اب بڑے بڑے شہروں میں دائیاں اور نرسیں بھی نظر آتی ہیں لیکن دیہاتوں میں ابھی تک زچّہ خانہ روش قدیم کی طرح بھنگنوں کے ہی دائرہ اقتدار میں ہے اور ایک عرصہ دراز تک اس میں اصلاح کی کوئی امید نہیں۔ بابو مہیش ناتھ اپنے گاؤں کے زمیندار ضرور تھے تعلیم یافتہ بھی تھے۔ زچّہ خانہ کی اصلاح کی ضرورت کو بھی تسلیم کرتے تھے۔ لیکن عملی مشکلات کو کیا کرتے۔ دیہات میں جانے کو کوئی نرس راضی بھی ہوئی تو ایسا معاوضہ طلب کیا کہ بابو صاحب کو سر جھکا کر چلے آنے کے سوا کوئی تدبیر نہ سوجھی۔ لیڈی ڈاکٹر کے پاس جانے کی ہمت ہی کیونکر ہو سکتی ان کا حقِ الخدمت تو غالباً بابو صاحب کی نصف ملکیت بیع ہونے پر بھی پورا ہوتا۔ آخر جب تین لڑکیوں کے بعد یہ چو تھا لڑکا پیدا ہوا تو پھر وہی گوڈر کی بہو۔ بچّے بیشتر رات ہی کو پیدا ہوتے ہیں۔ چنانچہ آدھی رات کو بابو صاحب کے چپراسی نے گوڈر گوڈر کی ہانک لگائی۔ چماروں کی ٹولی جاگ اٹھی۔
گوڈر کے گھر میں اس روزِسعید کی مہینوں سے تیاری تھی خدشہ تھا تو یہی کہ کہیں بیٹی نہ ہو جائے۔ نہیں تو پھر وہ ہی بندھا ہوا روپیہ اور وہی ایک ساڑھی مل کر رہ جائے گی۔ اس مسئلہ پر میاں بیوی میں بار بار تبادلہ خیالات ہو چکا تھا۔ شرطیں لگ چکی تھیں۔ گوڈر کی بہو کہتی تھی کہ اگر اب کے بیٹا نہ ہوا تو منہ نہ دکھاؤں۔ ہاں ہاں۔ منہ نہ دکھاؤں اور گوڈر کہتا تھا کہ دیکھو بیٹی ہو گی اور بیچ کھیت بیٹی ہو گی۔ بیٹا پیدا ہوا تو مونچھیں منڈوا لوں گا۔ شاید گوڈر سمجھتا تھا کہ اس طرح بھنگن میں مخالفانہ جوش پیدا کر کے وہ بیٹے کی آمد کے لیے راستہ تیار کر رہا ہے۔
بھنگن بولی۔ اب منڈوا لے مونچھیں ڈاڑھی جا۔ کہتی تھی بیٹا ہو گا پر سنتے ہی نہیں اپنی رٹ لگائے۔ کھد تیری مونچھیں مونڈوں گی۔ کھونٹی تو رکھوں نہیں۔
گوڈر نے کہا۔ ’’اچھا مونڈ لینا بھلی مانس۔ مونچھیں کیا پھر نکلیں گی ہی نہیں۔ تیسرے دن پھر دیکھو گی جوں کی توں ہیں۔ مگر جو کچھ ملے گا اس میں آدھا۔ رکھ لوں گا۔ کہے دیتا ہوں۔‘‘
بھنگن نے انگوٹھا دکھایا اور اپنے تین مہینے کے بچّے کو گوڈر کے سپرد کر، سپاہی کے ساتھ چل دی۔
گوڈر نے پکارا۔ ’’اری سن تو کہاں بھاگی جاتی ہے مجھے بھی تو روشن چوکی بجانے جانا پڑے گا۔
بھنگن نے دورسے ہی کہا۔ ’’تو کون بڑی مشکل ہے وہیں دھرتی پر لٹا دینا اور روشن چوکی بجانا۔ میں آ کر دودھ پلا دیا کروں گی۔‘‘
