ڈاکٹر جلدی چلیں میرے ساتھ.میری وائف کی حالت خراب ھو رھی ھے.
آزر جو شفا سے باتیں کر رھا تھا ایک دم اس کی حالت خراب ھونے پر ڈاکٹر کے پاس بھاگتا ھوا آیا.
آپ یھی رکیں .
آزر ڈاکٹرز کے ساتھ شفا کے پاس جا رھا تھا تو انھوں نے اسے وھی روم سے باھر روک دیا.
وه سامنے رکھیں چیئرز پر سر تھام کر بیٹھ گیا اور دل ھی دل میں شفا کی زندگی کی دعا مانگنے لگ گیا.
آزر بھائ کیسی ھے شفا.
آزر نے سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے دعا پریشان حال کھڑی تھی اور اسکے پیچھے دانیال.
تم اس کے لیۓ دعا کرو کے وه بچ جاۓ ورنه میں بھی مر جاؤ گا.
آزر دعا سے کھ کر نماز پڑھنے
کے لیۓ چلا گیا.
**************************** کیسی ھے اب شفا.
ڈاکٹرز جیسے ھی روم سے باھر نکلے آزر نے ان سے فورا پوچھا.
وه اب خطرے سے باھر ھیں.تھوڑی دیر تک ان کو حوش آجاۓ گا.
ڈاکٹر کی بات سن کر آزر اسی وقت سجدے میں گر پڑا.
دعا اور دانیال نے بھی اپنے رب کا شکر ادا کیا.
****************************
وه اسکے سامنے سے ایک منٹ کے لیۓ بھی نھی ھلا تھا.
دانیال نے کئ بار آکر کھا تھا کے وه گھر جا کر فریش ھو کر آجاۓ.لیکن وه ھر بار انکار کردیتا.
پتا نھی کیسا ڈر تھا کے کھی وه اسے دوباره نا کھو دے.
ابھی بھی وه شفا کے ھاتھ پر اپنا سر رکھ کے بیٹھا ھوا تھا جب اس کی آنکھ لگ گئ.
بھت مشکلوں سے اسنے آنکھیں کھول کر ارد گرد دیکھا.
سر بھت بھاری ھو رھا تھا.
اس کو سمجھ نھی آ رھا تھا کے وه کھا ھے.
اسے اپنے ھاتھ پر دباؤ محسوس ھوا تو اسنے گردن موڑ کر دیکھا تو اسے بھت حیرت ھوئ.اسے پھچاننے میں ایک منٹ بھی نا لگا کے یه آزر ھے.
اسکے دماغ میں آزر کی کھی گئ ساری باتیں گردش کرنے لگ گئ.
نا چاھتے ھوۓ بھی اسے رونا آنے لگ گیا.
کسی کی سسکیوں کی آواز پر وه بیدار ھوا.
اسنے جب سر اٹھا کر دیکھا تو شفا اپنے منه پر ھاتھ رکھے اپنی سسکیاں دبانے کی ناکام کوشش کر رھی تھی.
آزر کو بھت دکھ ھوا.شفا کو اس طرح روتے دیکھ.
ش.. شف ..شفا.
آزر نے بھت مشکل سے اسے پکاره.
آزر کی آواز سن کر شفا نے اپنا منه موڑ لیا.
آزر نے ھاتھ بڑھا کر اسکا منه اپنی طرف موڑا.
شفا نے اپنی آنکھیں سختی سے بھینچ لی.
ناراض ھو.
آزر نے معصومیت سے پوچھا.
شفا نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا.شفا کی آنکھوں میں آزر
صاف ناراضگی دیکھ سکتا تھا.
مجھے آپ سے بات نھی کرنی آپ جائیں یھاں سے.
شفا نے سامنے دیکھتے ھوۓ کھا.
پلیز شفا میری ایک بار بات تو سن لو.
اب بھی کچھ کھنے سنے کو بچا ھے.
شفا نے آزر کو دیکھتے ھوۓ کھا.
لیکن شفا.
پلیز بخش دیں مجھے اور چلیں جائیں یھاں سے.
آزر نے کچھ کھنا چاھا جب شفا نے اسکی بات کاٹ کر غصے سے کھا.
آزر نے ایک نظر اسکو دیکھا اور بنا کچھ بولے کمرے سے چلا گیا.
***********************
کیا ھوا اتنے اداس کیوں بیٹھے ھو.
دانیال نے آزر کے ساتھ بیٹھتے ھوۓ کھا.
وه میری کوئ بات سنا ھی نھی چاه رھی.بھت ناراض ھے وه مجھ سے.
آزر نے مایوسی سے کھا.
تھوڑا وقت دو اسے.مجھے یقین ھے وه تمھاری بات سنے گی بھی اور سمجھے گی بھی.
دانیال نے تسلی دی.
او ھاں تم نے پتا کروایا وه میسج کس نے کیاتھا.
یاد آنے پر دانیال نے فورا پوچھا.
ھاں پتا چل گیا.
آزر نے جواب دیا.
کس نے کیا تھا .
میری ایک کزن ھے وه مجھے پسند کرتی تھی.جب اسے پتا چلا کے ھم رشتے کے لیۓ جا رھے ھیں تو اس نے کافی ھنگامه بھی کیا تھا.جب میرا ایکسیڈنٹ ھوا تو پتا نھی کیسے اسنے میرا موبائل لے لیا اور شفا کے میسج دیکھ کر اسے رپلائ کردیا.
