دروازے پہ ہونے والی ہلکی سی دستک کو نظر انداز کر کے وہ اپنے کام میں مگن تھی۔ دوسری بار دروازہ نسبتاً زور سے بجایا گیا، چوڑی پیشانی پہ ناگواری کی شکن ابھری اور اس کے متحرک ہاتھ رک گئے۔ لیپ ٹاپ بیڈ پہ رکھے، بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے وہ اپنے کام میں محو تھی۔ اسکے نوٹس پاس ہی بکھرے تھے۔ سفید رنگ کی پوری آستین کی فراک نما قمیض پہنے، جس پہ نفیس کڑھائی اور کروشیا کا کام تھا اور ہم رنگ پائجامہ جس کی چوڑی بس تین ، چار انچ ہی نظر آ رہی تھی کیونکہ قمیض کی لمبائی ٹخنوں سے ذرا اونچی تھی۔ بالوں کو بےترتیبی سے اکٹھا کر کے کیچر میں عجلت میں جکڑا گیا تھا ۔ایک پل کو اس نے وال کلاک کی طرف نظر گھمائی۔
دس بج کر اٹھارہ منٹ، وہ زیر لب بڑبڑائی
آجائیں ۔ لہجے میں بلا کی بیزاری تھی
ادھیڑ عمر ملازمہ کمرے کا دروازہ کھول کر داخل ھوئی۔
ایمان بی بی ۔ آپ کو صاحب نے اپنے کمرے میں بلایا ہے، ہاجرہ اماں نے پیغام پہنچایا
اسوقت۔ نظر اس بار لیپ ٹاپ اسکرین کی دائیں جانب مڑی
میں یہ اسائنمنٹ ۔۔۔آپ چلیں، میں آ رہی ہوں ۔ اپنی بات ادھوری چھوڑ کر اس نے کہا
اپنے نوٹس بیڈ سائیڈ ٹیبل پہ رکھنے کے بعد اس نے اپنے کیچر میں لپٹے بے ترتیب بالوں کو آزاد کیا
کمر سے ذرا اوپر آتے ریشمی بھورے بال جن میں سنہرے اسٹریک جگمگا
رہے تھے ، بالوں کو برش سے درست کرتی وہ کمرے سے باہر نکل گئی
اسکا کمرہ فرسٹ فلور پہ تھا، خوبصورت سجے کوریڈور سے گزرتی وہ سیڑھیوں تک آئی اور سیڑھیوں کی بیش قیمت آرائشی ریلنگ تھامے نپے تلے قدموں سے سیڑھیاں اترنے لگی۔ سیڑھیاں ہال نما کمرے میں آتی تھیں ۔ کوریڈور میں بائیں جانب مڑی اور پہلے دروازے پہ ہلکی سی دستک دی۔
آجاؤ ایمان۔مردانہ بھاری آواز نے نرم لہجے میں اجازت دی تھی۔اجازت پا کر وہ اندر داخل ہوئی۔
کنگ سائز بیڈ پہ پاؤں پسارے توفیق کمال بیڈ کراؤن سے ٹیک لگاۓ بیٹھے تھے ، سامنے کی دیوار پہ بڑی سی ایل ای ڈی سکرین پہ کوئی نیوز چینل لگا تھا جس کا ریموٹ اسوقت انکے ہاتھ میں تھا۔
آپ نے بلایا ڈیڈا، ایمان نے دائیں طرف رکھے صوفے پہ حرا کے ساتھ بیٹھتے پوچھا ۔
توفیق کمال نے ریموٹ سے ٹی وی کی آواز آہستہ کرتے سر ہلایا۔
سو تو نہیں رہی تھی؟ حرا نے ایمان کے ریشمی بالوں میں انگلیاں چلاتے محبت سے پوچھا
نہیں ممی، ایک اسائینمنٹ بنا رہی ہوں ۔ صبح فرسٹ ٹائم میں جمع کروانی ہے ، کچھ ٹائپنگ اور پرنٹنگ کا کام رہتا ہے ۔ ایمان نے وضاحت کی پھر تو ہم نے آپ کو ڈسٹرب کیا ؟ توفیق کمال کے لہجے میں وہ شیرینی تھی جو ہر بار ایمان کے لئے ان کے لفظوں میں ہوتی تھی۔
ایمان نے مسکرا کر نفی میں سر ہلایا۔ حالانکہ اسوقت وہ کافی الجھی ہوئی تھی، جب بھی توفیق کمال کے کمرے میں آنا ہوا اکثر وہ بہن بھائی اکٹھے جمع ہوتے یا پھر وہ لونگ روم میں ہی سب باتیں کرتے تھے، وہ تینوں بھائی، بہن اپنے باپ کے بہت قریب تھے اور توفیق کمال اپنے بچوں سے فارمل تو بلکل نہیں تھے۔
ایمان پرسوں لنچ ٹائم سے پہلے گھر آجانا بچے۔ حرا نے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوۓ کہا
کی کلاس ہفتے کو دو بجے شروع ہوتی ہے organizational Behavior ممی آپ کو پتا ہے نہ میری
اور ہفتے کو میں ساڑھے تین سے پہلے گھر آ ہی نہیں سکتی ۔ اس نے ماں کو یاد دلایا
دراصل آج جہانزیب لندن سے واپس آگیا ہے ۔ میں نے اور تمھاری مما نے سوچا خود ملنے جانے کی بجاۓ سکندر بھائی کی فیملی کو لنچ پہ انوائٹ کر لیتے ہیں – توفیق کمال نے کہا
میں پرسوں 12 بجے تک گھر آجاؤں گی ،ایمان جانتی تھی آگے کچھ کہنا بے معنی ہے۔
میں اب جاؤں ڈیڈا، میری اسائینمنٹ ابھی باقی ہے- رکنا فضول تھا اسلئے اجازت طلب کی
توفیق کمال بھی شائد بات پوری کر چکے تھے اس لئے مسکرا کر بیٹی کو اجازت دی
گڈ نائٹ ممی –گڈ نائٹ ڈیڈا –مسکرا کر شب بخیر کہتے وہ تیز قدموں سے چلتی اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی۔
لان میں اسوقت دو بلب جل رہے تھے، قیمتی آرائشی پتھروں سے بنی مصنوئی آبشار سے پانی بہہ رہا تھا اور نیچے پتھروں سے بنے حوض میں جمع ہورہا تھا۔ اسی جمع ہوتے پانی میں نسبتا دائیں طرف ایک فوارہ نصب تھا، لان میں اسوقت خاموشی کا راج تھا، بلبوں کی مدہم روشنی میں سبز گھاس کی رنگت سیاہی مائل تھی – لان کی لینڈ اسکیپنگ کچھ اس انداز سے کروائی گئی تھی کے اس پہ کسی جاپانی باغ کا گمان ہوتا تھا، لان میں لگے موسمی اور بےموسمی پودوں کی ترتیب اتنے منظم انداز میں کی گئی تھی کہ وہ کسی تصویر کا گمان دیتے تھے۔
