آبنوس کا صندوق راجہ کے سامنے لاکر رکھ دیا۔جےرام نے راجہ کے حکم سے صندوق کھولا۔راجہ نے جواھرات پر ایک سرسری نگاہ ڈالی۔پھر پرتاپ رائے کی طرف دیکھا اور جےرام سے سوال کیا۔”ہم نے سنا ہے کہ تم عربوں کی حمایت کرنا چاہتے ہو۔تم نے ہمارے متعلق یہ بھی کہا ہے کہ ہم عربوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور تم نے ہمارے وفادار پرتاپ رائے پر تہمت لگانے کے لیے ایک عرب لڑکی اور اپنی بہن کو کہیں چھپا دیا ہے؟“
جےرام نے جواب دیا۔”ان داتا!مجھے یہ یقین نا تھا کہ پرتاپ رائے نے آپ کے حکم سے ان کے جہازوں کو لوٹا تھا، ان کا دیبل میں ٹھہرنے کا ارادہ نا تھا۔انھوں نے مجھے راستے میں بحری ڈاکووں سے چھڑایا تھا۔دیبل میں میں انھیں اپنا مہمان بنا کرلایا تھا اور اپنے مہمان کی رکھشا ایک راجپوت کا دھرم ہے۔عرب لڑکی اور اپنی بہن کے متعلق میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا کہ جب جہاز لوٹے جارہے تھے میں ایک کوٹھری میں بند تھا۔“
”تم نے پرتاپ رائے سے یہ کہا تھا کہ تھا کہ تم نے عربوں کو اس کی قید سے چھڑانے کے لیے یہ بہانا تراشہ تھا؟“
”ان داتا! میں اس سے انکار نہیں کرتا لیکن۔۔۔۔۔۔۔!“
راجہ نے سخت لہجے میں کہا۔”ہم کچھ نہیں سننا چاہتے۔اگر عربوں نے شکایت کی کہ جہاز پر سے ان کی ایک لڑکی غائب ہوئی ہے تو تمہیں اس لڑکی کو ہمارے حوالے کرنا پڑے گا۔“
”مہاراج! اگر عرب مجھ پر یہ شبہ ظاہر کریں کہ لڑکی کو میں نے اغوا کیا ہے تو میں ہر سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔“
”ہم تمہاری چال اچھی طرح سمجھتے ہیں۔اگر عربوں نے تمہیں قصوروار نا ٹھہرایا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم نے ان کی مرضی سے لڑکی کو کہیں چھپا رکھا ہے۔تم جانتے ہو کہ ہمارے پاس ایسے طریقے ہیں جن سے انھیں سچ بولنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔“
”ان داتا! اگر آپ مجھے قصور وار ٹھہراتے ہیں تو جو سزا جی میں آئے دے لیں، لیکن عربوں کے ساتھ پہلے ہی زیادتی ہوچکی ہے۔“
”تو تم ہمارے دشمنوں کے ساتھ دوستی کا دم بھرتے ہو؟“
”وہ ہمارے دشمن نہیں۔وہ سندھ کو عرب کا پرامن ہمسایہ خیال کرتے تھے۔ورنہ وہ دیبل کے قریب سے بھی نہ گزرتے تھے۔اگر وہ نیک نیت نا ہوتے تو جواہرات کا یہ صندوق جو میں مہاراجہ کاٹھیاوار کی طرف سے آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں، آپ تک نا پہنچتا۔“
راجہ نے کہا۔”کاٹھیاوار کے جواہرات سراندیپ کے جواہرات کے مقابلے میں پتھر کے معلوم ہوتے ہیں۔“
”مہاراج! میں جوہری نہیں، ایک سپاہی ہوں، میں پتھروں کو نہیں پہچانتا لیکن آپ کے دوست اور دشمن کو پہچانتا ہوں۔میں ان پتھروں کے ساتھ آپ کی خدمت میں مہاراجہ کاٹھیاوار کی دوستی کا پیغام لایا ہوں۔ان پتھروں کی قیمت اگر ایک کوڑی بھی نہ ہوتو بھی وہ ہاتھ جو آپ کے سامنے یہ ناچیز تحائف پیش کررہا ہے بہت قیمتی ہے لیکن پرتاپ رائے نے عرب جیسی پرامن اور طاقتور ہمسایہ سلطنت کے جہاز لوٹ کر جو کچھ آپ کے لیے حاصل کیا ہے وہ آپ کو بہت مہنگا پڑے گا۔
ان داتا! آپ کو مسلمانوں سے دشمنی مول لینے سے پہلے سوچ بچار سے کام لینا چاہیے۔ان کا ہاتھ ہر ہاتھ سے مضبوط ہے اور ان کا لوہا ہر لوہے کو کاٹتا ہے۔وہ جیٹھ کی آندھیوں کی طرح اٹھتے ہیں اور ساون کے بادلوں کی طرح چھا جاتے ہیں۔ان کے مقابلے میں آنے والوں کو نا سمندر پناہ دیتے ہیں نہ پہاڑ۔ان کے گھوڑے پانی میں تیرتے اور ہوا میں اڑتے ہیں۔آپ نے برسات میں دریائے سندھ کی لہریں دیکھی ہیں، لیکن ان کی فتوحات کا سیلاب اس سے کہیں زیادہ تند اور تیز ہے۔“
