(Last Updated On: )
وقت کی کہانی میں عام داستانوں کی
منطقیں نہیں ہوتیں
کس طرح یہ فردا سا آ گیا تھا ماضی میں
وہ جو روشنی دن کی، رات کی ولایت میں
آ کے جھلملائی تھی
وہ جو تخت زرداراں بے زروں نے الٹا تھا
خواب تو نہیں تھا وہ
آرزو کے کہنے پر، لاشعور ماضی سے
دفعتاً جو ابھرا ہو مطلع بصارت پر
نیند ہے یا بیداری
ایک جنڈ سپنوں کی نقرئی سفیدی کا
آنکھ نے بلندی پر پھڑپھڑاتے دیکھا ہے
دور کی فضاؤں میں
برگ و شاخ و طائر کے صبح خیز منظر کی
سرخیاں سی ابھری ہیں
اور میرے پاؤں سے اٹھ رہی ہیں جھنکاریں
بیڑیوں کے بجنے کی
***