زیان کب آئیں گے آپ؟ مہین کی آواز سے تھکن محسوس ہو رہی تھی۔ وہ صبح سے تیسری مرتبہ فون کر چکی تھی۔دفتر کے کاموں کا بوجھ الگ اوپر سے مہجبین کے لیے فکرمندی، زیان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کو کافی تھے۔
زندگی معمول کے مطابق چلتی جا رہی تھی، زیان کی مہجبین کے لیے فکر مندی دیکھ کر اسکا خیال رکھنے کا انداز دیکھ کر کوئی بھی یہ نہیں کہ سکتا تھا کہ ان کی شادی لو میرج نہیں ہوئی۔۔
ان چند ماہ میں عاصم بھائی یو این مشن سے واپس آچکے تھے۔شمائلہ کو اللّٰہ تعالٰی نے چاند سے بیٹے سے بھی نوازا تھا۔ جس کا نام ٹیپو رکھا تھا اسکی اکلوتی ممانی نے۔
ٹیپو کے جانے کے بعد سے گھر میں جیسے ویرانی سی چھا گئی
دوسری طرف انجبین کے نام کے برعکس زندگی میں کڑواہٹ بڑھتی چلی جارہی تھی اور وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کا اختتام کہا ہوگا!
انجبین نے اپنی سی ہر ممکن کوشش کر کے دیکھ لیا تھا،مگر وہ ہر مرتبہ ہی تھک کر گر جاتی۔جتنا مرضی ہاتھ پاؤں چلائے مگر وہ تو جیسے دلدل میں دہنستی چلی جا رہی تھی۔ مار کھانے کی اسکو عادت ہو چکی تھی۔وہ تو بس اپنی کوکھ میں پلتے ہوئے بچے کی خاطر یہ سب برداشت کر رہی تھی۔
——————————–
ٹیلیفون کی گھنٹی مسلسل بجتی چلی جا رہی تھی،لیکن کوئی بھی فون اٹھا نہیں رہا تھا۔ نائلہ کے چہرے پہ پریشانی کے آثار دیکھائی دے رہے تھے۔
نائلہ:آپ وہاب کے نمبر پہ کال کریں پلیز! واجد۔نائلہ کو سچ مچ کی فکر لاحق تھی وہ انجبین کی صحت کے لیے پریشان رہتی تھیں۔
واجد: وہاب کا نمبر بھی بند جا رہا ہے۔ہمیں ان کے گھر چلنا چاہیے۔واجد کا چہرہ بھی ان کے اندر کی حالت کی ترجمانی کر رہا تھا۔ابھی یہ باتیں جاری ہی تھی کہ پڑوس سے روزینہ بھابھی گھبرائی ہوئی گھر میں داخل ہوئیں۔ان کے اوسان خطا تھے وہ بس نائلہ اور انجبین گئی۔ یہی کہتی چلی آرہی تھیں۔ان کے منہ سے انجبین کا نام سن کر نائلہ آپی کی تو جیسے جان ہی نکل گئی۔وہ ایک لمحے کو تو جیسے سب کچھ ہی جان گئی تھی۔ انہوں نے بس ہسپتال کا نام معلوم کیا۔اور خاموش ہو گئیں۔انکی آنکھوں میں آنسو امڈتے چلے آرہے تھے۔انکا سر کسی مجرم کی طرح جھکا ہوا تھا۔زندگی میں ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے اپنے شوہر اور سسرال کو ہر معاملے میں مقدم رکھنے والی نائلہ کو آج شکست ہو چکی تھی۔۔جس دیور کی خاطر انہوں نے اپنے بھائی کی خوشیوں کا سودا کر دیا تھا،آج اسی نے نائلہ آپی کا تمام غرور وہ فخر خاک میں ملا دیا تھا۔
