“شفی کے جانے کے بعد گھر بلکل خالی لگ رہا ہے” پھپھو نے کہا
“ہاں۔۔۔” ددو نے اداسی سے کہا
“وصی اب ہمیں بھی چھوڑ آؤ۔۔” پھپھو نے پاس بیٹھے وصی کو کہا۔۔
“جی پھپھو” وصی نے کہا۔۔
“حور جاؤ سامان اٹھاؤ” پھپھو نے کہا
“جی مما” وہ کہتی کمرے کی جانب بڑھ گئی۔۔
“جا وصی سامان گاڑی میں رکھ ” ددو نے کہا۔۔
اور وہ اٹھ کر چلا گیا۔۔
“اماں اس کے بارے میں بھی سوچو اب” پھپھو نے کہا
“بس رزلٹ آئے پھر فوج میں بھیجتی ہوں اسے” ددو نے کہا
“وہ تو ٹھیک ہے، مگر یہ جائے گا؟” پھپھو نے ہنس کر کہا
“جائے گا کیوں نہیں اس کے اچھے بھی جائیں گے” ددا نے کہا۔۔
“دادا پوتا دونوں ضدی ہیں” ددو نے کہا۔۔
اور شائستہ بیگم ہنسنے لگی۔۔
حور نے پہلے سے بیگ تیار کر لیا تھا۔۔
تھا تو ایک بیگ مگر وہی ہر بار کی طرح نانو نے بہت سی ضرورت کی چیزیں تھما دی اور سامان بڑھ گیا۔۔
شوہر کے آن ڈیوٹی انتقال کے بعد شائستہ بیگم کو پینشن اور بہت سی سہولت تھی۔۔
مگر پھر بھی اس کے ماں باپ نے اسے بہت سہارا دیا کبھی اکیلہ نہیں چھوڑا۔۔
فاروق صاحب کے دو ہی تو بچے تھے۔۔بیٹا اور بہو ایک ایکسیڈنٹ میں انتقال کر گئے تھے۔۔
اور پیچھے دو معصوم بچے چھوڑ گئے تھے۔۔
وصی اور شفی۔۔شفی اس وقت دس سال کا تھا اور وصی چھ سال کا جسے کوئی سمجھ نہیں تھی۔۔انہوں نے جب سے ہوش سمبھالا تھا ددا اور ددو کا پیار دیکھا۔۔
حور نے بھی جب سے حوش سمبھالا بس ایک ہی بات سنتی آئی اس کی منگنی شفی سے ہوچکی۔۔
چھوٹی عمر تھی خوش بھی تھی مگرآہستہ آہستہ اسے شفی کی نظر اندازی کو نوٹس کرنے لگی تھی وہ۔۔
اور سمجھنے لگی کہ شفی اسے پسند نہیں کرتا۔۔
مگر اس بار اسے شفی کا نیا ہی روپ نظر آیا۔۔شاید شفی نے اب اس کے اور اپنے رشتے کو ایکسیپٹ کر لیا تھا۔۔
وہ خوش تھی بہت شفی کا دیا سارا سامان اس نے بیگ میں خوشی خوشی رکھا جانے کتنی بار دیکھ چکی تھی۔۔
وہ کمرے میں سامان اٹھا رہی تھی۔۔
کہ وصی کمرے میں داخل ہوا۔۔
“او۔۔پدی سی ہو کہاں اٹھا لو گی یہ” وصی نے اسے بھاری بیگ اٹھاتے ہوئے دیکھ مزاق اڑایا۔۔
“اٹھا لوں گی” حور نے اہستہ سے کہا
“اچھا اٹھاؤپھر” وصی دونوں ہاتھ باندھے کھڑا مسکرا رہا تھا۔۔
اس نے یک دم نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔۔
وہ پھر سے بیگ اٹھانے لگی۔۔
جو واقع بھاری تھا۔۔
