وہ تھکا ہارا سا ان کے سامنے بیٹھا تھا جن کے چہرے پر آج ایک الگ قسم کی ہی چمک تھی وہ انہیں بس دیکھتا رہ گیا
حاشر اپنے انکل کو کال کرو اور بولو جلد از جلد پاکستان آنے کی کریں کنزہ کو میں کال کرچکی وہ بھی اپنا ویزہ وغیرہ دیکھ لے گی۔۔
حاشر نے پریشانی سے اسے دیکھا جو دم سادھے بیٹھا تھا
سن بھی رہے یا نہیں ۔۔۔حاشر کو چپ دیکھ وہ ایک دم بولی تھیں
جی دادو میں بات کرتا ہوں انکل سے۔۔
اور گھر کا کام بھی مکمل کرواؤ۔۔۔ان کے انگ انگ سے خوشی جھلک رہی تھی
دادو سب ہوجائے گا آپ آرام کریں۔۔حاشر نے انکا ہاتھ تھامے انہیں تسلی دی تو وہ مسکراتی اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئیں
کیا مسئلہ ہے تجھے چپ کیوں ہے؟؟ وہ پریشان سا اس کے پاس آکر بیٹھا تھا
کچھ نہیں ہوا مجھے کیا ہونا ہے۔۔وہ تلخی سے ہنس دیا تھا
اور اسکے یوں کرنے پر حاشر کے دل کو کچھ ہوا تھا۔۔
ادھر دیکھ ابراہیم کیا ہوا ہے؟؟ اسکا چہرہ اپنی طرف موڑے وہ ایک دم ٹھٹھکا تھا
اس کی آنکھیں لال سرخ ہورہی تھیں
دیکھ ابراہیم کیوں خود کو تکلیف دے رہا ہے میں بات کرتا ہوں دادو سے۔۔
وہ ایک اٹھا تھا تبھی ابراہیم نے اسے روکا تھا
کرنے دے انہیں جو کرنا ہے۔۔
مگر ردابہ؟؟ وہ ایک دم پوچھ بیٹھا جس پر وہ مسکرا دیا
اسے اپنا کیرئیر بنانا ہے وہ میرے بغیر خوش رہ سکتی ہے۔۔ٹوٹے لہجے میں بولتا وہ حاشر کو مسلسل پریشان کررہا تھا
ادھر دیکھ ابی بتا مجھے۔۔۔اس کے یوں پوچھنے پر وہ اسے اپنے اور ردابہ کے درمیان ہوئی بات بتاتا چلا گیا
حاشر کو افسوس ہوا تھا وہ جانتا تھا ابراہیم کتنا سیریس ہے اسے لے کر۔۔
تو پریشان مت ہو دیکھ ابراہیم ہر چیز کے پیچھے یقیناً کوئی نا کوئی مصلحت ہوتی ہے اگر یہ سب ہوا تو ضرور اللّٰہ پاک نے تیرے لئے کچھ بہترین سوچا ہے۔۔
ہممم۔۔
بس اب خوش رہ انشاء اللہ سب ٹھیک ہی ہوگا۔۔۔
حاشر کے سمجھانے پر وہ سر ہلاتا اٹھ گیا۔۔۔
یہ وقت پر لگا کر اڑا تھا اس نے خود کو بے حد مصروف کرلیا تھا حیات مینشن ایک بار پھر پوری آب و تاب کے ساتھ اپنی جگہ کھڑا ہوا تھا۔۔
حیات صاحب دراب کنزہ سب پاکستان پہنچ چکے تھے
وہ بظاہر مسکراتا سب سے مل رہا تھا مگر اسکا دل بجھ کر رہ گیا تھا وہ کسی طور آنسہ کو اپنی زندگی میں شامل نہیں کرنا چاہتا تھا مگر اب بہت دیر ہوگئی تھی حاشر خوش تھا کہ وہ موو آن کر رہا ہے مگر وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ اسکے دماغ میں اس وقت کیا چل رہا ہے جان جاتا تو یقیناً اسے سمجھانے کی کوشش کرتا۔۔
کنزہ تو آنسہ سے مل کر بہت خوش ہوئی تھی
وہ لوگ حیات مینشن شفٹ ہوگئے تھے گھر کو دولہن کی طرح سجایا گیا تھا آخر کو اس گھر کی آخری شادی تھی
