دو دن گزر گئے تھے مگر وہ یزدان سے کوئی بات نہیں کر پائی تھی ..
وہ تھوڑی دیر کے لیے گھر آتا اور پھر کسی نا کسی کام کی وجہ سے چلا جاتا …
عیشل کے لیے یہ دن بہت مشکل تھے …انکے درمیان موجود سرد مہری کو بی بی جان بھی محسوس کر چکی تھیں اسی لیے انہوں نے بابا جان سے اجازت لیکر یزدان سے عیشل کو گاؤں دکھانے کی بات کی ..
وہ اس وقت ناشتہ کر رہا تھا
آنی آپ جانتی ہے میرے پاس ٹائم نہیں اور پھر اسے کونسا گاؤں دیکھنے کا شوق ہے …یزدا ن نے پراٹھے سے انصاف کرتگ ہوئے عیشل کی طرف اشارہ کیا
اسے شوق ہے یا نہیں لیکن میں تمہیں کہہ رہی ہوں اسے سارا گاؤں دکھا کے لاؤ ..اب کی بار بی بی جان کے لہجے میں سختی تھی ..
مگر …اس نے کچھ کہنا چاہا
اگر مگر کچھ نہیں بس تم اسے گھما کر لاؤ …غضب خدا کا جب سے یہاں آئی تب سے بچی گھر میں قید ہے کیا سوچتی ہو گی کتنے ظالم ہیں ہم لوگ …بی بی جان نے افسوس سے کہا
ہاں سوچتی تو یہ کافی کچھ ہے ..خیر تم ریڈی رہنا شام کو ..وہ عیشل پر طنز کرتا کرسی سے اٹھ گیا
اوکے بی بی جان آج پنچایت بھی ہے چلتا ہوں …اس نے جھک کر بی بی جان سے پیار لیا اور چلا گیا
آپ نہ کہتیں آنی …وہ بہت مصروف ہوتے ہیں ..مجھے اندازہ ہے ..اسکے جانے کے بعد عیشل نے بی بی جان کے پاس بیٹھتے ہوئے کہا
ارے بس رہنے دو ..یہی تو دن ہیں گھومنے پھرنے کے …تم بس شام کو تیار رہنا ..بی بی جان نے اسے خاموش کروا دیا
لیکن عیشل کو اچھا نہیں لگ رہا تھا
______________________________________
حیرت کی بات ہے راجپوت اتنی آسانی سے پیچھے ہٹنے والے تو نہیں کہیں یہ انکی کوئی نئی چال تو نہیں …
بابا جان اور یزدان پنچایت سے واپس آرہے تھے …بلال راجپوت نے نہایت عاجزی سے اپنا مسئلہ پنچایت سے واپس لے لیا تھا سب حیران ہوئے تھے بابا جان نے بھی اپنی حیرانگی یزدان کے سامنے رکھ رہے تھے..
