عاشر بھاگتا ہوا اپنے کمرے میں آیا اور دروازه بند کر کے بیڈ پر اوندھے منہ لیٹ گیا۔ آنکھیں اس نے بند کر لی تھیں۔ دل میں اب چبھن سی ہو رہی تھی۔ ہاتھ اور پیر کانپ رہے تھے۔ دل بوجھل سا ہو رہا تھا۔اب اسکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور وہ رونے لگا۔ وه مرد تھا مگر اتنے مضبوط اعصاب کا مالک نہیں تھا شاید یہی کمی تھی اس میں۔
نیچے والے ہال سے زور زور سے تالیوں ک آوازیں آنے لگیں۔ سب لوگ مہرین کے لیے برتھ ڈے سونگ گا رہے تھے۔ اور پورا ہال تالیوں سے گونج رہا تھا اور وه۔۔۔۔۔وه اس اندھیرے کمرے میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کا سوگ منا رہا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھوں کو مکے کی طرح بنا کر زور سے دیوار پر مارا اور دوباره بستر پر لیٹ گیا۔
*******************
مہرین زریاب اور شرمین کے گفٹس کھولنے لگی۔
“واؤ! یہ ‘Necklace’ بہت ہی پیارا ہے۔ شکریہ زریاب۔۔۔!” اس نے پہن کر اسکا شکریہ ادا کیا۔ پھر اس نے شرمین کا گفٹ کھولا اس میں ایک پرفیوم اور ایک کی چین تھا۔ اس نے ان دونوں کا بہت شکریہ ادا کیا اور پھر ان کے جانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں جانے لگی۔ وه بہت تھک گئی تھی۔مہمان سارے جا چکے تھے۔ گھر خالی ہوچکا تھا۔اسی دوران ڈور بیل بجی تھی۔
ڈور بیل بجتے ہی وه تیز قدموں سے گیٹ کی جانب گئی تھی۔ جب دروازه کھولا توکوئی موجود نہ تھا۔ اس کی نظر وہاں پڑے ڈبے پر گئی جو شاید کوئی رکھ گیا تھا۔ وه آگے پیچھے دیکھنے لگی کہ شاید کوئی وہاں موجود ہو پر یہ دیکھ کر خاصی حیران ہوئی کہ وہاں دور دور تک کوئی نہ تھا۔ اس نے وه ڈبہ اٹھا لیا اور اندر لے آئی۔ ڈبہ پورا پیک تھا اور اسکی لو میں ایک چھوٹا سا کاغذ بھی رکھا تھا۔ اس نے وه کاغذ نکالا اور حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔ کاغذ کے پٹ کھولتے ہی مارے تجسس کے اسکی بھنویں آپس میں جڑ کر نیچے کو ڈھلک آئیں۔ کاغذ پر کچھ یوں لکھا تھا۔
“پیاری مہرین۔۔ آپ نے تو ہمیں بلانے کی زحمت نہیں کی مگر ہمیں آپکا سپیشل ڈے یاد تھا۔
“Happy Birthday”
آپکا فین۔۔۔۔”
اس نے یہ پڑھ کر عجیب سے تاثرات دیے اور اس کاغذ کو لے کر مزید سوچنے لگی۔ کون تھا جو اسکو یوں برتھ ڈے وش کر رہا تھا۔ یونی کے تو سب ہی لوگ آۓ تھے۔ ہاں۔۔۔کچھ لوگ جن کو وه بالکل نہیں جانتی تھی وه نہیں آۓ تھے باقی تو سب لوگ موجود تھے۔ مگر اس وقت مزید کچھ سوچنے سے گریز کیا اور ڈبے میں پیک گفٹ کھولا۔
ڈبے کا کور اس نے جلدی سے پھاڑ کر پھینک دیا۔ ڈبے سے ایک کی چین نکلی جو سلور کلر کی خوبصورت سی اور نازک سی تھی۔ اس پر مہرین کا نام موتیوں سے لکھا ہوا تھا۔ وه بہت ہی نازک اور بے انتہا مہنگی کی چین تھی۔ اس نے غور سے اس کی چین کو دیکھا اور پھر سوچوں میں کھو گئی۔ اسے ابھی تک سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کون ہو سکتا ہے جو اسکے بارے میں جانتا ہے اور اسے اتنا قیمتی گفٹ بھی بھیج سکتا ہے۔ یہ بات اسکے ذہن میں الجھن پیدا کر رہی تھی۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد وه اس فیصلے پر پہنچی کہ کل کالج جا کر سب سے پوچھ لے گی کہ یہ مذاق کس کا ہے۔ اور وه کی چین اور کاغذ لے کر کمرے میں سونے چلی گئی۔
********************
شرمین تو ہمیشہ کی طرح دوسرے لوگوں کے ساتھ بیٹھی تھی۔ مہرین زریاب سے کل رات ہونے والے عجیب واقعے پر تبصره کر رہی تھی۔زریاب بہت غور اور حیرانی سے مہرین کی بات سن رہا تھا۔ یہ حرکت اسے بہت ہی عجیب اور فضول لگی تھی۔
“تمہیں کیا لگتا ھے؟ کیا کسی نے یہ سب مذاق کیا ہے۔۔۔۔؟” مہرین بار بار یہی بات پوچھ رہی تھی پر زریاب کو سمجھ نھیں آرہا تھا کہ وه کیا جواب دے۔۔۔
“آئی ڈونٹ نو یار۔۔۔۔مجھے تو بہت عجیب بات لگی۔۔۔کوئی تمہیں اس طرح تحفہ کیوں دے گا ۔۔۔ یونیورسٹی میں سب ہی تمہیں جانتے ہیں۔۔۔اس طرح تحفہ دینے کا مطلب سمجھ نہیں آرہا۔” وه آہستہ سے بولا اور پهر مہرین کو دیکھنے لگا۔
“جو بھی ہے میں آج پتا کر ہی لوں گی کیونکہ یہ نہایت ہی کوئی فضول اور گھٹیا مذاق تھا۔” وه غصے سے بولی اور وہاں سے اٹھ گئی۔ زریاب اسے حیرانی اور پریشانی سے دیکھنے لگا۔
“کہاں جا رہی ہو تم۔۔۔۔؟” وه اسکا ہاتھ پکڑ کر اس سے پوچھنے لگا۔
“آج کی کلاس میں سب ہی موجود ہوں گے۔۔۔ میں سب کے سامنے ہی پوچھوں گی۔” وه ہاتھ چھڑا کر کلاس کی جانب بڑھ گئی۔ زریاب نے گہرا سانس لیا کیوں کہ وه جانتا تھا کہ کوئی نہیں مانے گا کہ کس نے یہ حرکت کی ہے مگر مہرین کہاں سننے والی تھی۔ زریاب کے پاس اس سے زیاده بہتر ترکیب تھی مگر زریاب جانتا تھا کہ مہرین آج پتا کر کے ہی رہے گی۔
