(Last Updated On: )
ڈوبتے سورج کی آخری کرنیں ھر سوں پھیلتی جا رحی تھی۔ شام کے اس وقت جب ھوا میں اک اجب سا کون تھا ۔
“کر یسٹین کھاں بھاگتئ جا رھئ ھو اب آجاو گھر چلیں “
“مو مئ کچھ دیر تو ا نجواے کرنے دیں بہت مذا آ رہا ہے”
ساحل کی ریت اس کے نازک پاوں سے پھسلتئ جا رہی تھی جوں جوں وہ آ گے بڑھ رہی تھی۔ اپنی خو بصو رت سی پری کو یوں مسکراتے دیکھ کر وہ آج بہت خوش تھی اور اسکی زندگی کی آنے والئ ہر بہار کے یے دعا گوہ تھی۔
مگر زندگی کب اپنے رنگ بدلتی ہے یہ تو اس خالق سے بہتر کون جان سکتا ہے بھلا۔۔۔
سیاہی ہر سوں مر مرا کے ساحل پر پھیلتی چلی جا رہی تھی۔۔۔
************************************
صبح سحر کی مد ھم روشنی کمرے میں اجالا کر رہی تھی کہ بیڈ کے قریب پڑی میز پر گھڑی کا الارم زن کی آواز سے بجنے لگا یہ تیسری بار تھا کہ وہ اسے بند کرنے کے لیے تکیے پر منہ رکھے دوسرے ہاتھ سے اسے پکڑ کر بند کرنے کی کوشس کر رہی تھی لیکن اب کی بار میز پر پڑے کانچے گلاس سے اس کا ہاتھ ٹکرایا تو سارا پانی جوں کا توں اس کے منہ اور بستر پر گر گیا جب کہ الارم اب تک بج رہا تھا۔
پانی منہ پر گرتے ہی اس کے ہواس بہال ہوے ا لارم بند کرتے ہی گھڑی پر وقت دیکھا جس پر صبح کے سوا نو بج رہے تھے
“آج پھر دیر ہو گئ سر عثمان تو مجھے کلاس میں قدم بھی نہیں رکھنے دیں گے!!” یہ کہتے ہوے وہ الماری سے کپڑے الٹ پلٹ کرنے لگی ۔تیار ہو کر جوس کا بھرا ہوا گلاس آدھا پی کر وہ تیزی سے پارکنگ تک پہنچی ۔ لوک کھولتے ہوے اسے یاد آیا چند کتا بیں تو اوپر سٹڈی میں رہ گئ۔ کتا بوں کو وہاں سے اٹھا تے ہوے اس نے یہ تک نہ دیکھا کہ کون سی کتابیں لے جا رہی ہے۔
یونیورسٹی کے پارکنگ ایریا میں پہنچ کر حسب معمول اس نے اپنی گاڑی اسی جگہ لگانی چاہی جہاں وہ روز اسے کھڑا کرتی تھی مگر آج وہاں سیاہ رنگ کی کرولا کھڑی تھی یہ دیکھ کر وہ پیر پٹختی گاڑڈ کو سخت سست سناتی ڈیپارٹمنٹ کی سیڑیاں چڑھنے لگی ۔
سنہری بالوں کی اونچی پونی کو کستے ہوے اسنے دروازے پر دستک دیکر اندر آنے کی اجازت طلب کی جب سر عثمان اس کی طرف متوجہ ہوے۔ وہ شرمندہ سی ان کے جواب کی منتظر تھی جب ان کی نظر اسکی ہاتھ میں پکڑی کتابوں پر پری تو اس سے پوچہا”تو مس ہور !!! کلاس میں روز دیر سے پہنچنا تو آپ کا مشغلہ بن ہی چکا ہے لیکن مجھے یاد ہے کل گلیلئو کے پڑہاے فلسفے ایسی تو کوی بات نہ تھی جس کا مطالعہ آپ ان بیوٹی ٹپس کے میگزین میں کرتی” کلاس میں موجود سب نے ہور کے ہاتھ میں موجود میگزین پر نظر دوڑائ اور کہکے بلند ہوے۔سواے اس ایک بھوری آنکھوں والے کہ جس کہ سیاہ بال ماتھے پر بکھرے تھے اور وہ اپنی کتاب میں مصروف تھا
“کہاں رہ گئ تھی ہور آج پھر دیر کر دی تم نے ” جونہی وہ سمن اور عائشہ تک پہنچی وہ دونوں اس پر برس پڑیں۔۔۔