کچھ دیر پہلے ایمان نے اپنے اسائینمنٹ کی فائل کو پرنٹ کر کے اپنے کالج کے بیگ میں رکھا تھا اور اب اپنے کمرے کی فرنچ ونڈو سے لان میں بہتی آبشار کو دیکھ رہی تھی – منظر اسکی کمزوری تھے اور اس کمرے کا انتخاب بھی اس نے اس منظر پہ کھلتی اپنے کمرے کی قد آدم کھڑکی کی وجہ سے کیا تھا- بارہ کب کے بج چکے تھے۔
تو جہانزیب سکندر پاکستان آگیا۔ اس نے زیر لب کہا۔اس نام نے دل میں کوئی ارتعاش پیدا نہیں کیا تھا۔
کھڑکی کے پردے ڈوری سے بند کرکے وہ ٹائلوں والے خوبصورت فرش پہ ننگے پاؤں چلتی اپنے بیڈ تک آئی۔ کمرے کے فرش پہ دو قیمتی قالین بچھے تھے، انہی رنگوں کی آمیزش لئے پردے کھڑکیوں پہ ڈلے تھے اور انہی رنگوں کی مناسبت سے کمرے کا فرنیچر جو کافی قیمتی مگر مختصر تھا۔ ایمان کا کمرہ اس عالیشان گھر کا ماسٹر بیڈ تھا جو ایمان کی خواہش پہ توفیق کمال نے اسکے حوالے کر دیا تھا، اس کمرے کا انٹیرئیر ایمان نے کیا تھا اور اس کمرے میں معمولی سی ردوبدل بھی اسے گوارہ نہ تھی۔
بیڈ پہ پاؤں اوپر کئے وہ آدھی لیٹی اور آدھی بیٹھی تھی-نیند آنکھوں سے میلوں دور تھی، وہ سونا چاہتی تھی لیکن ذہن ماؤف تھا –عجیب اضطراربی کیفیت تھی ۔ وہ خود نہیں جانتی تھی وہ کس بات سے ڈسٹرب ہے سب کچھ تو طے تھا پھر یہ بے چینی کیوں؟ یا پھر اسے معلوم تھا۔
ہلکے کاسنی اور جامنی رنگ کے پرنٹڈ شیفون کے کرتے پہ نفیس کڑھائی بنی تھی، جامنی ٹراؤزر اور ہم رنگ دوپٹے میں اسکے ریشمی بال سردیوں کی دھوپ کی مانند کھلے تھے ، اسکے بالوں کے رنگ اسکی گوری رنگت کو چار چاند لگاتے تھے۔
ناشتے کی ٹیبل پہ سب لوگ جمع تھے۔ ایمان ناشتہ ٹھیک سے کرو جانی۔ حرا کی آواز پہ چاۓ کا گھونٹ بھرتی ایمان نے مسکرا کر انہیں دیکھا
ممی اسوقت کچھ کھانے کا موڈ نہیں، مجھے اتنی نیند آ رہی ہے کہ اگر اسائینمنٹ جمع نہ کروانی ہوتی تو میں آج کالج ضرور مس کر لیتی۔ حرا کے استفسار پہ اس نے التجائیہ کہا
توفیق کمال نے بھی ناشتے سے سر اٹھا کر بیٹی کو پیار بھری نظروں سے دیکھا اور دوبارہ ناشتے میں محو ہو گۓ
اسائینمنٹ لاسٹ منٹ تک سنبھالنا تو آپ کا محبوب مشغلہ ہے مائی ڈئیر سس-ضعیم کمال ایسے معاملات میں بولنا اپنا فرض سمجھتا تھا
وہ ایمان سے دو سال بڑا تھا اور بی بی اے کے چوتھے سال میں تھا اسکے بعد اپنے بڑے بھائی کی طرح اسے بھی بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کیلۓ جانا تھا
بھائی میں لاسٹ منٹ تک اپنے کام سے مطمئعن نہیں ہوتی اور اس کو بہتر بنانے کیلئے اس میں ردوبدل کرتی رہتی ہوں۔ ایمان نے متاثر کرنے کیلئے کہا۔
جی جی – جب وقت پہ کام نہ کر پاؤ تو اچھا بہانہ ہے یہ ۔ ضعیم نے شرارت سے کہا ۔ اسے ایمان کو چڑانے میں مزا آتا تھا۔
بھائی آپ۔۔۔ اپنے لفظ ادھورے چھوڑ کر ایمان نے جانے میں عافیت سمجھی، وہ جانتی تھی وہ ضعیم سے جیت نہیں سکتی ۔
باۓ ممی-باۓ ڈیڈا۔ ایمان نے تیزی سے صدر دروازے کی طرف قدم بڑھائے۔
ایمان جب چھوٹی تھی تو اسکے بھائی اسے ڈیڈی کہنا سکھاتے تھے اور وہ ڈیڈا بولنے لگی جو ان دونوں کو اتنا پسند آیا کہ پھر ایمان نے توفیق کمال کو ہمیشہ ڈیڈا کہہ کر ہی بلایا – توفیق کمال کو اپنی لاڈلی بیٹی کی زبان سے نکلے سب لفظ اچھے لگتے تھے۔
آپ ہی کہہ دیتے ، میری بات کی تو اہمیت ہی نہیں –حرا نے گلہ کیا
اب موڈ نہیں تو زبردستی کیا کرنی- توفیق کمال نے انہیں سمجھایا
یہ سب آپ کے لاڈ پیار ہیں۔ حرا نے شکائیتی نظروں سے میاں کو دیکھا
حالانکہ ایمان میں انکی جان تھی لیکن جہاں وہ انکی بات کو نظرانداز کرتی وہ اچھی بیویوں کی طرح سارا الزام خاوند پہ ڈال دیتیں۔
عمر کہاں ہے؟ توفیق کمال نے حرا کی بات کو نظرانداز کر کے سوال کیا
آج – صبح جلدی نکل گیا تھا۔ کہہ رہا تھا بہت ضروری میٹنگ ہے۔ حرا نے سلائس پہ مکھن لگاتے ہوئے کہا۔
آں ہاں – چلو میں بھی چلوں ، کچھ سوچتے ہوۓ توفیق کمال بولے-
پھر حرا اور ضعیم کو اللہ حافظ کہتے وہ بھی دفتر نکل گۓ۔
ضعیم گھر سے نکلنے والا آخری فرد تھا اسکی پہلی کلاس آج گیارہ بجے تھی۔