بالکل بابا جان ..اس کے دماغ میں کچھ اور چل رہا ہے ہمیں بہت محتاط رہنا ہو گا …یزدان نے انکی بات سے اتفاق کیا
باقی سب تو میں سنبھال لوں گا تم بس عیشل کا خیال رکھنا اسے کوئی نقصان نہ پہنچے ..بابا جان کے لہجے میں فر مندی تھی
آپ پریشان نہ ہو با با جان وہ میری ذمہ داری ہے …یزدان نے بابا جان کی فکر کو دور کرنا چاہا
ہمیں تم پہ پورا بھروسہ ہے بیٹے ..بابا جان نے فخر سے اسکا کندھا تھپتھپایا
________________________________________
چھوٹی ملکانی
آپکو چھوٹے ملک جی بلا رہے ہیں باہر گاڑی میں انتظار کر رہے ہیں آپکا …وہ بیڈ پہ بیٹھی اپنی لا یعنی سوچوں میں مصروف تھی جب ملازمہ اجازت لیکر اندر آئی
جی میں آتی ہوں …عیشل نے سر ہلایا تو ملازمہ واپس جانے لگی
اماں جی بات سنیں …اس نے کچھ سوچ کر انہیں واپس بلایا
جی چھوٹی ملکانی …
اماں جی آپ پلیز مجھے چھوٹی ملکانی نہ کہا کریں بہت عجیب لگتا ہے …عیشل نے انہیں ٹوکا
تو پھر کیا کہا کروں …ادھیڑ عمر کی ملازمہ نے حیرت سے استفسار کیا
آپ مجھے بیٹا یا بیٹی کہہ سکتی ہیں …اس نے انکے پاس جاکے مسکراتے ہوئے کہا
لیکن ..میں کیسے …وہ متذبذب تھیں
آپ میری ماں کی عمر کی ہیں اماں جی ..جب آپ ایسے مجھ سے ڈر کے بات کرتی ہیں تو مجھے ذرا اچھا نہیں لگتا ….عیشل نے نرمی سے کہا
اللہ آپکو خوش رکھے بیٹا …یہاں تو کوئی ملازمہ کا اتنا احترام نہیں کرتا …اللہ آپکو ہمیشہ حفاظت میں رکھے ..آپ بالکل اپنی ماں پر گئ ہیں ….ملازمہ جو اس حویلی میں الفت کے زمانے سے تھیں انہوں نے اسے دعائیں دی
لیکن ماں کا حوالہ سن کر عیشل کے چہرے پہ تاریک سایہ لہرایا
اماں جی آپ جانتی ہیں کہ میں …اس نے بات ادھوری چھوڑی
ہاں بیٹا سب جانتے ہیں کہ آپ کون ہو جب سے پنچایت بیٹھی ہے تب سے گاؤں کا ہر بندہ جانتا ہے …راجپوتوں نے اچھا تو نہیں کیا یوں معاملا پنچایت میں لا کر ..خیر میں بھی کن باتوں میں لگ گئی ..چھوٹے ملک آپکا انتظار کر رہے ہونگے …میں چلتی ہوں …ملازمہ اسکے چہرے کی بدلتی رنگت دیکھ کر وہاں سے چلی گئ
عیشل کچھ دیر کھڑی رہی اور پھر چادر لیکر باہر چلی آئی ..
سامنے ہی گاڑی کے پاس یزدان کھڑا تھا
عیشل کو آتا دیکھ کر وہ گاڑی میں بیٹھا ..عیشل بھی گاڑی کی طرف بڑھی اور دروازہ کھول کر بیٹھ گئ
میں تمہارا ڈرائیور نہیں ہوں جو اتنی دیر انتظار کرواتی رہو …اسکے بیٹھنے پر یزدان نے سختی سے کہا
عیشل خاموش رہی ..
یزدان کو حیرت ہوئی وہ اس سے کسی جواب کی توقع کر رہا تھا لیکن وہ اپنے ہاتھوں کی لکیروں کو دیکھ رہی تھی
میں تمہیں گاؤں کے اندر نہیں لیکر جا سکتا ابھی …یہاں پاس ہی نہر ہے وہ دکھا لاتا ہوں لیکن آنی کو کہنا تم نے سارا گاؤں دیکھا ہے …یزدان نے اسے مسلسل خاموش دیکھ کر دوبارہ بات کی ..اسکے لیے عیشل کی خاموشی اچنبھے کا باعث تھی
عیشل نے اسکی بات پر اثبات میں سر ہلایا..
کچھ دیر بعد یزدان نے نہر کے پاس جا
گاڑی روکی اور اسے نیچے اترنے کو کہا
دونوں چلتے ہوئے ایک درخت کے بیچے بیٹھ گئے
شام کے وقت کی ساری خوبصورتی وہاں موجود تھی …عیشل کو ہر چیز اداسی میں لپٹی نظر آئی
لیکن پھربھی اسے یہاں بہت سکون مل رہا تھا …وہ درخت کے ساتھ آنکھیں موند کر بیٹھ گئ
یزدان کافی دیر تک اسکی خاموشی محسوس کرتا رہا..وہ یہاں خوشی سے نہیں آیا تھا بس آنی کو مطمئن کرنے کے لے وہ آ گیا تھا
لیکن اسے عیشل کا رویہ کچھ عجیب لگ رہا تھا ..