“میرا نہیں خیال کے تم کبھی سدھرو گی ہور” عائشہ نے ملامتی نگاہوں سے اسے دیکھا لیکن وہاں پرواہ کسے تھی۔ اسی دوران لیکچر اینڈ ہوگیا اور آخری بینچ پر حسن کے ساتھ بیٹھا وہ اٹھ کر بیگ سنبھالتا کلاس سے باہر نکل گیا۔
ہور لمحہ بھر کو اس کی طرف متوجہ ہوئ اور عائشہ سے پوچھ بیٹھی “یہ سیشن کے لاسٹ میں کس نے جوائن کی ہے یونی؟؟” عائشہ نے ناگواری سے اسے دیکھا “او فوڈ!! ہور یہ عرشمان بھائ ہیں مصطفئ ماموں کے بیٹے یعنی تمہیں تو کچھ یاد نہیں رہتا بتا یا تو تھا تمہیں کہ وہ اپنی migration اسلام آباد سے لاہور کروا رہے ہیں۔ سحرش آپی کی شادی جو ہے ایک ماہ تک ارسلان بھائ سے۔ تو مصطفئ ماموں اب لا ہور میں ہی settle ہو رہے ہیں۔ فلحال تو ہمارے گھر ٹھہرے ہیں سب “
“ارے ہاں سوری میں بھول گئ ” اسے کچھہ روز پہلے عا ئشہ کی دی گئ تفصیل یاد آئ “میں بھی ملنے آو گی سحرش آپی سے” کوریڈور سے گزرتے ہوئے وہ پھر اپنی گپ شپ میں مصروف ہو گئیں۔۔۔۔
****************************
عمارت کے تیسرے فلور میں مو جود تین افراد رات کے ڈھائ بجے ماہتاب کی روشنی میں کسی سیاہ پرچھائیوں کی مانند
نظر آ رہے تھے۔۔۔
“تمہیں یقین ہے یہ adress سو فیصد درست ہے میں نہیں چاہتا ذرا سی بھی گڑبڑ ہو” ایک نو جوان عمر کے لڑکے نے لیپ ٹاپ کی سکرین کا رخ اس کی طرف موڑا ” میں اس بات
کی ضما نت دے سکتا ہوں وہ کبھی مجھ سے جھوٹ نہیں بولتی ” ایک بے ساختہ مسکراہٹ کے ساتھ اس نے کہا۔ اور اس کمرے میں موجود تینوں افراد کے کہکے بلند ہوئے ۔
“ویل ڈن مائے سن کل کی رات ہماری کامیابی کی رات ہوگی”
انکرا کے اس ویرانے میں شہر سے کچھ دور اس عمارت میں کچھ شیطانی عزائم رات کی تاریکی کا دل دہلا رہے تھے۔۔۔۔۔
***************************
کیفیٹیریا میں جس قدر رش تھا یہ خوش قسمتی ہی تھی کہ انہیں تین کرسیاں خالی مل گئیں۔ ان پر بیراجمان ہوتے ہی انہوں نے سکھ کا سانس لیا۔ کچھ یاد آتے ہی ہور نے شرارت میں سامنے پڑا ریجیسٹر سمن کے بازو پر دے مارا
“اب یہ عنا یت کس خوشی میں فرمائ آپ نے میری” سمن
نے اپنا بازو سہلاتے ہوئے پوچھا “یہ اس لئے کہ میں تمہاری
بہت اچھی دوست ہوں” ہور نے مسکراتے ہوے کہا “خدا بچائے مجھ جیسے معصوموں کو تم جیسی مخلوق سے” سمن نے منہ بسورتے ہوئے کہا۔ جبکہ عا ئشہ اپنی مسکراہٹ کو روکنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی “اچھا تم لوگ کبھی تو باز آیا کرو اور ہاں سمن کی سالگرہ بھی تو آرہی ہے اگلے
ہفتے ہمیں تو شاپنگ بھی کرنی ہے” عائشہ نے ہور سے کہا “یہ سب بعد میں مجھے شدیر بھوک لگ رہی ہور
کچھ لے آو کینٹین سے” سمن نے ملتجی نگاہوں سے ہور کی طرف دیکھا۔ دونوں کہ یوں مسکینوں کی طرح دیکھنے پر