کلاس میں بے انتہا شور تھا اور لوگ باتوں میں مصروف تھے۔ شرمین نائلہ سے باتوں میں مصروف تھی۔ مہرین کو دیکھ کر اس نے اسے ہاتھ کے اشارے سے ہاۓ کیا۔
مہرین نے زور سے وائٹ بورڈ پر ڈسٹر مارا۔سب جو ابھی تک شور مچا رہے تھے ایک دم سے مہرین کی طرف دیکھنے لگے۔ دو تین لڑکے تو اسے اگنور کر کے پھر سے باتوں میں مصروف ہو گئے تھے۔
“کیا ہوا Anabelle۔۔۔۔” ایک لڑکی نے اسے اس کے Nick Name سے پکارا اور اس کی بات پر باقی کلاس ہنسنے لگی۔
“بولو بے بی ڈول۔۔۔” فیصل اسکو جان بوجھ کر چھیڑنے لگا۔
“گائز ایک دفع سب پلیز میری بات سن لو۔۔۔” مہرین بہت غصے سے بولی۔ سب ایک بار پھر اسکی طرف دیکھنے لگے۔ ان سب میں بیٹھا ارحم بھی تھا اور وه بہت غور سے مہرین کو دیکھ رہا تھا۔ اسکی نگاہیں مہرین کی طرف ہی تھیں۔ وه مسکرا کر اسے بڑے پیار سے دیکھ رہا تھا مگر مہرین نے اسے نہیں دیکھا تھا۔
“اب بول بھی دو۔۔۔” باقی سب چڑ کر بولے۔
“یہ گفٹ کس نے بھیجا ہے مجھے ۔۔۔۔جس نے بھی دیا ہے وه آکر مرد ہو کر یہ بتا دے کہ یہ گفٹ اس نے دیا ہے ورنہ میں اس کی چین کو کچرے میں پھینک دوں گی کیوں کہ میرے پاس ان فضول چیزوں کا بالکل وقت نہیں ہے۔۔۔” وه سب کو اپنے ہاتھ میں موجود کی چین دکھانے لگی۔ سب انکار میں سر ہلا کر کے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ شرمین نے اسے گھورا تھا کہ یہ سب کیا ہے۔۔۔
“ارے جان۔۔۔یہ میں نے دیا تھا۔” فیصل ایک بار پهر یوں ہی بولا۔
“شٹ اپ فیصل۔۔۔۔” مہرین اسے غصے سے گھورتے ہوئے بولی۔ کوئی بھی آگے نہیں آیا اور سب ایک بار پھر اپنے آپ میں مشغول ہو گئے۔
“کوئی بھی نہیں آرہا۔۔۔okay”وه بے پرواہی سے شانے اچکا کر بولی۔
وه بے پرواہی سے کی چین ہاتھ میں گھوماتے ہوئے وہاں سے جانے لگی جب کسی نے پیچھے سے آواز دی۔
“مہرین۔۔۔!” ایک بھاری آواز نے پیچھے سے مہرین کو چونکا دیا۔ وه وہیں رک گئی اور اسکا بدن لرزنے لگا۔ وه بہت مشکل سے مڑی اور ہاتھ باندھ کر اس شخص کو دیکھنے لگی۔ اس نے ارحم کو اپنے نزدیک پایا۔ وه بہت مضبوطی سے اپنے چہرے کے تاثرات کو چھپا رہی تھی۔
“جی فرمائیے۔۔۔” اس نے بہت ہی روکھے انداز میں ارحم سے پوچھا۔ مہرین نے اسکی طرف نہیں دیکھا بلکہ وه دوسری طرف دیکھنے لگی۔
“وه I Am Sorry۔۔۔یہ گفٹ میں نے بھیجا تھا۔ مجھے پتا چلا تھا کہ آپکی برتھڈے پارٹی ہے اور آپ نے مجھے دعوت بھی نہیں دی۔ مگر پھر بھی کلاس میٹ ہونے کی حیثیت سے میں نے سوچا کہ آپ کا گفٹ تو بنتا ہے۔۔۔” وه بڑے مزے سے اس سے باتیں کرنے لگا۔ مہرین تو حیران تھی کہ نہ وه اس نئے لڑکے کو جانتی ہے اور نا ہی کبھی اس سے کوئی بات کی مگر وه کیسے بے دھڑک ہو کر اس سے باتیں کر رہا تھا۔
“ہاں۔۔۔! کیوں کہ میں آپکو نہیں جانتی مسٹر۔۔۔ اور دوسری بات یہ کہ میں نے جب آپکو بلایا ہی نہیں تو پھر یہ گفٹ کس بات کا۔۔۔۔آپ اسے لے لیجیۓ۔۔۔ورنہ میں اسے یہاں رکھ کر چلی جاوں گی۔۔۔” مہرین بہت تیزی سے بولی اور ارحم کا دیا کی چین وہاں رکھ کر جانے لگی۔
“مہرین سوری۔۔۔مجھے نہیں پتہ تھا کہ آپ مائنڈ کریں گی۔ پلیز ویٹ۔۔۔!!” وه بھاگتا ہوا مہرین کے پیچھے آیا اور اسے روکنے کی کوشش کی۔
مہرین اسے مسلسل اگنور کرتے آگے چلتی رہی۔ مگر وه بھی اسکے پیچھے آتا رہا۔ یہ منظر دیکھتے ہی زریاب کے ذہن میں بہت سے خیالات جاگے۔
“اففففف۔۔۔۔! کیا مسلہ ہے۔۔۔” وه بہت غصے سے چڑ کر بولی۔
“دیکھیں۔۔۔ آپ یہ گفٹ مجھے اپنا دوست سمجھ کر رکھ لیں۔ اور سوری کہ میں نے بغیر نام اور اپنے تعارف کے آپکو گفٹ بھیج دیا۔” وه اسے سمجھاتے ہوئے شرمنده سے انداز میں بولا۔ لہجے میں نرم مزاجی اور شائستگی تھی۔ مہرین کو اسکے بات کرنے کا انداز کافی بھایا تھا۔
“ٹھیک ہے اگر آپ اب اتنا اصرار کر رہے ہیں تو۔۔۔پر امید ہے آپ اگلی بار اپنا تعارف ضرور کروائیں گے۔” وه گفٹ لیتے ہوئے بولی۔
“of course۔۔۔”
وه پھر سے اپنے امریکی ایکسنٹ میں بولا تو مہرین اسکے انداز پر مسکرا دی۔ پھر وه وہاں سے لنچ کرنے کیلئے کیفے کی طرف جانے لگی جب اس نے کچھ قدم کے فاصلے پر رک کر پیچھے دیکھا تو وه اسے پہلے سے ہی وہیں کھڑا دیکھ رہا تھا۔ وہی مار دینے والی مسکراہٹ جو مہرین کے دل کو زور سے دھڑکانے کیلئے کافی تھی۔