حاشر بھی اس سب میں آگے آگے تھا
اسکی خاموشی دیکھ حیات صاحب نے خود حاشر سے پوچھا تھا کہ کیا ابراہیم خوش ہے جس پر اس نے انہیں تسلی دی تھی۔۔
دوسری طرف وہ سب سے بیزار بیٹھی تھی اسکا دل ہی نہیں کرتا تھا کچھ کرنے کا جتنی وہ ایکٹیو تھی اس سے کہی زیادہ وہ سست ہوگئی تھی
نور اس کے پاس بیٹھ گھنٹوں پیلینگ کرتی تھی مگر وہ گونگی بہری بنی بیٹھی رہتی۔
روبینہ بیگم نے کسی قسم کا جہیز لینے سے صاف انکار کردیا تھا یہاں تک کے کپڑے بھی۔۔
بری کے نام پر کنزہ اور حمیرا اس کے لئے ایک سے بڑھ کر ایک قیمتی سامان لائی تھیں وہ بس چپ چاپ یہ تماشہ دیکھ رہی تھی
ناجانے ایسا کیا تھا جو وہ دل میں دبائے بیٹھی تھی
کل اسے مایوں بیٹھ جانا تھا ایسے وقت میں ایک لڑکی کو اپنوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے اسے بھی اپنی ماں کی کمی آج پھر شدت سے کھلی تھی
وہ ناشکری نہیں تھی اس نے اللّٰہ کے ہر فیصلے پر سر جھکایا تھا
اگر اللّٰہ نے اس سے کچھ لیا تھا تو اسے بیش بہا چیزوں سے نوازہ بھی تھا
وہ چھت پر لیٹی آسمان کو دیکھ رہی تھی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا روح میں اتر کر عجیب سا۔ احساس پیدا کر رہی تھی ۔۔
تبھی نور نے اسکو خود میں بھینچا تو وہ گردن موڑ کر اسے دیکھنے لگی
کیا دیکھ رہی ہے آنسہ؟؟
کچھ نہیں تو کب آئی؟؟ وہ اسکا ہاتھ ہٹا کر اٹھ کر بیٹھی تھی
میں تو تبھی آئی جب آپ ہمارے دولہا بھائی کے خیالوں میں گم تھیں۔۔
نور کی بات پر اسکا دل کی قہقہ لگا کر ہنسے
میں ایسے کام نہیں کرتی جو مجھ پر جچتے نا ہو۔۔
بس بھی کر یار آنسہ قسم سے کل مایوں بیٹھ جانا اور تو یہاں سن ہوئی بیٹھی ہے۔۔
تو کیا کروں بھنگڑے ڈالوں؟؟ وہ چڑ کر بولی تھی نور کے پاس اسکے علاؤہ کوئی ٹاپک ہی نہیں تھا۔۔
ناراض ہے مجھ سے ؟؟ نور نے اسکا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالوں میں بھرا تو وہ مسکرا کر نفی میں سر ہلا گئی
نہیں تو میں بھلا کیوں تجھ سے ناراض ہونگی؟؟
اماں بہت درد دیتی ہیں نا آنسہ میں جانتی ہوں ان کی باتیں مجھے اتنی تکلیف دیتیں ہیں تو تجھے کتنا زیادہ برا لگتا ہوگا مجھے احساس ہے میں ان کی طرف سے معافی مانگتی ہوں آنسہ۔۔ اس نے ایک دم اس کے آگے ہاتھ جوڑے تھے۔۔
پاگل ہوگئی ہے کیا نور ایسے کیوں کر رہی تو جانتی ہے مجھے فرق نہیں پڑتا ہے۔۔
بس کردے کیوں خود کو پتھر ظاہر کرتی ہے جسے کوئی فرق نہیں پڑتا میں جانتی ہوں تجھے فرق پڑتا ہے میری ماں غلط کر جاتی ہے اور تو بس کر اب۔۔
اسے گلے سے لگائے وہ رونے لگی اور اسکے یوں کرنے پر آنسہ کو اس پر بے تحاشہ پیار آیا تھا