وہ مجبور ہو کر اٹھ گئ “کام چور کہیں کی دونوں ہمیشہ مجھے بھیج دیتی ہیں اس اتنی لمبی بل جما کروانے والی قطار میں انسان باری آنے تک اوپر جا چکا ہو۔”ہور نے
شکایتی نظروں سے انہیں دیکھا جن کی بتیسی اندر جانے
کا نام نہیں لے رہی تھی “وہ اس لیے کیونکہ ہم تمہاری بہت
اچھی دوست ہیں دونوں نے یک زبان ہو کر کہا اور مسکرا
دیں جبکہ وہ تن فن کرتی وہاں سے چل دی
اس لمبی قطار کو دیکھ کر وہ پھر ان دونوں کو دل ہی دل میں کوسنے لگی۔ تقریبن آدھ گھنٹے بعد اس کی باری آہی
گئ ۔بوجھل طبعیت کے ساتھ اس نے تین سینٹوچ اور ایک
کوک کا کین خریدنے کے لیے ابھی پیسے دیے ہی تھے کہ سامنے لائن میں موجود عرشمان بھی کین لینے کے لئے
پیسے کاونٹر پر رکھے ۔ ورکر نے دونوں کی طرف پریشان کن
نظروں سے دیکھا اور کہا”معاف کرنا مگر ایک ہی کین بچا
ہے دونوں فیصلہ کر لے کسے چاہئے۔ اس نے ایک نظر کین پر
ڈالی اور دوسری ہور پر پھر کہا” کین تو میرا ہے اور میں لے جا رہا ہوں مس آپکا ان سینڑوچز سے اچھا گزارا ہو جائے گا”
ہور کا تو پارا ہی ساتویں آسمان کو چھونے لگا۔ شدیر غصے سے رخسار اور کان کی لوویں سرخ ہونے لگیں “میں آدھ
گھنٹے سے اس لائن میں اس لیے نہیں کھڑی کے اتنی آسانی
سے آپ کو یہ لے جانے دوں”۔یہ کہتے ہی اس نے سینڑوچز اور
کین لیا اور جانے ہی لگی تھی کہ عرشمان نے بنچ کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے اس سے کہا “وہ دیکھیں سر عثمان آپ کی شکایت پرنسپل سے کر رہے ہیں آپکے روز دیر سے آنے کی “
وہ آسانی سے اس کے جال میں پھنس گئ ۔ جب تک اس کی سمجھ میں کچھ آتا عرشمان اسکے ہاتھ سے کین لے اڑا اور جاتے ہوے فاتخانا مسکراہٹ اس کے لبوں پر تھی۔۔
پہلے تو ہور کو یقین نا آیا اور جب حقیقت واضح ہوئ کہ عرشمان نے اسے بہت اسانی سے بیوقوف بنا کر چلا گیا ہے تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئ “اس کو تو میں سبق سکھا کر رہوں گی
کینٹین سے واپس آکر اسکا موڈ بہت خراب ہوچکا تھا۔ عائشہ اور سمن نے کافی مرتبہ پوچھا لیکن اس نے “بس سر میں درد ہے” کہہ کر ٹال دیا ۔ عائشہ اور سمن کو کچھ اسائنمنٹس مکمل کرنی سو وہ دونوں لائبریری کی طرف چل دی اوہ ہور پارکنگ ایریا کی طرف جانے لگی اپنی کار تک پہنچتے ہی اس
نے اردگرد نظر دوڑائ جب اس کی نگاہ سیاہ کرولا کے پاس کھڑے عرشمان مصطفئ اور حسن پر پڑی ۔ تو یہ کار اس مسٹر کی ہے۔ اسے یاد آیا صبح یہی گاڑی اس جگہ کھڑی تھی
جہاں وہ روز اپنی کار پارک کرتی تھی۔ اسے مذید تیش آنے لگا ۔
وہ دونوں اب باتو میں مصروف کچھ دور نکل گئے۔ اسی وقت ہور نے کچھ سوچا اور اپنی کار کا دروازہ کھولتے
