وہ کلاسیں اٹینڈ کر کے کیفے کیطرف نکل آئی جہاں پہلے سے ہی ماہی، تانیہ اور مسکان بیٹھی اپنی بھوک مٹا رہی تھی۔
اسلام علیکم۔ان کے پاس آکر اس نے سلام کیا۔
وعلیکم سلام۔آؤ بیٹھو۔۔ماہی کے کہنے پر وہ ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔
آج ایک خوشخبری ہے؟ مسکان نے جوش سے کہا۔
کونسی خوشخبری؟
تانیہ کا رشتہ ہو گیا ہے پتہ ہے کس کے ساتھ؟ فائزہ نے نفی میں سر ہلایا۔اپنے کمال کے ساتھ۔مسکان نے بات مکمل کر کے سموسہ ہاتھ میں اٹھا لیا۔تانیہ سر جھکاۓ شرمائی لجائی سی بیٹھی تھی جیسے آج ہی شادی ہو رہی ہے۔اور ماہی ان دونوں کی باتیں سن رہی تھی۔
یاہووو۔کمال بھی آگیا۔مسکان دور سے ان تینوں کو آتا دیکھ کر کھڑے ہو کر زور و شور سے ہاتھ ہلا رہی تھی۔
فائزہ نے سر پر چادر درست کی۔
مٹھائی ی ی ی۔مسکان نے کمال کے پاس آنے پر کہا۔
مٹھائی، کونسی مٹھائی؟ میں کیا مٹھائی کا ڈبہ لے کر یونیورسٹی گھومتا ہوں۔گھر میں ہے مٹھائی جاؤ کھا آو۔ کمال کے ایسا کہنے پر مسکان نے برا سا منہ بنایا۔
او ہو اسے چھوڑ موٹی ہم اپنی منگنی کی مٹھائی کھائیں گے۔ عدیل نے اسے تسلی دی جس پر مسکان نے اسے گھوری دی۔
ہاۓ اللہ یہ تانیہ کی جگہ ٹماٹر کون یہاں لا کر بٹھا گیا ہے؟ عدیل نے تانیہ کو دیکھ کر کہا جس پر سبکی ہنسی چھوٹ گئی۔
بند کرو یہ بک بک۔ماہی نے ان سب کو مصنوعی غصے سے کہا جس کا کسی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔
ہاۓ ماہی کو جلن ہو رہی ہے چلو تمہارے لیے بھی کوئی بکرا۔۔۔آہ۔۔۔۔۔ ماہی کے گھونسے نے کمال کی بولتی بند کی۔
ماہی یہ مذاق کر رہا تھا سریس نہ لو۔عرفان نے ہنستے ہوۓ کہا۔
مجھے معلوم ہے۔وہ مسکرائی مگر اس مسکراہٹ کے پیچھے اپنی آدھی ادھوری محبت کے کھونے کا درد چھپا تھا جو اسکے چہرے پر عیاں ہو رہا تھا مگر وہ اسے چھپانے کی ناکام کوششیں کر رہی تھی۔
کافی دیر ہنسی مذاق کرنے کے بعد وہ سب اٹھ کھڑے ہوۓ۔عرفان نے فائزہ کو وہی رکنے کا اشارہ کیا۔
۔۔۔۔
کیا بات ہے کیوں روکا مجھے۔ سب کے وہاں سے جانے کے بعد وہ بولی۔
پیار کرنے کے لیے۔ وہ پیار بھری نظروں سے اسے دیکھتے ہوۓ بولا۔
جلدی بتائیں۔
بات یہ ہے کہ آج تمہیں میں ڈراپ کروں گا۔عرفان نے اصل موضوع کیطرف آتے ہوۓ کہا۔
مگر میں بس سے چلی جاؤں گی۔
میں نے کہہ دیا۔اب تم پر ہے تم میری سنو گی یا اپنی کرو گی۔
مجبوراً اسکو عرفان کی بات ماننا ہی پڑی۔
وہ اسکے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی۔دل میں بے چینی سی بھی تھی مگر محبت اسکے پاؤں کی زنجیر بن رہی تھی۔
رات کو عائزہ کی، کی گئی باتیں بھی ذہن میں آرہی تھی۔عرفان گاڑی بھی ڈرائیو کر رہا تھا اور مڑ کر اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو بھی دیکھ رہا تھا
پہلے ریستورنٹ چلیں گے۔عرفان نے کہا