راجہ دہر کی قوتِ برداشت جواب دے چکی تھی۔اس نے چلا کرکہا۔”ڈرپوک گیدڑ! تمہاری رگوں میں راجپوت کا خون نہیں۔میرے ملک میں تم جیسے بزدل آدمی کے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔“
”ان داتا! میں اس وقت مہاراجہ کاٹھیاوار کا ایلچی ہوں۔میں خود ایسے ملک میں نہیں رہنا چاہتا جہاں دوست کو دشمن اور دشمن دوست خیال کیا جائے۔“
”کاٹھیاوار کا راجہ اگر خود بھی یہاں موجود ہوتا تو بھی میں یہ الفاظ سننے کے بعد اس کا سر قلم کروا دیتا۔پرتاپ رائے! اسے لے جاو۔ہم کل اس کی سزا کا فیصلہ کریں گے۔صبح عربوں کے سرغنہ کو میرے سامنے پیش کرو۔“
پرتال رائے نے سپاہیوں کو آواز دی اور آٹھ آدمی ننگی تلواریں لیے آموجود ہوئے۔پرتاپ رائے نے جےرام کو چلنے کا اشارہ کیا۔جےرام ننگی تلواروں کے پہرے میں پرتاپ رائے کے آگے آگے چل دیا۔“
اودھے سنگھ، جےرام کی تقریر کے دوران میں یہ محسوس کررہا تھا کہ ایک سرپھرا نوجوان اس کے اپنے خیالات کی ترجمانی کررہا ہے۔اس نے کہا۔”ان داتا! اگر مجھے اجازت ہو تو کھ عرض کروں؟“
راجہ نے جواب دیا۔”تمہارے کہنے کی ضرورت نہیں۔ہم اسے ایسی سزا دیں گے جو برہمن آباد کے لوگوں کو دیر تک نا بھولے۔“
اودھے سنگھ نے کہا۔”لیکن مہاراج میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس نے جوکچھ کہا نیک نیتی سے کہا ہے۔ہمیں چند ہاتھیوں اور جواہرات کے لیے عربوں کے ساتھ دشمنی مول نہیں لینی چاہیے۔ ہمیں اپنی طاقت پر بھروسہ ہے لیکن عرب نہایت سخت جان دشمن ہے۔“
راجہ نے کہا۔”اودھے سنگھ! ایک گیدڑ کی چیخیں سن کے تم بھی گیدڑ بن گئے۔یہ عرب اونٹنیوں کا دودھ پینے والے اور جو کی روکھی سوکھی روٹی کھانے والے ہماراےمقابلے کی جرات کریں گے؟“
”مہاراج! وہ اونٹنیوں کا دودھ پی کے شیروں سے لڑتے ہیں۔جو کی روٹی کھا کر پہاڑوں سے ٹکراتے ہیں۔“
”تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ اونٹوں پر چڑھ کر ہمارے ہاتھیوں کا مقابلہ کرنے آئیں گے؟“
”ان داتا! برا نا مانیے! ان کے اونٹ ایران کے ہاتھیوں کو شکست دے چکے ہیں۔“
راجہ نے غصے میں آکر کہا۔”اودھے سنگھ! مجھے تم سے یہ امید نا تھی کہ تم عربوں کے متعلق سنی سنائی باتوں سے مرعوب ہوجاو گے۔ہم عرب کی ساری آبادی سے زیادہ سپاہی میدان میں لاسکتے ہیں۔راجپوتانہ کے تمام راجے ہمارے اشارے پر گردانیں کٹوانے کے لیے تیار ہوں گے۔“
اودھے سنگھ نے کہا۔”مہاراج! مجھے ان کا خوف نہیں لیکن میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ہمیں سوئے ہوئے فتنے کو جگانے سے کوئی فائدہ نا ہوگا۔دوسروں کی مدد کے بھروسے پر ایک طاقتور دشمن سے لڑائی مول لینا ٹھیک نہیں۔“
”اودھے سنگھ! تم بار بار کیا کہہ رہے ہو؟ سندھ کے سامنے عرب کے صحرائی ایک طاقتور دشمن کی حثیت ہرگز نہیں رکھتے۔آخر عربوں میں کیا خوبی ہے جو ہمارے سپاہیوں میں نہیں؟“
”مہاراج! ایسے دشمن کا کوئی علاج نہیں جو موت سے نا ڈرتا ہو۔اگر آپ کو مجھ پر یقین نہیں تو آپ قیدیوں میں سے ایک عرب کو لاکر اس کا امتحان لےلیں۔تلواریں ان کے کھلونے ہیں۔“
راجہ نے اودھے سنگھ کی طرف دیکھا اور کہا۔”کیوں بھیم سنگھ! تمہارا بھی یہی خیال ہے کہ ہمارے سپاہی عربوں کے مقابلے میں کمزور ہیں؟“
بھیم سنگھ نے کہا۔”مہاراج! پتاجی عربوں کے ساتھ پرامن رہنے رہنے میں بھلائی سمجھتے ہیں، ورنہ ہم نے بھی تلواروں کے سائے میں پرورش پائی ہے، اگر عرب موت سے نہیں ڈرتے تو ہمیں مارنے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے۔“
راجہ نے کہا۔”شاباش! دیکھا اودھے سنگھ! تمہارا بیٹا تم سے بہادر ہے۔“