سیاہ کوٹ بیڈ پہ پھینک کر وہ نزدیکی صوفے پہ بیٹھ گیا۔ گرے اور سفید لائن والی ڈریس شرٹ کی آستینیں فولڈ تھیں، گرے اور بلیک سلک ٹائی کی ناٹ دائیں ہاتھ سے ڈھیلی کرتے اس نے بایاں ہاتھ کافی ٹیبل پہ پڑے ریموٹ کی طرف بڑھایا ہی تھا کہ اسکا موبائل بج اٹھا۔
موبائل کی سکرین پہ چمکتے نام کو دیکھ کر اس کی بھوری آنکھوں میں چمک ابھری
اسلام علیکم پاپا۔ اس کے لہجے میں بشاشت تھی
وعلیکم اسلام – لہجہ ھمیشہ کی طرح سنجیدہ اور خوبصورت تھا
کیسے ہیں آپ- وہ پر جوش بولا
میں ٹھیک ہوں اور تم سے ایک اہم بات کرنے کیلۓ فون کیا ہے ، تم گھر آ گئے ہو نا جہانزیب؟ سکندر ملک نے استفسار کیا
جی بس ابھی پہنچا ہوں ۔ جہانزیب نے کہا
میں نے تمھاری دو دن بعد کی سیٹ کنفرم کروا دی ہے جہانزیب ، میرا اور طیبہ کا خیال ہے اب تمہیں مزید لندن میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے ویسے تو ایمان کا یہ چوتھا سمسٹر ہے لیکن اپنی باقی کی تعلیم وہ شادی کے بعد بھی مکمل کر سکتی ہے۔ سکندر ملک نے بغیر رکے اپنی بات کہی۔
اپنے ڈارک براؤن گھنگریالے بالوں میں انگلیاں پھیرتے اس نے خود کو کمپوز کیا۔ اسکی چوڑی پیشانی پہ بل واضح پڑ گئے۔
پاپا ، ایسے اچانک سے مجھے انفارم کئے بغیر آپ نے میری سیٹ کنفرم کروا دی ہے مجھے اپنے کام تو وائنڈ اپ کرنے دیتے۔ جہانزیب نے شکوہ کیا
میرا خیال ہے کام ہوتے رہیں گے، ابھی تمھارا پاکستان آنا زیادہ ضروری ہے۔
سکندر ملک نے اسے مختصر الفاظ میں ساری بات سمجھا کے فون بند کر دیا
جہانزیب محض لب کاٹتا رہ گیا۔ لیکن اب اسے واپسی کی تیاری کرنی تھی
وہ بدھ کو پاکستان واپس جا رہا تھا۔
توفیق کمال کوئی جدی پشتی رئیسوں میں سے نہیں تھے، فیصل آباد کے متوسط کاروباری گھرانے سے انکا تعلق تھا، اچھے کھاتے پیتے لوگ تھے،کپڑے کی ایک مل اور آبائی مکان انکا کل اثاثہ تھا۔
حرا جیسی نفیس طبیعت کی مالک شریک حیات اور تین پیارے بچے-عمر، ضعیم اور ایمان عمر، ضعیم سے چار سال اور ایمان سے چھ سال بڑا تھا۔
توفیق کمال کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے محنت ، ایمانداری اور لگن سے کامیابی کو خود پہ حلال کر لیا تھا۔
ایمان دو سال کی تھی جب ایک شام اپنے کسی کاروباری دوست کے بھائی کی شادی میں شرکت کیلۓ وہ لاہور آئے جہاں انکی ملاقات سکندر ملک سے ہوئی۔
سکندر ملک کا شمار کسی تعارف کا محتاج نہ تھا،وہ ایک ایسے خاندانی رئیس تھے جن کے پیچھے دولت اور عزت کی دیویاں ہاتھ باندھے کھڑی ہوتی ہیں۔
سکندر ملک اور توفیق کمال کی یہ چھوٹی سی ملاقات دیرپا دوستی میں کیسے بدلی اس میں زیادہ حصہ سکند ملک کی سحر انگیز شخصیت اور انکساری کا تھا ۔ توفیق کمال ، سکندر ملک کی باتوں سے بہت متاثر ہوۓ تھے ، اتنی قد آور شخصیت اور اتنی عاجزی۔ کی اور Raw Material سکندر ملک کو اگر فارماسیٹوکل کنگ کہا جاتا تو یہ ہرگز مبالغہ نہ تھا ۔
مینوفیکچرنگ اور پروڈکشن میں جے اینڈ ایس فارماسیئوٹیکل کا نام کسی تعارف کا محتاج نہAPI تھا ۔ مشہور ملٹی نیشنل کمپنیوں کو خام ادویات کی فراہمی جے اینڈ ایس فارماسیئوٹیکل سے کی جاتی تھی۔
توفیق کمال اور سکندر ملک کی دوستی کی باقاعدہ شروعات اس دن ہوئی جب اپنی ایک مشین پہ کسٹم اور ایکسپورٹ معاملات کے سلسلے میں توفیق کمال لاہور کچہری گئے ہوۓ تھے اور سکندر ملک اسوقت اپنے وکیل کے ساتھ اسی احاطے میں موجود تھے ، گفتگو کے دوران پتا چلا کہ سکندر ملک کچھ ادویات کی کسٹم کلیرنس کے سلسلے میں وہاں آئے تھے جن کی درآمدی لائسنسنگ پہ حکومت کو کچھ تحفظات تھے۔ اسوقت تو دونوں ہی اپنی مصروفیت کے باعث زیادہ بات چیت نہ کر سکے مگر اس ملاقات کے اختتام پہ سکندر ملک نے توفیق کمال کو اپنے گھر انوائٹ کیا تھا اور توفیق کمال نے اس دعوت کو بخوشی قبول کیا تھا۔
جمعے کو وہ اپنی فیملی کے ساتھ سکندر ملک کے گھر پر تھے ، طیبہ بھابھی اپنے شوہر سے بھی زیادہ پر خلوص خاتون تھیں انکی فیملی جلد بے تکلف ہو گئی تھی۔ جہانزیب ، سکندر ملک کا اکلوتا بیٹا تھا ، شادی کے بعد کئی سال انہیں اولاد نہ ہوئی اور پھر بیرون ملک علاج کے بعد جہانزیب کی پیدائش ہوئی مگر آٹھ سالہ جہانزیب کے بعد ان کے گھر دوبارہ اولاد نہ ہوسکی ۔
میں آپ کے ساتھ مشترکہ کاروبار میں دلچسپی رکھتا ہوں توفیق صاحب ۔ سکندر ملک کی بات توفیق کمال کے لئے حیران کن تھی ۔ توفیق کمال اور سکندر ملک اسٹدی میں اسوقت کافی پی رہے تھے جب سکندر ملک نے انہیں اپنے ساتھ کام کی آفر کی لیکن میرا فارماسوٹیکل کا کوئی تجربہ نہیں ہے ۔ توفیق کمال نے خوش اخلاقی سے کہا تھا