مہیش ناتھ کے یہاں اب کے بھنگن کی خوب خاطر کی گئی۔ صبح کو حریرہ ملتا۔ دوپہر کو پوریاں اور حلوا۔ تیسرے پہر کو پھر اور رات کو پھر۔ اور گوڈر کو بھی بھر پور پروسا ملتا تھا۔ بھنگن اپنے بچّے کو دن بھر میں دو بار سے زیادہ دودھ نہ پلا سکتی۔ اس کے لیے اوپر کا دودھ مہیا کر دیا جاتا۔ بھنگن کا دودھ بابو صاحب کا بچّہ پیتا تھا اور یہ سلسلہ بارھویں دن بھی بند نہ ہوا۔ مالکن موٹی تازی عورت تھی مگر اب کی کچھ ایسا اتفاق کہ دودھ ہی نہیں۔ تینوں لڑکیوں کی بار اتنے افراط سے دودھ ہوتا تھا کہ لڑکیوں کو بدہضمی ہو جاتی تھی۔ اب کی ایک بوند نہیں بھنگن جنائی بھی تھی اور دودھ پلائی بھی۔
مالکن نے کہا۔ ’’بھنگن ہمارے بچّے کو پال دے پھر جب تک جیے بیٹھی کھاتی رہنا۔ پانچ بیگھے معافی دلوا دوں گی۔ تیرے پوتے تک کھائیں گے۔‘‘
اور بھنگن کالاڈلا اوپر کا دودھ ہضم نہ کر سکنے کے باعث بار بار قے کرتا اور روز بروز لاغر ہوتا جاتا تھا۔ بھنگن کہتی ’’اور مونڈن میں جوڑے لوں گی بہو جی کہے دیتی ہوں۔‘‘
بہو جی۔ ہاں ہاں جوڑے لینا بھائی۔ دھمکاتی کیوں ہے۔ چاندی کے لے گی یا سونے کے۔
’’واہ بہو جی واہ۔ چاندی کے جوڑے پہن کے کسے منہ دکھاؤں گی۔‘‘
’’اچھا سونے کے لینا بھئی کہتی تو ہوں۔‘‘
’’اور بیاہ میں کنٹھا لوں گی اور چودھری (گوڈر) کے لیے ہاتھوں کے توڑے۔‘‘
بہو جی۔ وہ بھی لینا۔ وہ دن تو بھگوان دکھائیں۔
گھر میں مالکن کے بعد بھنگن کی حکومت تھی۔ مہریاں، مہر راجن، مزدورنیں سب اس کا رعب مانتی تھیں۔ یہاں تک کہ خود بہو جی اس سے دب جاتی تھی۔ ایک بار تو اس نے مہیش ناتھ کو بھی ڈانٹا تھا۔ ہنس کر ٹال گئے۔ بات چلی تھی بھنگیوں کی۔ مہیش ناتھ نے کہا تھا دنیا میں اور چاہے کچھ ہو جائے بھنگی بھنگی رہیں گے انھیں آدمی بنانا مشکل ہے۔‘‘
اس پر بھنگن نے کہا تھا۔ ’’مالک بھنگی تو بڑے بڑوں کو آدمی بناتے ہیں۔ انھیں کیا کوئی آدمی بنائے گا۔
یہ گستاخی کر کے کسی دوسرے موقع پر بھلا بھنگن سلامت رہتی۔ سر کے بال اکھاڑ لیے جاتے لیکن آج بابو صاحب ہنسے اور قہقہہ مار کر بولے۔
’’بھنگن بات بڑے پتے کی کہتی ہے۔‘‘
بھنگن کی حکومت سال بھر تک قائم رہی۔ پھر چھن گئی۔ بچّے کا دودھ چھڑا دیا گیا۔ اب برہمنوں نے بھنگی کا دودھ پینے پر اعتراض کیا۔ موٹے رام شاستری تو پرائشچت کی تجویز کر بیٹھے۔ لیکن مہیش ناتھ احمق نہ تھے۔ پھٹکار پلائی۔ پرائشچت کی خوب کہی آپ نے شاستری جی۔ کل تک اسی بھنگن کا خون پی کر پلا۔ اب پرائشچت کرنا چاہیے واہ۔‘‘