اودھے سنگھ نےجواب دیا۔”مہاراج کے منہ سے یہ سن کر مجھے خوش ہونا چاہیے، لیکن سینا پتی کے فرائض کا احساس مجھے مجبور کرتا ہے کہ میں مہاراج کے سامنے آنے والے خطرات کو گھٹا کر پیش نا کروں۔بھیم سنگھ ابھی بچہ ہے۔اس نے عربوں کو لڑتے ہوئے نہیں دیکھا۔لیکن میں مکران کی جنگ میں دیکھ چکا ہوں کہ عام عرب سپاہی ہمارے بڑے بڑے پہلوانوں کا مقابلہ کرسکتا ہے۔مکران پر عربوں نے کل چھ سو سواروں کے ساتھ حملہ کیا تھا اور راجہ کے چارہزار سپاہیوں کو تنکوں کی طرح بہاکر لے گئے تھے۔جےرام کو آپ دیر سے جانتے ہیں۔ہمارے نوجوانوں میں اس سے بڑھ کر تلوار کا دھنی اور کوئی نہیں. اگر وہ عربوں سے اس قدر مرعوب ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بزدل یا مہاراج کا نمک حرام ہے۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ عربوں سے بگاڑ کے خطرے کا صحیح اندازہ کرچکا ہے۔“
راجہ نے تلخ لہجے میں کہا۔”تم میرے سینا پتی ہو وزیر نہیں اور میں ان معاملات میں تمہاری سمجھ سے کام نہیں لینا چاہتا۔اگر بڑھاپے میں تمہاری ہمت جواب دےچکی ہے تو تمہیں اس عہدہ سے سبکدوش کیا جاسکتا ہے اور تمہیں یہ حق بھی نہیں کہ تم جےرام جیسے سرکش، گستاخ اور بزدل کی سفارش کرو۔وہ جو کچھ ہمارے سامنے کہہ چکا ہے وہ اسے بڑی سے بڑی سزا دینے کے لیے کافی ہے۔“
اودھے سنگھ راجہ کے تیور دیکھ کر سہم گیا۔اس نے کہا۔”مہاراج! میں مافی چاہتا ہوں۔آپ کو میرے متعلق غلط فہمی ہوئی ہے۔میں نے اتنی باتیں کرنے کی جرات اس لیے کی کہ ابھی تک آپ نے عربوں کے خلاف اعلان جنگ نہیں کیا اگر آپ اعلان جنگ کرچکے ہوں تو میرا فرض ہے کہ آپ کی فتح کے لیے اپنی جان قربان کردوں۔جےرام کی گستاخی کا مجھے افسوس ہے۔لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وقت آنے پر وہ بھی وفادار راجپوت ثابت ہوگا۔اگر آپ عربوں کے ساتھ جنگ کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں تو ہمیں آج سے ہی تیاری شروع کردینی چاہیے۔میں چاہتا ہوں کہ ہم عربوں کو ایسی شکست دیں کہ وہ پھر سراٹھانے کے قابل نہ ہوسکیں۔اس مقصد کے لیے ہمیں افواج منظم کرنے کے علاوہ شمالی اور جنوبی ہندوستان کے تمام چھوٹے اور بڑے راجوں کا تعاون حاصل کرنا چاہیے۔وہ سب آپ کا لوہا مانتے ہیں اور آپ کے جھنڈے تلے جمع ہوکر لڑنا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھیں گے۔ہمیں کاٹھیاوار کے راجہ کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔اس نے آپ کو تحائف نہیں بھیجے خراج بھیجا ہے۔اگر آپ جےرام کا جرم معاف کردیں تو اس کی وساطیت سے جنگ میں بھی مہاراجہ کاٹھیاوار کا تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے۔“
راجہ نے قدرے مطمئین ہوکر کہا۔”اب تم ایک راجپوت کی طرح بول رہے ہو لیکن جےرام عربوں کے ساتھ مل چکا ہے۔اگر اسے معاف بھی کردیا جائے تو اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ وہ ہمارے ساتھ دھوکہ نہیں کرے گا۔ہاں! میں نے سنا ہے کہ وہ ایک عرب نوجوان کی دوستی کا دم بھرتا ہے۔اگر وہ اس کے ساتھ لڑنے کے لیے تیار ہوجائے اور اسے تلوار کے مقابلے میں مغلوب کرلے تو میں اسے چھوڑدوں گا۔“
”مہاراج! وہ آپ کا اشارہ پاکر پہاڑ کے ساتھ ٹکڑ لگانے کے لیے بھی تیار ہوگا۔“
”بہت اچھا! ہم تمہاری سفارش پر اسے موقع دیں گے۔کل ہم جےرام کی نیک نیتی کے علاوہ تلوار چلانے میں ایک عرب کی مہارت بھی دیکھ لیں گے۔“
راجہ نے اس کے بعد مجلس برخاست کی اور اٹھ کر محل کے دوسرے کمرے میں چلا گیا۔
