“”یار کوئی ڈھنگ کے کپڑے پہن لیتی یہ کیا اجیب لڑکوں جیسے کپڑ ے پہن لیے ہیں تو نے””نوشین ماہین کے کپڑوں کو گھورتی ہوئی کہنے لگی۔
“کیوں تجھے کیا تکلیف ہے””ماہین چڑتی ہوئی ہوئی منہ بنا کے کہنے لگی۔
“”سب اجیب نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔
“تو دیکھنے دے نہ لوگوں کا تو کام ہی ہیں دیکھنا اور باتیں بنانا یہ سب چھوڑ یہ بتا کونسی مووی لگی ہے”
“یار baaji لگی ہے””
۔””wow اسکا تو ٹیلر دیکھا تھا بہت ہی زبردست تھا۔
“ماہین”اکسائیٹڈ ہو چکی تھی اسے موویز دیکھنے کا بہت شوق تھا نوشین ماہین کو دیکھ کے مسکرانے لگی۔
۔۰۰۰۰۰۰
ماہین اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھی معصوم اور چنچل سی تھی اس کے ماں باپ کراچی میں رہتے تھے وہ سٹڈی کے لئے لاہور آئی تھی اورہاسٹل میں رہتی تھی نوشین اسکی روم میٹ اور اس کی بیسٹ فرینڈ تھی ماہین کو لڑکوں جیسے کپڑے پہنے کا شوق تھا وہ لڑکیوں جیسے کپڑے بہت کم پہنتی تھی اسکی ماما “ذاہدہ بیگم ” اسکی اس بات پہ بہت ڈانٹتی تھیں اسلئے ماما کی ڈانٹ سے بچنے کے لیے وہ گھر میں تھوڑے ڈھنگ کے کپڑے پہن لیتی تھی۔
۔۰۰۰۰۰۰
چل چل بس آ گئی “نوشین تیز تیز چلتی ہوئی بولی۔
بس میں کیوں رکشہ لیتے ہیں نہ ماہین اسکے ہم قدم چلنے کی کوشش کرنے لگی۔
بس میں مزا آتا ہے یار۔
جلدی!!نوشین
بس کے پاس پہنچتے ہی بس میں چڑھ گئی اور ماہین کو ہاتھ دینے لگی۔ پر ماہین کے قدم رکھنے سے پہلے ہی بس والے نے بس چلا دی اور ماہین بس آوازیں دیتی رہ گئی ۔
نوشین!
۔ماہین نےپیچھےسےآوازلگائی تھی پر کوئی فائدہ نہیں تھا بس اپنی منزل کی طرف جارہی تھی ماہین کی نظروں نے دور تک بس کا پیچھا کیا تھا-
اونو” جب بس مکمل چلی گئی تو ماہین کے منہ سے نکلا تھا ماہین کو لاہور آئے ہوئے ایک سال ہو چکا تھاپر وہ ابھی تک لاہور کے راستوں سے ذیادہ واقفِ نہيں تھی ہرجگہ نوشین کے جایا کرتی تھی ۔
اب کیا کروں۔
ماہین پریشان ہو چکی تھی
رکشہ میں چلی جاتی ہوں “اچانک خیال ایا تھا ماہین کو اب وہ ادھر اودھر نظروں سے رکشے کو ڈھونڈ رہی تھی۔
رکشے والے بھائی سنیں !
اک رکشہ دکھتے ہی ماہین نے آواز دی تھی۔ یونیورسل سٹوڈیو جانا ہے ماہین
بولی
نہیں جانا ”
یہ کہتے ہی رکشے والا آگے بڑھ گیا
بھائی پلیز سنیں ! ماہین آوازیں دیتی رہ گئی
اسکو تو یہ تک نہیں پتا تھا سٹوڈیو تک کونسی بس جاتی ہے آج وہ اپنے آپ کو کوس رہی تھی اگر نوشین سے کچھ معلومات لے لیتی تو ایسا نہ ہوتا ۔
روکیں !