تجربہ تو میرا نہیں ٹیکسٹائل کا توفیق صاحب آپ تو اس فیلڈ میں پچھلے دس سال سے ہیں ۔ سکندر ملک نے مسکراتے ہوۓ کہا تھا۔
میں سمجھا نہیں ۔ توفیق کمال نے کہا
میں دراصل کافی عرصے سے ٹیکسٹائل انڈسٹری کی طرف آنے کا پلان کر رہا تھا ، لیکن میرا کوئی تجربہ نہ ہونے کی وجہ سے میں ایسے قابل اعتبار ساتھی کی تلاش میں تھا جو میری اس فیلڈ میں معاونت کرے ۔ سکندر ملک نے وضاحت کی تھی
لیکن سکندر صاحب میرا تجربہ ایک چھوٹے کاروبار کا ہے اور آپ کی اس سلسے میں میں کیا رہنمائی کر سکوں گا۔ توفیق کمال نے سنجیدگی سے کہا تھا
توفیق کمال ، مجھے آپ میں وہ اعتماد اور سنجیدگی نظر آتی ہے جو کسی بھی شراکتی کاروبار کا لازمی عنصر ہے۔
یہ میری خوش قسمتی ہو گی اگر سکندر ملک جیسا بزنس ٹائیکون مجھے قابل بھروسہ جانے۔ توفیق کمال کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پہ مسکراہٹ تھی
اور پھر سکندر ملک کے کثیر سرماۓ اور توفیق کمال کے تجربے سے سکندر-کمال ٹیکسٹائل انڈسٹریز کی بنیاد رکھی گئی ۔ کاٹن مل سے شروع کیا جانے والا یہ پروجیکٹ آج پوری دنیا میں بہترین کاٹن پروڈکٹس کی ایکسپورٹ میں اول الزکر اور معیار کی ضمانت تھا ۔ ہوزری، بیڈنگ، کاٹن اور پھر دنیا بھر میں بڑھتی لان کی مانگ کے بعد ملک کے نامی گرامی ڈیزائنر کے ساتھ مل کر ڈیزائینر لان کی کئی برانڈز مارکیٹ میں آچکی تھیں۔ انکا کاروبار اور دوستی ساتھ ساتھ بڑھتے جا رہے تھے۔
توفیق کمال کی محنت، ایمانداری اور قدررت کی مہربانی نے سکندر ملک کی نظروں میں ان کا مقام قابل عزت کر دیا تھا ، اپنی فیملی کے ساتھ لاہور شفٹ ہوۓ تو ماڈل ٹاؤن میں سکندر ملک کی رہائش سے نزدیک ہی ایک گھر خرید لیا۔ ایمان کی بارہویں سالگرہ بڑے دھام دھام سے کمال ہاؤس میں منائی گئی اور اسی دن سکندر ملک سے ان کی دوستی، کاروباری شراکت سے بڑھ کر رشتے داری میں تبدیل ہو گئی۔
ان دنوں جہانزیب سکندر ایچی سن کالج سے اے لیول میں کامیابی کے بعد لندن سکول آف اکنامکس سے گریجویشن کی تیاریوں میں لگا تھا، اسکا ایڈمیشن اور رہائش کے معاملات مکمل ہو چکے تھے۔ وہ نہ صرف غیر معمولی ذہین تھا بلکہ انتہائی مہذب اور فرمانبردار لڑکا تھا اور سکندر ملک کے فیصلے پہ اس نے کوئی اعتراض نہ کیا تھا ۔ ایمان جہاں توفیق کمال کی آنکھ کا تارا تھی وہیں جہانزیب، سکندر ملک کا غرور ۔ یہ رشتہ دونوں خاندانوں کو قریب لے آیا تھا اور ان کے وقار میں اضافے کا باعث بنا تھا ۔ سکندر۔کمال ٹیکسٹائل کی ساکھ پہلے سے کئی گناہ بڑھ گئی تھی ۔
جہانزیب کے لندن جانے سے پہلے اسکا نکاح ایمان سے کر دیا گیا تھا ۔ ایمان ان دنوں محض آٹھویں گریڈ میں تھی لیکن سکندر ملک کو نہ کہنا توفیق کمال کے لئے ممکن نہ تھا وجہ کاروباری نہیں تھی۔بلکہ توفیق کمال ان کی اپنے بڑے بھائی جیسی عزت کرتے تھے۔
طیبہ ، جہانزیب کے ساتھ ہی لندن منتقل ہو گئی تھیں کیونکہ جے اینڈ ایس فارما کا دفتر بھی لندن میں تھا اور سکندر ملک اکثر وہاں آتے جاتے رہتے تھے اور ویسے بھی اکلوتے بیٹے سے دور رہنا انہیں منظور نہ تھا ۔بے واٹر میں ایج ویئر روڈ پر ، جہاں زیادہ تر عربوں کے عالیشان مکانات تھے، سکندر ملک نے ایک ولا خرید لیا تھا ۔ سینٹرل لندن میں رہائش کی بڑی وجہ ایل ایس ای سے نزدیک ہونا تھا ورنہ لندن میں بھی دنیا کے تمام بڑے شہروں کی طرح ٹریفک کے مسائل عروج پر تھے۔ سکندر اور طیبہ نہیں چاہتے تھے ٹریفک سے تنگ آکر جہانزیب ہوسٹل کو ترجیح دے۔
کمرے میں اے سی کی ٹھنڈک تھی لیکن وہ پسینے میں بھیگی ہوئی تھی۔ اسکے جسم میں ہلکی سی کپکپاہٹ تھی شائد وہ اب تک اسی خواب کے زیر اثر تھی۔ کمرے میں گھپ اندھیرا تھا، اس نے جلدی سے سائیڈ لیمپ کا بٹن دبایا ۔ کمرے میں لیمپ کی دودھیا روشنی بکھر گئی۔ اچانک روشنی سے اسکی آنکھیں چندھیا گئیں ، چند لمحے لگے اور پھر ہر منظر صاف ہو گیا۔ وہ اپنے کمرے میں تھی اور صبح کے چار بج رہے تھے ۔ اس نے سکون کا سانس لیا تھا۔
ایک بار پھر اسے اس خواب نے بےتحاشہ ڈرا دیا تھا ۔
بیڈ کراؤن سے سر ٹکا کے وہ آنکھیں موندھے بیٹھی تھی، اسے پہلے بھی وقفے وقفے سے یہ خواب پریشان کرتا تھا اور آج بھی اس نے سب کچھ اسی سیکوینس میں دیکھا تھا