افف بس کردے شادی میری ہے رو تو رہی اگر ایسے روئے گی تو میں نے شادی سے انکار کردیا پھر سوتیلی ساری زندگی یونہی مجھے سناتی رہے گی۔۔
اسے پچکارتے وہ ہنس کر بولی تو وہ منہ بنا کر اس سے الگ ہوئی
سوچنا بھی نہیں ایسا میری سب سے بڑی خوشی ہے تجھے خوش دیکھنا دادو بہت اچھی ہیں تجھے اماں کی طرح نہیں سنائیں گی تو بہت خوش رہے گی ابراہیم بھائی بھی تجھے بہت سارا پیار کریں گے۔۔
وہ خوشی خوشی بول رہی تھی یہ جانے بغیر کہ اس شخص کے نام پر اسکا دل برا ہوا تھا
وہ شخص جو مجھے کچھ عرصے بعد مجھے چھوڑ دے گا اس سے کیسی محبت ملے گی مجھے۔۔۔۔
خود سے بولتی وہ تلخی سے ہنسی تھی۔۔
پورے حیات مینشن کو دولہن کی طرح سجایا گیا تھا
وسیع وعریض لان کو برقی قمقموں سے سجایا گیا تھا مہمان گو کو بس اپنے ہی تھے مگر پھر بھی انتظام انہوں نے بھرپور کیا تھا
بےبسی کیا ہوتی ہے یہ آج ابراہیم نے جانا تھا
پیلے کرتے پر سفید پاجامہ اور چنری ڈالے ہلکی بڑھی شیو وہ گہری کالی آنکھیں جو آج اداس سی تھی اسکی وجاہت کو مزید بڑھانے کا سبب بن رہی تھیں
روبینہ بیگم نے فوراً اس کی نظر اتاری تھی۔۔
آنسہ لوگ آتے ہی ہونگے حاشر جیسے ہی وہ لوگ آئیں ابراہیم کو لے کر آنا ہے۔۔
نیچے سے آتی کنزہ نے حاشر کو بول اب اپنے بھائی کا صدقہ اتار رہی تھی
ویسے آپی بھائی تو میں بھی آپکا ہوں اور آج کافی وجہہ لگ رہا ہوں تو آپ کو نہیں لگتا میرا صدقہ بھی اتارنا چاہیے آپ کو۔۔
اسکے شوخی سے کہنے پر کنزہ نے ہنستے ہوئے اسکا بھی صدقہ اتارا تھا۔۔
بی بی کی دولہن بیگم اور انکے گھر والے آگئے ہیں۔۔ملازمہ بھاگتی انہیں اطلاع دینے آئی تھی۔۔
چلو بچوں جلدی سے آجاؤ نیچے۔۔
جاتے جاتے وہ حاشر کو تاکید کرتی نیچے آئی تھیں
جہاں اب انہیں اپنی ہونے والی بہو کا اسکے شایانِ شان استقبال کرنا تھا۔۔۔۔
گاڑی میں بیٹھی وہ اس گھر کو دیکھ رہی تھی جہاں کل اسے آنا تھا اور پھر طلاق لے کر واپس اپنے گھر جانا تھا وہ خود کو ہر طرح سے تیار کر کے بیٹھی تھی
نور نے ہاتھ بڑھا کر اسے باہر نکالا تھا
مسٹرڈ کلر کی گھیر دار فراک پہنے ہم رنگ نیٹ کا دوپٹہ گھونگھٹ کی صورت لئے پھولوں کے زیورات سے سجی وہ آج ہر دیکھنے والی آنکھ کو خیراں کررہی تھی کھلتی سے رنگت پر آج نرالی سی چمک تھی
کنزہ نے محبت سے اسکا ہاتھ تھام کر اسے ابراہیم کے پہلو میں کھڑا کیا تھا
کیسے نرالے دولہا دولہن تھے جو ایک دوسرے سے سخت چڑ محسوس کئے کھڑے تھے۔۔
فلش لائٹس ان پر پڑ رہی تھیں
خوشی سب کے چہروں سے عیاں تھی
انہیں کے جا کر اسٹیج پر ساتھ بیٹھایا گیا تھا
اس کے بیٹھتے ہی ابراہیم اس کے پہلو میں بیٹھا لمحے میں ان کا ہاتھ ٹچ ہوا تھا
تبھی اس نے اپنا ہاتھ اتنی زور سے آگے کیا کہ اسکی کہنی ابراہیم کی پسلی میں لگی تھی