اگلے دن راجہ دہر نے برہمن آباد کے محل کے کشادہ کمرے میں دربار منعقد کیا۔سندھ کے دارالحکومت ارور سے اس کا وزیر بھی برہمن آباد پہنچ چکا تھا۔وزیر، سیناپتی اور برہمن آباد کے امرا حسبِ مرتب تخت کے قریب کرسیوں پر رونق آفروز تھے۔وزیر اور سینا پتی کے بعد تیسری کرسی جس پر پہلے برہمن آباد کا گورنر بیٹھتا تھا۔اب دیبل کے گورنر کو دی گئی تھی اور برہمن آباد کا گورنر راجہ سے چند بالشت دور ہوجانے پر محسوس کررہا تھا کہ قدرت نے راجہ اور اس کے درمیان پہاڑ کھڑے کردیے ہیں۔راجہ کے بائیں ہاتھ پانچویں کرسی پر بھیم سنگھ براجمان تھا۔باقی امرا بائیں طرف دوسری قطار میں بیٹھے ہوئے تھے۔کرسی کے پیچھے پندرہ بیس عہدے دار دائیں بائیں دو قطاروں میں کھڑے تھے۔تخت پر راجہ کے دائیں اور بائیں دورانیاں رونق آفروز تھیں۔ایک حسین و جمیل لڑکی راجہ کے پیچھے صراحی اور جام لیے کھڑی تھی۔درباری شاعر نے مترنم آواز میں راجہ کی تعریف میں چند اشعار پڑھے۔اس کے بعد کچھ دیر کے لیے رقص و سرور کی محفل گرم رہی۔راجہ نے شراب کے چند گھونٹ پیے اور قیدیوں کو حاضر کرنے کا حکم دیا۔سپاہی زبیر کو پابہ زنجیر دربار میں لے آئے۔اس کے تھوڑی دیر بعد جےرام داخل ہوا۔زبیر کی طرح اس کے ہاتھوں اور پیروں میں زنجیریں نا تھیں لیکن اس کے آگے اور پیچھے ننگیں تلواروں کا پہرہ زبیر کو یقین دلانے کے لیے کافی تھا کہ اس کی حالت اس سے مختلف نہیں۔
راجہ نے پرتاپ رائے کی طرف دیکھا۔”یہ ہماری زبان جانتا ہے؟“
اس نے اٹھ کرجواب دیا۔”جی مہاراج! یہ اجنبی زبانیں زبانیں سیکھنے میں بہت ہوشیار معلوم ہوتا ہے۔“
راجہ نے زبیر کی طرف دیکھا اور پوچھا۔”تمہارا نام کیا ہے؟“
”زبیر!“ اس نے جواب دیا۔
راجہ نے کہا۔”ہم نے سنا ہے کہ تم ہم سے بات کرنے کے لیے بہت بےچین تھے۔کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟“
”میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ دیبل کی بندرگاہ پر ہمارے جہاز کیوں لوٹے گئے اور ہمیں قیدی بنا کر ہمارے ساتھ یہ وحشیانہ سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟“
راجہ نے قدرے بےچین ہوکر جواب دیا۔”نوجوان! ہم پہلے سن چکے ہیں کہ عربوں کو بولنے کا سلیقہ نہیں لیکن تمہیں اپنی اور اپنے ساتھیوں کی خاطر زرا ہوش سے کام لینا چاہیے۔“
زبیر نے کہا۔”ہمارے ساتھ جو سلوک کیا گیا ہے،اگر آپ کو اس کا علم نہیں تو یہ اور بات ہے، ورنہ یہ حقیقت ہے کہ دیبل کے گورنر نے بغیر کسی وجہ کے ہم پر دست درازی کی۔اگر آپ کو ہمارے متعلق کوئی غلط فہمی ہو تو ہم اسے دور کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن اگر سندھ کی طرف سے یہ قدم ہماری غیرت کا امتحان لینے کے لیے اٹھایا گیا ہے تو ہم واکی سندھ کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہم ہندوستان کے اچھوت نہیں جن کی فریاد ان کے گلے سے باہر نہیں آسکتی۔آج تک ہمارے ساتھ ایسا سلوک کرنے کی جرات کسی نے نہیں کی اور سندھ کی سلطنت کو میں ایسی سلطنت نہیں سمجھتا، جو ایران کیزرہیں اور روما کے خود کاٹنے والی شمشیروں کی ضرب برداست کرسکے۔وہ قوم جو روئے زمین کے ہر مظلوم کی داد رسی اپنا فرض سمجھتی ہے اپنی بہو بیٹیوں کی بےعزتی پر خاموش نہیں بیٹھے گی۔“
راجہ نے وزیر کی طرف متوجہ ہوکر کہا۔”سنو! ایک قیدی ہمارے خلاف اعلانِ جنگ کررہا ہے۔“
وزیر نے جواب دیا۔”مہاراج! یہ عرب بہت باتونی ہیں۔ایران اور روم کی فتوحات نے انھیں مغرور بنا دیا ہے لیکن انہیں سندھ کے شیروں سے واسطہ نہیں پڑا۔“
زبیر نے جواب دیا۔” ہم نے دیبل میں شیروں کی شجاعت نہیں دیکھی، لومڑیوں کی مکاری دیکھی ہے۔“
زبیر کے ان الفاظ کے بعد تمام درباری ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