شاستری جی بولے ’’بے شک کل تک بھنگن کا خون پی کر پلا۔ گوشت کھا کر پلا۔ یہ بھی کہہ سکتے ہو۔ لیکن کل کی بات کل تھی آج کی بات آج ہے۔ جگن ناتھ پور میں چھوت اچھوت سب ایک ساتھ کھاتے ہیں۔ مگر یہاں تو نہیں کھا سکتے۔ کھچڑی تک کھالیتے ہیں۔ بابو جی اور کیا کہیں۔ پوری تک نہیں رہ جاتے۔ لیکن اچھے ہو جانے پر تو نہیں کھا سکتے۔‘‘
’’تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دھرم بدلتا رہتا ہے کبھی کچھ کبھی کچھ۔‘‘
’’اور کیا! راجہ کا دھرم الگ، پرجا کا دھرم الگ، امیر کا دھرم الگ، غریب کا دھرم الگ۔ راجہ مہاراجے جو چاہیں کھائیں۔ جس کے ساتھ چاہیں کھائیں جس کے ساتھ چاہیں شادی بیاہ کریں۔ ان کے لیے کوئی قید نہیں۔ راجہ ہیں مگر ہمارے اور تمہارے لیے تو قدم قدم پر بندشیں ہیں۔ اس کا دھرم ہے۔ پرائشچت تو نہ ہوا۔ لیکن بھنگن سے اس کی سلطنت چھین لی گئی۔ برتن، کپڑے اناج اتنی کثرت سے ملے کہ وہ اکیلی نہ لے جا سکی اور سونے کے جوڑے بھی ملے۔ اور ایک دو نئی خوبصورت ساڑھیاں۔ معمولی نین سکھ کی نہیں جیسی لڑکیوں کی بار ملی تھیں۔
اسی سال چیچک کا زور ہوا۔ گوڈر پہلے ہی زد میں آ گیا۔ بھنگن اکیلی ہی رہ گئی۔ مگر کام جوں کا توں چلتا رہا۔ بھنگن کے لیے گوڈر اتنا ضروری نہ تھا جتنا گوڈر کے لیے بھنگن۔ لوگ منتظر تھے کہ بھنگن اب گئی اب گئی۔ فلاں بھنگی سے بات چیت ہوئی۔ فلاں چودھری آئے لیکن بھنگن کہیں نہ گئی۔ یہاں تک کہ پانچ سال گذر گئے اور منگل دبلا کمزور اور دائم المرض رہنے پربھی دوڑنے لگا۔ ماں کا دودھ نصیب ہی نہ ہوا۔ دائم المرض کیوں نہ ہوتا۔
ایک دن بھنگن مہیش ناتھ کے مکان کا پرنالہ صاف کر رہی تھی۔ مہینوں سے غلاظت جمع ہو گئی تھی۔ آنگن میں پانی بھرا رہنے لگا تھا۔ پرنالے میں ایک لمبا بانس ڈال کر زور سے ہلا رہی تھی۔ پورا داہنا ہاتھ پرنالے کے اندر تھا کہ یکایک اس نے چلّا کر ہاتھ باہر نکال لیا اور اسی وقت ایک لمبا سا کالا سانپ پرنالے سے نکل کر بھاگا۔ لوگوں نے دوڑ کر اسے تو مار ڈالا۔ لیکن بھنگن کو نہ بچا سکے۔ خیال تھا کہ پانی کا سانپ ہے۔ زیادہ زہریلا نہ ہو گا۔ اس لیے پہلے کچھ غفلت کی گئی۔ جب زہر جسم میں پیوست ہوا اور لہریں آ نے لگیں۔ تب پتہ چلا کہ پانی کا سانپ نہیں کالا سانپ تھا۔
