(Last Updated On: )
ایلفا آف دی پلو (اے جی گارڈنر)
مترجم: انور سدید
چند روز ہوئے میرے ڈرائینگ روم میں کچھ ایسے لوگ جمع تھے جن کی زندگیاں کامیابیوں کا مرقّع ہیں۔ ان لوگوں میں ایک ممتاز وکیل تھا۔ ایک مشہور سیا ست داں، ایک نجومی اور ایک دانشور صحافی۔ کھانا ختم ہو چکا تھا اور سب لوگ آتش دان کے گرد بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے۔ گفتگو مختلف موضوعات کے گرد گھومتی گھامتی بالآخر اس مسئلہ پر آ گئی کہ اگر خالقِ کائنات انسان کو موت کے بعد دوبارہ اس دنیا میں آنے کا حق عطا کر دے تو کیا آپ زندگی دوبارہ بسر کرنے پر آمادہ ہوں گے؟
اس سوال کے اٹھتے ہی سب لوگوں نے متفقہ طور پر فلک شگاف آواز میں کہا ’’نہیں، ہر گز نہیں!‘‘ صرف ایک شخص کو اس رائے سے اتفاق نہیں تھا۔ لیکن یہ استثنائی شخصیت نجومی کی نہیں تھی۔ نجومی کا دل تو دوسرے سب لوگوں کی طرح اس بازیچہ حیات کی ایک سیاحت سے بھر چکا تھا اور وہ اس دنیا میں دوبارہ آنے کا متمنی نہیں تھا۔
بارِ دیگر دنیا میں آنے کا خیال نیا نہیں ہے، یہ اتنا ہی قدیم ہے جتنا خود حضرتِ انسان۔ اور اس سوال کا جواب ہر دور میں ہمیشہ وہی دیا گیا ہے جو ہماری شامِ دوستاں میں دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب جوانی کی دوپہر ڈھلنے لگتی ہے اور زندگی کا سونا صرف ہو جاتا ہے تو اس قسم کا سوال اچانک ذہن میں اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ جوانی کے تصورات تو سلسلہ در سلسلہ اور لامتناہی ہوتے ہیں۔ جوانی ہمارے سامنے نئے نئے خیالی مناظر، انوکھے اور ان دیکھے خواب اور ان کی خوش رنگ اور دلنواز تعبیریں پیش کرتی رہتی ہے۔ اس ہر لمحہ بدلتے عالم میں پرانی چیزوں کی طرف مڑ کر دیکھنے کی نہ تو فرصت ہوتی ہے اور نہ خواہش۔ لیکن فرازِ کوہ پر پہنچ کر جب ہم دیکھتے ہیں کہ مناظر سے بھر پور وادی کو تو ہم نشیب میں چھوڑ آئے ہیں اور اب نظر کی دھند میں یہ منظر صاف دکھائی نہیں دیتا اور گرجا گھر کے اونچے کلس پر بھی شام کے سائے پھیلتے نظر آتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آفتابِ حیات بھی اب ڈھلنے والا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب دوبارہ زندہ ہونے کی خواہش سر ابھارتی ہے اور حیاتِ مکرر کا سوال دل سے ابھر کر ہونٹوں سے چپک جاتا ہے۔ اس سوال کا مطلب یہ نہیں کہ زندگی کا سفر برا کٹا بلکہ یہ کہ سفر طویل تھا اور راستہ نا ہموار اور اب جیسے ہی ہم آبلہ پا ہو کر سفر حیات سے تھک چکے ہیں۔ اس عالم میں آرام کا خیال کتنا شہد آگیں لگتا ہے اور پھر کس طرح فطرت لپک کر ہماری مدد کو آتی ہے ہمیں پچکارتی ہے، سہلاتی ہے اور آرام بہم پہنچاتی ہے۔
فطرت بھی کیسی عجیب ہے؟ پہلے انسان کو ایک ننھے بالک کی طرح گود میں لے کر اسے زندگی کا رنگا رنگ ناٹک دکھاتی ہے اور جب وہ چلتے چلتے تھک کر بوڑھا ہو جاتا ہے تو تقاضا کرتی ہے کہ وہ احساسِ واماندگی اپنی تحویل میں رکھے اور اپنی آرزوؤں کو میراث کی صورت میں ایک نئے ڈھانچے میں منتقل کر دے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ڈھانچہ بھی خود فطرت ہی فراہم کرتی ہے۔ جلال و جمال، وقت و جبروت اور تاب و توانائی کا حصول اس مشتِ استخواں کی معمولی خواہشات ہیں۔ ہڈیوں اور گوشت پوست کا یہ حقیر سا ڈھانچہ دنیا کی تمام تر خوشی اور شان و شوکت سمیٹ لینا چاہتا ہے۔ وہ حسن و جمال اور وجاہت و عظمت کی چکا چوند پر ہی نہیں ان مدھم روشنیوں پر بھی جو رات کے وقت کھلے آسمان پر ایک دوسرے کے ہاتھ سر جوڑے باہم سرگوشیاں کرتی ہیں قابض ہونے کا آرزو مند ہے۔ اور اس سب کے حصول کے بعد جب یہ استخوانِ شکستہ دھول اور مٹی سے گرد آلودہ ہو جاتا ہے تو اس کی زبان سے بے اختیار نکل جاتا ہے ’بس یہی کافی ہے۔‘ ہاں یہی کافی تھا۔ ہم مشیت کا فیصلہ حرفِ اعتراض و شکایت زبان پر لائے بغیر نہ صرف قبول کرتے ہیں بلکہ اس کا استرداد ممکن ہو تب بھی ہم دوبارہ زندہ ہونے کی خواہش نہیں کرتے۔ اور اس دریا میں دوبارہ نہیں اترتے جو ہر لمحہ تبدیل ہو رہا ہے۔ اس حتمی بات کے بعد اب یہ سوال اٹھانا قرینِ دانش مندی نہیں کہ ’کیا زندگی رہنے کے قابل ہے؟‘ اس سوال پر ڈرائینگ روم میں موجود میرے سب دوست ضرور تیوری چڑھائیں گے لیکن جواب یقیناً اثبات میں دیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ ان سب لوگوں نے زندگی کو ایک عظیم اور پر شکوہ مہم کے طور پر قبول کر رکھا ہے۔ انھوں نے اس کے ایک ایک لمحہ سے اکتسابِ مسرت کیا اور زندگی سیر حاصل انداز میں بسر کی۔ اور یہ نا ممکن ہے کہ وہ زندگی کے ایک لمحے سے یا اس کے ہمہ رنگ تجربہ کی ایک قاش سے بھی دست بردار ہونے کے لیے تیار ہیں۔ زندہ اور صحت مند لوگوں کا یہی اسلوبِ حیات ہے۔ بلا شبہ مایوسی کے بعض لمحات میں ہم کبھی کبھی اپنے جنم دن کو بھی کوستے ہیں لیکن یہ ایک عارضی اور اضطراری عمل ہے۔ اس قسم کی جھلّاہٹ زیادہ دیر تک باقی نہیں رہتی اور اس قسم کی بد دعا لبوں کے حصار میں ہی دم توڑ دیتی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ سوِفٹ (Swift) نے اپنے جنم دن کو ’یومِ ماتم ‘ قرار دیا تھا لیکن یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ جو شخص زندگی کو نفرت انگیز نظروں سے دیکھتا ہے۔ زندگی بھی اس بخیل پر اپنا دستِ کرم کشادہ نہیں کرتی۔ وجہ یہ ہے کہ ملائمت تو زندگی سے پیار کرنے سے پیدا ہوتی ہے اور ہمدردی کا پیمانہ بھی زندگی کی حقیقی مسرتوں کا پیمانہ ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ قنوطیت کے فلسفے کے داعی بھی از راہِ احتیاط مایوسی کو اپنے قریب نہیں پھٹکنے دیتے۔ میرے ایک دوست کو حال ہی میں قنوطیت کے ایک داعی کے ساتھ وقت گزارنے کا اتفاق ہوا۔ اس ادیب نے صبح کے وقت اعتراف کیا کہ اس کی زندگی میں آج تک کوئی ایسا دن نہیں آیا جب اس نے خواہشِ مرگ نہ کی ہو یہ نہ کہا ہو کہ ’کاش میں پیدا نہ ہوتا‘۔ اتفاق دیکھئے کہ اسی شام جب یہ قنوطی ادیب کشتی میں دریا کی سیر کر رہا تھا تو کشتی بھنور میں پھنس کر ڈولنے لگی۔ ادیبِ محترم کو موت سے معانقہ کرنے کا سنہری موقع ہاتھ آ گیا لیکن اس لمحے شدید بے بسی اس پر غالب آ گئی اور اس نے ایک جھٹکے کے ساتھ نہ صرف خواہشِ مرگ کو پرے جھٹک دیا بلکہ حسینہ حیات کا دامن بھی، کمالِ وارفتگی سے پکڑ لیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس تجربے کے بعد بھی یہ خیال اب تک اس کے دل میں جا گزیں ہے کہ ’کاش میں پیدا نہ ہوتا‘۔ میرے خیال میں جھوٹے دعووں کی دنیا میں صرف بچے ہی نہیں ہم جیسے بڑے بھی زندگی بسر کر سکتے ہیں۔