کیاااا۔نہیں عرفان نہیں پلیز گاڑی ریورس کریں۔وہ روہانسی ہو گئی۔
کیا ہو گیا فائزہ دو کپ چاۓ پیے گیں اور بس پانچ منٹ لگیں گے۔عرفان نے تحمل۔سے جواب دیا۔
مجھ پر یقین رکھو فائزہ میں تمہیں کہیں اور نہیں لے جا رہا۔محبت میں یقینِ کامل ہوتا ہے۔ عرفان نے اسکا اترا چہرہ دیکھ کر کہا۔اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو رہے تھے رات کو کی گئی۔
بار بار عائزہ کی باتیں ذہن میں کچوکے لگا رہی تھی۔
اوکے تمہیں مجھ سے محبت ہے ہی نہیں۔ہوتی تو مجھ پر یقین ہوتا۔کرتا ہوں گاڑی ریورس۔عرفان کا موڈ آف ہو چکا تھا۔
نہیں اب یہاں تک آگئے ہیں تو چلیں پھر۔وہ عرفان کی ناراضگی بھی نہیں چاہتی تھی۔
۔۔
عرفان اسے چھوٹے اور مہنگے ریستورنٹ میں لایا تھا۔وہ دونوں سب سے آخری ٹیبل پر بیٹھے۔
عرفان نے دو کپ چاۓ آرڈر کیے۔وہ کافی ریلیکس موڈ میں بیٹھا تھا مگر وہ گھبراہٹ سے بار بار ہاتھ مسل رہی تھی۔
مجھے نہیں معلوم تھا تم اتنی ڈرپوک ہو۔ریلیکس یار کیا ہو گیا ہے؟ عرفان نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔
کتنا سرد ہو رہا ہے تمہارا ہاتھ طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔
فائزہ نے اثبات میں سر ہلا کر اپنا ہاتھ اسکے ہاتھوں سے چھڑوایا۔
اتنے میں ویٹر چاۓ لے کر آگیا۔
وہ بار بار اسے دیکھ رہا تھا جو گھبرائی نظروں سے ادھر اُ دھر دیکھ رہی تھی۔ہلکی سی مسکراہٹ اس کے لبوں پر چھا گئی۔
وہ چاۓ کے سپ لے رہا تھا اور ساتھ اسے بھی نظروں کے حصار میں رکھے ہوۓ تھا جو اسکی نظروں سے گھبرا کر چادر درست کر رہی تھی۔
چاۓ پیو ٹھنڈی ہو رہی ہے۔
عرفان کے کہنے پر اس نے چاۓ کا کپ لے کر ہونٹوں سے لگایا۔
۔۔۔
کتنے سپ لیے تم نے؟ عرفان نے دلچسپی سے اسے دیکھتے ہوۓ کہا۔
پتہ نہیں کیوں۔
سات سپ لیے تم نے۔وہ اب اسے دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔
گھبرائی ہوئی بھی اچھی لگتی ہو تم۔ اس نے اپنا ہاتھ اسکے گال سے چھوا۔اک سنسی سی لہر اسکے پورے جسم میں سرایت کر گئی۔
چلو اب۔عرفان نے ٹیبل سے گاڑی کی کیز اٹھائی۔اس نے دل میں عہد کر لیا تھا کہ اب وہ عرفان کیساتھ اکیلی کبھی کہیں نہیں جاۓ گی۔محبت سے زیادہ اسے عزت عزیز تھی۔
وہ دونوں ریسٹورنٹ سے باہر نکل رہے تھے جب ولید جو کسی کام سے وہاں سے گزر رہا تھا نے ان دونوں کو دیکھ لیا(یہ فائزہ یہاں کیا کر رہی ہے۔)وہ اس وقت وہاں سے خاموشی سے گزر گیا مگر اس کے اندر طوفان برپا تھے۔
بہت سے سوال دل میں امڈ رہے تھے ۔۔۔
وہ دونوں بھی گاڑی میں بیٹھ کر اپنی منزل کی جانب چل پڑے۔
اسلام علیکم۔گھر آکر بھی اسکی گھبراہٹ اسی طرح برقرار تھی۔
وعلیکم سلام! آپی آج آپ لیٹ ہو گئی۔عائزہ اس سے پہلے کالج سے آگئی تھی۔