اسکے گہرے سیاہ اور سلکی بال اسٹائل سے ماتھے پہ بکھرے تھے، اسکی پیشانی چوڑی تھی، اسکی رنگت صاف تھی ۔ اسکی آنکھیں اس کے چہرے کا شائد سب سے دلکش حصہ تھیں ۔ یہ اسلئے بھی کیونکہ وہ آج تک اسکا چہرہ نہ دیکھ پائی تھی۔ اسکی آنکھوں کا رنگ گہرا سیاہ تھا اور وہ بے تحاشہ خوبصورت تھیں ، ان میں کسی وادی سی گہرائی تھی، کیسی طوفان سا سکوت تھا ، وہ کسی جزیرے سی پراسرار تھیں ان میں وہ بھید تھا جسے سمجھنے میں اک عمر گزر جاۓ ، وہ اتنی دلکش تھیں انہیں دیکھ کر دنیا بھولی جاۓ۔ اسکی بھنویں جڑی ہوئی اور بہت بھری بھری تھیں ۔ بہت صاف واضح جیسے تراشی گئیں ہوں۔ اس سے آگے وہ اس بار بھی کچھ نہ دیکھ پائی تھی اور اسکی آنکھ کھل گئی تھی۔
ہر بار کی طرح اس بار بھی اسے یہ خواب نہیں بلکہ حقیقت لگ رہا تھا جیسے وہ یہ سب کچھ کہیں دیکھ چکی ہے یا پھر دیکھنے والی ہے شاید اسکی چھٹی حس اسے کچھ آگاہ کر رہی تھی ۔ اسکے تخیل نے اسے کئی بار یہ شبیہ اسکے خوابوں میں دکھائی تھی۔وہ جانتی تھی اب اگلے کئی دن وہ بے چین رہے گی، اسے وہ آنکھیں اپنا حصار کئے محسوس ہوں گی، وہ الجھے گی مگر وہ اپنی اس کیفیت پہ کنٹرول نہ کر پاۓ گی ۔ اسے یہ خواب اپنی پوری جزئیات کے ساتھ یاد رہتا تھا۔ وہ اگر کبھی اس شخص کو دیکھتی تو ایک لمحہ میں ان آنکھوں سے پہچان جاتی وہ اس کے حواس پہ طاری تھیں اور ایمان کمال ان آنکھوں کے عشق میں مبتلا تھی۔
آئیڈل پرستی کی آخری حد شائد اسے ہی کہتے ہیں۔
آج صبح جہانزیب سکندر آ رھا تھا ، سکندر انکل کا ہونہار بیٹا، جس کی تعریفیں کرتے اور کامیابیوں کے قصے سناتے اسکے ڈیڈا کی زبان نہیں دکھتی تھی۔ جہانزیب کیلئے ان کے دل میں خاص جگہ تھی کیونکہ وہ انکی لاڈلی بیٹی کا شوہر تھا۔
تو کہیں وہ جہانزیب تو نہیں ؟
کیسی بچگانہ بات ذہن میں آئی تھی حالانکہ سکندر کو وہ کئی بار دہکھ چکی تھی لیکن اب کئی سال سے وہ لندن میں تھا اور چونکہ وہ خود ایک روایئتی لڑکی نہ تھی جو شوہر سے متعلق معلومات اکٹھی کرنے میں خود کو ہلکان کرتی رہتی ہے۔ اس نے پچھلے کئی سال سے جہانزیب کو دیکھا نہیں تھا اور یہ محض ایک اتفاق تھا کے پوسٹ گریجویشن کے بعد جہانزیب اپنے ڈی بی اے میں مصروف ہو گیا اور سکندر ملک اور طیبہ تو اسکے ساتھ ہی تھے ایسے میں جہانزیب کو پاکستان آنے کی ضرورت بھی کیا تھی ۔ سکندر ملک البتہ اکثر
پاکستان میں ہوتے اور طیبہ آنٹی بھی آتی جاتی رہتی تھیں ۔ اب دو ماہ پہلے اس نے اپنا ڈاکٹریٹ مکمل کیا تھا اس دوران وہ سکندر ملک کے لندن آفس کو بھی سنبھال رہا تھا۔ توفیق کمال اور حرا تو اس سے پچھلے نو سالوں میں دو تین بار مل چکے تھے اور ہر بار ان کے پاس اسکی تعریفوں کے انبار ہوتے تھے اور عمر کمال تو پوسٹ گریجویشن کیلئے انگلینڈ ہی میں رہا اور مانچسٹر میروپولیٹن یونیورسٹی میں ہونے کے باوجود اسکی جہانزیب سے پابندی سے ملاقات رہی تھی۔
اپنی بچگانہ سوچ پہ خود کو ملامت کرتی وہ سونے کیلئے لیٹی مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔صبح یونیورسٹی کیلئے اٹھی تو اب تک خواب والی بات دماغ پہ حاوی تھی۔ اسکے چہرے کو دیکھ کر کوئی بھی اندازہ لگا سکتا تھا کہ وہ ڈسٹرب ہے ایسے میں دو پر کشش سیاہ آنکھیں اب بھی اس کا تعاقب کر رہی تھیں ۔ وہ اس کیفیت سے نکل کر نارمل ہونا چاہتی جو شائد اس کے بس میں نہ تھا لیکن وہ نارمل دکھ تو سکتی تھی۔
اپنی روٹین کے متضاد ، گہرے نارنجی اور سرخ رنگ کا ٹائی اینڈ ڈائی والا کاٹن نیٹ کا فل کڑھائی والا سوٹ، آنکھوں میں کاجل اور ہوہٹوں پہ آج پیچ لپ اسٹک لگاۓ وہ قدرے فریش لگ رہی تھی۔
میں تمھیں کیسے سمجھاؤں میرے نزدیک تمھارا یہ رویہ انتہائی احمقانہ ہے۔
ڈائننگ ہال میں قدم رکھتے اسے توفیق کمال کی بھاری آواز سنائی دی تھی۔
لگتا ہے آج پھر عمر بھائی کے ساتھ ڈیڈا کی بحث ہو رہی ہے۔ تاسف سے سوچتی وہ کمرے میں داخل ہوئی۔
ڈائیننگ ٹیبل پہ حرا اور ضعیم سر جھکاۓ ناشتہ کر رہے تھے اورتوفیق کمال، عمر کو گھور رہے تھے۔
ڈیڈی آپ کیوں نہیں سمجھتے ــــ اس سے بہتر لوکیشن فیکٹری کیلئے ملنا مشکل ہے اور پھر میں تمام معاملات طے کر چکا ہوں۔ باپ کی ناراضگی کو دیکھتے عمر نے دھیمے لہجے میں کہا تھا۔