ہی ڈیش بورڈ سے چند نوکیلے کیل نکالے اور اسکی گاڑی کے اگلے ٹائرز کے قریب اس طرح کہ ان کی نوکیلی سطح اوپر کی طرف تھی کہ جب کار آگے کی سمت جا ئے گی تو اس کے
ٹائر میں سوراخ کرتے ہوے وہ کار پنکچر کر دے گی ۔
اپنے اس عمل سے فارغ ہو کر وہ اپنے منصوبے پر مسکرا دی۔
اب مزا آئے گا اسے سمجھتا کیا ہے یہ خود کو ۔ کچھ ہی دیر میں وہ دونوں واپس آگئے اسی دوران ہور اپنی کار میں بیٹھ گئ کہ وہ اسے دیکھ نہیں پائے۔ عرشمان نے کار سٹارٹ کی اور سٹیرنگ ویل گھومایا ابھی وہ کیمپس کے exit گیٹ تک ہی پہنچا تھا کہ اسے کار کے فرنٹ ٹائر میں ہوا کم محسوس تو وہ کار سے اتر کر ٹائر کا جائزہ لینے لگا سیکنڈ سے پہلے اسے میلوم ہوگیا کہ کار پنکچر ہوئ نہیں بلکہ کی گئ ہے۔
اس نے اردگرد ریکھا ہور سنگلاسس لگائے مسرور سی مسکراہٹ لئے اپنی کار اس کے قریب سے گزارتی تیزی سے نکل گئ۔ اک خفیف سی مسکراہٹ اس کے لبوں کو چھو گئ “میری سوچ سے کافی سمارٹ نکلی یہ مس تو خیر ان کی تو بعد میں خبر لوں گا فلحال محترمہ نے جس مہارت سے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے پہلے اسکی مرمت کروا لوں میں “
*****************
ٹاقسم سکوائر میں پھولوں کی پر فسوں مہک ہر طرف بکھری ہوئ تھی۔ برف کے ننھے ننھے گولے عرش سے نیچے آتے ہوئے اس کے گلابی رخساروں کو چھوتے ہوئے گزر رہے تھے۔ کچھ دور بنچ پر بیٹھی اسکی مومی بیتی یادوں کے سمندر میں کہیں پیچھے سفر کر رہی تھیں۔ اک سرد آہ ان کے لبوں سے خارج ہوئ۔۔۔
سکیٹنگ کرتی کر یسٹین نے اچانک خود پر بریک لگائ اور ان کے چہرے کے آگے دونوں ملائم ہاتھ ہلانے لگی” Hey momy what are thinkin” اسکے یوں کہنے پر وہ ماضی سے حال میں لوٹ آئیں۔۔
وہ اسے دیکھتے ہوئے مسکرانے لگی۔ وہ ان کے رخساروں کو اپنے لبوں سے چھوتی ہوئ پھر آگے بڑھ گئ۔ skates کے ٹائرز کی آواز اب بھی دور جاتی سنائ دے رہی تھی۔
اب وہ اسے دیکھنے لگی جو پورے سکوائر کے اردگرد سکیٹنگ کرتی ہوئ تیز رفتار میں چکر لگا رہی تھی۔ ہوا برف کے چھوٹے ٹکروں سمیت اس کی نکھری پیشانی خوبصورت رخساروں اور لبوں کو چھو رہے تھے۔ٹیولپس کی دلفریب مہک اسکے حسین بالوں کو مہکا رہی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ مزید تیزی سے دونوں ملائم بازو کمر کی پچھلی طرف باندھے سکیٹ کرنے لگی۔
“کرسٹی سویٹ ہارٹ!! دیہان سے snowfall تیز ہو رہی ہے surface گیلی ہو رہی ہے سلو سکیٹ کریں آپ ورنہ سلپ ہو جائیں گی” انھوں نے متفقر نگاہوں سے اسے دیکھا۔۔
“Dont worry momy I’ll be fine” کہتے ہوئے وہ مذید تیز سکیٹ کرتے ہوئے مسکرانے لگی ۔ برف کے سفید گولے اب بھی ہر سوں پھیلتے جا رہے تھے۔۔
**************
جب وہ پھپھو کی طرف پہنچا سب ارسلان بھائ کے استقبال کی تیاری میں مصروف تھے جو آج کی فلائت سے لاہور پہنچے تھے ۔عائشہ اور حنا سحرش آپی کے روم میں موجود گپ شپ میں مصروف تھیں۔ڈرائنگ روم میں ارسلان