*****************
عاشرکا اینٹری ٹیسٹ اگلے ہفتے تھا۔ اس نے کراچی کی تقریباً سب ہی یونیورسٹیز کے فارمز لیے تھے اور ان سب میں سے وه سب سے ٹاپ یونیورسٹی میں جانا چاہتا تھا۔ وه پچھلے چار ماه سے لگاتار دن رات ایک کر کے محنت کر رہا تھا۔
عاشر آج بھی کمرے میں بند ہو کر سارے سوالات دوباره حل کر رہا تھا جب ٹی وی کی آواز زور زور سے اسکے کمرے میں آنے لگی۔ وه یوں تو نیچے ہی ہوتا تھا مگر جس جگہ اسکا روم تھا وه لاؤنج سے کافی دور تھا جبکہ وه پڑھنے کیلیے نیچے والے سٹڈی روم میں ہوا کرتا تھا۔
ٹی وی کی آواز اتنی اونچی تھی کہ محلے میں موجود ہر شخص کے کان پهاڑ سکتی تھی۔
اسے برداشت کرتے ہوئے اب مسلسل ایک گھنٹہ ہو چکا تھا۔ مگر شور تھا کہ ختم ہی نہیں ہو رہا تھا اور اب وه ہمت ہار کر باہر نکل آیا۔ وه زور زور سے “Friends” ٹی وی شو لگائے ہوئے تھی۔ ساتھ میں کولڈ ڈرنک بھی پی رہی تھی۔ وه دانت پیستے ہوئے اسکے پاس آیا۔
“مہرین اسکی آواز کم کر دیں پلیز۔ میرے کان میں درد ہو رہا ہے۔ میرا اگلے ہفتے امتحان ہے۔” وه چڑ کر بولا۔ وه بات کو ان سنا کئے خاموشی سی ٹی وه دیکھ رہی تھی۔ اس نے ریموٹ اٹھایا اور آواز مزید اونچی کر دی۔
وه کچھ سنے بغیر آواز مزید تیز کرتی گئی۔ عاشر کا تو جیسے صبر کا پیمانا لبریز کر گیا۔ اسکا دل کر رہا تھا کہ وه ٹی وی ہی توڑ ڈالے مگر ضبط کرنا اسکی عادت سی بن گئی تھی۔
“تم نے کچھ کہا کیا؟” وه ٹی وی دیکھ کر ہنستے ہوئے بولی۔ عاشر نے اسکو صرف ایک نظر غصے سے دیکھا اور پھر پیر پٹخ کے وہاں سے واک آؤٹ کر گیا۔ دل تو اسکا کر رہا تھا کہ اس چڑیل کا گلا ہی دبا دے۔ مہرین نے اسکے جانے کی کوئی پروا نہ کی اور پھر سے ہنستے ہوئے ٹی وی دیکھنے لگی۔
*******************
مہرین آج اکیلی بیٹھی پینٹنگ کر رھی تھی۔شرمین اور زریاب آج نہیں آۓ تھے۔ اسے کبھی کبھی یوں اکیلے بیھٹنا اچھا لگتا تھا۔ پینٹنگ کرتے کرتے وه تھک گئی تھی۔ وه ہال بالکل خالی رہتا تھا اور وہاں اسٹوڈنٹس کو ایسے کام کرنے کی اجازت تھی۔ وه ادهوری پینٹنگ کو چھوڑ کر اپنے بیگ سے Clay لے آئی۔ اس کلے سے اس نے ایک مجسمہ بنانا شروع کیا۔ وه غوروفکر کے ساتھ یہ سارا کام سر انجام دے رہی تھی۔ اس طرح خاموشی سے کام کرنا مہرین کو اچھا لگتا تھا۔ وه ایک گریک فلوسفر Aristotle کا مجسمه بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وه یہ کام مگن ہو کر کر رہی تھی جب اسی ہال میں کوئی آہسته سے آکر اسکے برابر میں کھڑا هو گیا۔
وه اپنے کام میں اتنی مصروف تھی کہ اس شخص کے آنے کی خبر تک نہ ہوئی۔ وه خاموشی سے اسے کام کرتا دیکھ رہا تھا۔ مہرین کے کچھ بال اسکے چهرے پر تھے۔ چہرے پر مہرین کے ہمیشہ کی طرح سنجیدگی اور سادگی تھی اور وه اسکی اسی سادگی سے مرعوب تھا۔ وه ٹک ٹکی باندھے اسے دیکھے جا رها تھا۔
“کافی مصروف ہیں آپ۔۔۔” وه کھانس کر بولا۔ مهرین ایک دم سپٹ گئی۔ اسکے ہاتھ سے پیالہ گر گیا۔ وه پیچھے مڑ کر اسکو بہت غصے سے دیکھنے لگی۔
“جی میں مصروف تھی مگر فلحال آپ نے میری اس مصروفیت میں خلل ڈال دیا ہے۔” وه برہم ہوئی اور اس نے فورا سے نیچے گرا وه پیالہ اٹھا لیا۔
“معذرت چاہتا ہوں میں بس آپکا کام دیکھ رہا تھا۔” وه اسے سمجھانے والے انداز میں بولا۔
“مہرین نے اسے گہری ترچھی نگاہوں سے دیکھا اسکے اس طرح دیکھنے پر ارحم مسکرا دیا۔
“وه کیوں۔۔۔۔” مهرین نے اس سے سوال کیا اور ساتھ ہی پھر سے کام میں مصروف ہو گئی ارحم ایک بار پھر سے اسکے قریب کھڑا هو گیا۔
“کیونکہ مجھے آپ بہت اچھی لگتی ہیں۔ مجھے بھی آپ کی طرح مجسمے بنانے کا بہت شوق ہے۔” وه اسے بتاتے ہوئے آگے بڑھا۔
“I like your way of flirting but sorry I am not impressed at all۔۔۔”
اس نے کمال بے نیازی سے انگریزی میں جواب دیا۔
وه بہت زور سے ہنسا اور ایک بار پھر سے اسے بھر پور سنجیدگی سے تکنے لگا۔
“میں فلرٹ نہیں کر رہا۔” وه نہایت شگفتگی سے بولا مگر مهرین کو شاید اسکی باتوں میں کوئی انٹرسٹ نهیں تھا۔
“ٹھیک ہے آپ کچھ بھی نہیں کر رہے مگر فلحال میں کام کر رہی ہوں اور آپکی موجودگی میں مجھ سے یہ نہیں ہو پا رہا۔” وه آخر کار بول گئی اور ارحم پھر مزید کچھ کہے وہاں سے جانے لگا ارحم کو مہرین اب اور بھی اچهی لگی تھی۔ وه دل کی صاف اور نہایت ساده سی لڑکی اسکو بہت پسند آئی تھی۔