وصی اسے دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔۔
پھر آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ بیگ لے لیا۔۔
“ویسے بتا رہے ہیں تم سے نا ہو پائے گا” وصی نے ٹون میں کہا۔۔
اور حور کی ہنسی نمودار ہوئی۔۔
وہ بیگ اٹھائے باہر نکلا۔۔حور بھی پیچھے چل دی۔۔
اس نے بیگ گاڑی میں رکھا اور ڈرائیونگ سیٹ سمبھالی۔۔
شائستہ بیگم اور حور گاڑی میں بیٹھ گئے۔۔
وقت یونہی گزرتا جا رہا تھا۔۔
نور کا پورا وقت بس ناول پڑھتے گزر رہا تھا۔۔
دوستوں سے بھی ملاقات نہیں ہو پاتی تھی پیپرز کے بعد۔۔
تھوڑا بہت کانٹیکٹ بس فون پر تھا۔۔
وصی سے بھی اب اس کی اچھی خاصی دوستی ہوگئی تھی۔۔ اب بس رزلٹ کا انتظار تھا جو عنقریب تھا۔۔
رات بھی وہ کافی دیر تک ناول پڑھتی رہی جس پر کوثر بیگم سے اسے بہت ڈانٹ پڑی اور وہ ناول کا پیچھا چھوڑ سوگئی۔۔اور سوئی تو پھر ایسی کہ صبح دیر تک سوتی رہی۔۔
وہ بیڈ پر کمبل تان کر نیند میں گم تھی کہ فون بجنے لگا۔۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایا۔۔
“ہیلو” نیند میں بوجھل آواز ابھری
“ہیلو نور۔۔۔۔۔” وصی کی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔۔
“وصی۔۔اتنی صبح صبح کال کیوں کی؟” اس نے پوچھا۔۔
“صبح صبح۔۔نور دوپہر ہورہی ہے۔۔۔” وصی نے کہا
“دوپہر۔۔؟” وہ چونکی۔۔
“ہاں۔۔۔”وصی نے بتایا
وہ یک دم اٹھی۔اور وال کلاک کو دیکھا دوپہر کا 1 بجا رہی تھی۔۔
“تم اب تک سو رہی تھی؟” وصی نے پوچھا
“ہاں۔۔رات ناول پڑھتے ٹائم کا پتا نہیں لگا تو صبح بھی آنکھ نہیں کھلی” اس نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔
“ناول۔۔ناول کا پیچھا چھوڑ دو اب میچور ہوجاؤ۔۔” وصی نے کہا
“واٹ ڈو یو مین۔۔۔میں میچور نہیں ہوں؟” اس نے پوچھا
“ہمممم نہیں” وصی نے سوچ کر جواب دیا۔۔
“آپ کو ایسا کیوں لگا مسٹر وصی دارین؟”
“بس باتوں سے حرکتوں سے”
“اچھا کون سی حرکتیں؟” نور نے پوچھا۔۔
تبھی باہر سے کاثر بیگم کی آواز آئی۔۔
“وصی میں بعد میں کرتی ہوں۔۔مما بلا رہی ہیں۔۔ناشتہ بھی کرنا ہے مجھے اوکے بائے” اس نے کہا
اور فون بند کر کے باہر نکلی۔۔۔
“جی مما” اس نے کہا۔۔
“تمہارے سارے ناولز کو میں کسی دن آگ لگا دوں گی۔۔رات رات بھر پڑھتی ہو اور پھر دن چڑھے سوتی رہتی ہو” کوثر بیگم نے سنانی شروع کی۔۔
“ارے مما میری آنکھ نہیں کھلی آپ اٹھا دیتی نا مجھے” نور نے کہا