بس روکتے ہی ماہین نے پوچھا “یونیورسل سٹوڈیو جانا ہے ”
وہاں نہيں جاتی یہ بس۔
بس والے نے ٹکہ سا جواب دیا تھا
کیامصیبت ہے کہاں پھنس گئی اک تو اتنی دھوپ ہے ماہین نے چہرہ رومال سے صاف کرتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا جہاں سورج سر پہ کھڑا تھا اور وہ چلتے چلتے تھک گئی تھی
تبھی اسکو احساس ہوا کے جیسے کوئی اسکا پیچھا کر رہا ہےاس نے مڑ کے دیکھا تو تین لڑکے اسکے پیچھے تھے اسکو ایسا لگا جیسے وہ اسی کا پیچھا کر رہے ہو
شاید میرا وہم ہو “اسنے اپنی سو چوں کو پرے کیا اور نظروں سے رکشہ کو ڈھونڈ لگی اک بار پھر سے اسکی نظریں پیچھے گئی ابھی بھی وہ لڑکے اسکے پیچھے تھے اور انکی نظریں ماہین کے سراپے پر تھیں ہنس کر اجیب گندی سی نظروں سے ماہین کو دیکھ رہے تھے ماہین کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا تو اسکے قدم تیز ہو گے ڈر کی وجہ سے اسکی آنکھیں برسنے کو تیار تھیں اب وہ باقاعدہ دوڑ رہی تھی نظریں بار بار پیچھے جا رہی تھیں وہ لڑکے بھی اسکے ساتھ دوڑنے لگے ۔
اسکو احساس نہیں تھا وہ کہاں جا رہی ہے بس اسے کسی طرح اپنی عزت بچانی تھی اپنی ۔
اپنے ماں باپ کی عزت پر آنچ نہیں انے دنگی میں”اسنے خود سے عہد کیا تھا آنکھیں برس رہی تھیں پیر کانپنے کی وجہ س بھاگنا مشکل ہو رہا تھا اک گلی میں مڑ کر وہ دیوار کے ساتھ لگ گئی اور اپنی سانس بحال کرنے لگی اور الله سے رحم ماننے لگی۔ “”یا الله تو بہت رحیم اور کریم ہے مجھے بچا لے یا خدا””آنکھیں برس رہی تھیں
سامنے نظر پڑی تو اک سائکل کھڑی تھی اس پر اک پگڑی رکھی ہوئی تھی
اک خیال اسکے ذہن میں ایا اور اسنے فوراً وہ اٹھائی تھی۔
اسنے اپنے سلکی بال جو اسکی کمر پر بکھرے ہوئے تھے ہاتھوں میںں لے کر جوڑا بنایا تھا اور پگڑی کو سر پر رکھ کے بال مکمل چھپا دیے تھے اور رومال چہرے پر باندھ لیا تھے اب وہ ادھر اودھر دیکھ رہی تھی اور جاننا چاہ رہی تھی کے وہ لڑکے گئے یا نہيں ۔
کیا کروں آگے جاکہ دیکھوں””کہی آ نہ جائیں
ڈر سے اسکے ہاتھ پیر کانپ رہے تھے۔
ماہین تجھے ہمتِ کرنی ہوگی””
اپنے آپ سے باتیں کرتی وہ اپنے اندر ہمت پیدا کرنے کی کوشش کرنے لگی آخر کار تھوڑی ہمت کر کہ اگے بڑھنے لگی نظروں سے آس پاس کا جائزہ لیا اور آگے بڑھنے لگی۔۔
چل چل ماہین نکل لے جلدی کہیں پھر سے نہ اجائیں “”
بھاگتے ہوئے اگے بڑھنے لگی ایک گلی سے نکلی ہی تھی کہ سامنے دیکھ کہ اسکی ہوایاں اڑ گئی سامنے وہی لڑکے کھڑے شاید اسی کو تلاش کر رہےتھے ماہین کسی طرح ہمت کر کہ انکی نظروں سے ںچتی ہوئی نکلی آگے بڑھتے ہی۔
ابے وہ دیکھ وہ رہی””
اک لڑکا ماہین کی طرف دیکھتا ہوا چیخ کے اپنے دوستوں کو بتانے لگا۔
وہ تو کوئی لڑ”””’
کپڑے دیکھ یار یہ وہی لڑکی ہے۔
وہ اسکی بات کاٹتا ہوا بولا
جلدی چلوں !!!