ہاں بس۔اس نے چادر تہ کر کے الماری میں رکھی اور الماری میں سے سوٹ نکال کر واش روم کیطرف بڑھ گئی۔وہ اس کے سوالوں سے بچنا چاہتی تھی۔
فریش ہو کر باہر آئی تو عائزہ اسی طرح بستر پہ بیٹھی تھی۔
کیا ہوا۔ وہ ٹاول سے بال رگڑتے ہوۓ اس سے پوچھنے لگی۔
کچھ نہیں۔کھانا لگاؤں آپ کے لیے۔
نہیں چاۓ بنا دو۔
عائزہ اٹھ کر کچن کیطرف بڑھی۔
وہ آئینے میں اپنا آپ دیکھ رہی تھی۔اپنے گال پر عرفان کے ہاتھ کا لمس محسوس کر کے وہ مسکرانے لگی مگر دل میں شرمندگی سی بھی تھی کہ جو وہ کر رہی ہے وہ غلط ہے۔
۔۔۔۔
رات کا کھانا کھا کر وہ دماغ بٹانے کے لیے ناول پڑھ رہی تھی جب عائزہ نے انٹری دی۔
بھائی بلا رہے ہیں آپکو۔
مجھے۔اسکی چھٹی حس نے اسے خطرے کا سائرن دیا۔
ہاں آپکو ہی۔خیریت تو ہے کچھ پریشان ہیں۔عائزہ اسکے تاثرات نوٹ کر رہی تھی۔
نہیں۔وہ فوراً اٹھی اور بھائی کے روم کی طرف بڑھی۔
دستک دے کر اندر گئی۔ولید کمپیوٹر پر کچھ کام کر رہا تھا اسے دیکھ کر کمپیوٹر شٹ ڈاؤن کیا۔اس سے پہلے کبھی اس نے ولید کو اتنا سنجیدہ نہیں دیکھا تھا۔
آپ نے بلایا بھائی۔
بیٹھو ۔مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے۔
وہ بیڈ کی پائنتی ٹک گئی۔
جب امی ابو کا انتقال ہوا تھا تو تم صرف دس سال کی تھی اور عائزہ تو تم سے بھی چھوٹی۔تم دونوں کی ذمہ داری مجھ پر آگئی تھی اور میں نے بھی کبھی اپنی ذمہ داری سے جی نہیں چرایا۔اب ماشاءاللہ تم بڑی ہو گئی ہو ۔
لڑکی ہمیشہ پرائی ہوتی ہے وہ ساری زندگی ماں باپ کے گھر نہیں گزار سکتی۔کبھی نہ کبھی اسے پراۓ گھر جانا ہی ہوتا ہے۔ماں باپ تو ہیں ہی نہیں تو یہ ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے کہ میں تم دونوں کے فرض نبھاؤں۔عائزہ تو ابھی پڑھ رہی ہے مگر تمہارا یہ یونی کا لاسٹ سمسٹر ہے اور میں چاہتا ہوں اب تمہں اپنے گھر میں خوش حال دیکھوں۔
فائزہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے ولید کی آنکھیں بھی نم تھی۔
مجھے یہ زیب تو نہیں دیتا مگر اب امی ابو ہیں نہیں۔امی ابو کی جگہ پر میں ہی ہوں۔خالہ نے زیب بھائی کے لیے ڈھکے چھپے لفظوں
میں بات کی تھی مگر میرے لیے اہم تمہاری پسند ہے تم جہاں چاہو گی وہی تمہاری شادی کروں گا۔
بھائی مجھے کہیں نہیں جانا مجھے آپ کیساتھ رہنا ہے۔اس کا چہرہ آنسو سے تر تھا۔
ارے رونا نہیں میری گڑیا۔ولید اٹھ کر اسکے پاس آیا اور اسے سینے سے لگا کر تسلی دینے لگا۔اور وہ نہ جانے کتنے دنوں کا غبار جو وہ دل میں رکھے ہوۓ تھی ولید کے سینے لگ کر آنسو کی صورت نکل گیا۔اسے ایسا لگا جیسے وہ ٹھنڈی چھاؤں میں آگئی ہو۔
او ہو سارے آنسو آج ہی ختم کر دو گی رخصتی پر کیا بہاؤ گی۔ولید نے اسے ہنسانے کے لیے کہا۔
اور وہ اسکے سینے سے الگ ہوکر آنسو صاف کرتے ہوۓ مسکرا دی۔
آخری فیصلہ تمہارا ہوگا فائزہ۔خالہ شاید پھر اس بارے میں بات کریں اسلیے تمہاری مرضی جاننا ضروری ہے۔