“میں نے اب تھپڑ لگانا ہے تمہیں۔۔۔کتنی دیر سے دروازہ بجا رہی ہو کمرے کا مگر میڈم تو نیند پوری کر رہی تھی” انہوں نے غصہ سے کہا
اور نور شرمندہ ہوئی۔۔
“میں تو کہ دوں گی تمہارے پاپا کو بس ہوگئی پڑھائی اب لڑکا دیکھے اور ہاتھ پیلے کرے تمہارے۔۔تبھی یہ ناول کا پیچھا چھوٹے گا” ان کا غصہ پارے پر تھا۔۔
وہ کھڑی منہ بسورتے ان کی ڈانٹ سن رہی تھی۔۔
“اب جاؤ جلدی فریش ہوکر آؤ اور میرے ساتھ کچن میں ہیلپ کرواؤ۔۔اب کھانا بنانا سیکھو اگلے گھر جا کر یہ ناول کام نہیں آئے گی” انہوں نے تلخ لہجے میں کہا
اور وہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔۔
“حور۔۔۔” شائستہ بیگم نے کچن سے اواز لگائی۔۔
“جی مما” وہ کچن میں داخل ہوئی۔۔
“تیار ہوجاؤ۔۔میں نے وصی کو بلایا ہے۔۔” شائستہ بیگم نے کہا۔۔
“کس لیے؟”
“مارکیٹ چلی جانا جو شاپنگ رہتی ہے پوری کرلو پھر شفی کے آتے ہی ابا فنکشن رکھیں گے ” شائستہ بیگم نے کہا
“آپ بھی چلیں نا؟” اس نے کہا
“نہیں مجھے ابھی بہت سے کام ہیں گھر میں پھر ٹائم نہیں ملے گا” انہوں نے کہا۔۔
“لیکن مجھے اگر سمجھ نہیں آیا تو؟”
“وصی ہے نا اس سے ایڈوائز لینا” انہوں نے کہا
“انہیں کیا پتا لیڈیز کی شاپنگ کا؟” حور نے کہا۔۔
“مجھے سب پتا ہے مس حورین” پیچھے سے وصی کی آواز ابھری۔۔
“آپ۔۔۔” حور چونکی
“اسلام علیکم پھپھو” اس نے آگے بڑھ کر سلام کیا۔۔
“وعلیکم اسلام آگئے وصی۔۔۔” انہوں نے خوش ہوکر کہا۔۔
“جی پھپھو۔۔کیا بنا رہی ہیں؟” اس نے قریب آکر کہا۔۔
“پکوڑے ہیں کھاؤ” شائستہ بیگم نے اس کی طرف پلیٹ بڑھائی۔۔جسے اس نے تھام لیا۔۔
“تم باہر بیٹھو۔۔۔حور جاؤ تیار ہوجاؤ” شائستہ بیگم نے حور کی طرف دیکھا۔۔
“جی مما” وہ کہتی باہر نکل گئی۔۔
تھوڑی دیر بعد جب وہ تیار ہوکر آئی تو وصی صوفے پر بیٹھا پکوڑوں سے انصاف کر رہا تھا۔۔
اسے دیکھ مسکرایا۔۔
“چلیں؟” وصی نے پوچھا۔۔
“جی۔۔۔” اس نے دھیمے لہجے میں کہا۔۔
اور وصی باہر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔
حور بھی چپ چاپ جا کر گاڑی میں بیٹھی۔۔
اور وصی نے گاڑی اسٹارٹ کی۔۔
“تو مس حورین شفی دارین۔۔۔آپ کو کیا شاپنگ کرنی ہے؟” وصی نے شرارت سے پوچھا۔۔
“مجھے۔۔وہ۔۔ڈریس اور۔۔میچنگ کی جیولری” حور نے آہستہ سے کہا۔۔
“اچھا۔۔ایک بات بتاو؟” وصی نے کہا
“جی۔۔” وہ نظریں جھکائے بیٹھی تھی۔۔