اودھے سنگھ موقع کی نزاکت محسوس کرتے ہوئے اٹھا اور ہاتھ باندھ کرکہنے لگا۔”مہاراج! چنددن قید میں رھ کر یہ نوجوان اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا ہے اور پھر آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ جس سپاہی کی تلوار کند ہو۔اس کی زبان بہت تیز چلتی ہے۔“
زبیر غصے کی حالت میں اودھے سنگھ کی دوستانہ مداخلت کا مطلب نا سمجھ سکا اور بولا۔”مجھ پر پیچھے سے وار کیا گیا ہے، ورنہ میری تلوار کے متعلق تمہاری یہ رائے نا ہوتی۔“
پرتاپ رائے نے اٹھ کرکہا۔”مہاراج! یہ جھوٹ کہتا ہے۔ہم نے اسے لڑ کر گرفتار کیا تھا۔“
زبیر نے غصے اور حقارت سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔”بزدل آدمی! تم انسانیت کا ذلیل ترین نمونہ ہو۔میرے ہاتھ پاوں بندھے ہوئے ہیں۔لیکن اس کے باوجود تمہارے چہرے پر خوف و ہراس کے آثار ظاہر ہیں۔لومڑی شیر کو پنجرے میں بھی دیکھ کر بدحواس ہے۔میرا صرف ایک ہاتھ کھول دو اور مجھے میری تلوار دےدو۔پھر ان سب کو میرے اور تمہارے دعوی کی صداقت معلوم ہوجائے گی۔“
پرتاپ رائے پھٹی پھٹی نگاہوں کے ساتھ حاضرین جماعت کو دیکھ رہا تھا۔برہمن آباد کا گورنر زبیر کی آمد کو تائیدِ غیبی سمجھ رہا تھا۔اس نے آٹھ کر دربار کا سکوت توڑا اور کہا۔”مہاراج یہ کھشتری دھرم کی توہین ہے کہ ایک معمولی عرب بھرے دربار میں سردار پرتاپ رائے کو بزدلی کا طعنہ دے۔آپ سردار پرتاپ رائے کو حکم دیں کے وہ اس کا دعوی جھوٹ ثابت کردکھائیں۔“
اودھے سنگھ کو پرتاپ رائے سے کم نفرت نا تھی لیکن وہ جےرام کو راجہ کے عتاب سے بچانا زیادہ ضروری سمجھتا تھا اور اس کو بچانے کی اس کے ذہن میں یہی صورت تھی کہ جےرام زبیر کا مقابلہ کرکے راجہ کے شکوک رفع کردے کہ وہ عربوں کا دوست ہے۔اس نے آٹھ کرکہا۔”مہاراج! برہمن آباد کے حاکم کا خیال درست نہیں۔سردار پرتاپ رائے کا مرتبہ ایسا نہیں کہ وہ ایک معمولی عرب سے مقابلہ کریں، یہ ان کی توہیں ہے۔اس نوجوان کی خواہش پوری کرنے کے لیے ہمارے پاس ہزاروں نوجوان موجود ہیں۔اگر مہاراج کو ناگوار نا ہو تو آپ جےرام کو یہ ثابت کرنے کا موقع دیں کہ وہ ملیچھ عربوں کا دوست نہیں۔“
راجہ نے جواب دیا۔”تم کئی بار جےرام کی سفارش کرچکے ہو لیکن اس کی باتیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ وہ عربوں سے بہت زیادہ مرعوب ہے۔کیوں جےرام! تم اپنی وفاداری کا ثبوت دینے کے لیے تیار ہو؟“
جےرام نے ملتجیانہ انداز میں کہا۔”مہاراج! میں آپ کے اشارے پر آگ میں کود سکتا ہوں لیکن زبیر میرا مہمان ہے اور میں اس پر تلوار نہیں اٹھا سکتا۔“
دربار میں ایک بار پھر سناٹا چھا گیا۔اودھے سنگھ نے دل برداشتہ ہوکر جےرام کی طرف دیکھا۔راجہ نے چلا کرکہا۔”اس گدھے کو میرے سامنے سے لےجاو۔اس کا منہ کالا کرکے پنجرے میں بند کردو اور شہر کی گلیوں میں پھراو۔کل اسے مست ہاتھی کے سامنے ڈالا جائے گا۔اودھے سنگھ! تم نے اس عرب کے سامنے ہمیں شرمسار کیا اور پرتاپ رائے! تم چپ کیوں بیٹھے ہو۔تم دیبل میں اسے نیچا دیکھا چکے ہو۔اب تمہاری تلوار نیام سے باہر کیوں نہیں آتی؟ تم سب کو سانپ کیوں سونگھ گیا؟“
نوجوان بھیم سنگھ نے آٹھ کر تلوار بےنیام کی اور کہا۔”مہاراج! مجھے اجازت دیجیے۔“
بھیم سنگھ کی طرف دیکھا دیکھی تمام درباریوں نے تلواریں کھینچ لیں۔سب سے آخر میں پرتاپ رائے نے تلوار نکالی لیکن اس کی نگاہیں راجہ سے کہہ رہی تھیں۔”ان داتا! میرے حال پر رحم کر۔“ درباریوں کو راجہ کے اشارے کا منتظردیکھ کر زبیر نے آپنے ہونٹوں پر حقارت آمیز مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔ ”بس اب جانے دیجیے! مجھے یقین ہوگیا کہ اپنے حریف کو پابہ زنجیر دیکھ کر آپ کے درباری بزدل کہلانا پسند نہیں کرتے لیکن قدرت لومڑیوں کے سامنے شیروں کو ہمیشہ باندھ کر پیش نہیں کرتی۔“