کیا پاگل ہو انسان بن کر بیٹھو۔۔۔وہ آواز نیچی کئے غرایا تھا
تم انسانوں کی طرح بیٹھنا سیکھو پہلے۔۔
وہ گھونگھٹ کے اندر سے بڑبڑائی تھی
تمیز نہیں ہے بات کرنے کی بدتمیز۔۔۔
ہاں خود نے تو جیسے پی ایچ ڈی کی کوئی ہونہہ۔۔۔
اس سے پہلے وہ کوئی جواب دیتا کنزہ ان کے پاس آکر بیٹھی تھی
کیا باتیں ہورہی ہیں بھئی صبر کرو میرے بھائی کل تمہارے پاس آجانا ہماری بھابھی نے۔۔۔
کنزہ شرارت سے بولی تھی اور اس کی بات پر ان دونوں نے پہلو بدلہ تھا۔۔
چلو بھئی رسم شروع کرو۔۔۔۔
سب سے پہلے بولتے کے ساتھ دادو ان کے پاس بیٹھی تھیں اور رسم ادا کی تھی اسکے بعد ایک ایک کر کے سب نے رسم ادا کی اور اسے ڈھیروں پیار کیا ناچاہتے ہوئے بھی اسکی آنکھیں نم ہوئی تھیں دادو نے اسے سینے سے لگایا تھا
ایسے نہیں روتے گڑیا۔۔۔انہوں نے اسے خود میں بھینچا تھا
اسے انکے سینے سے لگے سکون سا ملا تھا
سب کی آنکھیں نم ہوئی تھیں
ہونہہ ویسے تو بڑی زبان چلتی اب جیسے معصوم بن رہی ڈھونگی عورت۔۔
اسے یوں اپنی دادو سے لپٹا دیکھ وہ جل بھن کر کباب ہوا تھا
جبکہ اسکی بڑبراہٹ سنتے ہی حاشر نے پیچھے سے اسے نوچا تو وہ بلبلا کر رہ گیا۔۔
منحوس انسان۔۔۔
فنکشن کے اختتام تک وہ بے تحاشہ تھک گئی تھی گیارہ بجے کے قریب حاشر ان لوگوں کو گھر چھوڑ کر گیا تھا ہرے گرارے میں موجود نور کو دیکھ اس نے بمشکل نظریں ہٹائی تھیں۔۔
اور اب بھی فنکشن میں لی اسکی تصویر دیکھتے وہ مبہوت سا ہوا تھا
جبکہ دوسری طرف اسکی فیلنگ سے انجان وہ آنسہ کے پاس بیٹھی تھی
کچھ بات ہی کرلے میں بور ہورہی۔۔وہ سخت بیزار ہورہی تھی
سوجا نور قسم سے سر درد سے پھٹ رہا ہے میرا۔۔۔
دفع ہوجا مر تو۔۔وہ منہ بنا کر کہتی کروٹ بدل گئی۔۔
جبکہ دوسری طرف اس نے اپنے آنسو پونچھے تھے۔۔۔۔
اگلا دن اس کی زندگی میں عجیب سی ویرانی لایا تھا
بارات ان کے چھوٹے سے گھر میں آئی تھی اور زلیخا کے کہنے پر یہ سب ہوا تھا وہ دولہن بنی بے حس و حرکت بیٹھی تھی تبھی زلیخا کمرے میں آئی تھیں
جا نور مہمانوں کو دیکھ۔۔۔
جی اماں۔۔فراک سنبھالتی وہ کمرے سے باہر نکل گئی۔۔
اتنی شریف ہے تو نہیں جتنی تو بن رہی لیکن خیر آج میں کوئی بدمزگی نہیں چاہتی مگر۔۔
وہ لمحے کو رکی تھیں…
میں نہیں چاہتی کہ دوبارہ کبھی اس گھر میں قدم رکھے۔۔۔ تیرے جو لچھن ہیں وہ میری بیٹی کے کردار پر بھی داغ لگا دینگے۔۔۔
اس نے حیرت سے اس عورت کو دیکھا تھا۔۔
ایسے مت دیکھ اور رہی بات اس مکان اور دوکان کی تو بے فکر رہ وہ تیرا ہی رہے گا بس اپنا منحوس وجود لے کر واپس مت آنا۔۔۔
اپنی بات کہہ کر وہ رکی تھی
جبکہ اس کے پاس تو شاید الفاظ ختم ہوگئی تھے یا آواز گنگ۔۔