آواز سن کے ماہین پلٹی تھی اور پپیچھے دیکھ کے اسکے ہا تھ پیر پھولنے لگے
وہ تیزی سے اسکی طرف ارہے تھے ماہین کے قدم اور تیز ہو گئے اور نظریں ارد گرد کا جائزہ لے رہی تھیں جیسے چھپنے کی جگہ ڈھونڈ رہی ہوں اسکی حالت ایسی تھی جیسے جسم میں خون ہی نہ ہو۔
بھاگتے بھاگتے پلٹ پلٹ کے دیکھتی اور پھرقدم اور تیز ہو جاتے وہ اسکے بے حد قریب آ چکے تھے ۔۔
ماہین کا تھکن کے مارے برا حال تھا ڈر اور خوف سے ہاتھ پیر کانپ رہے تھے اسکی ہمت جواب دے رہی تھی۔
تینوں اسکے قریب آگئے اک اسکے سامنے ا کر کھڑا ہو گیا تھا۔
بس کروں میری جان کتنا بھگاؤ گی””‘اس کے اگے والا فاتحانہ مسکراہٹ لیئے بولا تھا
ماہین نے پلٹ کر دیکھا تو دو پیچھے کھڑے تھے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں دکھ رہا تھا
پلیز مجھے جانے دو الله کا واسطہ ہیں تم لوگوں کو””وہ انکے سامنے گڑگڑا رہی تھی اور اسکی آنکھوں سے پانی برس رہا تھا
جانے دیں گے پہلے ہمارا کام تو کرتی جا ؤ نہ پھر جانے دیں گے “” پیچھے والا اک لڑکا اسکے قریب ا رہا تھا اور ماہین کے قدم پیچھے جا رہے تھے۔
تبھی ما ہین کی نظر سامنے گھر کے کھلے ہوئے دروازے پر گئی ماہین لپک کے تیزی سے اندر گئی تھی۔
پکڑ جلدی!!
اسکے پیچھے والا چیختا ہوا بولا تھا ۔
پر ماہین جا چکی تھی اک لڑکا اسکے پیچھے اندر بھاگنے لگا تھا دوسرا اسکا ہاتھ پکڑ تا اسے روکتے ہوئے بولؑا””اندر نہیں جا “”یہ زبیر کا اڈا ہے “””
نکل یہاں سے جلدی۔
ماہین بھاگتی ہوئی گھر میں گھس چکی تھی خوف کی وجہ سے اسے کچھ سمجھ نہیں ا رہا تھا اندر آتے ہی ا سے سامنے ہی سیڑھیاں نظر آئی جو اپر کی طرف جارہی تھی ماہین بھاگتی ہوئی سیڑھیاں چڑھنے لگی اس پر خوف طاری ہوا وا تھا جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھنے کی وجہ سے دو بار گرتے گرتے بچی اپر پہنچ کر دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئی ہا تھ پیر کانپ رہے تھے آنکھوں سے آنسو نکل رہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
“”””یااللہ یہ کیوں ہورہا ہے میرے ساتھ کونسے گناہوں کی سزا ہے یہ یا خدا مدد کر میری “”””وہ سسک رہی تھی ہاتھوں میں چہرہ پکڑے اپنی ہچکیاں روکنے کی کوشش کرنے لگی۔
آنسوں کو بےدردی سے رخسار سے صاف کرتی کھڑی ہوئی نظر سامنے پڑی تو احساس ہوا ۔
“””یا اللہ یہ میں کہاں آگئی “””ادھر اودھر دیکھتی ماہین پریشان سی سوچنے لگی