بھیم سنگھ نے کہا۔”مہاراج! اس کی بیڑیاں کھلوا دیجیے۔میں اسے ابھی بتادوں گا کہ شیر کون ہے ارو لومڑی کون۔“
راجہ کے اشارے پر سپاہیوں نے زبیر کی بیڑیاں اتار دیں اور اس کے ہاتھ میں ایک تلوار دےدی گئی لیکن وزیر نے کہا۔”مہاراج! آپ کےدربار میں مقابلہ ٹھیک نہیں۔“
راجہ نے کہا۔”ٹھیک کیوں نہیں؟ اسی دربار میں ہمارے ساتھیوں کو بزدلی کا طعنہ دیا گیا ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہیں اس کا انتقام لیا جائے۔“
”مہاراج! انتقام اس نوجوان کو لڑنے کا موقع دیے بغیر بھی لیا جاسکتا ہے۔“
راجہ نے جواب دیا۔”نہیں! ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ عرب تلوار کس طرح چلاتے ہیں۔“
بھیم سنگھ کرسیوں کے درمیان کھلی جگہ پر آکھڑا ہوا اور اس نے تلوار کے اشارے سے زبیر کو سامنے آنے کی دعوت دی۔
زبیر نے راجہ کی طرف دیکھا اور کہا۔”اس نوجوان کے ساتھ مجھے کوئی دشمنی نہیں۔میرا مجرم پرتاپ رائے ہے۔آپ اسے قربانی کا بکرا کیوں بناتے ہیں؟“
بھیم سنگھ نے کہا۔”بزدل! تم صرف باتیں کرنا جانتے ہو۔اگر ہمت ہے تو سامنے آو۔“
”اگر تم دوسروں کا بوجھ اٹھانے پر بضد ہو تو تمہارے مرضی۔“ یہ کہتے ہوئے زبیر آگے بڑھ کر بھیم سنگھ کے سامنے آکھڑا ہوا۔ راجہ کے حکم سے سپاہی تخت اور کرسیوں کے آگے نصف دائرے میں کھڑے ہوگئے۔اودھے سنگھ نے اٹھ کرکہا۔”بیٹا! اوچھا وارنہ کرنا۔تم ایک خطرناک دشمن کے سامنے کھڑے ہو۔“
”پتاجی! آپ فکر نا کریں۔“ یہ کہتے ہوئے بھیم سنگھ نے یکے بعد دیگرے تین چار وار کردیے۔زبیر اس حملے کی غیر متوقع شدت سے دو تین قدم پیچھے ہٹ گیا اور اہلِ دربار نے خوشی کا نعرہ بلند کیا۔زبیر کچھ دیر بھیم سنگھ کے وار روکنے پر اکتفا کرتا رہا۔تھوڑی دیر بعد تماشائی یہ محسوس کرنے لگے کہ حملہ کرنے والے ہاتھ سے حملہ روکنے والا ہاتھ کہیں زیادہ پھرتیلا ہے۔اودھے سنگھ پھر چلایا۔”بیٹا جوش میں نا آو۔تلوار کا ٹھنڈا کھلاڑی ہمیشہ خطرناک ہوتا ہے۔“
لیکن زبیر کے چہرے کی پرسکون مسکراہٹ نے بھیم سنگھ کو اور زیادہ سیخ پاکردیا اور وہ اندھا دھند وار کرنے لگا۔اسے آپے سے باہر آتا دیکھ کر زبیر نے یکے بعد دیگرے چند وار کیے اور بھیم سنگھ کو جارحانہ حملوں سے مدافعت پر مجبور کردیا۔کئی دفعہ ایسا ہوا کہ بھیم سنگھ کی تلوار بروقت مدافعت کے لیے نااٹھ سکی لیکن زبیر کی تلوار اسے گھائل کرنے کی بجائے اس کے جسم کے کسی حصے کو چھونے کے بعد وآپس چلی گئی۔درباری اب یہ محسوس کررہے تھے کہ وہ جان بوجھ کر بھیم سنگھ کو بچانے کی کوشش کررہا ہے۔بھیم سنگھ کو خود بھی اس کی برتری کا احساس ہوچکا تھا لیکن وہ اعترافِ شکست پر موت کو ترجیح دینے کے لیے تیار تھا۔پرتاپ رائے بھیم سنگھ کے باپ سے پرانی رنجشوں کے باوجود انتہائی خلوص سے بھیم سنگھ کی فتح کے لیے دعائیں کررہا تھا لیکن بھیم سنگھ کے بازو ڈھیلے پرچکے تھے، راجہ اور اہلِ دربار کے چہروں پر مایوسی چھا رہی تھی۔
اودھے سنگھ نے کہا۔”مہاراج! بھیم سنگھ جان دےدے گا لیکن پیچھے نہیں ہٹے گا۔آپ اس کی جان بچا سکتے ہیں۔“
بڑی رانی نے اودھے سنگھ کی سفارش کی لیکن چھوٹی رانی نے کہا۔”مہاراج! سپاہیوں کو بھیم سنگھ کی مدد کا حکم دینا انصاف نہیں۔اپنے بیٹے کے لیے اودھے سنگھ کے خون نے جوش مارا ہے لیکن جب وہ پردیسی دوقدم پیچھے ہٹا تھا، اس پر کسی کو رحم نا آیا۔اگر بچانا چاہتے ہیں تو دونوں کی جان بچائیے.“