عمر کمال، میں نے ساری زندگی فئیر پلے کیا ہے ، جو میرے مقدر میں نہ ہو میں نے اس کو کبھی فاؤل کر کے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ اگر وہ پارٹی۔۔۔۔۔۔۔ایمان کو کمرے میں دیکھ کر توفیق کمال نے بات ادھوری چھوڑ دی تھی
اسلام علیکم –ایمان نے سب کو سلام کیا اور مسکراتے ہوۓ اپنی مخصوص کرسی کی طرف بڑھ گئی۔
ڈایئننگ روم کا ماحول اب بدل چکا تھا ایمان کی موجودگی میں اسکے ہر دلعزیز عمر بھائی کو توفیق کمال اب کیا کہتے ۔
یہ آج تم صبح سے کیوں تیار ہوگئی؟ لنچ تک تو باسی ہو جاؤ گی۔ ضعیم نے شرارت سے کہا اور سب مسکرا دیئے
ایمان نے کھا جانے والی نظروں سے ضعیم کو دیکھا۔ وہ ضعیم کا مذاق سمجھ گئی تھی۔
مانوـــــ فائینل کب ہیں ۔ عمر کی بات پہ ایمان اسے اپنے امتحانات کا بتانے لگی۔
بچپن میں عمر ایک بلی کا بچہ لایا تھا جسے مانو کہا جاتا تھا ، وہ ایمان کا لاڈلا تھا اور پھر کچھ عرصے بعد پارک میں کھیلتے وہ گم ہو گیا تھا لیکن ایمان کا رونا شروع ہو گیا تھا ، ایسے میں عمر نے اسے سنبھالا تھا اور کہا تھا ، ایک مانو چلی گئی تو کیا ہوا میری مانو تو تم ہو ۔ اور ایسے ایمان، عمر کی مانو تھی۔
ویسے تو ایمان گھر بھر کی لاڈلی تھی لیکن عمر سے وہ سب سے زیادہ قریب تھی ، عمر کمال وہ جن تھا جس کی جان ایمان میں تھی کسی طوطے میں نہیں۔ایمان کو اپنے عمر بھائی سب سے اچھے لگتے تھے کیونکہ انہوں نے آج تک ایمان کی کوئی بات نہیں ٹالی تھی۔ بس ان میں ایک ہی خامی تھی ۔ اور اس پہ اکثر انکا ڈیڈی کے ساتھ تنازعہ رہتا تھا۔ وہ تقدیر سے زیادہ تدبیر پہ یقین رکھتے تھے اور اس میں حد سے تجاوز کر جاتے تھے۔
ناشتے کے دوران ہلکی پھلکی باتوں کے بعد سب اپنے اپنے کاموں پہ نکل گئے تھے۔
ایمان آج اتنی جلدی جا رہی ہو ، سب ٹھیک ہے نہ؟ ثنا نے پارکنگ کی طرف جاتا دیکھ کر سوال کیا تھا
ہاں ، سکندر انکل کی فیملی آج لنچ پہ آ رہی ہے۔ بےتاثر چہرے کے ساتھ ایمان نے وجہ بتائی
کہیں جہانزیب تو نہیں آ گیا ؟ ثنا نے شوخی سے کہا
ہاں وہ بھی آرہا ہے ۔ ایمان نے بےنیازی سے جواب دیا
کتنی عجیب لڑکی ہو ایمان تم ، تمھارا شوہر نو سال بعد تم سے ملنے آرہا ہے اور تم ہو کے بلکل ایکسائیٹڈ نہیں ہو ۔ ذرا رومنٹک نہیں ہو تم میں ہوتی تو پتا نہیں کتنوں کو پتا چل جاتا ۔ ثنا نے نروٹھے پن سے کہا
آپ کے کیا کہنے ثناء جی آپ ہوتیں تو کالج میں آج پمفلٹ تقسیم ہوتے۔ ایمان نے ہنستے ہوئے کہا
یار لڑکیاں تو منگنی کرا کے خوابوں میں کھو جاتی ہیں تم نے افسانوں کی ہیروئینوں کو نہیں پڑھا کیسے منگیتر یا شوہر کے نام پر ان کے چہرے سرخ انار ہو جاتے ہیں ۔ ثنا نے شوخی سے کہا
آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے میں افسانے کی ہیروئین نہیں بزنس ایڈمنسٹریشن کی سٹوڈنٹ ہوں اور اسوقت اگر میں لیٹ ہوگئی تو میری ممی کا چہرہ غصے سے ضرور سرخ ہو جاۓ گا ۔ ایمان نے ہنس کر بات ٹالتے ہوۓ کہا۔ اللہ حافظ ۔ مسکراتے ہوۓ ایمان میں گاڑی میں بیٹھ گئی۔
اللہ حافظ – ثنا نے تاسف سے سر ہلایا۔
ثنا ٹھیک کہہ رہی تھی ، ایمان ہرگز نارمل ایکٹ نہیں کر رہی تھی لیکن اس میں ایمان کا بھی کہاں قصور تھا وہ آئیڈئل پرستی کی جس انتہا پے تھی وہاں سے اسے جہانزیب دکھائی ہی نہ دیتا تھا ایمان کے خواب اسے جہانزیب کے متعلق سوچنے کہاں دیتے تھے۔
ایمان روائتی لڑکیوں کی طرح بھلے جہانزیب کا نام سن کے سرخ نہ ہوتی مگر شروع کے چند سال اسے اپنا کسی سے منسوب ہونا اچھا لگا تھا مگر جیسے جیسے اس نے شعور کی منزلیں طے کیں ، جہانزیب کے بارے میں سوچنا اس نے چھوڑ دیا ۔ وہ اتنے سالوں میں کبھی پاکستان نہیں آیا تھا ، اس نے کبھی کوئی پیغام ، کوئی تحفہ نہیں بھیجا تھا ۔ اسکی خواہش تھی جہانزیب اسکی سالگرہ پہ مبارکباد کا پیغام دے ، وہ سوچتی شائد اس بار عید پہ وہ اچانک اسے کال کر کے حیران کر دے لیکن اس نے ایمان کے متعلق کچھ جاننے کی کوشش نہ کی ۔ ایمان کے پاس محبتوں کی کمی نہ تھی مگر اس کے لئے اپنے شوہر کی محبت انمول تھی وہ جو اس کی زندگی کا محور تھا ، وہ جس کا نام اسکے نام کے ساتھ سالوں پہلے جڑا تھا اس کے دل میں ایمان کے لئے اگر کوئی جذبات نہ ہوئے توــــ
ایسی زندگی کا تصور ایمان کو اداس کر دیتا تھا ۔ یہ رشتہ انکے بڑوں نے جوڑا تھا اور وہ دونوں اسے نبھائیں گیں لیکن کیا یہ رشتہ محبت کے بغیر ہوگا ؟