اب جاؤ آرام کرو۔وہ آہستہ سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئی تھی
کچھ پریشان ہو تم۔وہ دونوں کیفے میں بیٹھے تھے۔جب عرفان نے اسکو گم سم دیکھ کر کہا۔
نہیں، کچھ نہیں۔ اس نے بات ٹال دی۔
میری آنکھوں میں دیکھ کر کہو۔عرفان اسکی پریشانی اور گھبراہٹ محسوس کر چکا تھا۔
وہ بھائی نے مجھ سے شادی کی بات کی تھی ت۔تو اب۔ فائزہ نے ایک نظر اسے دیکھ کر نظریں چرا لی۔
کیا کہہ رہے تھے تمہارے بھائی؟
فائزہ نے رات کو ولید کے ساتھ ہونے والی ساری گفتگو عرفان کو بتا دی۔
تم پریشان مت ہو میں ماما سے بات کروں گا۔اس نے دھیرے سے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا۔
عرفان کو یقین تھا کہ اسکے ماں باپ کبھی اسکی بات نہیں ٹالیں گے اس لیے وہ مطمئن تھا۔
ہیلو کیا ہو رہا ہے؟ وہ دونوں اپنی سوچوں میں اسقدر گم تھے کہ انہیں عدیل اور کمال کے آنے کا پتہ ہی نہ چلا۔فائزہ نے جلدی سے اپنا ہاتھ چھڑوایا اسکا چہرہ شرم سے سرخ ہوگیا۔عرفان اسکے چہرے پر شرم کی سرخی دیکھ کر دھیرے سے مسکرا دیا۔
واہ بھئی کوئی لفٹ ہی نہیں۔لڑکی مل گئی دوستوں کو بھول ہی گیا سالے۔ہم نے لڑکیوں کے ہوتے ہوۓ بھی تجھے ہمیشہ یاد رکھا مگر تو۔کمال نے نان اسٹاپ بولتے ہوۓ اسکی کمر پر دھپ رسید کی۔
یار نہیں بھولا تم کوئی بھولنے کی چیز ہو۔خواب میں بھی جن بھوت بن کر ڈراتے ہو۔عرفان نے بھی اسی کے انداز میں کہا۔فائزہ کو اب وہاں بیٹھنا بے معنی سا لگا۔وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔عرفان نے اسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔وہ جانتا تھا اب وہ نہیں رکے گی۔
وہ کافی دیر ان دونوں کیساتھ بیٹھا باتیں کرتا رہا مگر دماغ بار بار فائزہ کی باتوں کی طرف چلا جاتا۔
وہ یونیورسٹی سے گھر آکر فریش ہونے کے بعد نیچے لاؤنج میں آیا۔
گھر میں خاموشی کا راج تھا۔صغراں ، صغراں۔ اسنے ملازمہ کو آواز دی۔
جی ، چھوٹے صاب جی۔وہ بوتل کے جن کی طرح کسی کونے سے باہر آئی۔
ماما کہاں ہیں؟
بی بی جی تو کسی پارٹی میں گئی ہیں۔
اوکے وہ آئیں تو مجھے اطلاع کر دینا۔
جی بہتر۔آپ کے لیے کھانا لگا دوں؟
نہیں۔اسکی ضرورت نہیں۔وہ واپس سیڑھیاں چڑھ کر اپنے روم میں آگیا۔بے چینی تھی کہ بڑھتی جا رہی تھی۔
۔۔۔
رات 9 بجے ملازمہ نے اسے مسز جاوید کے آنے کی اطلاع دی۔
وہ جلدی سے انکے کمرے کی طرف بڑھا اور دستک دے کر اندر داخل ہوگیا۔
اسلام علیکم۔عرفان نے سلام کیا۔
وعلیکم سلام۔ صغراں کہہ رہی تھی تم میری پوچھ رہے تھے خیریت؟ وہ ساڑھی کو سنبھالتے ہوۓ بیڈ پر بیٹھ گئی۔
ہاں مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے؟ بابا کہاں ہیں؟ وہ بھی ان سے تھوڑے فاصلے پر بیٹھ گیا۔