“تم اتنا آہستہ کیوں بولتی ہو؟” وصی نے اکتاہٹ سے کہا۔۔
“جی۔۔نہیں تو” اس نے کہا۔۔
“شفی سے بات کرواؤ؟” وصی نے یک دم کہا۔۔
“جی۔۔۔نن۔۔نہیں” وہ بوکھلائی۔۔
اور اس کی حرکت پر وصی کا قہقہہ گونجا۔۔
مزاق کر رہا ہوں” وصی نے کہا۔۔
اور وہ پھر سے نظریں جھکائے بیٹھ گئی۔۔
“ویسے چاہو تو۔۔۔کروا دوں گا” وصی نے کہا۔۔
“نن۔۔نہیں۔۔۔” اس نے معصومیت سے کہا۔
“چھا چلو مرضی ہے۔۔۔” وصی نے کہا۔۔
اور گاڑی ایک مال کے سامنے روکی۔۔
“چلو۔۔۔” وصی نے کہا اور دونوں گاڑی سے اترے۔۔
مال کے اندر داخل ہوئے۔۔
ڈریس خریدنے کی غرض سے شاپ میں داخل ہوئے۔۔
کتنے ہی ڈریس دیکھتے رہے مگر ان دونوں کو ہی سمجھ نہیں آئے۔۔
پھر ایک ڈریس دکھایا شاپ والے نے جو ان دونوں کو ہی پسند آیا۔۔ بلو کلر کا ڈریس جس پر گولڈن کلر سے باریک سے کام ہوا تھا۔۔گولڈن ہی دوپٹہ کے ساتھ وہ ڈریس دونوں کو ایک ہی نظر میں بھا گیا۔۔
“ہاں یہ پیک کردیں” وصی نے کہا۔۔
اور پیک کروا کر وہ لوگ شاپ سے باہر نکلے۔۔
پھر جیولری کی شاپ سے میچنگ کی جیولری لی۔۔
اور مال سے باہر نکل آئے۔۔
انہیں کافی دیر ہوگئی تھی۔۔
وہ گاڑی میں بیٹھے۔۔
وصی گاڑی اسٹارٹ ہی کرنے والا تھا کہ۔۔ایک فقیر نے گاڑی کے پاس آکر سدا دی۔۔
وصی نے والٹ نکالا اور کچھ پیسے نکال کر اس فقیر کو دیے۔۔
“اللہ جوڑی سلامت رکھے۔۔۔ہمیشہ خوش رکھے۔۔” وہ فقیر دعائیں دیتا چلا گیا۔۔
اور وصی اور حور دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا۔۔۔
“اتنی مصیبت سے ڈریس پسند آیا” وصی نے کھانا کھاتے ہوئے کہا۔۔
“شفی کب تک آئے گا؟” شائستہ بیگم نے پوچھا
“کل آجائے گا” وصی نے جواب دیا
“پھر دو تین دن بعد کا فنکشن رکھ لیں گے” انہوں نے کہا
“ہاں۔۔” وصی نے مختصر کہا۔۔
تبھی کا فون بجا۔۔اس نے فون جیب سے نکالا۔۔
اسکرین پر شان کالنگ جگمگا رہا تھا۔۔
“ہیلو۔۔ہاں بول” وصی نے کہا۔۔
“ابے رزلٹ آگیا۔۔” شان کی آواز ابھری۔۔
“کیا۔۔تونے معلوم کیا؟” وصی نے پوچھا۔۔
“نہیں دیکھتا ہوں میں نے سوچا تجھے بتا دوں۔۔” شان نے کہا
“میرا نمبر معلوم ہے نا میرا بھی کر معلوم۔۔میں تھوڑی دیر آتا ہوں” وصی نے کہ کر فون بند کردیا۔۔
اور واپس جیب میں رکھا۔۔
“کیا ہوا؟” شائستہ بیگم نے پوچھا۔۔
“رزلٹ آگیا۔۔ابھی جا کر معلوم کرتا ہوں” وصی نے کہا۔۔
“اچھا کیا رزلٹ آیا آپ کا؟” حور نے یک دم پوچھا۔۔