راجہ تذبذب کی حالت میں کوئی فیصلہ نہ کرسکا۔اچانک زبیر پہ درپہ چند سخت وار کرنے کے بعد بھیم سنگھ کو چاروں طرف سے گھیر کے اس کی خالی کرسی کے سامنے لے آیا۔سپاہی جو ننگی تلواریں لیے قطار میں کھڑے تھے، ادھر ادھر سمٹ گئے۔بھیم سنگھ لڑکھڑاتا ہوا پیٹھ کے بل کرسی پر گرپڑا۔اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن زبیر نے اس کے سینے پر تلوار کی نوک رکھتے ہوئے کہا۔”تم اگر چند سال اور زندہ رہو تو ایک اچھے سپاہی بن سکتے ہو۔لیکن سرِدست تمہاری جگہ یہ کرسی ہے۔“
بھیم سنگھ کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ گئی اور وہ غصے اور ندامت کی حالت میں اپنے ہونٹ کاٹ رہا تھا۔
راجہ نے سپاہیوں کی طرف اشارہ کیا لیکن ان کی تلواریں بلند ہونے سے پہلے زبیر بھیم سنگھ کی کرسی سے اوپر کود کر پرتاپ رائے کے پیچھے جاکھڑا ہوا اور بیشتر اس کے کہ پرتاپ رائے اپنی بدحواسی پر قابو پاتا زبیر نے اپنی تلوار کی نوک اس کی پیٹھ پر رکھتے ہوئے کہا۔”اپنے سپاہیوں کو وہیں کھڑا رہنے کا حکم دیجیے! ورنہ میری تلوار اس موذی کے سینے سے پار ہوجائے گی۔“
راجہ کے اشارے سے سپاہی پیچھے ہٹ گئے تو زبیر نے پھر راجہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔”بےوقوفوں کے بادشاہ! مجھے تم سے نیک سلوک کی توقع نہیں لیکن میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ جن صلاح کاروں نے تمہیں عرب کے ساتھ لڑائی مول لینے کا مشورہ دیا ہے، وہ تمہارے دوست نہیں۔جن لوگوں پر تمہیں بھروسہ ہے، وہ سب دیبل کے حاکم کا دل و دماغ رکھتے ہیں۔اس کی طرف دیکھو، یہ وہ بہادر ہے جو کرسی پر بیٹھا بیدِ مجنوں کی طرح کانپ رہا ہے۔اب میں تمہارے سامنے اس شخص سے چند سوالات کرتا ہوں. ”کیوں پرتاپ رائے! تم نے مجھے لڑ کر گرفتار کیا تھا یا دوستی کا فریب دےکر جہاز سے بلایا تھا؟ جواب دو، خاموش کیوں ہو! اگر تم نے جھوٹ بولا تو یاد رکھو، ان سپاہیوں کی حفاظت سے تم نہیں بچ سکتے۔بولو!“ یہ کہتے ہوئے زبیر نے تلوار کو آہستہ سے جنبش دی اور اس نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔”میں نے تمہیں جہاز پر سے بلایا تھا لیکن مہاراج کا یہی حکم تھا کہ تمہیں ہر قیمت پر گرفتار کیا جائے۔“
راجہ نے کہا۔”ٹھہرو! پرتاپ رائے نے ہمارے حکم کی تعمیل کی تھی۔ اگر تم نے اس کے ساتھ کوئی زیادتی کی تو قیدیوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جائے گا جسے تم تصور میں بھی برداشت نہیں کرسکو گے۔ابھی ہم نے تمہارے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ہم خوامخواہ عرب کے ساتھ بگاڑ نہیں چاہتے۔تمہاری قوم واقعی بہادر ہے لیکن اگر تم زرا سی سمجھ سے کام لو تو ممکن ہے کہ ہم تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو آزاد کردیں۔تمہارے سر پر اس وقت بیس سپاہی کھڑے ہیں۔تم زیادہ سے زیادہ ایک کو مار سکو گے لیکن اس وقت ایک آدمی کے بدلے ہم تمام قیدیوں کو پھانسی دے دیں گے۔ اگر اپنے ساتھیوں کی خیر چاہتے ہو تو تلوار پھینک دو!“
زبیر نے کہا۔”مجھے تم میں سے کسی پر اعتبار نہیں لیکن میں تمہیں اپنا نفع اور نقصان سوچنے کا آخری موقع دیتا ہوں۔یادرکھو! اگر تم نے میرے ساتھیوں کے ساتھ بدسلوکی کی تو وہ دن دور نہیں جب تمہارے ہر سپاہی کے سر پر میرے جیسے سرپھیروں کی تلواریں چمک رہی ہوں گی۔تمہیں اگر جواہرات اور ہاتھیوں کی لالچ ہے تو میں ان کا مطالبہ نہیں کرتا۔میں صرف یہ درخواست کرتا ہوں کہ تم مجھے اور میرے ساتھیوں کو رہا کردو اور خالد اور اس کی بہن کو ہمارے حوالے کردو!“