یہ کافی بڑی سی چھت تھی جہاں کافی سامان بکھرا پڑا تھا دیواریں ذیادہ اونچی نہیں تھی کئ جگہ گتے کے بند ڈبے نظر ارہے تھے اور کئ جگہ لکڑیاں بکھری ہوئی تھی ۔
“”کتنا مال پہنچانا ہے””
“”جتنا پچھلی بار پہنچایا تھا اس سے ڈبل اور ہاں کوئی گڑھ بڑھ ہوئی تو زبیر کو جانتے ہو نہ اسلئے خیال رکھنا۔
“”ارے سر پہلے کبھی کوئی گڑھ بڑھ ہوئی ہے کا جو اب ہو گی آپ بے فکر رہیں بس””
ماہین کے کانوں میں کچھ آوازیں آنے لگیں جیسے کچھ لڑکے آپس میں با تیں کر رہے ہو ماہین کے قدم آواز کی سمط بڑھنے لگے ڈر بھی لگرہا تھا پر نہ جانے کیوں اسکے قدم آگے بڑھتے جا رہے تھے ۔آ
آوازیں سیدھی طرف سے ا رہی تھیں دیوار کے قریب پہنچ کر ماہین سائڈ سے دیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔
چارلڑکے سفید پیکٹ میں کچھ تھا جو گتے کےب کاٹن میں بھر رہے تھے اور ایک کھڑا انھیں ہدایت دے رہا تھا۔
اتنے میں اک لڑکا کھڑا ہا اسکی طرف پلٹا تھا ما ہین ڈر کے پیچھے ہوئی تھی اور لکڑیوں سے ٹکرائی تھی جسکی وجہ سے وہ زمین پر گر چکی تھی اور شور پیدا ہو ا تھا اسنے ڈر کے منہ پہ ہاتھ رکھا تھا۔
کون ہو تم اور یہاں کیا کر رہے ہو??
وہ جو سہم سی گئی تھی لکڑیاں گرنے کی وجہ سے کسی کی آواز سے ہوش میں آئی تھی۔
جیسے ہی نظر ادھر اودھر دوڑائی تو چار لڑکے اس کے سامنے تھے اور اسے گھور رہے تھے اور ایک ان کے پیچھے کھڑا اسکا جائزہ لے رہا تھا۔
جینز کی پینٹ اور ڈھیلی ٹی شرٹ اور اس پر جیکٹ پہنے سر پگڑی سے ڈھانپے اور چہرے پر رومال باندھے اس اجیب سے شخص کو غور سے دیکھ رہا تھا۔
تبھی۔
کچھ پوچھا ہے نہ تم سے کون ہو اور کس نے بھیجا ہے تمھیں یہاں!! اسکا اک ساتھی چیختا ہوا بولا تھا اور اسے ہاتھ سسے کھینچ کے ذمین پہ دھکا دیا تھا زور سے گرنے کی وجہ سے اسکی پگڑی کھل کے زمین پر گر چکی تھی اور رومال بھی کھل کہ گر چکا تھا اور اس کے لمبے سلکی بال اسکی کمر پہ بکھر گئے تھے اور وہ سب جو اسے اب تک اک لڑکا سمجھ رہے تھے ایک دو سرے کی شکل دیکھ رہے تھے ۔
سر پر ہاتھ لگایا تو احساس ہوا””اف خدا میری پگڑی “”ماہین ہاتھ بالوں
میں پھیرتی سوچنے لگی ۔
یہ تو لڑکی ہے””
کانوں میں آواز پڑی تو ماہین ہوش میں آئی تھی۔ایک ہی جھٹکے میں اٹھ کر پیچھے دیکھا تو سہم کر الٹے قدم لینے لگی چاروں کی نظریں اسکے چہرے پر تھی
“””اے لڑکی کون ہو تم اور یہاں کیسے آئی ??
