مشینوں کے اس عہدِ ناروا کامیں ہی یوسف ہوں
مجھے اس نوکری کی شکل میں نیلام ہونا تھا
۔۔۔۔بچپن میں جب میں نے پہلی بار الٰہ دین کے چراغ والے جن کی کہانی سنی تھی تو جن کا نام سن کر ڈرجانے کے باوجود مجھے کہانی اچھی لگی تھی۔ آج کارخانے کی چمنی سے اٹھتے ہوئے گہرے سیاہ دھویں کو دیکھ کر میں نے سوچاہے کہ ابھی اس میں سے ایک جن نمودار ہوگااور میرے سامنے دست بستہ کھڑے ہوکردرخواست کرے گا۔ ”کیاحکم ہے میرے آقا۔۔؟“
او رپھر میرے سارے دکھ دور ہوجائیں گے۔ میرے چاروں طرف روشنی پھیل جائے گی۔ لیکن جن کی بجائے سامنے سے کارخانے کاسخت دل اور کرخت زبان مالک آجاتاہے۔ میں خوفزدہ ہوکروہاں سے ہٹ جاتاہوں۔
٭٭
۔۔۔۔شاہ جی سے ایک دفعہ ”منطق الطیر“ کے مسئلے پر بات ہوئی تو انہوں نے بُل اوربُلبُل کی ایک دن کی زندگی کا آنکھوں دیکھا اور کانوں سُنا پورا احوال سناڈالا۔ بعض جانوروں سے لے کر درختوں اور پودوں تک سے اپنی بات چیت کی کہانیاں سنادیں۔ میں شاہ جی کا بہت احترام کرتاہوں اس لئے ان کی باتوں کا یقین نہ کرنے کے باوجود چپ ہورہا۔ شاہ جی میری خاموشی کو بھانپ گئے۔ اسی لمحے روشنی کا چھناکاساہوا اور عجیب سانُور چاروں طرف بکھرگیا۔
۔۔۔۔۔ میں نے دیکھاشاہ جی کی کلائی پر ایک مچھرآن بیٹھاہے لیکن یہ مچھر محض مچھر نہیں تھا۔وہ واضح طورپرایک بوڑھا ڈاکٹر لگ رہاتھاجس نے سفید کوٹ پہن رکھاتھا۔ہاتھ میں سرنج لئے وہ شاہ جی کو انجکشن لگانے کے لئے ذرا سا جھکا۔
”جناب والا!کیوں مجھ غریب کے درپے ہیں؟شاہ جی نے بڑی ملائمت کے ساتھ مچھرسے کہا۔
”یہ میری ڈیوٹی ہے جناب“مچھرنے اپنی کمرپر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”لیکن جناب!میں زیادتی خون کامریض نہیں ہوں“شاہ جی نے کہا۔
”میں نے ایک قطرہ کاپتہ نہیں کتناحصہ خون لیناہے۔ کیا فرق پڑے گا اس سے“ مچھر نے کسی شفیق ڈاکٹر کی طرح مسکراتے ہوئے کہا، اپنی عینک کوماتھے پر چڑھایااور پھر کلائی کی طرف جھکتے ہوئے بولا ”اور ہاںیہ بھی ذہن میں رکھئے کہ معمولی سا خون لینے کے عوض میں ایک ایسا مادہ بھی خارج کرتاہوںجو آپ کے اندر فالج کے حملے کے خلاف قوتِ مدافعت پیداکرتاہے“ اتناکہہ کر مچھر نے شاہ جی کو انجکشن لگادیا۔ شاہ جی صرف مسکراکررہ گئے۔ میں کسی معمول کی طرح کھویا کھویا سا اپنے آپ میں واپس آگیا۔
٭٭