******************
عاشر کا امتحان اگلے دن تھا مگر وه شام سے ہی نہایت پریشان تھا۔ اس نے اپنے وه “پاسٹ ائیر پیپرز” ٹیبل پر ہی رکھے تھے اور اب وه اسے کہیں نہیں مل رہے تھے۔ اس نے پورا گھر چھان مارا تھا۔ڈهونڈ ڈهونڈ کر آخر وه باباجان کے کمرے میں پہنچ گیا تھا۔ وه اس وقت بہت پریشان تھا کیونکہ کل ہونے والا ٹیسٹ اسکی زندگی کا سب سے اہم ترین ٹیسٹ تھا۔ اور وه پاسٹ پیپرز بھی اس ٹیسٹ میں آنے تھے۔ جس فیلڈ میں وه آگے جانا چاہتا تھا اس کا امتحان کل ہونا تھا۔ اور وه اپنا آج کا انتہائی قیمتی وقت اپنے پاسٹ پیپرز ڈهونڈنے میں لگا رھا تھا۔ ماماجان بھی اسکے ساتھ مل کر وه پاسٹ پیپرز ڈهونڈ رہی تهیں مگر وه پاسٹ پیپرز اسے مل کے ہی نہیں دے رہے تھے۔
بابا جان چائے پی رہے تھے جب عاشر کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پورے کمرے کو دیکھنے لگا۔ وہ پھر جلدی سے ان کی ٹیبل کی طرف بڑھا اور وہاں اسے ڈھونڈنے لگا۔ بابا جان نے چشمہ اتارا اور باقی سب چیزیں نیچے رکھ دیں پھر اسے دیکھنے لگے کہ وہ آخر کیا کررہا ہے۔ عاشر اس وقت کافی پریشان حال تھا اور اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
” کیا ڈھونڈ رہے ہو بیٹا ؟” بابا جان نے اس کے چہرے پر لکھی ہوئی پریشانی دیکھ کر پوچھا۔
وہ جو چیزیں ڈھونڈ رہا تھا ایک دم رکا اور پھر بولا
” وہ۔۔۔میں اپنے امتحان کے حوالے سے کچھ پیپرز ہیں وہ ڈھونڈ رہا ہوں ۔ میں نے گھر میں ہر جگہ دیکھ لیا ہے کہیں نہیں ہے۔”
وہ ہمت ہار چکا تھا۔ دماغ سن اور عقل جیسے اس میں ختم ہوگئی تھی۔
” تو بیٹا آپ اپنے کمرے میں دیکھئیے۔ دوبارہ ساری چیزیں نکال کر دیکھیں۔” وہ اسے بتانے لگے مگر وہ پہلے دس دفعہ اپنے کمرے میں دیکھ چکا تھا۔
” بابا جان وہ کہیں نہیں ہیں۔ اگر وہ پیپرز نہیں ملے تو کل امتحان میں مشکل ہوجائے گی۔” وہ اب پریشانی سے بولا ۔
” کیا کہیں گم گئے؟ آپ نے غیر ذمہ داری برتی ہے۔”
بابا الٹا اسے بولنے لگے ۔ اس نے بغیر کچھ کہے دوبارہ کمرے میں نظر دوڑائی کہ کیا پتا مل جائے۔
“بابا جان معذرت چاہتا ہوں مگر میں نے اسے بہت سنبھال کر رکھا تھا ۔ وہ پوری فائل میں پیک تھے۔” اس نے جواب دیا۔
” تو آپ کسی دوست سے لے لیجئے۔” وہ مشورہ دیتے ہوئے بولے ۔ عاشر نے وہ پاسٹ پیپرز بہت مشکل سے کسی لڑکے سے لئیے تھے اور کسی کے پاس وہ موجود نہیں اور اگر ہوتے بھی تو اس وقت کوئی اسے نہیں دیتا۔
” کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔ میں دوبارہ اپنے کمرے میں دیکھتا ہوں۔” یہ کہہ کر وہ وہاں سے نکل گیا۔ سامنے سے ہی مہرین آرہی تھی گانا گاتے ہوئے۔ اسے دیکھ کر عاشر کے دماغ میں خیال آیا کیوں نا وہ مہرین سے پوچھے یقینا اسی نے رکھ دیا ہوگا۔ وہ بھاگتا ہوا مہرین کے پاس پہنچا۔
” مہرین کیا آپ نے میرے کاغذات والی فائل کہیں رکھی ہے؟ ” وہ اس سے پوچھنے لگا ۔ مہرین نے اس کو دیکھا پھر کندھے اچکا دئیے۔ عاشر کو اس کی اس حرکت پر مزید غصہ آیا۔
” مہرین؟ آپ نے رکھے ہیں؟ ہاں یا نہیں؟ ” وہ ایک بار پھر راستے میں کھڑا ہوگیا اور صبر کے ساتھ پوچھنے لگا۔
” کیا تم پاگل ہو؟ میں زندگی میں کبھی بھی تمہاری چیزوں کو ہاتھ نہ لگاؤں۔ مجھے کسی پاگل کتے نے کاٹا ہے جو میں تمہاری فائل رکھوں گی۔ اب ہٹو میرے راستے سے۔” وہ دھکا دیتے ہوئے لاپروائی سے نکل گئی۔
عاشر نے غصے میں دانت پیسے اور ایک بار پھر اس نے مہرین کو آواز لگائی۔
” آپ نے دیکھا ہوگا۔ وہ فائل جو میری ٹیبل پر ہوتی تھی۔ وہ میرے لئیے بہت ضروری ہے پلیز ۔” اس نے بہت منت کرتے ہوئے کہا۔ مہرین کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اپنی فائل کھو جانے پر اس سے ہی پوچھ گچھ کیوں کررہا ہے۔
” اچھا تو تمہیں شک ہے کہ تمہاری وہ فضول فائل میں نے چھپا دی ہے؟” وہ اس سے رکتے ہوئے پوچھنے لگی۔ دل میں تو عاشر نے یہی سوچا کہ وہ بولے شک نہیں مجھے یقین ہے مگر اس نے بات کو سنبھال لیا۔
” نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ بس مجھے لگا کہ شاید آپ نے دیکھی ہو۔ کیونکہ اس گھر میں رہنے والے ہر شخص سے میں پوچھ چکا ہوں۔” عاشر نے بڑی مشکل سے وہ پورا جملہ بولا تھا۔
” میں یہ بات تم سے آخری بار کہہ رہی ہوں کہ میں نے تمہاری کوئی فائل نہیں دیکھی۔ آئی سمجھ؟ اور اب میرا دماغ مت کھانا۔ you’re such a psychopath ۔” یہ کہہ کر وہ وہاں سے نکل کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور دروازہ زور سے بند کرڈالا۔
عاشر نے اپنی قسمت پر صبر کرلیا اور جو کتابوں میں سے پڑھا تھا وہی اس نے دوبارہ سے یاد کیا۔ اسے یقین تھا کہ وہ اس یونیورسٹی میں کبھی داخلہ نہیں لے پائے گا۔