وہ ہسپتال کے کمرے میں بوجھل ہوتے قدموں اور جھکے ہوئے سر کے ساتھ داخل ہو رہی تھیں۔
وہ انجبین کی زندگی میں آنے والے دکھوں کی بھی مجرم تھی۔
سامنے بستر پہ انجبین بےہوشی کے عالم میں پڑی تھی۔
یہ سب کب ہوا کیسے ہوا؟اس کے بارے میں تو بس انجبین بتا سکتی تھی،یا پھر وہاب
دو دن گزر چکے تھے،وہاب کو ڈھونڈ کر لایا جا چکا تھا۔انجبین بھی ہوش میں آچکی تھی،مگر اس کو تو جیسے کچھ یاد ہی نہیں تھا۔اس کے الفاظ تو جیسے روٹھ ہی گئے تھے۔
سیڑھیوں سے گرنے کی وجہ سے آنے والے زخم اور چوٹیں انجبین کے لیے کوئی بڑی بات نہ تھی۔مگر اس کے لیے اپنا بچہ کھو دینا سب سے بڑا دکھ اور امتحان تھا۔وہ رو رہی تھی،رو رو کر تھک جاتی تو اپنی کوکھ کو ویران پا کر پھر سے رونے لگتی۔ “میرا بچہ” یہ ایک جملہ تھا جسے وہ بار بار ادا کر رہی تھی۔۔۔ یہ سب کیسےہوا تھا کوئی جان ہی نہ پایا تھا۔ادھر وہاب کی حالت ایسی تھی جیسے سب سے زیادہ اس بات کا صدمہ اسی کو ہوا ہے۔۔۔وہاب کے مطابق جو کچھ بھی ہوا تھا وہ اس کی غیر موجودگی میں ہوا تھا۔
جبکہ انجبین کے لب تو اس معاملے میں جیسے سلے ہوئے تھے۔۔
واجد بھائی وہاب کو کمرے میں لے آئے تھے۔ انجبین اس دوران اپنا سر گھٹنوں میں دبائے رو رہی تھی۔اس کی سسکیوں کی گونج کمرے بھر میں سنائی دے رہی تھی۔ انجبین کی سسکیوں میں کچھ ایسا تھا کہ جو کوئی بھی ان کو سنتا اس کا دل بھر آتا تھا۔
وہاب نے پاس بیٹھ کر انجبین کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
وہاب:آئی ایم سوری انجبین! وہاب کی آواز حلق میں
ہی اٹک رہی ہو جیسے۔وہ انجبین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھ رہا تھا۔
انجبین وہاب کو چند لمحے یوں ہی خالی نگاہوں سے دیکھتی رہی۔ وہاب نے آگے کی جانب جھک کر اسکے کان میں کچھ کہنا چاہا مگر انجبین پیچھے ہٹ گئی۔
انجبین: واجد بھائی انکو لے جائیں یہاں سے۔ انجبین کا لہجہ بے حد سردتھا۔
وہاب: تم میری بیوی ہو مجھے تم سے اور تمہیں مجھ سے کوئی جدا نہیں کر سکتا,سنا تم نے؟ وہاب نے اپنا حق جتایا تھا۔ اس کے لہجے میں رعونت تھی۔
انجبین: آہستہ بات کیجے میں آپکی عطا کردہ چہت کے نیچے نہیں ہوں مسٹر وہاب۔آپکو مجھ پہ رعب جمانے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ایک پل میں نہ جانے اس کمزور سی انجبین میں اتنی طاقت کہاں سے آگئی تھی کہ اس نے وہاب کو للکارا تھا۔۔
وہاب نے غصہ میں اس کی کلائی پکڑ کر اسے ساتھ لے جانا چاہا تھا،