خاموشی کے ساتھ وہ باہر آئی تھی رخصتی کے وقت گھونگھٹ لئے اسکی آنکھ سے ایک آنسو بھی نہیں گرا تھا
جس کے لئے قربانی دی وہ خود اس کے کردار کو داغدار کرگئی اپنا فیصلہ اس نے اللّٰہ کے سپرد کیا تھا۔۔۔
حیات مینشن میں اسکا استقبال بیت شاندار انداز میں ہوا تھا مگر وہ تو جیسے گونگی بہری ہوگئی تھی
ابراہیم نے کسی بھی طرح کی رسم کرنے سے صاف انکار کردیا تھا
لیکن پھر بھی دادو اور کنزہ نے ضد کر کے رسمیں ادا کی تھیں۔۔
ان سب سے بیزار ہوتا وہ لان میں آیا تھا
اپنا بولا جھوٹ بہت برے طریقے سے اس کے گلے پڑا تھا
سیگریٹ سلگھاتے وہ سخت مضطرب تھا اندر وہ لڑکی اس کی بیوی کے روپ میں موجود تھی جو اسے سخت ناپسند تھی
موبائل نکال کر اس نے ردابہ کی تصویر کھولی تھی اور اسے خود پر غصہ آیا وہ جذبات میں ایک اور غلط قدم اٹھا چکا تھا
اس نے واپس موبائل پاکٹ میں رکھا ہی تھا کہ وہ رنگ ہوا تھا
موبائل پر ردابہ کا نمبر دیکھ اسے ٹھیک ٹھاک جھٹکا لگا تھا
لمحے سے پہلے اس نے کال ریسیو کی تھی
ابراہیم۔۔۔اسے لگا وہ روئی ہے۔۔
کیا ہوا ہے ردابہ آر یو اوکے؟؟ وہ پریشان ہوا تھا
میں ٹھیک ہوں ائم سوری میں ہرٹ کرتی ہوں مگر میں نہیں رہ سکتی تمہارے بغیر۔۔
تو آجاؤ نا واپس۔۔
اسکی آواز سن وہ موم بن کر پگھلا تھا..
ابراہیم تم جانتے ہو نا میں نے اس سب نے لئے کتنی محنت کی ہے اب مجھے چانس ملا ہے تو میں نہیں چھوڑ سکتی پلیز۔۔
بٹ آئی پرامس میں وہاں سے آتے ہی گھر میں بات کرونگی پلیز مینج کرلو۔۔
ٹھیک تم ریلکس کرو میں انتظار کرونگا۔۔
اسے تسلی دیتے اس نے فون رکھا تھا
مگر اب اس کو اگلا لائحہ عمل تیار کرنا تھا اسے ردابہ کے آنے تک اس زبردستی کے ان چاہے رشتے کو گھسیٹنا تھا ۔۔۔
کنزہ اسے کمرے میں بیٹھا کر گئی تو سجے کمرے کو دیکھ اسکو وحشت ہوئی تھی لمحے کو دل کیا سب نوچ ڈالے اس انسان کا گریبان پکڑ کر پوچھے کیوں اس نے اپنی خاطر اس کو ہوں رسوا کروایا
وہ ایک جھٹکے سے اٹھی تھی اپنے اوپر سے ایک ایک سامان نوچ نوچ کر اتارتی وہ وحشت زدہ سی ہوگئی تھی۔۔
کوئی اسے اس حال میں دیکھتا تو اسکا دل پھٹ جاتا۔۔۔
ناجانے وہ کتنی دیر یونہی بیٹھی رہی۔۔ہوش آیا تو اپنے آپ کو دیکھ وہ بے یقین ہوئی تھی۔۔
اٹھ کر خود کو سنبھالتی وہ منہ دھو کر صوفے پر آکر بیٹھی تھی
نہیں آنسہ نہیں تو ایسی نہیں ہے تو یوں ہمت نہیں ہار سکتی۔۔
خود کو ہمت دیتی وہ صوفے پر کشن ٹھیک کرتی آنکھیں موند گئی۔۔۔۔
تقریباً آدھے گھنٹے بعد اس کمرے کا دروازہ کھلا تھا اور وہ اندر داخل ہوا تھا
اندر آتے ہی اسکی نظر صوفے پر لیٹی آنسہ پر پڑی تو حلق میں کڑواہٹ گھل گئی۔۔
اچھا ہے جو اپنی اوقات خود ہی جانتی ہے مجھے اس پر اپنی الفاظ ضائع نہیں پڑے۔