مہرین اپنے کمرے میں آتے ہی مسکرانے لگی۔ وہ بہت زور زور سے ہنسنے لگی اور پھر کھڑکی کی طرف کھڑے ہوکر باہر دیکھنے لگی۔ اس کے دماغ میں وہ منظر یاد آیا جب تین دن پہلے اس نے وہ پاسٹ پیپرز عاشر کے کمرے سے نکال کر اپنے کمرے میں رکھ لئیے تھے۔ پھر وہی پاسٹ پیپرز اس نے آگ میں جلا دئیے تھے۔ وہ خوشی جو اسے عاشر کو بےسکون کرکے ملی تھی شاید ہی اسے کبھی ایسی خوشی حاصل ہوئی ہو۔
************************
عاشر بہت رو رہا تھا اور کافی افسردہ تھا مگر بابا جان خوش تھے کہ وہ اسی یونیورسٹی میں ہوگا جس میں مہرین تھی۔
” اب بس بھی کردو عاشر زندگی میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے ۔ کب تک یوں ناراض ہوکر بیٹھے رہوگے۔”
ماماجان اسے پیار کرتے ہوئے بولیں مگر وہ تھا کہ مان کر نہیں دیا۔
” ماماجان اس یونیورسٹی میں جانا میرا خواب تھا۔”
وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا تو بابا جان پھر سے مسکرانے لگے۔
” عاشر زندگی میں انسان کو یوں ہر چیز نہیں مل جاتی کسی کو دولت نہیں ملتی ، کسی کو والدین نہیں ملتے ، کسی کو دوست نہیں ملتے ، کسی کو پیار نہیں ملتا اور بہت سی چیزیں ہیں جو انسان خواہش کے باوجود بھی حاصل نہیں کرپاتا۔ مگر اگر زندگی میں ہر اچھی چیز یوں ہی مل جاتی تو پھر زندگی جینے کا مقصد کیا ہوتا؟ انسان جو چیز کھوتا ہے اس سے اچھی چیز حاصل کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔ یہ زندگی کا اصول ہے۔ آج آپ کو جو ملا ہے اس پر شکر ادا کریں اور اس سے زیادہ آگے جانے کی کوشش کریں۔” بابا جان نے عاشر کو سمجھاتے ہوئے کہا تو وہ بھی غور سے ان کی یہ بات سننے لگا۔
“جی باباجان! میں انشاءاللہ آگے اور اچھا کرکے دکھاؤں گا۔” وہ جوش سے بولا۔
“شاباش خوش رہو ہمیشہ! ” وہ اسے دعا دیتے ہوئے وہاں سے کھڑے ہوئے تو مہرین کو آتا دیکھ کررک گئے۔
“مہرین !” انہوں نے آواز لگائی تو وہ پیچھے مڑ کر انہیں دیکھنے لگی۔
” جی بابا جان؟” وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ٹی۔وی لاونج کی طرف بڑھی۔
“آپ اور عاشر اب ساتھ ہی جائیں گے۔ عاشر کا داخلہ آپ کی ہی یونیورسٹی میں ہوا ہے۔” وہ اسے بڑی خوشی سے بتارہے تھے۔ اور وہ یہ بات سنتے ہی سکتے میں چلی گئی۔ شکل اس کی ایسی تھی جیسے ابھی وہ گرجائے گی اور دل میں تو جیسے کسی نے آگ لگا دی ہو۔
” میری یونیورسٹی؟” اس نے دوبارہ پوچھا کہ کہیں یہ مذاق نہ ہو۔
“ہاں آپ کی۔” ماما جان مسکرا کر بولیں۔ مہرین کے پاس تو جیسے الفاظ ختم ہوگئے۔ اس کا پلین فیل ہوگیا تھا اور مصیبت الٹا اس کے گلے پڑگئی تھی۔عاشر اٹھا اور ہاتھ میں مٹھائی لئیے اس کے قریب آیا۔
” کیا ہوا مہرین؟ کیا آپ کو خوشی نہیں ہوئی؟” وہ طنزیہ بولا تو وہ غصے سے اس کی طرف دیکھنے لگی مگر اسے یہ غصہ کنٹرول کرنا پڑا تھا۔ منہ پر اداسی اور غصے کی جگہ مسکراہٹ پھیلانی تھی۔
“نہیں میں بس حیران ہوں کہ تم اتنی محنت کے بعد بھی اپنی پسندیدہ یونیورسٹی میں نہیں جاسکے۔” اس نے بھی اینٹ کا جواب اینٹ سے دیا۔
” کبھی کبھی محنت کے بعد بھی قسمت انسان کا ساتھ نہیں دے پاتی۔” وہ بہت دکھی تھا لیکن مہرین کا جواب دینا تھا۔
” کیا تم دونوں ایسی فضول باتیں کررہے ہو؟ چلو مٹھائی کھاؤ۔” وہ دونوں کی بات کاٹتے ہوئے بیچ میں بول پڑیں۔
“یہ لیں مٹھائی کھائیں مہرین۔” اس نے مٹھائی خود مہرین کے منہ میں ڈالی اور وہ کچھ کہے بغیر اسے نگل گئی۔ اسے یہ مٹھائی زہر سے بھی ذیادہ کڑوی لگی تھی مگر وہ فی الحال کوئی ہنگامہ کھڑا کرنا نہیں چاہتی تھی۔ عاشر نے بھی اسے طنزیہ مسکراہٹ سے دیکھا اور مہرین نے بھی جواب میں ہونٹ بھینچ لئیے تھے۔
**********************
وہ یونیورسٹی شروع ہونے سے پہلے کچھ دنوں کے لیے اسلام آباد چلا گیا تھا۔ اسلام آباد میں اس کا خاندان رہتا تھا اور وہ وہاں کی شادی میں شرکت کرنے کے لئے گیا تھا۔ وہ اسکی نانی حرا ملک کے چھوٹے بھائی کی بیٹی کی شادی تھی اور عاشر کو وہاں ہر حال میں جانا تھا۔ مہرین نے عاشر کے جاتے ہی شکر ادا کیا تھا۔ وہ خوش تھی کی اب دو ہفتے تک اسکی منحوس شکل نہیں دیکھنی پڑے گی۔ پر وہ اس بات کو لیکر خاصی پریشان تھی کہ اب عاشر اسکی یونی میں تھا اور اس سے یہ بات ہضم نہیں ہوتی تھی۔