بھائ کے ساتھ رحیم انکل اور ریحان کے ساتھ مصطفئ صاحب مہوے گفتگو تھے ۔وہ فریش ہو کر ان سب کے پاس آبیٹھا۔ آمنہ آنٹی سب کو کولڈرنکس پیشکر رہی تھی۔
تبھی انہوں نے کوک کا ایک گلاس عرشمان کی طرف کی طرف بڑھایا جسے تھامتے ہوئے بےساختہ اس کے لبوں پہ مسکراہٹ امڈ آئ ۔صبح کا تمام واقعہ ذہن میں کسی فلم کی
طرح چل پڑا ۔گلاس لبوں سے لگائے پیتے ہوئے وہ اب بھی کسی سوچ میں ڈوبا تھا
رات کو ارسلان ان سب کو باہر ڈنر کے لئے لیگیا اپنی منگنی کی ٹریٹ دینے کے لئے۔ آمنہ آنٹی حنا سحرش اور مہک سب شاپنگ کے لیے نکل گئیں۔ عائشہ کا ہور کے ساتھ باہر جانے کا پروگرام تھا سو ہور بے اسے پک کر لیا۔ہور کی عائشہ کی فیملی سے کافی اچھی انڈرسٹینڈنگ تھی تو وہ اکثر ملنے آجاتی تھی۔
“عائشہ کبھی تو وقت پر آجایا کرو لیکن جس نے گھر سے آخری قدم نکالنے تک بالوں میں برش کرنا ہو وہ بھلا کیسے وقت کا پابند ہوسکتا ہے بھلا”اس نے ملامتی نظروں سے عائشہ کی طرف دیکھا “اچھا اب زیادہ لیکچر مت دو اور کار سٹارٹ کرو ویسے تم نے سمن کے لئے کیا لینے کا سوچا ہے؟؟”
“میں ایک ڈائری لے رہی ہوں جس میں ہم تینوں کی اس سال کی تمام یادیں محفوظ کریں گے ” وہ مسکراتے ہوئے درائیوہ کرنے لگی۔ “نائس ائیڈیا!! میں اس کے لیے بریسلیٹ لوں گی” عائشہ اسے بتانے لگی۔”آج تو سحرش آپی کی مسکراہٹیں دیکھنے لائق تھی جب سے ارسلان بھائ آئے ہیں ہم انہیں اتنا ستاتے ہیں کہ بوکھلا جاتی ہیں۔ تم بھی آنا سب سے ملنے”۔”ہاں ضرور آوں گی چلو مال آگیا ہے۔ “
ہور کو ڈائری تو مل گئ مگر عائشہ کو اب تک کوئ بریسلیٹ
پسند نہیں آیا۔بہت سی دکانوں میں مغز ماری کرنے کے بعد آخرکار اسے ایک سیاہ اور سلور جیمز سے سجا بریسلیٹ پسند آ ہی گیا۔تھکاوٹ سے بےحال اب بھوک بھی اپنے عروج پر تھی۔وہ عائشہ اور اپنے لئے فروٹ سیلڈ لینے کو رکی۔ واپسی پر اسے toys shop سے ایک شخس نکلتا دکھائ دیا جس کی ایک بازو میں گلابی رنگ کا برا سا teddy bear
تھا اور دوسری میں پانچ چھ برس کی لڑکی جس نے نیٹ کا گھٹنوں تک آتا آف وائیٹ فراک پہن رکھا تھا۔ اور وہ مسکراتے ہوئے باربار اس bear کی طرف جھک رہی تھی اور اس کو پکڑنے کی کوشش میں خوش ہوتی۔
اس آدمی نے کار تک پہنچتے ہی بئیر گاری میں رکھا اور اس بچی کو بار بار ہوا میں اچھالتا جس سے وہ مزید مسکرانے لگی۔ ہور مبہوت ہوتی ہوئ اس منظر کو دیکھتی رہی۔ اس کی آنکھ کے کنارے نم ہو گئے اور وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گئ۔ فروٹ سیلڈ ختم کرتے ہی ہور کو کچھ یاد آیا اور وہ ایک دکان میں چلی گئ۔ کچھ دیر میں وہ لوٹی تو سنو سپریز اور کولڈرنکس کے کارٹن اسکے ساتھ تھے۔ “ہووری!
