دو بہنیں دو سال بعد ایک تیسرے عزیز کے گھر ملیں۔ اور خوب رو دھو کر خاموش ہوئیں۔ تو بڑی بہن روپ کماری نے دیکھا کہ چھوٹی بہن رام دلاری سرسے پاؤں تک گہنوں سے لدی ہوئی ہے۔ کچھ اس کا رنگ کھل گیا۔ مزاج میں کچھ تمکنت آ گئی ہے اور بات چیت کرنے میں کچھ زیادہ مشاق ہو گئی ہے۔ بیش قیمت ساری اور بیلدار عنابی مخمل کے جمپر نے اس کے حسن کو اور بھی چمکا دیا ہے۔ وہی رام دلاری جو لڑکپن میں سر کے بال کھولے پھوہڑ سی اِدھر ادھر کھیلا کرتی تھی۔ آخری بار روپ کماری نے اسے اس کی شادی میں دیکھا تھا۔ دو سال قبل تک بھی اس کی شکل و صورت میں کچھ زیادہ تغّیر نہ ہوا تھا۔ لمبی تو ہو گئی تھی مگر تھی اتنی ہی دبلی۔ اتنی ہی زرد رو اتنی ہی بد تمیز ذرا ذرا سی بات پر روٹھنے والی۔ مگر آج تو کچھ حالت ہی اور تھی۔ جیسے کلی کھل گئی ہو۔ اور حسن اس نے کہاں چھپا رکھا تھا، نہیں نظروں کو دھوکا ہو رہا ہے۔ یہ حسن نہیں محض دیدہ زیبی ہے۔ ریشم مخمل اور سونے کی بدولت نقشہ تھوڑا ہی بدل جائے گا۔ پھر بھی وہ آنکھوں میں سمائی جاتی ہے۔ پچاسوں عورتیں جمع ہیں۔ مگر یہ سحر، یہ کشش اور کسی میں نہیں۔
اور اس کے دل میں حسد کا ایک شعلہ سا دہک اٹھا۔
کہیں آئینہ ملتا تو وہ ذرا اپنی صورت بھی دیکھتی۔ گھر سے چلتے وقت اس نے اپنی صورت دیکھی تھی۔ اسے چمکانے کے لیے جتنا صیقل کر سکتی تھی وہ کیا تھا لیکن اب وہ صورت جیسے یادداشت سے مٹ گئی ہے۔ اس کی محض ایک دھندلی سی پرچھائیں ذہن میں ہے اسے پھر سے دیکھنے کے لیے وہ بے قرار ہو رہی ہے۔ یوں تو اس کے ساتھ میک اپ کے لوازمات کے ساتھ آئینہ بھی ہے لیکن مجمع میں وہ آئینہ دیکھنے یا بناؤ سنگھار کرنے کی عادی نہیں ہے۔ یہ عورتیں دل میں خدا جانے کیا سمجھیں۔ یہاں کوئی آئینہ تو ہو گا ہی۔
ڈرائنگ روم میں تو ضرور ہو گا۔ وہ اٹھ کر ڈرائنگ روم میں گئی۔ اور قد آدم شیشہ میں اپنی صورت دیکھی اس کے خدوخال بے عیب ہیں۔ مگر وہ تازگی وہ شگفتگی وہ نظر فریبی نہیں ہے۔ رام دلاری آج کھلی ہے اور اسے کھلے ہوئے زمانہ ہو گیا لیکن اس خیال سے اسے تسکین نہیں ہوئی۔ وہ رام دلاری سے ہیٹی بن کر نہیں رہ سکتی۔ یہ مرد بھی کتنے احمق ہوتے ہیں کسی میں اصلی حسن کی پرکھ نہیں۔ انھیں تو جوانی، شوخی اور نفاست چاہیے۔ آنکھیں رکھ کر بھی اندھے بنتے ہیں۔ میرے کپڑوں میں رام دلاری کو کھڑا کر دو۔ پھر دیکھو۔ یہ سارا جادو کہاں اڑ گیا ہے۔ چڑیل سی نظر آئے۔ ان احمقوں کو کون سمجھائے۔