“”منہ میں دہی جما رکھی ہیں کیا””دوسرا والا بولا تھا
“”اسے تو میں دیکھتا ہوں “”دیکھنا کیسے فرفر بولے گی اسکے قدم ماہین کی طرف بڑھ رہے تھے
ماہین ستے کی حالت میں تھی جب اسنے اسکے قریب پہنچ کر اسکا ہاتھ ڈبوچہ تھا۔
ماہین ہین اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرنے لگی
“”چھوڑوں مجھے “”
“”ایسے کیسے چھوڑ دیں پہلے یہ تو بتاؤں یہاں کیا کر رہی تھیں “”وہ اسکا چہرہ اک ہاتھ سے ڈبوچتا ہوا بولا تھا
ماہین کو لگا اس کی انگلیاں اسکی چہرے میں دھس جائیں گی تکلیف سے اسکی انکھوں سے آنسو نکلنے لگے ماہین خوف سے اسکا چہرہ دیکھ رہی تھی
“”اف معصومیت تو دیکھوں ہائے میں مر جاواں تیری معصومیت پہ”””
چاروں قہقہے لگا کر ہنسنے لگے
وہ جو پیچھے کھڑا اتنی دیر سے ان چاروں کی کاروائی دیکھ رہا تھا آگے ا کر ماہین کا ہاتھ چھڑوا کر اپنے ہاتھ میں پکڑے بولا
“”منہ سے آواز نکال لڑکی کیا کرنے آئی ہے یہاں اور کس کے کہنے پر آئی ہے””سچ بتا دیں ورنہ اسکا انجام جو ہو گا نہ اسکی ذمیدار تو خود ہو گگی””
“”مم ممم میں وہ”” ماہین کہ منہ سے ٹوٹ کے لفظ نکلے تھے کہ تبھی اسکا موبائل بجنے لگا۔
“”ہیلو زبیر “”
“”کام ہوا””دوسری طرف سے آواز آئی۔
“” ہاں کام بس ہو گیا ہے مال تیار ہے تھوڑی دیر میں مال آغا کے پہنچ جائے گا””
“”ہمم گڈ”” او کے آجا گھر بات کرتے ہیں۔
“”زبیر ایک بات سنو میری””
“””ہاں بول””
“‘یہاں اک لڑکی آئی ہے “”وہ
ماہین کے بارے میں بتانے لگا۔””
“”یہاں لے آ میں خود دیدیکھتا ہوں””
۔””او کے””
فون بند کرتے ہی وہ ان سب سے مخاطب ہوا تھا۔
“تم لوگ جاؤں اور یہ مال آغا کے پہنچا ؤں ”
“اور یہ لڑکی”ان میں سے اک ماہین کی طرف دیکھتا ہوا بولا”
“اس لڑکی کا فیصلہ اب زبیر کرے گا””
ماہین کے رونگٹے کھڑے ہو گئے یہ سن کے ہاتھ پیر کانپنے لگے”” پتہ نہیں کون ہے یہ زبیر جانے اسکے ساتھ کیا کے گا”مختلف سوچیں اسکے رماغ میں گھومنے لگی۔
وہ چاروں سامان ااٹھا کے لے گئے۔
“”چلو میرے ساتھ””ماہین اپنی سوچوں میں ہی تھی جب وہ اسکا ہاتھ پکڑتا لے جانے لگا
“چھوڑو پلیز میں نے کچھ نہیں کیا مجھے کہیں نہی جانا”ما ہین چیخ کہ اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کرنے لگی۔
“”اے لڑکی چپ چاپ چل ان ڈراموں کا کوئی فائدہ اب جو ہو گا احمد پیلیس میں ہو گا””
۔۰۰۰۰۰۰