یہ سنوسپریز کی تو مجھے سمجھ آگئ مگر ان کولڈرنکس کا کیا کرنا ہے ؟؟” عائشہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔
“کار میں بیٹھو بتاتی ہوں” ہور نے اسے اپنا پلین بتایا جسے سن کر وہ مسکرانے لگی “برتھڈے گرل کی خیر نہیں” واپسی کا رستہ بھی انہوں نے یونہی مسکراتے ہوئے گزارا۔۔۔
**********
استنبول کی سڑکوں پر دھوند ہرسوں چھانے لگی۔جدیسی کے لوگ بھی اپنی مصروفیات میں مشغول تھے۔ وہ آج بائسیکل لے کر پارک کی طرف نکل آئ موم کو بتا کر آئ تھی اور وہ بہت مشکل سے آمادہ ہوئ تھی۔ سائیکلنگ کرتے ہوئے وہ پارک سے کچھ نکل آئ۔ اچانک ہی اسے اپنی سائیکل پر بریک
لگانی پڑی کیونکہ بلکل وسط میں ایک لڑکوں کا ایک فروپ اپنی سائیکلوں پر سواف تھے جنہوں نے آگے جانے کا رستہ روک رکھا تھا۔۔وہ کچھ گھبرا سی گئ کیونکہ واپسی کا بھی وہی راستہ تھا جہاں وہ سب قبصہ جمائے کھڑے تھے۔
ان میں سے ایک سائیکل چلاتے کچھ آگے کو آیا۔ “مجھے جانا ہہ آپ لوگ میرے راستے سے ہٹیں “۔ “سوری مگر یہ راستہ اب ہم ایک ہی صورت میں چھوڑیں گے “اس لڑکے نے سنجیدگی سے کہا “کس صورت میں؟” کریسٹین نے پوچھا “میرے ساتھ ریس لگانا ہوگی اس جدیسی میں مجھ سے فاسٹ سائیکلر کوئ نہیں اگر منظور ہے تو سٹارٹ کریں ورنہ رات تک یہیں رہنا پڑے گا سوچ لو”۔
اس نے کچھ سوچ کر کہا “اس کے بعد کوئ میرا راستہ نہیں روکے گا” “ok done” اس نے کہا اور ریس سٹارٹ ہو گئ ۔ دونوں پوری رفتار سے سائیکل چلانے میں جت گئے۔ اسے cheer up کرنے والا کوئ نہ تھا لیکن ہمت نہ ہاری اینڈنگ لائن کے قریب پہنچ کر اس نے سائیکل پوری قوت سے چلائ اور لائن کروس کر گئ۔ اس کی خوشی دیدنی تھی ۔
وہ گھر جانے کے لئے وہ مڑی ہی تھی کہ اس لڑکے نے کہا “تم ہمارے گروپ میں شامل کیوں نہیں ہو جاتی” اس نے پوچھا “I am not intrested” اس نے نخوت سے کہا۔ “ویل دوست تو بن ہی سکتے ہیں ” اس لڑکے نے پوچھا۔ “ok” کریسٹی کو یاد آیا اس کا استنبول میں کوئ دوست نہیں۔۔
“آپکا نام؟” اس لڑکے نے پوچھا “کریسٹین جوسیف اور آپ؟” “انس” اس نے مسکرا کر کہا۔ “ok see you larer” اور وہ
کہہ کر چل دی۔۔۔
*************
ریسٹورینٹ میں داخل ہوتے ہی ٹیبل بک کرکے سب آرڈر کا انتظار کرنے لگے۔”کن کے خیالات وتصورات میں کھوئے ہیں ارسلان بھائ” عرشمان نے اسے کہیں کھوئے ہوئے دیکھا تو ان کی ٹانگ کھینچنے لگا۔”مان میں دیکھ رہا ہوں تم بہت فضول بولنے لگے ہو ” ارسلان نے اسے گھوورا ۔”اب آپ توپوں کا رخ مان کی طرف کرکے خود کو بچا نہیں سکتے ارسلان بھائ۔