منگل اب یتیم تھا۔ دن بھر مہیش بابو کے دروازے پر منڈلایا کرتا گھر میں اتنا جوٹھا بچتا تھا کہ ایسے ایسے دس پانچ بچّے سیر ہو سکتے تھے۔ منگل کو کوئی تکلیف نہ تھی ہاں دور ہی سے اسے مٹی کے ایک سکورے میں کھانا ڈال دیا جاتا اور گاؤں کے لڑکے اس سے دور دور رہتے تھے۔ یہ بات اسے اچھی نہ لگتی تھی سب لوگ اچھے اچھے برتنوں میں کھاتے ہیں اس کے لیے مٹی کے سکورے۔ یوں اسے اس تفریق کا مطلق احساس نہ ہوتا لیکن لڑکے اسے چڑھا چڑھا کر اس ذلّت کے احساس کو سان پر چڑھاتے رہتے تھے۔ مکان کے سامنے ایک نیم کا درخت تھا۔ اسی کے نیچے منگل کا ڈیرا تھا۔ ایک پھٹا پھٹا سا ٹاٹ کا ٹکڑا، دو سکورے اور دھوتی جو مہیش بابو کے خوش نصیب فرزند سریش کے اتارے کپڑوں میں سے ایک تھی۔ جاڑا، گرمی، برسات، ہر موسم کے لیے وہ ایک سی آرام دہ تھی۔ یہی اس کی خصوصیت تھی اور سخت جان منگل جھلستی ہوئی لو اور کڑاکے کے جاڑے اور مو سلا دھار بارش میں زندہ تھا اور تندرست تھا۔ بس اس کا کوئی رفیق تھا تو گاؤں کا ایک کتّا جو اپنے ہم چشموں کی بد مزاجیوں اور تنگ ظرفیوں سے تنگ آ کر منگل کے زیر سایہ آ پڑا تھا۔ کھانا دونوں کا ایک تھا کچھ طبیعت بھی یکساں تھی اور غالباً دونوں ایک دوسرے کے مزاج سے واقف ہو گئے تھے۔
منگل نے اس کا نام رکھا تھا ٹامی۔ مگر ٹامی مہیش ناتھ کے انگریزی کتّے کا نام تھا۔ اس لیے اس کا استعمال وہ اسی وقت کرتا جب دونوں رات کو سونے لگتے۔
منگل کہتا۔ ’’دیکھو ٹامی، ذرا اور کھسک کر سوؤ۔ آخر میں کہاں لیٹوں۔ سارا ٹاٹ تو تم نے گھیر لیا۔‘‘ ٹامی کوں کوں کرتا اور دم ہلاتا۔ بجائے اس کے کہ کھسک جائے اور اوپر چڑھ آتا اور منگل کا منہ چاٹنے لگتا۔ شام کو وہ ایک بار روز اپنا گھر دیکھنے اور تھوڑی دیر رونے جاتا۔ پہلے سال پھوس کا چھپر گرا۔ دوسرے سال ایک دیوار گری اور اب صرف آدھی دیواریں کھڑی تھیں۔ جس کا اوپر کا حصہ نوک دار ہو گیا تھا۔ یہیں اسے محبت کی دولت ملی تھی وہی مزا وہی یاد وہی کشش اسے ایک بار ہر روز اس ویرانے میں کھینچ لے جاتی اور ٹامی ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتا تھا۔ وہ کھنڈر کی مخروطی دیوار پر بیٹھ جاتا اور زندگی کے آنے والے اور گذشتہ خواب دیکھنے لگتا اور ٹامی دیوار پر کود جانے کی بار بار ناکام کوشش کرتا۔
ایک دن کئی لڑکے کھیل رہے تھے۔ منگل بھی پہنچ کر دور کھڑا ہو گیا۔ سریش کو اس پر رحم آیا یا کھیلنے والوں کی جوڑی پوری نہ پڑتی تھی۔ کچھ ہی ہو اس نے تجویز کی کہ آج منگل کو بھی کھیل میں شریک کر لیا جائے۔ یہاں کون دیکھنے آتا ہے۔
سریش نے منگل سے پوچھا۔ کیوں رے کھیلے گا؟