۔۔۔۔کارخانے کی چمنی سے نکلتے ہوئے دھویں کی سیاہی دیکھ کر سوچتاہوں اس میں میرا لہو شامل ہے تو پھر دھواں اتناسیاہ کیوں ہے؟ جن کا خون سفید ہوچکاہے وہ میری سلامتی کے علمبردارہیں۔ چمنی سے نکلتاہوا گہراسیاہ دھواں ان کی طرف سے میری حمایت میں سوگ کی علامت ہے۔ لیکن میرے سفید و سیاہ پر سارا اختیارانہیں کو حاصل ہے۔ الٰہ دین کا چراغ میرے ہاتھ میں ہے لیکن اب اس کی روایت بدل چکی ہے۔ اب جن کے احکامات کی بجاآوری الٰہ دین کافرض ہے۔
چمنی سے اٹھتے سیاہ دھویں کا رنگ کچھ اور گہرا ہوگیاہے۔شاید چراغ کا جن ابھی حاضر ہونیوالاہے۔میںاسکے احکامات کی تعمیل کے لئے پہلے ہی مؤدب ہوکرکھڑاہوجاتاہوں۔
٭٭
۔۔۔۔۔”منطق الطیر“والے تجربے کے بعد سے میں شاہ جی کا بہت زیادہ معتقد ہوگیاہوں لیکن آج شاہ جی نے ایک پیرجی کا احوال سناکرحیران کردیا۔ شاہ جی اُن پیرجی سے بے حد متاثر نظرآرہے تھے۔کہنے لگے:
”میں نے پیرجی سے پوچھایہ آپ نے اتنابڑا مزار کیوں بنارکھاہے؟
میری بات سن کر مسکرائے اور بولے”یہ تو صرف لوگوں کو جمع کرنے کابہانہ ہے کیونکہ من حیث القوم ہم مردہ پرست ہیں۔ زندوں کو مارڈالتے ہیںاور مرے ہوؤں پر پھول چڑھاتے ہیں۔ بس اسی وجہ سے مزار بنوانا پڑا۔“
میں پیرجی کی صاف گوئی سے بڑا متاثرہوا۔پھر ان کے علم کا اندازہ لگانے کے لئے ان سے الم کے معنی پوچھے۔ انہوں نے مجھے ششدر کردیا۔
”یہ نفس کی تین حالتوں کا بیان ہے۔ امّارہ۔لوّامہ۔ مطمئنہ“
پیرجی نے علم و معرفت کی اتنی بڑی بات ہلکے پھلے انداز میں بیان کردی۔میں تب سے اب تک اسی عارفانہ سرور میں بھیگاہواہوں“
شاہ جی کی پیرجی سے ملاقات کی روداد نے مجھے بھی مسحور کردیا۔
٭٭
۔۔۔۔۔کارخانے کی رہائشی کالونی میں میرے کوارٹرسے ملحقہ کوارٹر کی ایک زلیخانے مجھے ایک عرصے سے آزمائش میں ڈال رکھاہے۔ میں نہ یوسف ہوں نہ پیغمبر۔ جبکہ زلیخاکے مقابلے کے لئے حسنِ یوسف اور شانِ پیغمبری دونوں کو یک جاکردیاجاتاہے۔ میں ان دونوں خوبیوں سے محروم، زلیخاکے سامنے کھڑاکانپ رہاہوں۔ آخر میں گنہگارکیوں اس کڑی آزمائش میں ڈال دیاگیاہوں۔ میں شیطان سے لڑتارہا۔ ساری رات مقابلہ ہوتارہا۔میںہانپنے لگاجبکہ شیطان اسی طرح تازہ دم تھا۔ آخر میں کوارٹرسے بھاگ نکلا۔کارخانے پہنچاتووہاں کارخانے کے مالک کی شکل میںشیطان پھر میرا منتظر تھا۔اس کے چہرے پر بڑا سفّاک مسکراہٹ تھی اور وہ بالکل تازہ دم تھاجبکہ میں نڈھال ہوچکاتھا۔
٭٭
میں نے اپنا سارادکھ شاہ جی کے سامنے کھول کررکھ دیا۔ان کی آنکھوں میں ایک ملکوتی چمک پیداہوئی۔