انجبین نے کلائی ایک ہی جھٹکہ سے آزاد کروا لی تھی۔
انجبین:”انسان کو انسان پر رعب جمانے اور انہیں جھڑکی دینے کا کوئی حق نہیں،یہ نقلی استحقاق، صرف غرور نفس کا دھوکا ہے۔اور غرور کسی انسان میں تب تک نہیں آسکتا جب تک وہ بد قسمت نہ ہو”۔ اور جانتے ہیں وہاب؟ آپ بد قسمت ہیں! وہ چیخ رہی تھی وہ رو رہی تھی اس کے ہونٹ لرز رہے تھے۔اسے وہاب میں ایک درندہ دیکھائی دے رہا تھا۔ جس نے اپنے ہی خون کا خون کر ڈالا تھا۔
وہ بے بسی سے رو رہی تھی۔ اس سے قبل کے وہاب کچھ کہتا کوئی صفائی پیش کرتا واجد بھائی نے ایک زور دار تپھڑ مار کر وہاب کو کمرے تو کیا اس گھر سے بھی نکال دیا۔
انجبین کے ضبط کی انتہا ہو گئی تھی وہ اب چپ نہیں رہنا چاہتی تھی۔وہ سب کچھ کہ دینے کو تیار تھی بس اسے اپنی امی کی آمد کا انتظار تھا۔۔
___________________
امی کہاں ہے مہجبین؟ صبح سے کالز کر رہی تھی، میں فری نہیں تھا کہ جلدی واپس آجاتا۔ زیان نے گھر داخل ہوتے ہی سوالات کا آغاز کر دیا۔
ماں کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گئی،بیٹے کو اپنی بیوی کے متعلق یوں پوچھتے ہوئے دیکھ کر انہیں اچھا لگا تھا۔گزشتہ دو ماہ میں زیان کی تو جیسے زندگی ہی بدل گئی تھی۔
کمرے میں جانے کے بارے میں زیان ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ اسے اپنی جانب آتی ہوئی مہجبین کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔وہ یوں ہی آنکھیں بند کیے بیٹھا رہا،اسے اچھا لگنے لگا تھا مہجبین کا ایسے قریب آنا۔
مہجبین نے بنا کچھ بولے زیان کے پہلو میں رکھا “کوٹ” اٹھا کر اپنی گود میں رکھ لیا۔
مہجبین: یہ بال کس کے لگے یہاں؟ وہ مصنوعی غصے کا اظہار کرتے ہوئے بولی۔ یہ چلبلا سا انداذ اور دبی دبی ہنسی۔
زیان: یہ بال ادھر ہی چھوڑ گئی یار! زیان ایسے زیر لب بولا کہ جسے سن کر مہجبین بھی مسکرا دی،اور اس نے اپنا سر زیان کے کندھے پر رکھ دیا۔ وہ سامنے کچن میں کام کرتی اپنی ساس کو بھی دیکھ رہی تھی کہ کہیں وہ یہ سب حرکتیں نہ دیکھ لیں۔ زیان کی امی اس معاملے میں زیادہ سخت گیر واقع نہیں ہوئی تھیں۔ مگر پھر بھی مہجبین آج کچھ زیادہ ہی شرمیلے پن کا مظاہرہ کر رہی تھی۔
وہ دونوں کچھ دیر یوں ہی بیٹھے رہے۔زیان سورۃ رحمٰن کی تلاوت لگا کر سنے لگا تھا۔ زیان کو دیکھ کر مہجبین نے بھی آنکھیں بند کر لیں تھی۔
“فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ”
(اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے)