بہت جلد چھٹکارہ حاصل کرلوں گا بس ایک بار ردابہ آجائے۔۔
شیروانی سائیڈ پر رکھ وہ فریش ہونے گیا تھا واپس آکر لائٹس آف کرتے اسکے دماغ میں بس ردابہ تھی۔۔۔۔
صبح اسکی آنکھ کافی دیر سے کھلی تھی رونے کی وجہ سے آنکھیں سر دونوں بھاری ہورہا تھا
جسم درد سے دکھ رہا تھا وہ اپنا سر تھام کر رہ گئی
کیا مصیبت ہے یار۔۔
بڑبڑاتی وہ دوپٹہ سنبھالتی اٹھی تھی تبھی واشروم کا دروازہ کھولتا وہ اندر کمرے میں آیا تھا۔۔۔
نکھرا نکھرا سا نم بال ماتھے پر پڑے ہوئے تھے جنہیں ہاتھوں کی مدد سے پیچھے کرتا وہ ڈریسنگ مرر کے سامنے کھڑا ہوا تھا وہ اس کے سائیڈ سے نکلتی واشروم کی طرف بڑھی تھی تبھی اس کی آواز نے اس کے قدم روکے تھے۔
تمہیں صوفے پر دیکھ اچھا لگا مطلب تم اپنی حیثیت اور اوقات دونوں جانتی ہو آگے بھی اسی طرح کی سمجھداری کی توقع رکھو گا مجھے مایوس مت کرنا۔۔۔۔اس کے لہجے میں جتنی چبھن تھی یہ صرف وہ ہی جانتی تھی۔
مضبوط قدم جماتی وہ ایک دم اسکی سامنے آئی تو اس نے اپنی آئی برو اچکائی تھی۔۔
حیثیت اور اوقات کی بات وہ لوگ کرتے ہیں جن کی خود کی کوئی عزت ہوتی ہے اینڈ یونو تمہاری اوقات کیا ہے؟؟؟
تم جیسوں سے بات کرنا تو دور میں انہیں دیکھنا بھی پسند نہیں کرتی کجا کہ تمہارے اس بیڈ کو استعمال کرنا تو یہ غلط فہمی تو دور کرلو کہ مجھے تم سے کوئی مطلب۔
آنسہ تو کبھی کسی کی اترن نہیں پہنتی چاہے وہ کپڑے ہی کیوں نا ہوں اور تم تو پھر۔۔
سینے پر ہاتھ باندھے اس نے دانستہ جملہ ادھورا چھوڑا تھا
خیر صبح صبح مجھے میرا موڈ تمہاری شکل دیکھ کر خراب نہیں کرنا تو کوشش کرنا مجھ سے کم کم ہی مخاطب ہو۔۔
مضبوط لہجے میں کہتی وہ واشروم کی طرف بڑھ گئی
جبکہ وہ کھولتا اپنا غصہ ضبط کرنے کے چکر میں لال ہوگیا تھا…
سمجھتی کیا ہے خود کو جنگلی جاہل۔۔۔وہ بڑبڑایا تھا تبھی دروازے پر ہوئی دستک اسے کنٹرول رہنے پر مجبور کرگئی۔۔
سامنے کنزہ کو دیکھ وہ مسکرایا تھا
اٹھ گئے۔۔
جی بلکل اٹھ گیا دادو اٹھ گئیں؟؟
اسے راستہ دیتا وہ اس سے پوچھنے لگا
ہاں کب کی۔۔ اس نے جواب دیتے ساتھ ایک نظر واشروم سے نکلتی آنسہ کو دیکھا تو مسکرائی۔۔
مارننگ بھابھی جان۔۔۔ اسکی شوخی سے بھرپور پکار پر وہ مبہم سا مسکرائی۔۔
اسلام و علیکم۔۔وہ آگے بڑھی تو کنزہ نے اسے ساتھ لگایا۔۔
ابراہیم نے حیرت سے اسے دیکھا جو ابھی اس کے ساتھ بکواس کر کے گئی تھی اور اب اسکی بہن سے میٹھی بن کر باتیں کر رہی تھی۔۔
دوغلی عورت۔۔منہ ہی منہ بڑبڑاتے اس نے خود پر پرفیوم چھڑکا تھا
میں نیچے دادو کے پاس جارہا ہوں۔۔
تم بتاؤ کیا پہننا ہے؟ ابراہیم کے جاتے ہی کنزہ اس سے مخاطب ہوئی تھی
کچھ بھی۔۔ وہ مسکرا کر بولی