باباجان ہمیشہ اسے وہاں جانے کا کہا کرتے تھے اور وہ بھی اسلام آباد دو سالوں میں ایک عاد بار چلا جاتا تھا۔ عاشر نے سامان رکھ کر گیٹ کی بیل بجائی۔ دروازہ کھلا تو سامنے کوئی اور نہیں بلکہ شیزہ تھی۔ دروازہ شیزہ نے کھولا تھا۔ وہ پیلے رنگ کی شلوار قمیض پہنی بہت پر وقار اور حسین لگ رہی تھی۔ پیر کسی بھی قسم کی چپل سے آزاد تھے اور بال بکھرے ہوئے تھے۔ وہ پہلے سے بہت مختلف اور مزید خوبصورت ہوگئی تھی۔ عاشر تو بس اسے ٹک ٹک دیکھے جارہا تھا۔ شیزہ عاشر کے ماموں دانیال کی بیٹی تھی۔ دانیال حسن کی دو بیٹیاں تھیں عالیہ اور شیزہ۔ عالیہ پہلے ہی انگیجڈ تھی۔ اور ایک بیٹا رضا تھا جو ان دونوں سے چھوٹا تھا۔ شیزہ چھوٹی ہونے کی وجہ سے گھر میں سب کی لاڈلی تھی۔ عاشر کو دیکھ کر وہ ایک دم ساکت سی ہوگئی۔
“اسّلام علیکم عاشر بھائی۔” اس نے سر جھکا کر کہا۔ عاشر اب تک وہیں کھڑا اسے دیکھے جارہا تھا۔ عاشر اسکی اسی سادگی اور معصومیت پر مر مٹا تھا۔
“وعلیکم اسلام۔” وہ بڑی مشکل سے سامان گھسیٹتا ہوا اندر آگیا۔ شیزہ بھی اسے دیکھ کر حیران تھی کی وہ وقت کہ ساتھ کتنا بدل گیا تھا۔ دراز قد اور پرکشش جسامت وہ بہت متاثر ہوئی تھی۔
“آپ سامان یہیں چھوڑ دیں ملازم اکر اٹھا لینگے۔ آپ اندر آجائیں نانی جان اپکا کب سے انتظار کر رہی ہیں۔” وہ مسکرا کر بولی۔ عاشر سامان وہیں چھوڑ کر اس کہ ساتھ اندر آگیا۔ گھر میں سب ہی موجود تھے۔ نانی جان اسے دیکھ کر خوشی سے پھول اٹھی تھیں۔
“ارے آگیا بھئی عاشر۔” وہ بڑی محبت سے اگے آکر اس کے ماتھے کو چومتے ہوئے بولیں۔
“السلام علیکم نانی جان کیسی ہیں آپ۔۔” وہ بھی بڑے پیار سے نانی جان سے پوچھنے لگا۔
“تمہیں دیکھ لیا ہے ناں تو بس اب سکون سے ہوں۔” وہ ایک بار پھر اسے پیار کرتے ہوئے بولیں۔ عاشر میں انہیں زہرا کی جھلک نظر آتی تھی اس لئے وہ عاشر سے بےحد محبت کرتی تھیں۔
“کیسےہو عاشر۔۔” دانیال ماموں بھی اس سے ملنے آگئے۔
“ٹھیک ہوں ماموں جان۔” وہ بہت ادب سے سب سے مل رہا تھا۔
دانیال حسن کی بیوی عریبہ حسن میکے گئی ہوئی تھیں لہٰذا عاشر کی ملاقات ان سے نہ ہو پائی تھی اور ان کے علاوہ تقریبا سب سے ہی ملاقات ہوچکی تھی۔
“تم تھک گئے ہوگے آرام کر لو۔” دانیال اس کے شانوں پر ہاتھ رکھ کر بولے۔ وہ بھی بہت تھک گیا تھا اور آرام کرنے چلا گیا۔
شیزہ تو کمرے سے باہر ہی نہیں آئی تھی۔ عاشر کے سامنے خود کو عجیب محسوس کر رہی تھی۔ وہ تو بچپن سے ہی عاشر کو اسلام آباد آتا دیکھتی رہی تھی پر خود کو اس کے اتنے قریب کبھی محسوس نہیں کیا تھا جتنا وہ اب کر رہی تھی۔
عاشر اپنے کمرے میں آتے ہی بستر پر لیٹ گیا اور مسکراتے ہوے اس بھولی سی صورت کو سوچنے لگا۔
فسوں دید ہے یا ہیں آپکی معصوم نگاہیں
سائے میں جنکے دنیا مری آباد رہتی ہے
ان آنکھوں سے دور ہوں تو بنجرسا ہوں
مسکان آپکی مجھے بس سیراب کرتی ہے
********************
مہرین اور شرمین یونی لیٹ پہنچے تھے۔ کلاس میں کوئی ٹیچر موجود نہ تھا۔ دونوں پیچھے والی بینچ پر دراز ہوگئیں۔
“وہ گیا تو اب تم خوش ہوجاؤ۔” شرمین نے بولا تو مہرین نے سر ہلا دیا۔ وہ دونوں باتوں میں مصروف تھیں جب ارحم آکر انکی بینچ کے پاس ہی کھڑا ہوگیا۔
“Hello ladies! Can I join you?”
وہ مسکراتے ہوئےبولا۔ شرمین جو مہرین سے بات کر رہی تھی مڑ کر ارحم کی طرف دیکھنے لگی۔
“شور! بیٹھ جاؤ!” وہ مسکراتے ہوۓ بولی۔ مہرین نے غور کے شرمین کو دیکھا۔
“کیا ہورہا ہے؟” وہ مہرین کے برابر والی جگہ پر بیٹھتے ہوئے پوچھنے لگا۔
“موویز کے بارے میں باتیں ہورہی ہیں۔” شرمین اس سے گفتگو کی شوقین تھی۔ مہرین کو تو اس سے شدید الجھن ہورہی تھی۔ مگر ارحم کی آواز اور اسکی خوشبو نے مہرین کو جکڑ لیا تھا۔
“موویز؟ مجھے بھی موویز پسند ہیں مگر صرف ایکشن۔” وہ ان دونوں کو بتانے لگا۔
“مجھے بھی! وہ بھی Marvel اور DC کی۔ جبکہ Christopher Nolen میرا پسندیدہ ڈائریکٹر ہے۔” مہرین جو شروع ہوئی تو بولتی گئی۔
“صحیح کہا! وہ بہت اچھا ڈائریکٹر ہے۔ مجھے انکی ہر مووی پسند ہے۔” وہ بہت دل چسبی سے بولا۔ مہرین بھی ارحم سے باتوں میں مشغول ہوگئی۔ اسے ارحم اور لڑکوں سے مختلف اور اچھا لگا تھا۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ اسے کوئی لڑکا پسند آیا تھا وہ بھی ہر لہٰذ سے مکمل اور پر وقار۔ باتوں باتوں میں ہی ارحم نے بتایا کہ وہ پاکستان اپنی دادی کی وجہ سے آیا ہے اور ڈگری لینے کے بعد وہاں سے واپس امریکا چلا جائے گا۔ ساتھ میں اس نے بتایا کہ اس کے اما اور ابا وہیں رہتے ہیں اور پاکستان آنا نہیں چاہتے کیونکہ وہاں انکا بہت شاندار بزنس ہے۔ وہ اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہے۔ اور یہاں سے پڑھ کر وہ اپنے والد کی بزنس میں ہیلپ کرے گا اور ساتھ میں اپنا سٹوڈیو بھی کھولے گا۔
“اپنا سٹوڈیو؟ واہ!” شرمین نے اس کی اس بات پر کافی انٹرسٹ شو کیا تھا۔