اسٹڈی میں۔تمہیں تو پتا ہے انکا۔گھر میں زیادہ وقت انکا اسٹڈی میں گزرتا ہے۔خیر تم بتاؤ کیا بات کرنی تھی؟ وہ مکمل طور پر اسکی طرف متوجہ تھی۔
وہ ماما دراصل۔۔ اس نے خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیری۔
کیا بات ہے عرفان کھل کے بولو۔ مسز جاوید نے کہا۔
دراصل میں یونیورسٹی میں ایک لڑکی کو پسند کرتا ہوں اور اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔
دروازے کھول کر اندر آتے جاوید صاحب نے اسکے آخری تین الفاظ سن لیے۔
میں تم سے جلد یا بادیر یہ بات کرنے والا تھا۔چلو تم نے خود ہی یہ بات کر دی۔وہ صوفے پر بیٹھتے ہوۓ بولے۔
میں نے کومل کے لیے نجمہ(بہن) سے سرسری سے بات کی تھی اب تمہاری تعلیم مکمل ہوجاۓ تو باقاعدہ رشتہ لے کر جائیں گے۔
کیاااااا۔وہ فق چہرے سے کبھی جاوید صاحب کو دیکھتا اور کبھی مسز جاوید کو اسے ان سے ایسی امید بالکل بھی نہیں تھی۔کومل اسے سخت ناپسند تھی اور اسے اپنے جیون ساتھی کے طور پر قبول کرنا وہ کبھی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
نہیں پاپا۔آپ میری مرضی جانے بغیر پھپھو سے کیسے بات کر سکتے ہیں یہ جانتے ہوۓ بھی کہ کومل اور میری سوچ میں کتنا فرق ہے۔نہ میں اس میں انٹرسٹڈ ہوں۔اس نے صاف لفظوں میں باور کروا دیا کہ یہ رشتہ اسے کسی صورت بھی قبول نہیں۔
شادی سے پہلے کسی کی سوچ ایک جیسی نہیں ہوتی مگر شادی کے بعد سوچ ایک جیسی ہو جاتی ہے۔جاوید صاحب نے کہا۔
میں کسی اور میں انٹرسٹڈ ہوں۔اسی سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور میں چاہتا ہوں آپ اسکے گھر جا کر میرے لیے رشتہ مانگیں۔
یہ کبھی بھی نہیں ہوسکتا میں اپنی بہن کیساتھ تعلق خراب نہیں کر سکتا تمہاری دو دن کی محبت کے لیے۔وہ دونوں باپ بیٹا بحث کر رہے تھے جبکہ مسز جاوید خاموشی سے انکی باتیں سن رہی تھی۔
تمہاری شادی ہوگی تو صرف کومل سے۔میں بات کر چکا ہوں نجمہ سے۔اب میں کیا کہوں کہ میرا بیٹا کسی اور میں انٹرسٹڈ ہوگیا ہے۔
تو میری بات بھی کان کھول کر سن لیں میں اگر شادی کروں گا تو اپنی پسند کی ورنہ مجھ سے کسی قسم کی کوئی امید نہ رکھنا آپ۔وہ غصے سے مٹھیاں بھینچ کر اٹھا اور اپنے کمرے میں چلا گیا۔وہ بھی انہی کا بیٹا تھا ضد میں ان سے بھی دو ہاتھ آگے۔
اگلے دن اس نے رات کو جاوید صاحب سے ہونے والی بحث کے بارے میں فائزہ کو بتائی۔وہ پہلے ہی اس بات کی وجہ سے پریشان تھی اور زیادہ پریشان ہوگئی۔
میں بھی انہی کا بیٹا ہوں ضد منوانا مجھے بھی آتا ہے۔عرفان نے اسے تسلی دی۔تم پریشان مت ہو۔تمہارے لیے میں ہر حد پار کروں گا۔
نہیں عرفان۔آپ میری وجہ سے ایسا نہ کریں۔جہاں آپ کے پاپا کہتے ہیں وہاں ہی شادی کر لیں۔عرفان کو فائزہ سے اس طرح کے جواب کی امید نہیں تھی وہ حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا
_______