رام دلاری کے گھر والے تو اتنے خوش حال نہ تھے۔ شادی میں جو جوڑے اور زیور آئے تھے وہ بہت ہی دل شکن تھے۔ امارت کا کوئی دوسرا سامان ہی نہ تھا۔ اس کے سُسر ایک ریاست کے مختار عام تھے۔ اور شوہر کالج میں پڑھتا تھا۔ اس دو سال میں کیسے ہن برس گیا۔ کون جانے زیور کسی سے مانگ کر لائی ہو۔ کپڑے بھی دو چار دن کے لیے مانگ لیے ہوں۔ اسے یہ سوانگ مبارک رہے۔ میں جیسی ہوں ویسی ہی اچھی ہوں۔ اپنی حیثیت کو بڑھا کر دکھانے کا مرض کتنا بڑھتا جاتا ہے۔ گھر میں روٹیوں کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ لیکن اس طرح بن ٹھن کر نکلیں گی گویا کہیں کہ راجکماری ہیں۔ بساطیوں کے درزیوں کے اور بزاز کے تقاضے سہیں گی شوہر کی گھڑکیاں کھائیں گی۔ روئیں گی روٹھیں گی۔ مگر نمائش کے جنون کو نہیں روک سکیں۔ گھر والے بھی سوچتے ہوں گے کتنی چھچھوری طبیعت ہے اس کی مگر یہاں تو بے حیائی پر کمر باندھ لی۔ کوئی کتنا ہی ہنسے بے حیا کی بلا دور۔ بس یہی دھن سوار ہے کہ جدھر سے نکل جائیں ادھر اس کی خوب تعریفیں کی جائیں۔ رام دلاری نے ضرور کسی سے زیور اور کپڑے مانگ لیے ہیں۔ بے شرم جو ہے۔ اس کے چہرے پر غرور کی سرخی جھلک پڑی۔ نہ سہی اس کے پاس زیور اور کپڑے کسی کے سامنے شرمندہ تو نہیں ہونا پڑتا۔ ایک ایک لاکھ کے تو اس کے دو لڑکے ہیں۔ بھگوان انھیں زندہ سلامت رکھے۔ وہ اسی میں خوش ہے۔ خود اچھا پہن لینے اور اچھا کھا لینے ہی سے تو زندگی کا مقصد پورا نہیں ہو جاتا۔ اس کے گھر والے غریب ہیں پر عزّت تو ہے کسی کا گلہ تو نہیں دباتے۔ کسی کی بد دعا تو نہیں لیتے۔
اس طرح اپنا دل مضبوط کر کے وہ پھر برآمدے میں آئی تو رام دلاری نے جیسے رحم کی آنکھوں سے دیکھ کر کہا۔
’’جیجا جی کی کچھ ترقی ورقی ہوئی کہ نہیں بہن۔، یا ابھی تک وہی پچھتّر پر قلم گھس رہے ہیں۔‘‘
روپ کماری کے بدن میں آگ سی لگ گئی۔ افوہ رے دماغ۔ گویا اس کا شوہر لاٹ ہی تو ہے۔ اکڑ کر بولی۔ ’’ترقی کیوں نہیں ہوئی۔ ا ب سو کے گریڈ میں ہیں۔ آج کل یہ بھی غنیمت ہے۔ میں تو اچھے اچھے ایم۔ اے پاسوں کو دیکھتی ہوں کہ کوئی ٹکے کو نہیں پوچھتا۔ تیرا شوہر اب بی۔ اے میں ہو گا۔‘‘
انھوں نے تو پڑھنا چھوڑ دیا ہے۔ بہن! پڑھ کر اوقات خراب کرنا تھا اور کیا ایک کمپنی کے ایجنٹ ہو گئے ہیں۔ اب ڈھائی سو روپیہ ماہوار کماتے ہیں۔ کمیشن اوپر سے۔ پانچ روپیہ روز سفر خرچ کے بھی ملتے ہیں۔ یہ سمجھ لو پانچ سو کا اوسط پڑ جاتا ہے۔ ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار تو ان کا ذاتی خرچ ہے۔ بہن! اونچے عہدہ پر ہیں تو اچھی حیثیت بھی بنائے رکھنی لازم ہے۔ ساڑھے تین سو روپیہ بے داغ گھر دے دیتے ہیں۔ اس میں سو روپے مجھے ملتے ہیں۔ ڈھائی سو میں گھر کا خرچ خوش فعلی سے چل جاتا ہے۔ ایم۔ اے پاس کر کے کیا کرتے۔‘‘