“او پدی۔۔۔ابھی رزلٹ آیا ہے بتا تو رہا ہوں دیکھا نہیں میں نے” وصی نے ہنس کر کہا۔۔
اور حور پھر سے خاموشی سے نظریں جھکائے بیٹھ گئی۔۔
“وصی آگے کیا سوچا ہے تم نے؟” شائستہ بیگم نے پوچھا۔۔
“آگے سوچا نہیں ابھی شاید یونیورسٹی” وصی نے آخری لقمہ منہ میں ڈالا۔۔
“وصی ابا چاہتے ہیں تم فوج میں جاؤ”
“مگر میں جانا نہیں چاہتا پھپھو۔۔”
“تو ان کی خوشی کے لیے چلے جاؤ”
“جب میں وہاں رہ ہی نہیں سکتا تو جا کر کیا کروں گا؟”
وصی نے پوچھا
“وصی تم۔۔” پھپھو نے کچھ کہنا چاہا مگر خاموش ہوگئی۔۔
“آپ ٹینشن نہیں لیں میں انہیں خود سمجھا لوں گا” وصی اٹھ کھڑا ہوا۔۔
“کہاں چل دیے؟” انہوں نے اسے اٹھتے دیکھ پوچھا۔۔
“ابھی تو دوست کی طرف جارہا ہوں رزلٹ معلوم کرتا ہوں پھر گھر” وصی نے بتایا
“اچھا۔۔جلدی چلے جانا گھر ابا غصہ ہوں گے” شائستہ بیگم نے کہا۔۔
اور وہ خدا حافظ کرتا چلا گیا۔۔
وہ جب گھر آیا تو12 بج رہے تھے۔۔
پورے گھر میں خاموشی چھائی تھی۔۔
اس نے گہرا سانس لیا۔۔
اور گھبراہٹ کو دور کیا۔۔
وہ چپ چاپ دبے قدموں سے پنے کمرے کی جانب بڑھا ہی تھا کہ پیچھے آواز پر یک دم اچھلا۔۔
“کہاں تھے اتنی دیر؟” ددا کی آواز کانوں میں پڑی۔۔
“وہ۔۔۔وہ۔۔ددا۔۔میں شان کے پاس تھا۔۔” وصی نے کہا
“تو یہ ٹائم ہے واپس آنے کا؟ ” ددا نے غصہ سے کہا۔۔
“ددا دیر ہوگئی” وصی نے معصومیت سے کہا
“دیر ہوگئی تھی تو وہیں رہ لیتے” انہوں نے غصہ سے کہا۔۔
“ددا رزلٹ معلوم کرنے گیا تھا” وصی نے کہا
“کیا آیا ہے رزلٹ؟” انہوں تلخ لیجے میں پوچھا
“اے۔۔۔” وصی نے یک دم کہا
“یہی امید تھی تم سے۔۔۔اب رزلٹ آگیا ہتے نا تیاری پکڑو فوج کی” ددا نے غصہ سے حکم دیا
“ددا مجھے فوج میں نہیں جانا” وصی نے کہا
“فوج میں جانا پڑے گا۔۔ورنہ تجھے گھر سے نکال دوں گا۔۔آگ کردوں گا جائیداد سے۔۔”
“دڈا یہ کیا بات ہوئی؟” وہ لاچارگی سے کہنے لگا۔۔
“یہی بات ہے۔۔۔تیاری پکڑو بس” وہ کہتے وہاں سے چلے گئے۔۔
اور وصی انہیں جاتا دیکھنے لگا۔۔
صبح شفی پہنچ گیا تھا۔۔اور اپنے کمرے میں آرام کررہا تھا۔۔جبکہ وصی گھر کے کام دیکھ رہا تھا۔۔
دوسرے دن کا فنکشن رکھا گیا تھا۔۔
وصی لان میں کھڑا تھا ۔۔۔جب ددو وہاں آئی۔۔
“وصی” ددو نے پکارا
“جی ددو؟” وصی نے پوچھا
“شفی کو لے جا جا مارکیٹ۔۔اس نے تو کچھ نہیں لیا ابھی تک کل کیا پہنے گا؟” ددو نے کہا