اس آیتِ کریمہ کا ترجمہ سنتے ہی بے اختیار اور بنا کسی ارادے کے مہجبین کی نظریں زیان کی طرف اٹھ گئی تھیں! جہاں زیان پہلے ہی ہونٹوں پہ مسکراہٹ سجائے اسے دیکھ رہا تھا۔”وہ دونوں بھی تو خدا کی طرف سے ایک دوسرے کے لیے ‘نعمت’ سے کم نہیں تھے۔۔۔وہ دونوں ہی پرسکون تھے۔
ماں اگر کھانے پر بلانے کو آواز نہ دیتیں تو نہ جانے یہ دونوں کتنی ہی دیر ایسے گم صم ایک دوسرے کو دیکھتے چلے جاتے!۔
کھانے کے بعد زیان کا پسندیدہ بیسن کا حلوہ جسے مہجبین نے تیار کر رکھا تھا وہ لایا گیا۔ حلوے کی مہک نے زیان کی تھکن سے ہو جانے والی ابتر حالت کو ایک ہی منٹ میں بہتر کر دیا تھا۔۔ مہجبین نے زیان کے لیے حلوہ پلیٹ میں نکالا اور ایک لفافہ اس کے ساتھ رکھ کر برتن سمیٹنے کی غرض سے کچن میں چلی گئی۔ حلواہ اور یہ “انویلپ”۔
مہجبین کمرے میں ٹہلتی ہوئی ایک سے دوسرے کونے میں جا رہی تھی اپنے کمرے کے۔
___________________
انسان دکھ اور تکلیف میں ہو تو سب سے پہلے اسے خدا کی یاد آتی ہے یا پھر ماں کی۔ انجبین تھک کر ماں کی آغوش میں آچھپی تھی۔۔۔ اسے خدا نے ماں سے بھی قریب کر دیا تھا۔
“انسان کا اللہ سے قریب ترین رشتہ آنسوؤں کا ہے” آنسوؤں کی تو دریا بہایا تھا انجبین نے۔
جب جب وہاب اسے بیلٹس سے مارتا تھا۔جب کبھی بھی وہ جنونی شخص اس کے نرم و نازک جسم کو سگریٹوں کی مدد سے جھلسا دیتا تھا۔۔۔تب تب انجبین صبر سے کام لیتی تھی۔وہ آنسوؤں کو پی جاتی تھی۔وہ اپنے اللّٰہ سے ہی مدد کی طلبگار تھی۔اسے یقین کامل تھا کہ اسے اس کا مالک اکیلا نہیں چھوڑے گا۔۔
انجبین کو ماں ساتھ لے جا رہی تھی! طلاق کے لیے درخواست بعد میں دینے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔اس جہنم سے دور لے جایا جا رہا تھا انجبین کو اس آگ سے جس میں وہ نہ جانے کتنی خوشیوں اور ارمانوں کے ساتھ داخل ہوئی تھی۔
اس کے سب خواب ٹوٹ گئے تھے۔اسکا غرور خاک میں مل گیا تھا! وہ خالی ہاتھ لوٹ رہی تھی۔مگر اسے اللّٰہ تعالٰی کی قربت مل گئی تھی۔اسے دکھ تھا تو فقط اس بات کا کہ وہ اپنا بچہ نہ بچا سکی۔اس کی حفاظت نہ کر پائی تھی۔جس کے لیے وہ سب سہتی رہی تھی وہ بھی اسے تنہا کر گیا تھا۔
__________________
زیان کمرے میں داخل ہوا تو اس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔
اس کے چہرے پہ خوشی کے آثار تلاش کرنے سے بھی نہیں مل رہے تھے۔ اس کی آنکھوں میں سرخی تھی جیسے وہ روتا رہا ہے۔یا پھر اپنے آنسوؤں کو ضبط کرتے کرتے اس کی آنکھیں ایسی ہو گئی ہیں!