کیا بات ہے کچھ ہوا ہے کیا.. بالآخر اسکی خاموشی سے تنگ آکر یزدان نے پوچھا
یزدان کیا ماضی کی غلطیوں کا کفارہ ادا کیا جا سکتا ہے …اس نے ویسے ہی آنکھیں موندے پوچھا
عیشل بی بی غلطیوں کا کفارا ادا کیا جا سکتا ہے گناہوں کا نہیں ….تم نے اپنی زبان سے جتنے دل توڑے ہیں انکا کفاری اتنی آسانی سے کہاں ادا کیا جا سکتا ہے …وہ تلخی سے بولا
کتنی بد قسمت ہیں نا ہم ماں اور بیٹی …دونوں ہی عزت سے زندگی نہ گزار سکیں …ماں اپنی غلطی کی وجہ سے سر نہ اٹھا سکی اور بیٹی ماں کی غلطی کی وجہ سے …اسکے لہجے میں نمی تھی
تمہیں کسی نے کچھ کہا ہے …اسکی بات پر یزدان نرم پڑا
عیشل نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا
یزدان جو اسکی طرف دیکھ رہا تھا نظر پھیر گیا…
اگر تمہیں کسی نے کچھ کہا بھی ہے تو کوئی بات نہیں کچھ دنوں کے لیے برداشت کر لو ..تم نے کونسا ہمیشہ یہیں رہنا ہے …ایک دو دن تک میں شہر جا رہا ہوں تمہارا مطالبہ بھی پورا کر دوں گا ….یزدان نے طنزیہ لہجے میں کہا
لیکن مجھے …عیشل نے کچھ کہنا چاہا لیکن یزدان کے پیچھے سے آتے چند آدمیوں کو دیکھ کر خاموش ہو گئ
یزدان نے اسکی خاموشی پر پلٹ کر دیکھا اور کھڑا ہو گیا
عیشل بھی اپنی جگہ سے اٹھ گئ …
دیکھ او شیدے یہاں کیا ہو رہا ہے …آنے والا بلال راجپوت تھا جس کے ساتھ اسکے دو بندے بھی تھے
اس نے اپنے ملازم سے کہا
ہاں جی موجیں ہو رہی ہیں …شیدے نے ان دونوں کی طرف دیکھ کر کہا
عیشل اسکی نظروں پہ بے اختیار یزدان کے پیچھے ہوئی
ہاں اوئے رب نے اتنا حسن دیا ہو تو کون کافر ہے جو موجیں نہ کرے گا ہماری قسمت ….بلال راجپوت ابھی مزید بھی کچھ کہہ رہا تھا جب یزدان نے آگے بڑھ کر اسکا گریبان پکڑا
زبان کو لگام دے …تجھے کہا تھا میری بیوی کے بارے میں کچھ نہ بولنا ..لیکن تجھے اثر کہاں ہونا ہے تیرا انتظام کرنا پڑے گا مجھے . .وہ غرا رہا تھا
غصے سے اسکی آنکھیں لال ہو چکیں تھیں
چھوڑ اوئے میرا گریبان …تو کیا انتظام کرے گا تیرا بندوبست تو میں کرونگا …اس نے اپنا گریبان چھڑانا چاہا
کیا بندوبست کرے گا تو ہاں بول …اس نے اسکے گریبان کو پہ گرفت تنگ کی
بلال راجپوت کھانسنے لگا
تبھی اسکے ایک ساتھی نے یزدان پہ پسٹل تانی
یزدان …عیشل جو پہلے ہی پریشان تھی یزدان کے ماتھے پہ پسٹل دیکھ کر چیخ اٹھی
یزدان نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر بلال راجپوت کا گریبان چھوڑ دیا