کبھی کبھی وہ خود کو اس شہزادی سے تشبیہ دیتی جسے اس کے ماں باپ نے نجومییوں کی پیشن گوئی سے ڈر کر ایک ایسے محل میں رکھا تھا جہاں سورج کی روشنی نہیں پہنچ سکتی اس کے پاس سب کچھ تھا مگر اس کے اندر سورج کو نہ دیکھنے کی اداسی تھی ، ایمان کے پاس بھی بن مانگے سب کچھ تھا مگر محبت کے دئیے کی جوت سے اسکی زندگی خالی تھی۔
چند مہینوں سے ایک خواب اسکے ہواس پہ سوار تھا ، وہ کسی شخص کا ادھورا چہرہ دیکھتی تھی جس میں اسکی پر کشش آنکھیں اتنی واضح اور حقیقی محسوس ہوتیں کہ ایمان کو لگتا وہ اس کے آس پاس ہی ہے۔ اور پھر کب وہ اپنے اس آئیڈئل کی محبت میں گرفتار ہوگئی اسے پتا بھی نہ چلا ۔ وہ جانتی تھی وہ جو دیکھ رہی ہے اسے کبھی پا نہ سکے گی لیکن وہ امیجینیشن کی انتہا پہ تھی ۔ اسے یہ خواب دیکھنا اچھا لگتا تھا ۔
لنچ پہ سب ہی گھر میں موجود تھے۔مسٹرڈ اور براؤن کے کنٹراسٹ میں ٹخنوں تک آتا فراک جس کے گلے اور گھیر پہ کڑھائی تھی ساتھ میں مسٹرڈ دوپٹہ اور ہم رنگ ٹراؤزر میں وہ کافی اچھی لگ رہی تھی ۔ اپنے سلکی بال کھولے آنکھوں میں کاجل اور ہونٹوں پہ لپ گلوس۔ وہ ہمیشہ کی طرح پر کشش نظر آرہی تھی۔ اسکی انگلیوں میں ایک دو نازک سی انگوٹھیاں اور کلائی پہ گھڑی بندھی تھی۔
اسلام علیکم ۔ پر اعتماد انداز میں ڈرائینگ روم میں داخل ہوتے اس نے سب کو مشترکہ سلام کیا تھا
وعلیکم اسلام ۔ سکندر ملک اور طیبہ اسے دیکھ کر ہمیشہ کی طرح نہال ہو گئے تھے
کیسی ہے میری بیٹی؟ طیبہ نے اٹھ کر اسے گلے سے لگایا اور اپنے ساتھ بٹھا لیا
میں بالکل ٹھیک ہوں آنٹی، آپ کیسی ہیں ۔ اس نے مسکراتے ہوۓ پوچھا
میں بھی ٹھیک ہوں، اکیلے بور ہوتی رہتی ہوں اسلئے سوچ رہی ہوں جلد ہی اپنی کمپنی کا بندوبست کر لوں ۔ ذومعنی الفاظ میں کہی ان کی بات کا مطلب سمجھ کر اس نے سر جھکا دیا تھا
بلیو ڈینم اور بلیک پولو شرٹ میں وہ کافی رف سے حلئیے میں تھا ۔ بڑی بڑی براؤن آنکھیں ، چوڑی پیشانی، سلیقے سے جیل سے پیچھے کئے براؤنش بلیک بال، گوری رنگت اور چہرے پہ سنجیدگی لئے وہ پہلی نظر میں ایمان کو بڑا مغرور لگا تھا ۔ اس نے صرف ایک بار ایمان کو دیکھا اور پھر عمر سے آہستہ آواز میں باتیں کرنے لگ گیا ، شائد وہ دونوں کوئی کاروبای ڈسکشن کر رہے تھے۔ سکندر ملک اور توفیق کمال کی اپنی گفتگو جاری تھی اور طیبہ اب حرا سے کسی پارٹی کے متعلق ڈسکس کر رہی تھیں ۔ اس نے نظر اٹھا کے حسرت سے جہانزیب کی طرف دیکھا جو اس وقت ڈرایئنگ روم میں اسکی موجودگی سے بے نیاز تھا اور پھر اسکی نظریں بے اختیار جہانزیب کی آنکھوں پہ جا کے ٹھر گئیں ۔ جہانزیب نے شائد خود پہ اسکی نگاہ کو محسوس کیا تھا تبھی اس نے منہ اٹھا کے ایمان کی طرف دیکھا تھا۔ یکایک اس نے اپنی نظریں جھکا لیں۔
جہانزیب زیر لب مسکرایا اور پھر عمر کی طرف متوجہ ہوگیا۔
اس وقت وہ اپنے کمرے میں تنہا تھی۔ بیڈ پہ ٹیک لگائے وہ بہت اداس بیٹھی تھی۔
تو کیا یہ طے ہے کہ اب عمر بھر نہیں ملنا
تو پھر یہ عمر بھی کیوں تم سے گر نہیں ملنا
اس رات ایمان اپنے کمرے میں گھنٹوں روتی رہی، جب دل ٹوٹتا ہے تو آواز بھی نہیں آتی مگر نہ جانے آنکھوں کو کیسے خبر ہو جاتی ہے کہ ضرب کڑی ہے۔ کتنی حسرت سے اس نے جہانزیب کی آنکھوں کو دیکھا تھا ۔ وہ قابل ستائش تھیں بلاشبہ جہانزیب ایک ہینڈسم مرد تھا مگر یہ آنکھیں وہ نہیں تھیں جنھیں دیکھنے کی ایمان کو حسرت تھی۔
جہانزیب بہیت میچور اور لئے دئیے رہنے والا بندہ تھا، اسکی طبیعت میں بہت ٹہراؤ تھا وہ کافی باتونی تھا لیکن اپنے حلقہء احباب کی حد تک۔ اسے ایمان میں بس یہی دلچسپی تھی کہ وہ اسکے ماں باپ کی پسند تھی اور کیونکہ اس نے کسی سے تو شادی کرنی ہی تھی تو پھر ایمان وہ لڑکی ہے تو ٹھیک ہے۔ اس سے زیادہ اس نے ایمان کے لئے کبھی نہیں سوچا تھا۔
لیکن آج جب اس نے ایمان کو اتنے سالوں بعد اپنے سامنے دیکھا تو نظریں ہٹانا بھول گیا تھا ۔ وہ کسی ساحرہ کی طرح اس کے دل کو اپنی گرفت میں لے چکی تھی مگر یہ وقت جذبات دکھانے کا نہیں تھا اسکی اور ایمان کی ساری فیملی کے سامنے وہ ہرگز کوئی اوچھی حرکت نہیں کر سکتا تھااسے ٹین ایجر کی طرح بی ہیو نہیں کرنا تھا- بھلے سامنے اس کی منکوحہ ہی کیوں نہ ہو۔ اس لئے فورا ہی عمر کی طرف متوجہ ہوگیا تھا جو اسے اپنی نئی فیکٹری کے متعلق بتا رھا تھا اور جس کی زمین کا سودا آج کل میں ہونے والا تھا۔ اس نے محسوس کیا کوئی اسے دیکھا رہا ہے۔ وہ ایمان تھی جو گہری نظروں سے اس کا جائزہ لے رہی تھی اور پھر اس نے گھبرا کے اپنی گھنی پلکیں جھکا لیں ۔ بے شک وہ لڑکی دل میں اترنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔
