(Last Updated On: )
حیدر قریشی
او اَن دیکھے تیرے تو ہیں اربوں کھربوں رُوپ
تیرے پانے کو بدلوں آخر کتنے بہروپ
کونسا اپنا دین دھرم تھا، کونسا اپنا دیس
اصلی صورت بھول گئی تھی بدلے اتنے بھیس
پھر بس میں کچھ بھی نہیں رہتا،کچھ بھی سُوجھ نہ پائے
بیچ ندی میں گٹھڑی بھُس کی جب حیدرـ کھُل جائے
کم از کم یہ بات تو کہنے میں ہم بھی سچے ہیں
تم بھی سچے، وہ بھی سچے، بس ہم ہی جھوٹے ہیں
ساحل پر کشتی کو جلا کے پہلے تو اِترائے
پھر جب لَوٹ کے آنا ٹھہرا، تَیر کے واپس آئے
حیدرؔ بھید جہاں کے جیسے خواب کے اندر خواب
ایک نقاب اگر اُلٹیں تو آگے اور نقاب