منگل بولا ’’کھلاؤ گے تو کیوں نہ کھیلوں گا۔؟
سریش نے کہا ’’اچھا تو ہم تینوں سوار بنتے ہیں اور تم ٹٹو بن جاؤ۔ ہم لوگ تمھارے اوپر سوار ہو کر گھوڑا دوڑائیں گے۔‘‘
منگل نے پوچھا۔ ’’میں برابر گھوڑا ہی رہوں گا کہ سواری بھی کروں گا۔‘‘
یہ مسئلہ ٹیڑھا تھا۔ سریش نے ایک لمحہ غور کر کے کہا ’’تجھے کون اپنی پیٹھ پر بٹھائے گا سوچ آخر تو بھنگی ہے کہ نہیں۔‘‘
منگل نے کسی قدر دلیر ہو کر کہا ’’میں کب کہتا ہوں کہ میں بھنگی نہیں ہوں لیکن جب تک مجھے بھی سواری کرنے کو نہ ملے گی میں گھوڑا نہ بنوں گا۔ تم لوگ سوار بنو اور میں گھوڑا ہی بنا رہوں گا۔
سریش نے تحکمانہ لہجہ میں کہا۔ ’’تجھے گھوڑا بننا پڑے گا اس نے منگل کو پکڑنا چاہا۔ منگل بھاگا سریش بھی دوڑا، منگل نے قدم اور تیز کیا۔ سریش نے بھی زور لگایا مگر بسیار خوری نے اسے تھل تھل بنا دیا تھا۔ اور دوڑنے سے اس کا سانس پھولنے لگتا تھا۔ آخر سریش نے رک کر کہا۔ ’’ آ کر گھوڑا بنو ورنہ کبھی پاؤں گا تو بُری طرح پیٹوں گا۔‘‘
’’تمھیں بھی گھوڑا بننا پڑے گا۔‘‘
’’اچھا ہم بھی بن جائیں گے۔‘‘
’’تم بعد میں بھاگ جاؤ گے اس لیے پہلے تم بن جاؤ۔ میں سواری کر لوں پھر میں بنوں گا۔
سریش نے چکمہ دیا۔ منگل نے اس کے مطلب کو برہم کر دیا۔ ساتھیوں سے بولا۔ ’’دیکھو اس کی بدمعاشی، بھنگی ہے۔ ’’تینوں نے اب کے منگل کو گھیر لیا اور زبردستی گھوڑا بنا دیا۔ سریش اپنا وزنی جسم لے کر اس کی پیٹھ پر بیٹھ گیا اور ٹک ٹک کر کے بولا۔ ’’چل گھوڑے چل‘‘ مگر اس کے بوجھ کے نیچے غریب منگل کے لیے ہلنا بھی مشکل تھا دوڑنا تو دور کی بات تھی۔ ایک لمحہ تو وہ ضبط کیے چوپایہ بنا کھڑا رہا لیکن ایسا معلوم ہونے لگا کہ ریڑھ کی ہڈّی ٹوٹی جاتی ہے۔ اس نے آہستہ سے پیٹھ سکوڑی اور سریش کی ران کے نیچے سے سرک گیا سریشگ د سے گر پڑا۔ اور بھونپو بجانے لگے۔ ماں نے سنا سریش کیوں رو رہا ہے۔ گاؤں میں کہیں سریش روئے ان کے ذکی الحسن کانوں میں ضرور آواز آ جاتی تھی اور اس کا رونا تھا بھی دوسرے لڑکوں سے بالکل نرالا جیسے چھوٹی لائن کے انجن کی آواز۔
ایک منٹ میں سریش آنکھیں ملتا ہوا گھر میں آیا۔ آپ کو جب کبھی رونے کا اتفاق ہوتا تھا تو گھر میں فریاد لے کر ضرور آتے تھے۔ ماں چپ کرانے کے لیے کچھ نہ کچھ دے دیتی تھی۔ آپ تھے تو آٹھ سال کے مگر بہت بیوقوف حد سے زیادہ پیارے۔ ماں نے پوچھا۔ کیوں رو رہا ہے سیریش؟ کس نے مارا؟ سریش نے روتے ہوئے کہا ’’منگل نے چھو دیا۔‘‘