میرے لیے یہ بات بے حد مسرت کا باعث ہے کہ میں رہِ حیات سے صرف ایک مرتبہ گزرا ہوں۔ اس راہ سے دوسری دفعہ گزرنے کا خیال کبھی دل میں آ جائے تو میں خوف زدہ ہو جاتا ہوں۔ بلا شبہ چند ایک لوگ یہ بھی کہتے سنے گئے ہیں کہ اگر موجودہ زندگی کا تجربہ اور حصولِ مسرت کا ’شارٹ کٹ‘ دستیاب ہو تو دوبارہ زندہ ہونا اور ایک دوسری زندگی بسر کرنا بھی برا نہیں۔ مطلب یہ کہ اکتسابِ مسرت کے جو مواقع پہلے نا تجربہ کاری سے ضائع ہو چکے ہیں اگر ان کے حصول کی ضمانت دی جا سکے تو وہ دوبارہ اس دنیا میں آنے کے لیے تیار ہیں۔ غور کیجئے کہ اس شرط سے حیاتِ مکرر کی خواہش کو کتنا عامیانہ رنگ دے دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اس زندگی سے جس کا ہر دن اس محراب کی طرح ہے جس سے ان دیکھی دنیا کی کرنیں مسلسل چھن چھن کر آ رہی ہیں اس کا سارا تحیر اور اسرار خارج کر دیا جائے اور اسے ایک ایسا محفوظ کاروبار سمجھ لیا جائے جس میں تین فی صد حصہ ڈال کر آپ بقیہ زندگی فراغت اور طمانیت قلب سے گزار سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس طرح نا آسودگی اور عدم طمانیت کا سایہ تک آپ کے قریب نہ آئے اور مسرتوں کی چمکیلی دھوپ ہر طرف سونا بکھیرتی رہے لیکن اس طرح زندگی کے داخل سے اس کی اصل روح اڑ جائے گی اور یوں لگے گا کہ بساطِ حیات پر وارفتہ خیال انسانوں کے بجائے کٹھ پتلیوں کو جلوہ آرا کر دیا گیا ہے۔ زندگی کا سارا جادو تو اس کے تغیر اور غیر یقینی حالت میں ہے۔ کرکٹ کی مثال لیجئے۔ کیا کبھی کوئی بیٹس مین وکٹ پر اس یقین کے ساتھ گیا ہے کہ وہ حسبِ مرضی جتنی رنز چاہے گا بنا کر آئے گا؟ یہ خواہش نہ صرف غیر فطری ہے بلکہ لغو بھی ہے۔ اور اس پیشگی شرط کے ساتھ آج تک کسی نے کرکٹ نہیں کھیلی۔ وجہ یہ ہے کہ آپ پہلی گیند پر ہی آؤٹ ہو سکتے ہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ سینچری بنانے کے بعد بھی ’ناٹ آ ؤٹ‘ رہیں۔ مجھ سے اس قسم کا کارنامہ اگرچہ تا حال سر زد نہیں ہوا لیکن یقین جانئے کہ میں نے اس قسم کی مہماتی کیفیت کو اپنے اوپر اکثر طاری کیا ہے اور اس کے مزے لوٹے ہیں۔ میں ہر روز زرہ بکتر پہن کر کارزارِ حیات میں اترتا ہوں۔ کبھی چوکے چھکے لگانے لگتا ہوں اور کبھی پہلی ہی گیند میرے منصوبے کی بیلز اڑا دیتی ہے۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ میرے لیے ہر نئی صبح تخلیقِ حیات کے پہلے دن کی طرح ہے اور مجھے پوری زندگی اس خوبصورت کہانی کی طرح نظر آتی ہے جو ابھی بیان ہی نہیں کی گئی ہے۔
دوبارہ زندہ ہونے کے لیے سابقہ تجربہ کو اہمیت دی گئی ہے۔ لیکن غور کیجئے کہ تجربہ ہماری معاونت کہاں تک کر سکتا ہے؟ اصل چیز تو انسان کا کردار ہے۔ اگر سابقہ زندگی میں آپ آنکھیں جھپکنے کے مرض میں مبتلا تھے اور آپ کی ٹھوڑی بھنچی ہوئی تھی اور آپ ان دونوں کے ساتھ دوبارہ زندگی میں آ جاتے ہیں تو آپ کا سابقہ عمر بھر کا تجربہ بھی شاید بے کار اور بے اثر نظر آئے اور ناکامی اور مایوسی ہی آپ کا مقدر ٹھہرے۔ لہٰذا بفرضِ محال اگر زندگی کو دوبارہ حاصل کرنا ہی ہے تو اس کے لیے زندگی کا سابقہ طریق ہی درست نظر آتا ہے۔ نئی زندگی کو پرانی شرائط کی رسّی کے ساتھ نہ باندھئے اور اسے حسبِ سابق اپنی آگہی سے رہنے کے قابل بنائیے۔