ریحان نے عرشمان کا دفاع کرتے ہوئے کہا۔
“ہاں ہاں ریھان ابھی شادی ہوئ نہیں اور بھابھی کی اتنی تعبیداری۔۔۔ شادی ہونے پر تو انہوں نے ہواوں میں اڑنا ہے” ۔ “زیادہ بک بک نہ کرو تم دونوں یہ نہ ہو اپنی شادی سے پہلے تم دونوں کے ہاتھ پیلے کر دوں۔” اس نے دونوں کو دیکھا جو اب کہکے لگا رہے تھے۔۔۔۔
“ٹھیک ہے ٹھیک ہے باز تو تم لوگوں نے آنا نہیں لیکن یاد رکھو نیکسٹ ٹرن تم لوگوں کی ہی ہے پھر سارے حساب چگتا کروں گا میں” ارسلان نے نخوت سے کہا۔” جب باری آئے گی تب کی تب دیکھی جائے گی فل وقت آپ ڈنر کے بل کی فکر کریں” عرشمان نے کہا۔ اتنے میں ڈنر آگیا اور سب کھانے میں مصروف ہو گئے۔
گاڑی تک پہنچتے ہی عرشمان کو یاد آیا کہ اسے حسن سے کچھ ضروری نوٹس لینے تھے۔ اس نے سوچا یہیں سے حسن کی طرف چلا جائے اور نوٹس لے کر واپس جائے۔اس نے ارسلان اور ریحان کو اطلاع کی اور کار سٹارٹ کر دی۔
**********
جاڑے کی شدت میں آج کچھ اضافہ ہو چکا تھا یہی وجہ تھی کہ آج مومی نے اسے کہیں بھی باہر نکلنے کی اسے اجازت نہ دی۔ اسے رات سے ہی کچھ فلو تھا جو بگڑ کر بخار میں تبدیل ہو چکا تھا۔ جس کے باعث موم بہت پریشان تھی ۔سرخ و سپید چہرہ بخار کی حدت سے گرم تھا۔
“ڈیڈی۔۔مجھے ڈیڈی سے بات کرنی ہے ” وہ نیم کھلی آنکھوں سے بڑبڑا رہی تھی۔ مومی کو اسے دیکھ کر اب فکر ہونے لگی۔ انہوں نے کارڈلیس اٹھایا اور نمبر ملانے لگی۔ بیل کی آواز ماحول کے سکوت کو توڑنے لگی۔ دوسری طرف سے شائد کال ریسیو کر لی گئ تھی تبھی ہیلو کی آواز سنائ دی۔ “کریسٹی آپ سے بات کرنا چاہ رہی تھی” انھوں نے حال احوال پوچھنے کے بعد کہا۔ ” ہاں تو کرواو نا little princess سے میری بات” انہوں نے مسکراتے ہوئے گمبھیر آواز میں کہا۔
انہوں نے کارڈلیس اس کے کان سے لگایا۔”کیا حال ہے میری ڈول کا لگتا ہے مجھے کر رہی ہیں آپ ڈونٹ وری میں جلد استنبول واپس آنے کی کوشش کروں گا ” انہوں نے پیار بھرے انداز سے کہا” وہ بلکل سرد پرتی جا رہی تھی “Idon’t wanna talk” کہتے ہوئے کارڈلیس واپس انہیں تھما دیا۔
دوسری طرف سے آواز اب بھی آ رہی تھی انہوں نے آخری کلامات کہتے ہوئے فون بند کر دیا اور مصنوی مسکراہٹ لبوں پر سجائے کہنے لگی”ڈیڈ سے ناراض ہے میری princess ” اس نے کچھ دیر خاموش نگاہوں سے اسے دیکھا