پہلے تو ماں کو یقین نہ آیا۔ لیکن جب سریش قسمیں کھانے لگا تو یقین لانا لازم ہو گیا۔ اس نے منگل کو بلوایا اور ڈانٹ کر بولی، کیوں رے منگلو اب تجھے بدمعاشی سوجھنے لگی میں نے تجھ سے کہا تھا کہ سریش کو چھونا نہیں۔ یاد ہے کہ نہیں۔ بول، منگل نے دبی آواز سے کہا۔ ’’یاد ہے‘‘
’’تو پھر تو نے اسے کیوں چھُوا؟۔۔۔ تو نے نہیں چھُوا تو یہ روتا کیوں تھا۔؟
’’یہ گر پڑے اس لیے رونے لگے۔‘‘
’’چوری اور سینہ زوری‘‘ دیوی دانت پیس کر رہ گئیں۔ ماریں تو اسی وقت اشنان کرنا پڑتا۔ قمچی تو ہاتھ میں لینا ہی پڑتی اور چھوت کی برقی رو قمچی کے راستہ ان کے جسم میں سرایت کر جاتی اس لیے جہاں تک گالیاں دے سکیں، دیں اور حکم دیا کہ اسی وقت یہاں سے نکل جا۔ پھر جو تیری صورت نظر آئی تو خون ہی پی جاؤں گی۔ مفت کی روٹیاں کھا کھا کر شرارت سوجھتی ہے۔‘‘
منگل میں غیرت تو کیا ہو گی خوف تھا۔ چپکے سے اپنے سکورے اٹھائے، ٹاٹ کا ٹکڑا بغل میں دبایا، دھوتی کندھے پر رکھی اور روتا ہوا وہاں سے چل پڑا۔ اب وہ یہاں کبھی نہیں آئے گا۔ یہی تو ہو گا کہ بھوکوں مر جاؤں گا کیا ہرج ہے اس طرح جینے سے فائدہ ہی کیا۔ گاؤں میں اور کہاں جاتا۔ بھنگی کو کون پناہ دیتا۔ وہی اپنے بے در و دیوار کی آڑ تھی۔ جہاں پچھلے دنوں کی یادیں اس کے آنسو پونچھ سکتی تھیں۔ وہیں جا کر پڑ رہ۔ اور خوب پھوٹ پھوٹ کر رویا۔ ابھی آدھ گھنٹہ بھی نہ گذرا ہو گا کہ ٹامی بھی اسے ڈھونڈتا ہوا آ پہنچا۔
لیکن جوں جوں شام ہوتی گئی اس کا احساسِ ذلّت بھی غائب ہوتا گیا۔ بچپن کی بے تاب کرنے والی بھوک جسم کا خون پی پی کر اور بھی بے پناہ ہوتی جاتی تھی۔ آنکھیں بار بار سکوروں کی طرف اٹھ جاتیں۔ اس نے مشورتاً ٹامی سے کہا کھاؤ گے کیا؟ میں تو بھوکا ہی لیٹ رہوں گا۔ ٹامی نے کوں کوں کر کے شاید کہا اس طرح کی ذلتّیں تو ساری زندگی سہنی ہیں پھر ذرا دیر میں دم ہلا ہوتا ہوا اس کے پاس جا پہنچا۔ ہماری زندگی اسی لیے ہے بھائی۔‘‘
منگل بولا۔‘‘ تم جاؤ جو کچھ مل جائے کھا لو۔ میری پرواہ نہ کرو۔‘‘ ٹامی نے پھر اپنی سگستانی بولی میں کہا۔ اکیلا نہیں جاتا تمھیں ساتھ لے چلوں گا۔ ایک لمحہ بعد پھر بھوک نے تالیف کا ایک نیا پہلو اختیار کیا۔ ’’مالکن تلاش کر رہی ہوں گی۔ کیوں ٹامی۔ ’’اور کیا بابوجی اور سریش کھا چکے ہوں گے؟ کہار نے ان کی تھالی کا جوٹھا نکال لیا ہو گا اور ہمیں پکار رہا ہو گا۔ بابو جی اور سریش دونوں کی تھالیوں میں گھی اور میٹھی میٹھی چیز۔ ہاں ملائی۔ ہماری آواز نہ سنائی دے گی۔ تو سب کا سب گھورے پر ڈال دیں گے۔ ذرا دیکھ لیں کہ ہمیں پوچھنے آتا ہے۔ یہاں کون پوچھنے آئے گا۔ کوئی برہمن ہوں۔‘‘