آزر نے بتایا.
پتا نھی کیسے لوگ ھوتے ھیں جو اپنی خوشی کے لیۓ دوسروں کی زندگی برباد کر دیتے ھیں.
دانیال نے افسوس سے کھا.
***********************
آج شفا کو ڈسچارج مل گیا تھا اور وه آزر کے گھر جانے جے بجاۓ ضد کر کے دعا کے گھر آگئ تھی.
شفا پلیز صرف ایک بار آزر سے بات کرلو.دیکھو وه روز آتا ھے اور مایوس ھو کر چلا جاتا ھے.
دعا نے روز کی طرح آج بھی شفا کو سمجھانے کی ناکام کوشش کی.
مجھے نھی کرنی اس شخص سے کوئ بات.وه شخص جسے مجھ پر بھروسه نھی ھے .وه شخص جس نے مجھے اپنی زندگی سے نکال دیا اور قصوروار بھی مجھے ٹھرایا میں اس شخص سے کوئ بات نھی کرنا چاھتی.
شفا نے غصے سے کھا.
شفا آزر بھی بے قصور تھا.
حیرت ھے دعا تم سب جانتے ھوۓ بھی اسے بے قصور کھ رھی ھو.
شفا نے صدمے سے کھا.
یھی تو بات ھے شفا.میں سب کچھ جانتی ھوں اسی لیۓ اسے بے قصور کھ رھی ھوں اور تم کچھ نھی جانتی اسی لیۓ اسے قصوروار سمجھ رھی ھو.
دعا نے کھا.
مجھے بھی تو زرا پتا چلے کے ایسی کون سی بات ھے جو مجھے نھی پتا.
ھم سب چاه رھے تھے کے سارا سچ تمھیں آزر بتاۓ لیکن تم تو اسکی بات سنے کے لیۓ ھی تیار نھی ھو تو چلو میں ھی تمھیں ساری سچائ بتا دوں.
پهر دعا نے ساری سچائ شفا کو بتا دی..
جب اس نے شفا کو دیکھا تو اس کا چھرا آنسؤ ں سے تر تھا.
کیو دعا کیو اسکی لڑکی نے ھمارے ساتھ ایسا کیا.
میں نے آزر کو کتنا غلط سمجھا.
شفا روتے ھوۓ بول رھی تھی.
بس شفا چپ ھو جاؤ.اب سب ٹھیک ھو جاۓ گا.
دعا نے اسے سمجھایا.
دروازه بجنے کی آواز پر دعا نےکمرے کا دروازه کھولا تو سامنے آزر کھڑا ھوا تھا.
دعا نے ایک نظر شفا کو دیکھا پهر وه کمرے سے باھر چلی گئ.
آزر نے کمرے میں آکر دروازه بند کیا.
اور شفا سے بات کرنے کے لیۓ جیسے ھی پیچھے مڑا اسکے کچھ کھنے سے پهلے ھی شفا بھاگتی ھوئ آکر اسکے گلے لگ گئ.
ایک اطمینان تھا جو آزر کو اس وقت محسوس ھوا.
میں نے آپ کو بھت غلط سمجھا پلیز مجھے معاف کر دیں.
شفا نے روتے ھوۓ کھا.
معافی تو مجھے مانگنی چاهۓ تم سے .کتنا کچھ فضول بولا تھا میں نے.
آزر نے اسے سامنے کرتے ھوۓ کھا.
دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رھے تھے .
دونوں کی آنکھوں میں ایک دوسرے کے لیۓ پیار تھا,بھروسه تھا اور سب سے بڑھ کر اعتبار تھا.
ابھی وه ایک دوسرے کو دیکھ رھے تھے جب آزر کا فون بجنے لگ گیا.
ھاں ٹھیک ھے.باھر نھی نکلنا چاھیۓ .خوب کھلائ پلائ کرو اسکی.
ٹھیک ھے میں بعد میں بات کرتا ھوں.
کس کا فون تھا.
آزر نے جب فون بند کیا تو شفا نے پوچھا.
اے ایس پی کی کال تھی.
جس گاڑی نے تمھیں ٹکڑ ماری تھی اسکا پتا کروایا تھا میں نے تو وه دانش کی کار نکلی.جیل میں بند کروادیا ھے میں نے اسے.
آزر نے بتایا.
میں اسے معاف کرتی ھوں.آپ چھوڑ دیں اسے.
معاف کرنے والوں سے الله خوش ھوتا ھے.
شفا نے اعلی ظرفی کا مظاھره کیا.
مجھے تو پتا ھی نھی تھا کے میری شفا اتنی سمجھدار ھو ھئ ھے.
آزر نے اسکی ناک دبا کر کھا.
اور وه دونوں ھسنے لگ گۓ.
دعا جو ابھی کمرے میں آئ تھی ان دونوں کو مسکراتے دیکھ ھمیشه انکی مسکراھٹ قائم رھنے کی دعا کرنے لگی.
اطمینان تھا ,سکون تھا ان سب کے دلوں میں ایک دوسرے کو پا کر.
***********************
ختم شد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...