پھر کچھ باتوں کے بعد وہ وہاں سے جانے لگا مگر وہ پھر رک گیا۔
“مجھے آپ لوگوں کا نمبر مل سکتا ہے؟ اگر آپ لوگ مائنڈ نہ کریں تو۔” وہ مسکرا کر پوچھنے لگا۔
“بلکل!” شرمین نے فوراً اپنا نمبر دے دیا مگر مہرین کچھ سوچنے لگی۔
“اور آپ کا مہرین؟” وہ جھک کر مسکراتے ہوئے پوچھنے لگا تو مہرین نے بھی اپنا نمبر اسے دے دیا۔
پھر اس کے جانے کے بعد مہرین نے ہنس کر شرمین کو دیکھا اور دونوں ہی ہنسنے لگیں۔
**********
آج گھر میں شادی تھی اور عاشر سب کام دیکھ رہا تھا۔ ساتھ میں رضا بھی اسکی مدد کر رہا تھا۔ رضا دانیال، دانیال حسن کا چھوٹا بیٹا تھا جو کہ عاشر سے کافی چھوٹا اور شریر بھی تھا۔
“عاشر! آ بھی جاؤ اب چاۓ ٹھنڈی ہورہی ہے۔” نانی جان اسے ابھی تک چار آوازیں لگا چکی تھیں۔
“عاشر بھائی بلکل فٹ سیٹنگ ہے سب چیزوں کی، اب آپ بتائیں کہ آپ کب سیٹ ہو رہے ہیں؟” وہ شوخ ہو کر عاشر سے پوچھنے لگا۔
“توبہ ہے بھئی! میں ابھی کہاں سے سیٹ ہو جاؤں! ابھی تک تو میں یونیورسٹی بھی نہیں گیا اور تم یہ باتیں کر رہے ہو۔” عاشر بھی ہنس کر بولنے لگا۔
“تو کیا یونیورسٹی میں ڈھونڈیں گے؟ یہاں گھر میں ہی مل جائے گی آپکو۔” وہ زور زور سے ہنسا تو عشر کی بھی ہنسی نکل گئی۔
“بہت بولنے لگے ہو تم! چلو اندر بتاتا ہوں سب کو۔” وہ وہاں سے جاتے ہوے بولا تو رضا فورا ً وہاں سے بھاگ گیا۔
وہ اندر آیا تو نانی اسے غصّے سے دیکھنے لگیں۔
“حد کرتے ہو تم۔ اب شیزہ کو بولا ہے دوبرہ گرم کرے گی چاۓ۔” وہ برہم ہو کر بولیں۔
“ارے میں ٹھنڈی ہی پی لیتا!” وہ شرمندہ ہوا۔
“یہ بتاؤ کہ کراچی میں سب ٹھیک ہیں؟ وہ جہانزیب کی بیٹی مہرین وہ کیسی ہے؟” وہ چاۓ پیتے ہوئے اس چڑیل کا نام لے رہی تھیں۔ دل تو عاشر کا چاہ رہا تھا کہ بولے وہ ایک بہت بری اور سازشی عورت ہے مگر وہ بابا جان کی وجہ سے مجبور ہو کر اسکی تعریف کرنے لگا۔
” ٹھیک ہیں! بہت اچھی ہیں۔” اس نے مختصر سا جواب دیا۔
“کیا پیاری ہے بہت؟ سنا ہے بہت حسین ہے۔” وہ مہرین کا قصّہ لے کے بیٹھ گئی تھیں۔
“سنے والے سنانے والے سب جھوٹے ہوتے ہیں۔ اپنی آنکھوں سے دیکھیں پھر کچھ بولیں۔” وہ مذاق کرتے ہوئے بولا۔ اس سے پہلے کہ وہ آگے کچھ بولتیں شیزہ چاۓ لے کر آگئی۔ شیزہ کو دیکھ کر وہ نیچے دیکھنے لگا، دل جیسے رک سا گیا تھا۔ اسکی دل کی دھڑکن بہت تیز ہورہی تھی اور وہ چاہ کر بھی اسکی طرف نہیں دیکھ سکتا تھا۔
“چاۓ۔” وہ کپ اسکے اگے بڑھاتے ہوئے بولی۔ اس نے انہی جھکی نظروں سے اسے دیکھا تو وہ لال ہوگئی اور چاۓ پکڑا کر وہاں سے چلی گئی۔ یہ منظر دیکھ کر نانی مسکرا دیں۔
******
مہرین آج پھر شرمین کے گھر پر تھی۔ مہرین عاشر کے برائیاں شرمین سے بیان کرتی تھی اور پھر شرمین اسے مشوارے دیا کرتی تھی۔ دونوں ہی کھڑکی سے باہر آسمان کو دیکھ رہے تھے۔
“تم اس کا پتہ صاف کردو اب۔ بہت ہوگیا ہے! وہ تمہارے مقابلے پر آنا چاہتا ہے۔ تم اس کو اس کی اوقات یاد دلا دو۔” شرمین اس کو عاشر کے مزید خلاف کر رہی تھی۔
“میں ہر طریقہ اپنا کر دیکھ چکی ہوں۔ اس منحوس پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔” وہ افسردہ تھی۔
“وہ تمہارا سوتیلا بھائی ہے اور سوتیلا ہونے کے باوجود وہ تمہارے باپ کے دل پر راج کر رہا ہے اور ایک تم ہو انکی ایک ہی بیٹی انکی وارث یہاں اپنی شکست کا جشن مانا رہی ہو۔ وہ تمہارے گھرپر بھی قابض ہوجاے گا ۔ یہ وقت تمہارا ہے چھین لو وہ سب کچھ جو تمہارا ہے۔” شرمین نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ وہ یونہی کھڑکی سے باہر ڈھلتے سورج کو دیکھ رہی تھی۔ اسے ہار ہرگز قبول نہیں تھی۔ اسکا دل بہت زور سے دھڑکا ۔اسکے چہرے پرایک مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔
“آئی ایم سوری لٹل برادر۔” یہ کہہ کر وہ ہنسی اور پھر سے باہر دیکھنے لگی۔
“کیا سوچا پھر تم نے؟ کوئی نیا پلان؟” شرمین کو اسکی بات سمجھ نہیں آئی۔
“اس کی باربادی کا وقت آگیا ہے۔” وہ دانت پیس کر بولی۔
“کیا مطلب؟” شرمین نے پوچھا۔
“اسکے کردار پر اگر کیچڑ اچھال دوں تو وہ کیا کر سکے گا؟” اس نے شرمین سے ہنس کر پوچھا۔ شرمین نے بھی ہنس کر مہرین کو دیکھا۔
“کچھ بھی نہیں! وری ویل دین۔” شرمین اور مہرین کوئی سازش کرنا چاہ رہے تھے۔
******
“یہ نئی ماسی تم نے رکھی ہے؟ کیوں؟” ماما جان نے مہرین سے آکر پوچھا۔
وہ بیٹھی گیم کھیل رہی تھی جب وہ کمرے میں آکر اس سے پوچھنے لگیں۔
“ہاں کیونکہ مجھے اپنے کام کے لئے الگ ماسی چاہیے۔ ویسے بھی گل بانو اچھی لڑکی ہے۔” وہ شانے اچکا کر بولی۔