روپ کماری اسے شیخ چلی کی داستان سے زیادہ وقعت نہیں دینا چاہتی تھی۔ مگر رام دلاری کے لہجے میں اتنی صداقت ہے کہ تحت الشعور میں اس سے متاثر ہو رہی ہے۔ اور اس کے چہرے پر خفّت اور شکست کی بدمزگی صاف جھلک رہی ہے۔ مگر اسے اپنے ہوش وحواس کو قائم رکھنا ہے۔ تو اس اثر کو دل سے مٹا دینا پڑے گا۔ اسے جرحوں سے اپنے دل کو یقین کرا دینا پڑے گا کہ اس میں ایک چوتھائی سےز یادہ حقیقت نہیں ہے۔ وہاں تک وہ برداشت کرے گی۔ اس سے زیادہ کیسے برداشت کر سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کے دل میں دھڑکن بھی ہے کہ اگر یہ روداد سچ نکلی تو وہ کیسے رام دلاری کو منہ دکھا سکے گی۔ اسے اندیشہ ہے کہ کہیں اس کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑیں۔ کہاں پچھتّر اور کہاں پانچ سو، اتنی رقم ضمیر کا خون کر کے بھی کیوں نہ ملے۔ پھر بھی روپ کماری اس کی متحّمل نہیں ہو سکتی۔ ضمیر کی قیمت زیادہ سے زیادہ سو روپیہ ہو سکتی ہے پانچ سو کسی حالت میں نہیں۔
اس نے تمسخر کے انداز سے پوچھا۔ ’’جب ایجنٹی میں اتنی تنخواہ اور بھتّے ملتے ہیں تو کالج بند کیوں نہیں ہو جاتے؟ ہزاروں لڑکے کیوں اپنی زندگی خراب کرتے ہیں۔‘‘
رام دلاری بہن کی خفت کا مزا اٹھاتی ہوئی بولی۔ ’’بہن تم یہاں غلطی کر رہی ہو ایم۔ اے تو سب ہی پاس ہو سکتے ہیں۔ مگر ایجنٹی کرنی کس کو آتی ہے۔ یہ خدا داد ملکہ ہے۔ کوئی زندگی بھر پڑھتا رہے۔ مگر ضروری نہیں کہ وہ اچھا ایجنٹ ہو جائے۔ روپیہ پیدا کرنا دوسری چیز ہے علمی فضیلت حاصل کرنا دوسری چیز ہے اپنے مال کی خوبی کا یقین پیدا کر دینا یا ذہن نشین کرا دینا کہ اس سے ارزاں اور دیرپا چیز بازار میں مل ہی نہیں سکتی آسان کام نہیں ہے۔ ایک سے ایک گاہکوں سے ان کا سابقہ پڑتا ہے۔ بڑے بڑے راجاؤں اور رئیسوں کی تالیف قلب کرنی پڑتی ہے۔ اوروں کی تو ان راجاؤں اور نوابوں کے سامنے جانے کی ہمّت بھی نہ پڑے اورکسی طرح پہنچ جائیں تو زبان نہ نکلے۔ شروع شروع میں انھیں بھی جھجھک ہوئی تھی۔ مگر اب تو اس دریا کے مگر ہیں۔ اگلے سال ترقی ہونے والی ہے۔‘‘
روپ کماری کی رگوں میں جیسے خون کی حرکت بند ہوئی جا رہی ہے۔ ظالم آسمان کیوں نہیں گر پڑتا۔ بے رحم زمین کیوں نہیں پھٹ جاتی۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ روپ کماری جو حسین ہے تمیزدار ہے کفایت شعار ہے اپنے شوہر پر جان دیتی ہے بچوں کو یہ جان سے عزیز سمجھتی ہے اس کی خستہ حالی میں بسر ہو اور یہ بدتمیز، تن پرور چنچل چھوکری رانی بن جائے۔ مگر اب بھی کچھ امید باقی تھی۔ شاید اس کی تسکین قلب کا کوئی راستہ نکل آئے۔