زبیر احمد اک انتہائی امیر شخص جو اپنی دولت سے کچھ بھی کر سکتا تھا غلط دھندے کرنا اسکا پیشہ تھا دولت کا غرور ایسا کہ کسی سے سیدھے منہ با ت تک نہ کرتا جو چیز اسکو پسند اتی وہ اسکی ہوتی ورنہ کسی کی نہیں ہوتی وہ اس چیز کو ہی ختم کر دیتا اتنی کم عمر میں اتنی دولت کمائی تھی ہزاروں دشمن بھی تھے پر وہ کسی سے نہیں ڈرتا تھا شراب کے کارخانے اور کئی انڈر گرانونڈ فیکبٹریس تھی افیم کی مصنوعی طریقے سے پیداوار اور سپلائی اسکا خاصی کام تھا غریبوں کی مدد بھی کرتا تھا اس لیے کوئی اسکے خلاف کچھ نہیں بولتا الکشن جیت کے خاصی پاور حاصل کی۔
“ذین”زبیر کا رائٹ ہینڈ تھا ۔اسکے بچپن کا دوست اس سے ذیادہ بھروسہ زبیر کو کسی پر نہیں تھا زبیر کے سارے کام ذین اپنی نظروں کے سامنے کرواتا تھا دونوں ایک ساتھ احمد پیلس میں رہتے تھے “”احمد پیلس”” زبیر کا شاندار بنگلہ جو خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا اک ناول کے جیسا بنگلہ تھا زبیر کی ڈیشنگ پرسنیلٹی پر ہزاروں لڑکیاں مرتی تھی پر اس نے آج تک کسی لڑکی میں انٹرسٹ نہیں لی۔
“گاڑی میں بیٹھ لڑکی”ذین ماہین کو کار کے پاس لاکر آگے والی سیٹھ کی طرف لاتا ہوا بولا
“”پلیز چھوڑ دو مجھے میں نے کچھ نہیں کیا”ماہین اسکے سامنے ہاتھ جوڑ رہی تھی۔
“تم نے کچھ کیا ہے یا نہیں اسکا فیصلہ اب زبیر کرے گاجہاں تم نے قدم رکھا وہا کسی کی ہمت نہیں ہوتی آنے کی۔
“مجھ سے غلطی ہو گئی پلیز معاف کر دو جانے دو مجھے ”
“دیکھوں لڑکی میرا وقت برباد مت کرو چپ چاپ گاڑی میں بیٹھ جاؤں ”
“زین نے گاڑی کا دروازہ کھول کر ماہین ک جھٹکے سے اندر پھینکا تھا اور خود ڈرائیو نگ سیٹھ پر بیٹھا تھا۔
ذین نے گاڑی اسٹارٹ کیے اور تیزی سے احمد پیلس کی طرف لے جانے لگا ۔
گاڑی احمد پیلیس پہنچ چکی تھی گارڈ نے آکر جلدی سےگیٹ کھولا تھاما ہین کا ڈر کے مارے برا حال تھا جیسی ہی گاڑی رکی تھی ماہین کی نظر احمد پیلیس کا طواف کرنے لگی انتہائی خوبصورت پیلیس اسنے اتنا خوبصورت پیلیس پہلی بار دیکھا تھا پر جس سےاسے ابھی خوف محسوس ہورہاتھا نہ جانے اس کے ساتھ کیا ہونے والا تھا سوچ سوچ کے وہ کانپ رہی تھی
“”نیچی اتروں “”
مجھے نہیں جانا الله کا واسطہ ہے میری بات مانوں اور مجھے جانے دو'””
“”زبیر نے بلایا ہے اسکی مرضی کے بنا تم کہیں نہیں جا سکتی اب تم سے سچ وہ ہی اگلوائے گا اپنے طریقے سے””
“”جب میں میں نے کچھ کیا نہیں تو کس بات کی سزا بگت رہی ہوں میں تھوڑا خدا کا خوف نہیں تم لوگوں کو!!!!اس کے صبر کا پیمانہ اب ٹوٹ چکا تھا آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے۔
“””اپنی آواز نیچے رکھو سمجھ آئی ورنہ ۰۰۰۰
اس نے ماہین کے چہرے کے قریب ہو کر انتہائی غصہ سے کہا ماہین کانپ گئی تھی اس کے غصے سے-
“اترو نیچے جلدی !!!
“”ماہین ڈر کے جلدی سے اتری تھی اب ذین کے قدم احمد پیلیس کے اندر جا رہے تھے ماہین اس کے پیچھے ڈر ی سہمی سی چل رہی تھی۔
“”محمد دین !!