“میں تو کہ رہا تھا مگر جناب نے کہا میں خود لوں گا” وصی نے بتایا۔۔
“چل اسے اٹھا اور لے جا ساتھ۔۔۔” ددو کہتی اندر چلی گئی۔۔
اور وہ شفی کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔۔
دروازے پر دستک دی۔۔
جسے شفی نے فوراً ہی کھول دیا۔۔
“اٹھا ہوا تھا؟” وصی نے پوچھا
“ہاں۔۔۔” شفی کہتا اندر چلا گیا۔۔
“چل آجا تیار ہوکر مارکیٹ چلتے ہیں۔۔کل کے لیے کچھ لینا نہیں کیا” وصی نے کہا
“ہاں۔۔لینا تو ہے یار” شفی نے جواب دیا
“تو آجا جلدی تیار ہوکر۔۔۔” وصی کہ کر پلٹا۔۔
“اور ہاں۔۔۔اچھا سا تیار ہوجا حور کو بھی پک کرلیں گے” وصی نے کہا۔۔
اور شفی اس کی بات پر مسکرا دیا۔۔
“واہ واہ۔۔پہلے تو لوگ چڑ جاتے تھے۔۔اب مسکرا دیتے ہیں اچھی بات ہے” وصی نے شرارت سے کہا۔۔
“میں پہلے بھی نہیں چڑتا تھا” شفی نے ہنستے ہوئے کہا۔۔
“چلو مان لیتے ہیں۔۔اب آپ باہر تشریف لے آئیں” وصی کہتا باہر نکل گیا۔۔
اور وہ واش روم کی جانب بڑھ گیا۔۔
وہ کچن ڈے نکل کر کمرے کی طرف جا رہی تھی۔کہ دروازہ بجا۔۔
انہوں نے جیسے ہی کھولا سامنے شفی اور وصی تھے۔۔
“اسلام علیکم پھپھو” دونوں نے سلام کیا
“وعلیکم السلام” انہوں نے خوش دلی سے جواب دیا۔۔
“کیسے ہو شفی۔۔؟” شائستہ بیگم نے پوچھا
“میں ٹھیک ہوں پھپھو آپ کیسی ہیں؟” شفی نے مسکرا کر پوچھا۔۔
“میں تمہارے سامنے ہوں” پھپھو نے کہا
“اور حور کا بھی تو پوچھ۔۔” وصی نے اسے ٹوکا بدلے میں شفی نے اسے گھورا۔۔
اور شائستہ بیگم ہنسنے لگی۔۔
“وہ بھی ٹھیک ہے” انہوں نے خود ہی بتایا
“ہے کہاں وہ نظر نہیں آرہی” وصی نے کہا۔۔
“وہ گھر کے پچھلی طرف ہے۔۔میں بلاتی ہوں” شائستہ بیگم نے کہا
“ہم خود ہی بلا لیں گے پھپھو۔۔شاپنگ پر لے جانے آئے ہیں اسے” وصی نے کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔۔
“اچھا۔۔تب تک میں چائے بناتی ہوں” شائستہ بیگم نے کہا
“نہیں پھپھو۔۔کافی” شفی نے کہا
“اچھا کافی بنا لیتی ہوں” وہ کہتی کچن میں چلی گئی۔۔
اور وہ دونوں حور سے ملنے چل دیے۔۔
حور جھولا جھولنے میں مصروف تھی۔۔
لمبے سلکی بال ہوا میں لہرا رہے تھے۔۔گلے میں دوپٹہ ڈالے، رسی کو دونوں اطراف سے تھامے وہ مانو ہوا میں اڑنے کا مزہ لے رہی تھی۔۔
ان دونوں کی نظر اس منظر پر ٹھہر گئی۔۔
“حور۔۔۔” وصی نے پکارا۔۔
جس پر وہ چونکی۔۔
اور پلٹ کر دیکھا۔۔