ابھی تھوڑی دیر پہلے اس نے پاپا سے ایمان کا موبائل نمبر لیا تھا وہ اس سے ملنا چاہتا تھا ، ایک بار دوبارہ اسے فرصت سے دیکھنا چاہتا تھا اور
پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ اس دن اس کے چہرے کو اتنے غور سے کیوں دیکھ رہی تھی۔
فون کی تیسری بیل پہ اس نے کال ریسیو کی ، نمبر غیر شناسہ تھا اور عام حالات میں ایسے نمبر کو اٹینڈ کرنے کا ایمان دس بار سوچتی مگر جلدی نے اسکی مت ماری ہوئی تھی ۔ پہلے ہی اسے کالج سے لیٹ ہو رہا تھا اور اب یہ موبائل بےوقت چنگھاڑنے لگا تھا۔
ہیلو۔ تیزآواز میں کافی روڈ بولی تھی وہ، ساتھ ساتھ اپنے بالوں میں برش کر رہی تھی
اسلام علیکم مسز ایمان جہانزیب –جانی پہچانی مردانہ آواز میں مسکراتا لہجہ اس نے شائد یہ آواز حال ہی میں سنی تھی۔
ایمان کا برش کرتا ہاتھ رک گیا تھا۔
آپ کون؟ حیرت سے اس نے سوال کیا۔
جہانزیب سکندر – آواز میں سنجیدگی تھی
اتنی صبح – اور آپ کے پاس میرا نمبر، وہ خود نہیں جانتی تھی اسے اسوقت کیا کہنا چاہئے اور وہ کیا کہہ رہی تھی۔ جہانزیب کا فون اتنا غیر متوقع تھا وہ بہت نروس ہو گئی تھی
آپ کو میرے سورسز کا اندازہ نہیں مادام ۔ جہانزیب نے مسکراتے ہوئے کہا
نہیں میرا مطلب ہے آپ نے اچانک کال کی تو- اب جو زبان سے نکال بیٹھی تھی اسوقت واپس تو لے نہیں سکتی تھی ۔
جی اندازہ تو مجھے ہے۔ اور ان کا استعمال بھی آپ نے محض نو سال کے کم عرصے میں کر لیا ہے۔ یہ بات وہ جہانزیب سے کہہ نہیں پائی تھی بس دل میں سوچ کے رہ گئی تھی۔
کیسی ہیں آپ اور کیا کر رہی ہیں؟ جہانزیب کا انداز دوستانہ تھا
کالج کیلئے نکلنے لگی تھی۔ وہ اچانک بول پڑی اور یکدم اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
اب جو اس نے کال کر دی تھی تو ڈھنگ سے بات کرنے کی بجاۓ اسے کالج کا بتانے کی کیا ضرورت تھی۔
اوہ – غالبا میں نے غلط ٹائم پہ فون کر دیا ہے۔ اس نے برا مانے بغیر کہا۔
میں دراصل کالج جانے کیلئے تیار ہو رہی تھی۔اب اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا تھا۔
ابھی آپ کالج جائیں میں پھر کسی مناسب وقت کال کروں گا-Have a Nice Day
اس نے فوراً فون بند کر دیا تھا۔
کالج جانے کی افراتفری بھلا کے اب وہ جہانزیب کے اچانک کال کرنے کا سوچ رہی تھی اور اپنی بیوقوفی پہ افسوس کر رہی تھی کہ ایسا بھی کیا تھا جو اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ وہ جہانزیب سے ڈھنگ سے بھی تو بات کر سکتی تھی۔ اپنے نروس ہونے پہ سیخ پا ہوتی ایمان کالج کیلئے نکل گئی۔
آج آفس میں اسکا پہلا دن تھا۔ بطور چیف ایگزیٹو جے اینڈ ایس فارماسوٹیکل میں اپنا چارج سنبھالتے اس نے سکندر ملک کے چہرے پہ خوشی کے جو رنگ دیکھے تھے وہ اس سے پہلے کبھی نظر نہیں آۓ تھے۔ ایمان سے ہونے والی صبح اسکی ٹیلیفون پہ بات نے اسے کافی خجل کیا تھا لیکن اب پاپا کا اس کو اپنے آفس میں اتنے جذباتی انداز میں ویلکم کرنا ، آج کا دن بلاشبہ ایک یادگار دن تھا ۔
لنچ ٹائم میں وہ ایمان کے متعلق سوچ رہا تھا۔ اسے کبھی کنفیوز اور نروس لڑکیوں میں کشش محسوس نہیں ہوئی تھی ۔ بلاشبہ وہ لڑکی بہت خوبصورت تھی مگر اتنی بھی کیا معصومیت کہہ اپنے شوہر کی کال سن کے طوطے ہی اڑ جائیں اور اگر میں سامنے چلا جاتا تو محترمہ کسی کونے میں ہی چھپ جاتیں۔ اس نے جھنجلاتے ہوئے سوچا۔ کل جب اس نے ایمان کو دیکھا تو وہ اسے اچھی لگی تھی اس کا حسین پر کشش چہرہ ، اسکی خوبصورت آنکھیں اور اسکے کھلے بال ۔ وہ سارا وقت بڑی بے نیاز سی بیٹھی رہی ۔ اسے لگا وہ کافی کم گو ہے لیکن جہانزیب محض خوبصورتی سے متاثر ہونے والوں میں سے نہیں تھا۔ اس نے طویل عرصہ مغرب میں گزارا تھا اس کے اردگرد بولڈ اور پر اعتماد لڑکیوں کا ہجوم تھا۔ اس کے ساتھ کالج اور یونیورسٹی میں پڑھنی والی لڑکیاں جو نہ صرف ذہین تھیں بلکہ انکا اعتماد آسمان کو چھوتا تھا ۔ مغرب کی بے باکی کو ایک طرف رکھ کر وہ صرف اپنی کلاس فیلوز کے اعتماد کو سوچتا تب بھی ایمان کا آج کا رویہ اسکے لئے بہت مایوس کن تھا۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...