“””محمد دین !!زین نے نوکر کوآواز دی تھی۔
“جی سر ۔
“”زبیر کہاں ہے
“”سر وہ زبیر سر اپنے کمرے میں ہیں۔
“”او کے تم جاؤں اور ایک کپ کافی لے کر آؤ۔
“”اوکے سر ۔
چلو میرے ساتھ۔
۔ذین ماہین کو دیکھتا ہوا بولااور اسکے قدم اپر کی طرف بڑھ گئے ماہین کانپتے پیروں کے ساتھ اس کے پیچھے چل ری تھی””ایک کمرے کے باہر پہنچ کر زین اندر گیا تھا اور ماہین کے قدم وہیں منجمد ہو گئے تھے
“”اندر آؤ ذین کی آواز سن کے وہ کانپتی ہوئی اندر گئی تھی۔
سامنے ہی صوفے پر ذین کے ساتھ ایک پچیس چھبیس سالہ لڑکانیم دراز تھا ایک ہاتھ میں سیگریٹ لیے اک ہاتھ صوفے پر رکھے آنکھیں موندے سیگریٹ کے کش لے رہا تھا ۔
ماتھے پہ بکھرے بال گورے رنگ پہ غذب ڈھا رہے تھے بلیک شرٹ اور بلیک پینٹ پہنے جو آنکھیں موندے بیٹھا تھا ماہین اس اجنبی سےشخص کو دیکھ رہی تھی
“”زبیر اس لڑکی کا کیا کرنا ہے”ذین کی آواز سے اس نے آنکھیں کھولی تھی اب اسکی نظریں ماہین کا طواف کر رہی تھی جو سہمی ہوئی دروازے پر ہی ساکت کھڑی تھی اسکی نظرین ماہین کا نیچے سے اپر تک طواف کر رہی تھی
“”میں دیکھتا ہوں۔
۔زبیر کے منہ سے یہ الفاظ نکلے تھے اور ذین دروازہ بند کر کے باہر جا چکا تھا ماہین نےدروازہ بندہوتے سامنے بیٹھے اس شخص کی طرف د یکھا تھا جس کے قدم اب ماہین کی طرف بڑھ رہے تھے
اسکے قدم ماہین کی طرف بڑھ رہے تھے اور ماہین کے قدم پیچھے جارہے تھے ماہین پیچھے دروازے سے لگ چکی تھی ماہین نے پلٹ کر پیچھےدیکھا جہاں جانے کا راست ختم ہو چکا تھا پھر خوف سے اس شخص کو دیکھا جو اس تک پہنچ چکا تھا اک ہاتھ ماہین کی سیدھی طرف رکھ کے سیگریٹ کے کش لینے لگا ۔
اب اس نے دھواں ہوا میں چھوڑا تھا ماہین خوف سے اسکا چہرہ دیکھ رہی تھی جو اسکے بے حد قریب آچکا تھا۔
“کیا کرنے گئی تھیں تم وہاں یا پھر یوں پوچھوں کس کے کہنے پر گئی تھیں۔
وہ اپنا چہرہ ماہین کے قریب کرتا ہوا بولا تھا۔
ماہین تو جیسے بولنا ہی بھول چکی تھی بس خوف سے اسکا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
زبیر کا چہرہ غصے سے لال ہونے لگا تھا آج تک جب بھی وہ کسی سے سوال کرتا تو لوگ اس کے ڈر سے فوراً جواب دیتے اور یہ لڑکی۰۰۰
“”ویڈیو بنانے گئی تھی میرے خلاف کہاں چھپایا ہے کیمہ زبیر اس کے سراپے پہ نظر ڈالتا ہوا بولا اس کی نظروں سے ماہین سمٹ سی گئی تھی۔
“”سنو لڑکی””میں اپنی بات دھرانے کا عادی نہیں ہوں چپ چاپ سب سچ سچ بتا دو ورنہ میں بھول جاؤں گا تم اک لڑکی ہو تمھیں اندازہ نہیں ہے میں تمہارے ساتھ کیا کیا کر سکتا ہوں ۔زبیر
ؑ انتہائی غصے سے بولا تھا ماہین کے ہاتھ پیر پھولنے لگے تھے ۔””میمم میں وہ غلطی سے۔
ماہین کے منہ سے خوف کی وجہ سے چند الفاظ نکلے تھے۔
“”او غلطی سے “”غلطی سے تو میں بھی بہت کچھ کر سکتا ہوں غلطی سے اگر تم گھر نہ پہنچوں ۔
“”غلطی سے اگر تم کڈناپ ہو جائے ۔
