(Last Updated On: )
دن کے دورانئے میں
ایک بے لیکھ جواری کی طرح
ہار دیتے ہو کمایا ہوا دھن خوابوں کا
پاؤں کے گرد تھکن بن کے لپٹتے ہوئے اس رستے پر
نیم فہمیدہ مقاصد کی تگ و دو میں رواں رہتے ہو
ایک موہوم سے وعدے کے تعاقب میں سدا
کیوں نہ اک تجربہ کر کے دیکھیں
چل کے اس رات کے میخانے میں
آج ہم اتنا پئیں، اتنا پئیں
کہ اندھیرا بھی نشے میں آ کر
ہچکیاں لینے لگے
اور جب اپنے ادھورے پن کو
سیل تسلیم کی موجوں میں ڈبو کر نکلیں
ہاتھ رکھے ہوئے اک دوسرے کے کاندھے پر
کیا عجب دن کے دکھاوے کی نظر بندیوں سے
آنکھ آزاد ملے
اور ان روشنیوں کے خوانچے میں
رکھ کے شیرینیاں جو بیچتا ہے
اس کی آواز پہ بچوں کی طرح
ہم نہ للچائیں کہ یہ زہر لہو میں جا کر
قطرہ قطرہ سیاہی میں بدل جاتا ہے
***