وہ انہیں ہڑبڑائی۔۔اور چلتے جھولے سے اترنے لگی۔۔
اس سے پہلے کہ وہ گرتی۔۔وصی نے آگے بڑھ کر اسے تھاما۔۔
اس نے بڑی بڑی آنکھیں پھیلا کر وصی کو دیکھا۔۔
وصی بھی اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔۔
پاس کھڑا شفی مسکرا رہا تھا۔۔
اور قریب آکر کھنکارا۔۔
وصی یک دم پیچھے ہوا۔۔
“یہ کیا۔۔۔اس سین میں تو میرا رول تھا تیرا نہیں۔۔۔” شفی نے ہنس کر کہا۔۔
“فکر مت کر پوری عمر ہی تجھے اسے تھامنا ہے کیوں یہ مس حورین ہمیشہ گرتی پڑتی رہتی ہے” وصی نے شرارت سے کہا
اور دونوں ہنسنے لگے۔۔
حور نظریں جھکائے معصومیت کی حد پر تھی۔۔
ان لوگوں نے مارکیٹ پہنچ کر شفی کا ڈریس پسند کیا۔۔
شوز وغیرہ ہر چیز جب مکمل ہوگئی تو وہ لوگ آئسکریم کھانے کی غرض سے آگے بڑھے مگر ایک شاپ کے باہر شفی رک گیا۔۔
“کیا ہوا؟” وصی نے پوچھا۔۔
“حور تم نے ڈریس لے لیا؟” شفی نے حور سے پوچھا
“جی۔۔” حور نے نرم لہجے میں کہا
“ہاں لے لیا اس نے میرے ساتھ تو گئی تھی لینے۔۔۔” وصی نے کہا۔۔
“یہ ڈریس دیکھو۔۔۔کیسا ہے؟”شفی نے شیشے کی طرف اشارہ کیا۔۔
وہ ایک سمپل سا لہنگا تھا اورنج کلر کا، جس پر پنک کلر کی شرٹ اور سلور کلر کا دوپٹہ۔۔جس پر ہلکا سا کام تھا۔۔۔
وصی اور حور دونوں نے اس ڈریس کو دیکھا۔۔
“اچھا ہے مگر اس نے تو لے لیا نا؟” وصی نے کہا
“وہ پھر کبھی پہن لے گی۔۔چلو یہ خریدتے ہیں” شفی کہ کر اندر بڑھا۔۔
“یہ پاگل ہوگیا۔۔یہ ملٹی شیڈ لہنگا دلوائے گا اب منگنی کے لیے” وصی بڑبڑایا۔۔
“چلو بھئی اب آپ کے منگیتر کا حکم ہے تو لیتے ہیں” وصی کہتے ساتھ ہنسنے لگا۔
اور دونوں اندر بڑھ گئے۔۔
دو رنگ جانے پر ہی کال رسیو کرلی گئی۔۔
“ہیلو نور” وصی نے کہا۔۔
“کیا ہوا۔۔وصی خیریت ” نور نے کہا
“میں نے تمہیں بتایا تھا نا میرے بھائی کی انگیجمنٹ کا۔۔۔” وصی نے کہا
“ہاں کل ہے نا؟” نور نے پوچھا
“ہاں تم آرہی ہو نا؟”
“کوشش کروں گی۔۔”
“کوشش نہیں تمہیں آنا ہے۔۔۔” وصی نے تصحیح کی
“اچھا بابا آجاؤں گی۔۔” نور نے ہار مانی
“تھوڑی دیر میں شان پارسل لے کر آئے گا تمہارے پاس” وصی نے بتا
“پارسل کیسا؟” وہ چونکی
“سرپرائز ہے تمہارے لیے” وصی نے کہا
“کیا بات ہے بھئی مسٹر وصی کنجوسوں کے بھی کنجوس آج میرے لیے کیا بھیج دیا؟” نور نے طنز کیا
“نور۔۔۔تم لائق ہی نہیں۔۔۔” وصی نے کہا اور نور کا قہقہہ گونجا۔۔