“”غلطی سے اگر مجھ سے تمھارا ۔۰۰۰۰۰۰
تو یہ سب اگر ہو جائے تمہارے ساتھ غلطی سے۔غلطی سے تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔
ماہین کی ذبان تالوں سے چپک چکی تھی وہ اپنے سامنے بیٹھے اس بے مروت شخص کو دیکھ رہے تھی جو اس کی جان نکالنے کا ارادہ رکھتا تھا۔
زبیر ماہین کے چہرے پر بکھرے خوف کے آثار بہ آسانی دیکھ سکتا تھا۔۔
“بولو!!!!!زبیر چیخا تھا۔
“”میں وہ میں وہ””
“میں وہ!!!!زبیر کی رگے پھولنے لگی تھی غصے کی وجہ سے ۔
اس نے زور سے دروازے پر مکا مارا تھا ماہین نے سہم کر آنکھیں بند کر لی تھی آنسو اور تیز ہو چکے تھے اسکی ہچکیاں کمرے میں سنائی دے رہی تھی وہ اب اپنا ہاتھ دیوار پہ رکھے ماہین کی گھنی لمبی پلکوں کو دیکھ رہا تھا جو آنسوؤں سے بھیگی ہوئی تھیں اسکا چہرہ بنا میک اپ کے بھی چمک رہا تھا زبیر کی نظریں ماہین کے چہرے پہ ٹھہر سی گئیں تھیں اب اسکی نظر ااسکےہونٹوں پر تھی
گلاب کی پنکھڑی جیسے نازک ہونٹ جن پر اک نازک سا تل تھا زبیر کی نظر ماہین کے ہونٹوں پر آکر رک سی گئی تھی جانے کیوں اسے یہ لڑکی معصوم لگی تھی۔
اچانک سے ماہین کے سراپے پر کھویاہوا زبیر ہوش میں آیا تھا تو اسے اپنے اپر حیرت سی ہوئی تھی آج تک کسی لڑکی کو دیکھ کر اسے ایسا احساس نہیں ہوا جیسا آج ہوا تھا یہ لڑکی اسکے حواسوں پر طاری ہو رہی تھی
وہ اب بھی آنکھیں بند کیے رونے میں مگن تھی اسکے کانوں میں زبیر کی آواز آئی تو اسنے آنکھیں کھولیں تھیں
“” تمہارے ڈرامے اگر ہو گئے ہو تو
جواب دو گی””اب سچ سچ بتاؤں سب وہاں کیو گئی تھی آخری بار پوچھ رہا ہوں اسکے بعد جو ہو گا اسکی زمیدار تم ہو گی””
“”ممم میں وہ””””
“”میں وہ سے آگے کچھ بولوں گی !!!!!!
وہ چیخا تھا ماہین سہم کر اور رونے لگی تھی روتے روتے بولنے کی کوشش کر رہی تھی
“می میں نے بولا تھا کہ۰۰۰۰میں غلطی سے پہنچی تھی میرے پیچھے کچھ لوگ لگے تھے میں تو اپنی دوست کے ساتھ فلم دیکھنے جا رہی تھی ۔
جھوٹ پھر سے جھوٹ !!!!!
میں سچ کہ رہی ہوں “وہ روتی ہوئی بولی تھی۔
“او تو تمہارامطلب ہے کہ تم ااسطرح کے کپڑوں میں خود کو لڑکا ظاہر کر کے اپنے سر پر پگڑی لیئے چہرے پر رومال باندھے اپنا حلیہ بدل کر وہاں کچھ لوگوں سے بچنے کے لئے گئی تھی۔واہ کیا کہانی ہے پر اس فالتو بکواس پر مجھے یقین نہیں اپنی یہ معصوم شکل دکھا کر تم زبیر کو بے وقوف نہیں بنا سکتی ۔تمہیں میں نے سچ بولنے کا ٹائم دیا تھا پر افسوس اب جو ہوگا اسکی زمیدار تم خود ہوں گی””
“”مجھے
جانے
دو پلیز “وہ کانپتی ہوئی بولی تھی۔
جانے تو میں تمھیں دونگا پر ایسے نہیں “وہ
اسے گھسیٹتے ہوئے بیڈ تک لایا تھا اور اس بیڈ پر دھکا دیا ۔۔ ماہین اوندھے منہ بیڈ پر گری تھی اور پلٹ کر خوف سے زبیر کا چہرہ دیکھ رہی تھی جو جلاد بنا ہوا تھا اب اپنی شرٹ کے بٹن کھول رہا تھا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...