پھر کہا “you know that’s not the reason” اور چہرے کا رخ دوسری طرف موڑ لیا۔ آنسو ابل ابل کر اسکی آنکھوں سے بہنے لگے۔
سرد ہوا کے ساتھ برف کے ننھے گولے اب بھی کوٹیج کی کھڑکیوں سے ٹکراتے دیکھائ دے رہے تھے۔ شہر سے کچھ دور اس خوبصورت کوٹیج میں اب ہرسوں سناٹا تھا ۔ دور کہیں مرمرا کے سمندر میں لہروں کے اٹھنے اور گرنے کا شور تھا۔
************
“یونی کل ٹائم پر پہنچ جانا ہووری!” وہ عائشہ کو اس کے گھر ڈراپ کرنے کے لئے رکی تھی جب اس نے کار سے اترتے ہوئے تاکید کی” اچھا زیادہ اماں بننے کی ضرورت نہیں ہے آجاو گی ۔ “تمہارا کچھ نہیں ہوسکتا خیر خدا حافظ ” اس نے مسکراتے ہوئے ہور سے کہا اور ہور نے گاڑی آگے بڑھا دی۔
گاڑی اب سنسان راہ پڑ دوڑنے لگی۔ بہت سے مناظر اس کی نیلی آنکھوں کے گرد گھومنے لگے۔ وہ مدھم آواز میں گنگنانے لگی
میری زندگی کے سیراب میں۔۔۔
اک غم کا دریا ہے۔۔۔۔۔
ڈوب کر اس میں مجھے۔۔۔
پھر ابھرنا ہے۔۔۔
اب کھونے کو کچھ موجود نہیں۔۔۔۔
جس کی جستجو میں مجھے پھر سسکنا ہے۔۔
وہ اپنی ہی دھن میں مگن تھی جب ڈیش بورڈ پر پڑا موبائل بج اٹھا۔اس نے موبائل پر نمبر دیکھا اور بددلی سے فون اٹھایا۔آنسووں کا ایک اور گولا حلق میں اٹک گیا۔”بولو اب کیا
چاہتے ہو؟” اس نے لیے دیے انداز میں پوچھا۔ “کیسی ہو؟” بھاری مدھم آواز میں پوچھا گیا۔”فون کیوں کیا ہے؟” اس نے غصے کو ضبط کرتے ہوئے پوچھا۔
دوسری جانب کہکا بلند ہوا “جانتی تو ہو میں کیا چاہتا ہوں”
“میری زندگی برباد کرکے ابھی تم لوگوں کو اطمینان حاصل نہیں ہوا میرے پاس تم لوگوں کے دیے ہوئے وقت میں سے ابھی ایک ماہ باقی اس لیے مجھے کچھ دن جی لینے دو دوبارہ کال بیک مت کرنا” وہ کال کاٹنے ہی والی تھی کے دوسری جانب سے آواز بلند ہوئ “زیادہ ہواوں میں مت اڑو لڑکی خوب جانتی ہو کہ ہمارے خلاف جانے کا انجام کیا ہوسکتا ہے” دوسری جانب وہ پھر بلند آواز میں کہکے لگا رہا تھا۔ اسنے کال کاٹ کر سیل ڈیش بورڈ پر پٹخ دیا ۔
اس نے ایکسلریٹر پر پیر مزید جما دئے۔گاڑی اب بھی سنسان راستے پر تیز رفتار سے دوڑ رہی تھی۔آنسو امڈ امڈ کر چہرے کو بھگو رہے تھے کہ اچانک سامنے سے آتی تیز رفتار کار سے بچنے کے لئے دوسری سمت موڑی کہ وہ سڑک سے اتر کر اب درخت سے جا ٹکرائ۔ اس کا سر سٹیرنگ ویل سے جا لگا۔ خون کی چند بوندیں سٹیرنگ ویل پر گریں۔درد شدت اختیار کر گیا جسے وہ برداشت نہ کر پائ اور ہوش کھو بیٹھی۔
*************