“ہاں مگر ہم اسے نہیں جانتے بیٹا اور دوسری بات کہ جب بانو سارا کام کردیتی ہیں تو کیا ضرورت ہے گل کی؟” وہ اس کو سمجھانا چاہ رہی تھیں مگر مہرین کسی طرح ماننے کو تیار نہیں تھی۔
“وہ میرا کام کیا کرے گی بس۔ آپ کو کیا مسئلہ ہے؟” وہ بدتمیزی سے جواب دیتے ہوئے بولی۔
“ٹھیک ہے تم رکھ لو اسے مگر اس کا خیال رکھنا تمہاری ذمہ داری ہے۔” انہوں نے اسے سمجھایا اور چلی گئیں۔ مہرین کے لبوں پر ہنسی تھی اور دل میں خوشی۔ وہ اب عاشر کی بربادی کا سوچ کر ہنس رہی تھی۔
******
وہ دو ہفتے بعد واپس آگیا تھا اور اس نے سب کو وہاں کے قصّے اور حالات بتاۓ۔
“لگتا ہے بہت خوش ہو کر آئے ہو؟” مہرین اس کا راستہ روکتے ہوۓ بولی۔
“جی سب سے ملاقات جو ہوئی ہے۔” وہ بات کو مختصر کرتے ہوئے بولا۔
“ہاں سب سے یا شیزہ سے؟” وہ کبھی عاشر کو سکون سانس لینے نہیں دیتی تھی۔
“میرے پاس آپ کی فضول باتوں کا کوئی جواب نہیں ہے۔” وہ چڑ کر بولا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔
باقی دو دن اس نے آرام کیا کیونکہ اگلے ہفتے سے اسے یونیورسٹی جانا تھا اور وہ آرام کرنا چاہتا تھا۔
ہفتے کے دن وہ اپنے کمرے کی صفائی کر رہا تھا۔
مہرین گل سے بات کرنے لگی اور اسے کچھ بتانے لگی۔
وہ گل کو بات بتا کر اوپر چلی گئی اور پھر نیچے آئی سب کچھ پلان کے مطابق ہی چل رہا تھا۔ کمرہ صاف کرنے کے بعد وہ نہانے چلا گیا۔ کمرے کی لائٹ بند تھی، وہ اکثر جلد ہے نہا کر آجایا کرتا تھا۔ اس کے کمرے کا دروازہ کھلا اور کوئی اندر آیا۔ پھر دروازہ بند کرلیا۔
اتنی دیر میں مہرین بھاگتی ہوئی اوپر گئی اور بابا جان اور ماما جان کے پاس گئی۔
” جلدی نیچے چلیں! آپ کو نہیں پتا قیامت ہوگئی ہے۔” وہ چیخ چیخ کر کہنے لگی۔
” کیا ہوگیا مہرین بتاؤ کچھ!” ماما جان دونوں پریشانی میں کھڑے ہوگئے۔
“آپ لوگ آئیں!” وہ یہ کہہ کر نیچے دوڑی اور پیچھے دونوں بھی آنے لگے۔
عاشر شاور لے کر آیا تو وہ تولیا میں باہر آیا تھا بس وہ آگے بڑھا ہی تھا کہ کسی نے زور سے اسےسینے سے پکڑ لیا تھا۔ وہ حیران ہو کر دیکھنے لگا۔
وہ ایک نوجوان لڑکی تھی جو اس کے قریب ہوگئی تھی۔
“ہٹو پیچھے! کون ہو تم ! ہٹو!” وہ بہت مشکل سے سانس لے پا رہا تھا۔
وہ بھاگتی ہوئی کمرے کی طرف آئی۔ ساتھ میں بابا جان اور ماما جان بھی آرہے تھے۔ وہ تیزی سے قدم بڑھاتے ہوئے آگے چل رہی تھی۔ ماما جان کے ہاتھ پیر کانپ رہے تھے۔ وہ بار بار دعا کر رہیں تھی کہ کچھ ایسا نہ ہو جس سے اس گھر پہ مصیبت آ پڑے۔ مہرین کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور وہ خوشی سے سما نہیں پا رہی تھی۔ اسنے بے دھڑک ہو کر کمرے کا دروازہ کھولا۔
عاشر سامنے ہی کھڑا تھا۔
سب یہ منظر دیکھ کہ دنگ رہے گئے تھے۔ عاشر انکو دیکھ کر کانپنے لگا۔ اس نے اس لڑکی کو زور سے دھکا دیا۔ اس کا وجود کانپ رہا تھا۔ بابا جان اور ما ماجان دونوں سکتے میں تھے۔
“دیکھ لیں بابا جان! دیکھیں ! یہ کیا کر رہا تھا اس کمرے میں! یا اللّه یہ وقت آگیا ہے کہ تم اس قسم کے کم کرو گے۔ تمہیں ذرا شرم نہیں آئی بےغیرت۔ بابا جان کے پیار کا یہ صلاح دیا ہے تم نے؟” وہ بہت زور سے چیخی۔
“یہ سب کیا ہے عاشر؟” ماما جان صدمے سے بولیں۔
عاشر کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے وجود کی گواہی کیسے دے۔ کیسے بتاۓ کہ یہ سازش تھی اور یہ سب ایک جھوٹ ہے۔
“آپ سب چپ کیوں ہیں؟ بولیں اب کہاں گئی عاشر کی پاکیزگی؟ یہ ایک بد کردار انسان ہے۔” وہ الزام لگانے سے باز نہ آئی۔
“خدا کا خوف کریں مہرین! آپ کو شرم آنی چاہیے یہ الزام لگانے سے پہلے۔ پلیز بس کر دیں۔ میں نہیں جانتا کہ یہ لڑکی یہاں کیسے آئی۔” وہ معصومیت سے بولا۔
“تو یہ سب جھوٹ ہے جوھمارے سامنے ہورہا تھا؟ تم ایک گھٹیا انسان ہو۔ تم نے دیکھا دیا کہ تم کس کا خون ہو۔” وہ مسلسل عشر پر الزام لگا رہی تھی۔ بابا جان تو بس خاموش ہی کھڑے تھے۔
“اللّه گواہ ہے کہ میں نہیں جانتا یہ یہاں کیسے آئی! میں اللّه کے آگے گواہی دیتا ہوں۔”وہ روتے ہوئے کہنے لگا۔
بابا جان جو اب تک خاموش تھے وہ اب بول پڑے ۔
“بس ! ایک لفظ اور نہیں! اب بات کردار اور سچائی کی ہے تو ابھی قرآن لاؤ اور دو گواہی تم دونوں!” وہ دھاڑ کر بولے۔ مہرین جو اب تک بول رہی تھی کہ یک دم چپ ہوگئی۔ اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا کیونکہ وہ اب ایک مصیبت میں پھس گئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...