مہجبین: آپ ٹھیک تو ہیں نا؟ مہجبین تقریباً بھاگتی ہوئی زیان کے پاس آئی تھی، اس کی سانسیں تیز ہو رہی تھی۔اسکی آنکھوں میں حیرانی تھی۔ ایسی خبر ملنے سے تو لوگ خوشی سے جھوم اٹھا کرتے ہیں لیکن زیان کا چہرہ تو! صبح جب امی کو بتایا تھا وہ بھی اتنی خوش نہیں ہوئیں تھی۔ مہجبین کے دل میں وسوسوں اور خدشات نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔
زیان: ہاں میں ٹھیک ہوں! تم یوں کیوں پوچھ رہی ایسے کیا دیکھ رہی ہو۔ زیان نے أگے بڑھنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ راستہ تو تھا ہی نہیں! مہجبین زیان کے بلکل قریب کھڑی تھی۔ایسے میں وہ کہاں جا سکتا تھا۔
مہجبین: آپ ٹھیک ہیں تو یہ آنکھیں لال کیوں ہیں؟ اس نے ہاتھ سے رپورٹس لے کر زیان کی آنکھوں کے سامنے لہرائیں “ان کو پڑھ کر بھی آپ خوش نہیں ہیں زیان”؟
بولیں! جواب دیجے یوں مجرموں کی طرح سر کیوں جھکا لیا ہے آپ نے؟
مہجبین کی آواز سے لگ رہا تھا جیسے وہ رو دے گی۔اس کا ضبط جواب دے رہا تھا۔
کچھ دیر دونوں کے درمیان کوئی بات نہ ہوئی کمرے میں گہری خاموشی چھا گئی تھی۔ چند لمحوں کے بعد زیان کی آواز ابھری! آواز تو زیان کی تھی مگر یوں محسوس ہوا جیسے زیان جبین کے پہلو میں نہیں بلکہ دور کہیں سے بول رہا ہے۔وہ جو کچھ بول رہا تھا اس میں شاید اس کی رائے اس کی مرضی نہیں تھی شامل۔
“ہم یہ بچہ پیدا نہیں کریں گے جبین”۔۔۔۔۔۔۔ زیان کے منہ سے نکلنے والے ان الفاظ نے تو جیسے انجبین پہ بجلیاں گرادی تھی! اسکے ہاتھ کی گرفت زیان کے بازو پہ ڈھیلی پر گئی تھی۔ اسکی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے تھے۔۔ وہ چند لمحے یوں ہی کھڑی رہی۔پھر آہستہ سے بولی،
مہجبین: آخر کیوں؟ کیا میں اچھی نہیں ہوں زیان؟ مجھ میں کیا کمی ہے جو آپ یہ بچہ نہیں چاہتے ہو۔ مہجبین کی آواز میں دکھ بھرا تھا،اس کی آنکھوں سے آنسوں رواں تھے۔
وہ آنسوں جو زیان کے دل پر گرتے تھے۔اور زیان کا سر جھکتا جاتا تھا۔وہ کیسے بتاتا کہ کمی کوئی بھی نہیں ہے۔مگر کمی رکھ دی گئی تھی اس کارساز قدرت کی طرف سے۔
بولتے کیوں نہیں آپ بولیں جواب دیں مجھے۔وہ رو رہی تھی،وہ زیان سے لڑتے ہوئے بھی زیان کے ہی سینے میں چھپ رہی تھی۔
زیان: کمی کوئی بھی نہیں ہے۔بس تمھاری صحت ایسی نہیں ہے کہ تم یہ سب کر سکو۔پلیز مجھے غلط مت سمجھو! بہت دیر چپ رہنے کے بعد زیان نے بات شروع کی۔اور مہجبین کو اپنی بانہوں میں بھر لیا اور پیار سے اسکا سر سہلانے لگا۔ بچوں کی طرح وہ زیان کے سینے میں چھپ گئی تھی۔
مہجبین: مجھے سر درد ہی تو ہوتا ہے اور کیا ہے زیزو! اس نے پہلی مرتبہ زیان کا نک نیم لیا تھا۔
زیان: میں نے تم سے جھوٹ بولا تھا۔ زیان کے منہ سے ادا ہونے والے اس جملے کو سن کر مہجبین ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹ گئی۔
مہجبین: کیسا جھوٹ! بولیں زیان۔