اسکے ملازم نے بھی پسٹل نیچے کر لی …
دیکھ لوں گا تمہیں …بلال راجپوت اول فول بکتا گریبان ٹھیک کرتا چلا گیا
اسے جانے کے بعد عیشل دونوں ہاتھ منہ پہ رکھ کے نیچے بیٹھ گئ
عیشل …یزدان فورا اسکی طرف آیا
کچھ نہیں ہوا سب ٹھیک ہے …اس نے عیشل کا ہاتھ پکڑ کر تسلی دی …
اٹھو چلو گھر چلتے ہیں ..اس نے اسکی حالت دیکھ کر کہا.عیشل اپنی جگہ سے نہ ہلی
اس نے سہارا دیکر اسے اٹھایا اور گاڑی میں بٹھایا
خود دوسری طرف آکر گاڑی سٹارٹ کی …
عیشل گاڑی میں خاموشی سے بیٹھی رہی لیکن اسکے چہرے پہ خوف صاف نظر آ رہا تھا
گھر پہنچ کر یزدان اسکا ہاتھ پکڑ کر کمرے میں لایا
اسے بیڈ پہ بٹھا کر سائیڈ ٹیبل پہ پہ موجود جگ سے پانی گلاس میں ڈا کر اسے پلایا
اس نے دو گھونٹ پانی پیا …
تم اتنی بہادر تھی اب ایک پسٹل سے ڈر گئ ہو .. یزدان نے اسکے پاس بیٹھتے ہوئے کہا
وہ..وہ گولی چلا دیتا تو ….اس نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا
یزدان نے ایک پل اس کی بات پہ غور کیا…
تو کیا ..گولی مجھ پہ چلتی مجھے کچھ ہوتا …اچھا تھا تمہاری بھی جان چھوٹ جاتی …یزدان نے بے حسی سے کہا
نہیں ..ایسے نہ کہیں …مجھے..مجھے معاف کر دیں یزدان میں بہت بری ہوں .میں نے آپکے ساتھ بہت برا رویہ رکھا میں انجان تھی مجھے نہیں پتہ تھا آپ کون ہیں …مگر اب جان گئ ہوں …آپ واقعی میں میرے محافظ ہیں . آپکے بنا میں کچھ نہیں …مجھے معاف کر دیں پلیز …وہ بیڈ سے اٹھ کر اسکے پیروں میں بیٹھی
یزدان اسکے نیچے بیٹھنے پر خود بھی نیچے بیٹھ گیا ..اسے اسکے رونے سے تکلیف ہو رہی تھی …
اٹس اوکے ..تم رؤو نہ ..آنسو صاف کرو پلیز ….یزدان نے اسے دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر بیڈ پہ بٹھاتے ہوئے کہا
آپ مجھے معاف کر دیں پلیز ..وہ پھر سے معافی مانگ رہی تھی
کہا نا کوئی بات نہیں …میری غلطی ہے مجھے سب کچھ پہلے ہی بتا دینا چاہیے تھا .. سو تم معافی نہ مانگو بار بار ..یزدان نے اسکے آنسو صاف کیے
آپ نے واقعی مجھے معاف کر دیا ہے ….عیشل نے آنسو صاف کرتے اسکے ہاتھ تھام کر پوچھا
ہاں ..لیکن اب بھی فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہی ہے ..تم پر کوئی زبردستی نہیں ..میں کل شہر جا رہا ہوں تم دو دنوں تک سوچ کر مجھے اپنا فیصلہ بتا دینا …مجھے تمہارے کسی بھی فیصلے پر اعتراض نہیں ہو گا …وہ اپنے ہاتھ اسکے ہاتھوں سے نکالتا ہوا بولا اور اسکے مزید کچھ بولنے سے پہلے کمرے سے نکل گیا …
.