’’اچھا چلو تو وہیں چلیں مگر چھپے ہوئے رہیں گے اگر کسی نے نہ پکارا تو میں لوٹ آؤں گا۔ یہ سمجھ لو۔‘‘
دونوں وہاں سے نکلے اور آ کر مہیش ناتھ کے دروازے پر ایک کونے میں دبک کر کھڑے ہو گئے۔ ٹامی شاید اِدھر ادھر خبر لانے چلا گیا۔ مہیش بابو تھالی پر بیٹھ گئے تھے نوکرآپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ ایک نے کہا۔ ’’آج منگلو نہیں دکھائی دیتا۔ بھوکا ہو گا بے چارہ۔ مالکن نے ڈانٹا تھا۔ اسی لیے بھاگا تھا شاید۔ ’’منگل کے جی میں آیا چل کر اس آدمی کے قدموں پر گر پڑے۔ دوسرے نے جواب دیا۔ ’’اچھا ہوا نکالا گیا۔ نہیں تو سبیرے سبیرے بھنگی کا منہ دیکھنا پڑتا تھا۔ ’’منگل اور اندھیرے میں کھسک گیا۔ اب کیا امید کی جا سکتی تھی۔ مہیش اور سریش تھالی سے اٹھ گئے نوکر ہاتھ منہ دھلا رہا ہے۔ اب بابوجی حقّہ پیں گے۔ سریش سوئے گا۔ غریب منگل کی کسے فکر ہے۔ اتنی دیر ہو گئی کسی نے نہیں پکارا۔ کون پکارے گا۔ منگل آدھ گھنٹے تک وہاں دبکا رہا۔ کسی نے اس کا نام نہ لیا۔ اس نے ایک لمبی سانس لی اور جانا ہی چاہتا تھا کہ اس نے اسی کہار کو ایک تھال میں جوٹھا کھانا لے جاتے دیکھا۔ شاید گھورے پر ڈالنے جا رہا تھا۔ منگل اندھیرے سے نکل کر روشنی میں آ گیا۔ اب صبر نہ ہو سکتا تھا۔ کہار نے کہا ارے تو یہاں تھا۔ ہم نے کہا کہیں چلا گیا۔ لے کھا لے میں پھینکنے لے جا رہا تھا۔ ’’منگل نے کہا میں تو بڑی دیر سے یہاں کھڑا تھا۔ کہار نے کہا تو بولا کیوں نہیں۔‘‘ منگل بولا۔ ’’ڈر لگتا تھا۔‘‘ منگل نے کہار کے ہاتھ سے تھال لے لیا اور اسے ایسی نظر سے دیکھا جس میں شکر اور احسان مندی کی ایک دنیا چھپی ہوئی تھی۔ پھر وہ دونوں نیم کے درخت کے نیچے حسب معمول کھانے لگے۔ منگل نے ایک ہاتھ سے ٹامی کا سر سہلا کر کہا۔ ’’دیکھا پیٹ کی آگ ایسی ہوتی ہے لات کی ماری ہوئی روٹیاں بھی نہ ملتیں تو کیا کرتے؟ ٹامی نے دم ہلائی۔ سریش کو اماں ہی نے پالا ہے ٹامی۔‘‘
ٹامی نے پھر دم ہلا دی۔ لوگ کہتے ہیں دودھ کا دام کوئی نہیں چکا سکتا۔ ٹامی نے دم ہلا دی۔ ’’اور مجھے دودھ کا یہ دام مل رہا ہے۔‘‘ ٹامی نے پھر دم ہلا دی۔
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...