”شیطان ہمارے اندر بھی ہوتاہے اور باہربھی۔ جنّوں میں بھی، انسانو ںمیں بھی اور ان سے سوا بھی۔ شیطان کے لاکھوں روپ اور کروڑوں حربے ہیں۔ ہم عاجز انسان اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ “ شاہ جی ذرا دم لینے کو رُکے اور پھر گویاہوئے ”ہم شیطان کو مار نہیں سکتے اس لئے کبھی بھی شیطان کے ساتھ نہیںلڑنا۔“
مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ یاالٰہی!یہ شاہ جی کیاکہہ رہے ہیں؟۔ میں نے پریشانی کے عالم میں سراٹھاکر شاہ جی کو دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں وہی ملکوتی چمک تھی۔
”ہاں۔ہم شیطان کوہلاک نہیں کرسکتے اس لئے کبھی بھی شیطان کے ساتھ نہیں لڑنا۔بس جتناہوسکے اس نامراد سے بچ کر رہو اور اِس سے دور بھاگو۔ اس سے دور بھاگنے ہی میں عافیت ہے اور یہی تقویٰ ہے“
شاہ جی کی بات میری سمجھ میں آگئی۔
٭٭
۔۔۔۔۔آج شاہ جی سے پورے سات دن بعد ملاقات ہوئی۔وہ کچھ بجھے بجھے سے تھے۔ میرے استفسار پر انہوں نے بتایا:
”میں پھر پیرجی کے ہاں گیاتھا“
”اچھا!“میں نے بڑے اشتیاق سے کہا۔
”پیرجی کہنے لگے میں خداسے براہ راست گفتگو کراسکتاہوں“
”خداسے براہِ راست گفتگو۔مکالمہ الٰہیہ۔ “خوشی سے میری آواز لرزنے لگی۔
”میرے لئے بھی یہ بڑی پُر کشش بات تھی“ شاہ جی بھرائی ہوئی آواز میں بولے
”پھر۔؟“
”پیرجی کی شرط ہے کہ خدا سے بات کروانے کے عوض انہیں ایک سجدہ کیاجائے“
”خداسے بات کرانے کے عوض پیرجی کو سجدہ!“میرا دل بیٹھنے لگا”پھر آپ نے کیاکہا؟“
”میں نے پیرجی سے کہا کہ جناب سرتوایک ہی ہے اور یہ جسے دیناتھا دے چکاہوں۔اگر دوسرا سر ہوتاتوضرور سجدہ کرتا“ شاہ جی کی بھرائی ہوئی آواز پر جوش ہوگئی ”پیرجی سے اتناکہہ کر میںواپس آگیا۔“
”شاہ جی!اب میری کہانی بھی سُن لیں“ میں نے پھیکی مسکراہٹ لبوں پر لاتے ہوئے کہا۔
شاہ جی نے اس طرح میری طرف دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں”سناؤتمہاری کہانی کیاہے؟“
”شاہ جی!آپ نے کہاتھاناکہ شیطان جِنّوں میں بھی ہوتے ہیں اور انسانوں میںبھی اور یہ کہ ہم شیطان کامقابلہ نہیں کرسکتے۔ سوکارخانے کے مالک اور کالونی کی زلیخا۔ میں دونوں میں سے کسی کابھی مقابلہ نہیں کرسکتاتھااور ان دونوں سے بچنے کی ایک ہی صورت تھی، میں کارخانے کی نوکری چھوڑدوں۔اور شاہ جی! میں نے نوکری چھوڑ دی ہے“
”تو تم نے نوکری چھوڑدی؟“شاہ جی نے بے حد دکھی لہجے میں پوچھا۔
مجھے یوں لگاجیسے شاہ جی نوکری اور کوارٹرچھوڑ کرآئے ہیں اور میں پیرجی کو جواب دے کر آیاہوں۔ او رہم دونوں شیطان سے لڑکر نہیں بھاگ کر آئے ہیں۔
٭٭٭