راجہ نے جواب دیا۔”جب تک تم تلوار نہیں پھینکتے ہم تمہاری کسی درخواست پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں۔“
زبیر کو راجہ کے متعلق کوئی خوش فہمی نا تھی۔اگر اسے اپنے ساتھیوں کا خیال نا آتا تو یقیناً اپنے آپ کو راجہ کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے بہادرانہ موت پر ترجیح دیتا لیکن بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کے عبرتناک انجام کے تصور نے اس کا جوش ٹھنڈا کردیا۔اسے ناہید کا خیال آیا اور اس کے جسم پر کپکپی طاری ہوگئی۔مختلف خیالات کے گرداب میں راجہ کے حوصلہ افزاء کلمات اس کے لیے تنکوں کا سہارا ثابت ہوئے اور اس نے اپنی تلوار تخت کے سامنے پھینک دی۔راجہ نے اطمنان کا سانس لیا۔پرتاپ رائے کی حالت اس شخص سے مختلف نا تھی جو بھیانک سپنا دیکھنے کے بعد نیند سے بیدار ہوا ہو۔بڑی رانی نے راجہ کے دائیں کان میں کچھ کہا۔”مہاراج! ایسے لوگوں سے دشمنی مول لین ٹھیک نہیں۔“
راجہ نے اشارے سے وزیر کو اپنے پاس بلایا اور آہستہ سے پوچھا۔”تمہارا کیا خیال ہے؟“
اس نے جواب دیا۔”مہاراج مجھ سے بہتر سوچ سکتے ہیں۔“
راجہ نے کہا۔”اگر میں اسے چھوڑ دوں تو یہ سرادر اور میری رعایا مجھے بزدل تو خیال نا کرے گی؟“
”مہاراج! چاند پر تھوکنے سے اپنے منہ پر چھینٹے پڑتے ہیں۔آپ اپنی رعایا کی نظر میں ایک دیوتا ہیں لیکن اب ان قیدیوں کو چھوڑنا مصلحت کے خلاف ہے۔عربوں کو یہ جرات نہیں ہوسکتی کہ وہ سندھ پر حملہ کریں۔لیکن ان لوگوں کو اگر ان کے ملک میں وآپس بھیج دیا گیا تو یہ تمام عرب میں ہمارے خلاف آگ کا طوفان کھڑا کردیں گے۔اگر آپ عربوں کے ساتھ جنگ کرکے مکران کا علاقہ حاصل کرنے کا ارادہ بدل چکے ہیں تو بہتر یہی ہے کہ ان سب کو آزاد کرنے کی بجائے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے تاکہ عربوں کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نا ہو کہ ہم نے دیبل سے ان کے جہاز لوٹے ہیں۔اس سے پہلے ہم ابوالحسن کے معاملے میں مکران کے گورنر کو ٹال چکے ہیں۔اب بھی اگر کوئی ان کا پتہ کرنے آیا تو تسلی کردی جائے گی۔“
راجہ نے کہا۔”تمہیں کس نے کہا کہ ہم مکران کو فتح کرنے کا ارادہ بدل چکے ہیں۔“
وزیر نے جواب دیا۔”مہاراج! اگر آپ کا ارادہ نہیں بدلا تو پھر ان لوگوں کے متعلق سوچنے کی ضرورت نہیں۔میرے خیال میں اس کی کم سے کم سزا یہ ہوسکتی ہے کہ شہر کے کسی چوراہے میں پھانسی دی جائے تاکہ ہمارے لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ عرب انسانوں سے مختلف نہیں!“
راجہ نے کہا۔”میرا بھی یہی خیال ہے لیکن جہاز سے ایک لڑکا اور لڑکی غائب ہوچکے ہیں۔ اگر انھوں نے سندھ کی عبور پار کرکے مکران میں اور عربوں کو یہ خبر پہنچادی تو ممکن ہے کہ ہمیں بہت جلد لڑائی کی تیاری کرنی پڑے۔“
وزیر نے کہا۔”مہاراج! عرب کی موجودہ حالت مجھ سے پوشیدہ نہیں۔ان کی خانہ جنگی کو ختم ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی اور اب ان کی تمام افواج شمال اور مغرب کے ممالک میں لڑرہی ہے۔ ہمارے پاس ایک لاکھ فوج موجود ہے اور ہم ضرورت کے وقت اسی قدر اور سپاہی جمع کرسکتے ہیں۔پھر راجپوتانے کے تمام راجہ آپ کے باجگزار ہیں۔وہ آپ کے جھنڈے تلے عربوں سے لڑنا اپنی عزت سمجھیں گے۔مجھے یقین ہے کہ جو عرب سندھ میں آئے گا، وآپس نہیں جائے گا۔“
”شاباش! مجھے تم سے یہی امید تھی۔تم آج ہی تیاری شروع کردو۔“
راجہ سے کانا پھوسی ختم کرنے کے بعد وزیر اپنی کرسی پر آبیٹھا۔
راجہ نے سپاہیوں کی طرف متوجہ ہوکر کہا۔”اسے لےجاو!آج شام تک ہم اس کا فیصلہ کردیں گے۔“