ویسے میں نے تو سنا تھا ہماری بھابھی شیرنی ہے مگر یہاں تو حالات ہی کچھ اور ہیں۔۔ کنزہ کے یوں چھڑنے پر اسے لگا کسی نے اسکے زخموں پر مرچیں بھر دی ہوں۔۔۔
بس جب انسان کو یہ یقین ہو کہ وہ اکیلا ہے اور اسے اس دنیا میں رہنے کے لئے خود ہی لڑنا ہے تو اسے شیر بننا پڑتا ہے ورنہ یہ دنیا اسے چیر پھاڑ کر رکھ دیتی ہے۔۔
اسکے لہجے کی سختی کو محسوس کئے کنزہ کو اپنے سوال پر پچھتاوا ہوا تھا
اچھا خیر دادو نے تمہاری امی کو ناشتے کا منع کردیا ہے یونو شام میں ولیمہ ہے تو اب تم جلدی سے ریڈی ہوجاو پھر سارا سامان بھی دیکھنا ہے۔
اور ہاں ابھی تو آجاؤ نا ناشتے کے لئے بلانے آئی تھی اور کیا کیا باتیں لے کر بیٹھ گئی۔۔
اسکا گال تھپتھپا کر وہ بولی تو اسے اپنے لہجے کی سختی کا اندازہ ہوا تھا۔۔
جی میں بس پانچ میں ریڈی ہوتی پھر ساتھ چلتے۔۔۔ مسکرا کر کہتی وہ جلدی سے تیار ہوئی تھی
نیچے لاونج میں قدم رکھتے ہی اس کی نظر سامنے صوفے پر حیات صاحب کے ساتھ بیٹھے ابراہیم پر پڑی تھی
بلیک ٹی شرٹ جینس میں کوئی کافی فریش لگ رہا تھا
ہونہہ دوسرا کا دل دکھا کر ناجانے لوگ کیسے اتنے مطمئن رہ سکتے ہیں۔۔
ارے ہماری بچی آگئی۔۔۔دادو کی نظر جیسے ہی اس پر پڑی وہ فوراً اٹھی تو وہ سب کو سلام کرتی ان کے پاس آئی تو انہوں نے اسے ڈھیروں پیار کیا تھا۔۔۔
بھئی اماں ہمیں بھی زرا دعائیں دینے دیں اپنی بہو کو۔۔
حیات صاحب کے انداز پر وہ کھول کر مسکرائی تھی۔۔
اور اٹھ کر ان کے پاس آکر بیٹھی تو انہوں نے شفقت سے اسکے سر پر ہاتھ رکھا تھا
چندا یہ اب تمہارا گھر ہے جو چاہے کرو کوئی روک ٹوک نہیں اور اگر یہ میرا نالائق کچھ کہے تو فوراً شکایت کردینا۔۔
ان کے شرارت سے کہنے پر وہ ہنس دی اور ابراہیم کو اس وقت وہ نیلے تھوتھے سے بھی زیادہ زیر لگی جو اس کے گھر والوں کو اسکے خلاف کرنے آگئی تھی۔۔
ولیمے کے لئے وہ لوگ ھال پہنچ چکے تھے زلیخا نور وغیرہ سب وہاں پہنچ چکے تھے
وہ اسٹیج پر مسکراتی سب سے مل رہی تھی سامنے سے آتے علی کو دیکھ وہ ایک دم اٹھی تھی۔۔
علی۔۔۔۔
آرام سے آرام سے دولہن بیگم۔۔ وہ مسکراتا اس کے پاس آیا تھا
اللّٰہ علی میں بتا نہیں سکتی کتنا مس کیا تجھے میں نے قسم سے۔۔فرط جذبات سے اسکا تھام تھامے وہ روہانسی ہوئی تھی۔۔۔
اوئے پاگل کوئی یوں دیکھے گا تو کیا سوچے گا۔۔رونا نہیں
کیا سوچے گا میں نے آج تک کسی کی پرواہ کی ہے؟؟
ہاں یہ بھی ہے ویسے اس ابراہیم کا رویہ تھیک تھا؟؟
ٹھیک اسے تو ٹھیک کرکے رکھ دونگی میں۔۔۔
وہ چبا کر بولی جیسے دانتوں میں ابراہیم ہو
اس نے انداز پر علی کا قہقہ گونجا تھا اور اپنی بات پر وہ خود بھی ہنسی تھی
جبکہ یہ منظر کسی نے بڑے جلے دل سے دیکھا تھا۔۔۔