زیان: تمہیں برین ٹیومر ہے۔۔۔ زیان کے یہ الفاظ سنتے ہی مہجبین کی سماعتوں نے جیسے کام کرنا ہی چھوڑ دیا وہ گنگ ہو گئی تھی۔
________________
فون کب سے بج رہا ہے تم اٹھا کیوں نہیں رہی ہو جبین؟
زیان باتھ روم سے باہر نکلتے ہی بولا۔عشاء کی نماز کے لیے وضو کر کے نکلا تھا۔
مہجبین: میری امی کی کال ہے۔۔۔۔ اور میں انکو “جھوٹی خبر نہیں سنا سکتی”. مہجبین رو رہی تھی! اس کا پورا بدن ہچکولے کھا رہا تھا۔
زیان نے مایوسی سے سر جھٹک دیا۔اور کال رسیو کر لی۔
آنٹی: کیا بات ہے تم فون کیوں نہیں اٹھا رہی ہو؟
زیان: اسلام وعلیکم! آنٹی میں زیان۔
آنٹی: جیتے رہو بیٹا! تم تو آئے ہی نہیں بہت دن سے۔اور یہ بیوی کہاں ہے تمھاری؟؟ ان کا لہجہ ان کے الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔اس بات کا اندازہ زیان کو ہو چکا تھا۔
زیان: جی وہ قریب ہی ہے! آپ تو ٹھیک ہیں نا! آپکی آواز سے تو لگ رہا جیسے آپ روتی رہی ہیں۔ زیان کے منہ سے یہ جملے ادا ہونے کی دیر تھی۔ مہجبین نے سر اٹھا کر زیان کو دیکھا اور آنکھوں کو اپنے ہاتھ کی پشت اور ہتھیلیوں سے رگڑتی ہوئی آنسوؤں کو پونچھتی وہ زیان کے پہلو میں آکھڑی ہوئی۔”امی ٹھیک ہیں نا؟” اس نے اپنا سر زیان کے شانوں پہ ٹکا دیا تھا۔
آنٹی: بیٹا ہو سکے تو مہجبین کو لے آو،خبر ایسی ہے کہ یہ سن کر برداشت نہیں کرے گی۔ یہاں لے آو میرے پاس اسے۔۔اور پلیز بیٹا اسکو بس کہ دو کے مجھے بخار ہے۔۔وہ بولے جا رہی تھیں اور یہاں الجھتا جا رہا تھا کہ وہ سوال پوچھے تو مہجبین کو شک گزرے گا کہ بات کچھ اور ہے۔۔
چند لمحوں کے لیے کمرے میں اور فون کے دونوں جانب گھمبیر خاموشی طاری ہو گئی۔
زیان کے ہاتھ لرز رہے تھے اسے لگا تھا جیسے وہ کسی چٹان سے جا لگا ہے۔اس سے پہلے کہ اسکی آنکھوں میں آنسو آتے اور مہجبین کوئی سوال کرتی زیان نے خود پر قابو پاتے ہوئے بس اتنا ہی کہا۔” جی اچھا ہم آتے ہیں۔
وہ ایک لمحہ کو مہجبین کے وجود سے بیگانہ ہو گیا تھا۔ دو کشتیوں کا مسافر ڈولنے لگا تھا۔اس کے دل کی شیشے میں قید ہو چکی لڑکی کو زخم پہنچا تھا۔
چند لمحے ایسے ہی گزر گئے۔تو مہجبین کی آواز ابھری،
مہجبین: امی ٹھیک ہیں؟ مہجبین کے لہجے میں تشویش تھی۔
زیان جیسے خیالوں کی دنیا سے پلٹ آیا۔اور بس اتنا ہی بتایا کہ “آنٹی بلا رہی ہیں انکو ہلکا سا بخار ہے”۔
مہجبین: جی اچھا میں تیار ہوتی آپ نماز پڑھ لیں۔مہجبین نے پھر سے ایک بار زیان کی کہی بات کا اعتبار کیا تھا۔وہ اپنی بیماری فراموش کر کے جانے کو تیار تھی۔
گھر سے نکلتے ہوئے زیان کی امی کی آنکھوں میں عجیب سی اداسی تھی جسے مہجبین نے محسوس کیا تھا۔
آج تو زیان خلافِ معمول باتیں کر رہا تھا! وہ تو ہمیشہ خاموش رہتا تھا مگر آج کیوں۔۔۔ مہجبین کے ذہن میں بہت سے سوالات نے جنم لیا تھا۔ کچھ تھا جو ایسا نہیں تھا جیسا دیکھائی دیتا تھا ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...