ہم ابد کے سیاح ہیں اور اس مختصر سے دورِ حیات میں یہ سیاحت ایک مشکل پسند مہم جو کی طرح طے کرنی چاہئے تاکہ اگر دوبارہ زندگی حاصل ہو تو اس میں تحیر اور رعنائی کا نادر عنصر بھی شامل ہو۔ واضح رہے کہ اس جادوئی عنصر کی شمولیت کے باوجود میں زندگی کو دوبارہ حاصل کرنے کے حق میں نہیں ہوں۔ میرے خیال میں زندگی کو جو چیز عزیزِ جان بناتی ہے وہ پرانے چہروں اور قدیم یادوں کے ساتھ وابستگی ہے۔ نئی زندگی میں یہ چہرے اور یہ یادیں معدوم ہوں گی۔ زندگی کی سابقہ یاترا میں ہم نے جو تعلقات استوار کیے تھے وہ سب ختم ہو چکے ہوں گے اور میرے نزدیک نئے روابط پیدا کرنے اور نئے راستوں پر چلنے کا تصور ہی احمقانہ ہے۔ پس دوبارہ زندگی حاصل کرنے کا فائدہ؟
شاعر ہومز نے ایک دفعہ ایک ایسی نظم لکھی تھی جس میں جنت میں اداس ہو جانے کا ذکر تھا۔ مجھے یہ نظم پڑھ کر بڑی ہنسی آئی، جنت کی میکانیکی زندگی میں اداسی تو ایک لابدی امر ہے۔ میرے نزدیک مشکل کام یہ ہے کہ آپ اس دھرتی پر اداس ہو جائیں اور پھر اس پر نظم لکھیں۔ زندگی کی دوسری یاترا میں آپ پرانی یادوں کو تازہ اور دیکھی ہوئی دنیا کی تجدید کریں گے۔ آپ نئے دوست بنانے کی کوشش کریں گے اور ممکن ہے یہ اچھے دوست ہوں لیکن اچھے دوستوں کی تلاش ایک بے حد مشکل عمل ہے۔ زندگی کی اصل ضرورت تو آزمودہ دوستوں کی بازیافت ہے۔ کیا دوبارہ زندگی مل جانے پر یہ سب کچھ بھی ہمیں مل سکتا ہے؟ اور کیا عدم حصول کی صورت میں نتیجہ ایک مستقل احساسِ محرومی نہیں ہو گا؟
اس وقت مجھے ایک نثر نگار ژیدورے (Guido Rey) کی کتاب میٹر ہارن (Matterhorn) کا ایک پارہ لطیف یاد آ رہا ہے جو میرے احساسات کی پوری عکاسی کرتا ہے۔ ایک دفعہ جب یہ ادیب کوہ پیمائی کر رہا تھا تو الپس کے دامن میں ایک سطح مرتفع کے پاس شام کے ڈھلتے ہوئے سایوں میں اس نے ایک بوڑھے سفید ریش بزرگ کو تنہا کھڑے دیکھا۔ ذرا آگے بڑھا تو اس نے بوڑھے کو پہچان لیا یہ کوہ الپس کی مشہور چوٹی الپس میٹر ہارن کا فاتح وہیمپر (Whymper) تھا۔ لیکن اب و ہیمپر بوڑھا ہو چکا تھا اور شام کی روشنی بجھ رہی تھی۔
وہ اس ڈوبتی ہوئی مدھم مٹیالی روشنی میں اس فلک آشنا چوٹی کو دیکھ رہا تھا جسے وہ اپنے عنفوانِ شباب میں زیرِ پا لا چکا تھا۔ لیکن اب اس کی کوہ پیمائی کا زمانہ گزر چکا تھا اور وہ مزید چوٹیوں کو سر کرنے کا خواہش مند نہیں تھا۔ وہ اپنا عہد زرین گزار چکا تھا اور ایک بہت نچلی پہاڑی پر اپنی فتوحات کی خوشگوار یادوں کا سرمایہ سمیٹے پوری طمانیت قلب کے ساتھ کھڑا تھا مشکل اور صعوبت آزما مہم جوئی سے مسرت حاصل کرنے کا یہ میدان اس نے سر گرم اور پر جوش نوجوانوں کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ اس کی یادوں کی متاعِ گراں مایہ وہ خوفناک تجربہ تھا جب اس نے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دی تھیں اور میٹر ہارن کی چوٹی کو فتح کر کے موت کو شکست دے دی تھی۔ لیکن آج جب اس سے دریافت کیا گیا کہ کیا اب بھی وہ اس پہاڑ کی بے کراں بلندیوں اور جگمگاتی رفعتوں کو سر کرنے کا آرزو مند ہے تو ایک ملکوتی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر ابھری اوراس نے ایک لمحہ توقف کیے بغیر کہا: ’بس! یہی کافی ہے۔‘
٭٭٭