اسی تمسخر کے انداز سے بولی۔ ’’تب تو شاید ایک ہزار ملنے لگیں۔‘‘
ایک ہزار تو نہیں مگر چھ سو میں شبہہ نہیں۔‘‘
کوئی آنکھ کا اندھا مالک بن گیا ہو گا؟
بیوپاری آنکھ کے اندھے نہیں ہوتے۔ جب تم انھیں چھ ہزار کما کر دو تب کہیں چھ سو ملیں۔ جو ساری دنیا کو چرائے اسے کوئی کیا بیوقوف بنائے گا۔‘‘
تمسخر سے کام چلتے نہ دیکھ کر روپ کماری نے تحقیر شروع کی۔ میں تو اس کو بہت معزز پیشہ نہیں سمجھتی۔ سارے دن جھوٹ کے طومار باندھو۔ یہ ٹھیک بدیا ہے۔‘‘
رام دلاری زور سے ہنسی روپ کماری پر اس نے کامل فتح پائی تھی۔ اس طرح تو جتنے وکیل بیرسٹر ہیں سبھی ٹھیک بدیا کرتے ہیں اپنے موکل کے فائدے کے لیے انھیں جھوٹی شہادتیں تک بنانی پڑتی ہیں۔ مگر ان ہی وکیلوں کو ہم اپنا لیڈر کہتے ہیں۔ انھیں اپنی قومی سبھاؤں کا صدر بناتے ہیں۔ ان کی گاڑیاں کھینچتے ہیں ان پر پھولوں کی اور زر و جواہر کی برکھا کرتے ہیں۔ آج کل دنیا پیسہ دیکھتی ہے، پیسے کیسے آئیں۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا۔ جس کے پاس پیسہ ہو اس کی پوجا ہوتی ہے۔ جو بدنصیب ہیں، ناقابل ہیں، پست ہمت ہیں، ضمیر اور اخلاق کی دہائی دے کر اپنے آنسو پونچھ لیتے ہیں۔ ور نہ ضمیر اور اخلاق کو کون پوچھتا ہے۔
روپ کماری خاموش ہو گئی۔ اب یہ حقیقت اس کی ساری تلخیوں کے ساتھ تسلیم کرنی پڑے گی کہ رام دلاری اس سے زیادہ خوش نصیب ہے۔ اس سے مرم نہیں۔ تمسخر یا تحقیر سے وہ اپنی تنگ دلی کے اظہار کے سوا اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتی۔ اسے بہانے سے رام دلاری کے گھر جا کر اصلیت کی چھان بین کرنی پڑے گی۔ اگر رام دلاری واقعی لکشمی کا بردان پا گئی ہے۔ تو وہ اپنی قسمت ٹھونک کر بیٹھ رہے گی۔ سمجھ لے کہ دینا میں کہیں انصاف نہیں ہے۔ کہیں ایمانداری کی قدر نہیں ہے۔ مگر کیا سچ مچ اس خیال سے اسے تسکین ہو گی۔ یہاں کون ایماندار ہے۔ وہی جسے بے ایمانی کا موقعہ نہیں ہے۔ اور نہ ہی اتنی ہمت ہے کہ وہ موقعہ پیدا کر لے۔ اس کے شوہر پچھتّر روپے ماہوار پاتے ہیں۔ مگر کیا دس بیس روپے اوپر سے مل جائیں تو وہ خوش ہوکے نہ لیں گے؟ ان کی ایمانداری اور اصول پروری اس وقت تک ہے جب تک موقعہ نہیں ملتا۔ جس دن موقعہ ملا ساری اصول پروری دھری رہ جائے گی۔ اور تب تک روپ کماری میں اتنی اخلاقی قوّت ہے کہ وہ اپنے شوہر کو ناجائز آمدنی سے روک دے۔ روکنا تو درکنار، وہ خوش ہو گی۔ شاید وہ اپنے شوہر کی پیٹھ ٹھونکے۔ ابھی ان کے دفتر سے واپسی کے وقت من مارے بیٹھی رہتی ہے۔ تب دروازے پر کھڑی ہو کر ان کا انتظار کرے گی اور جوں ہی وہ گھر میں آئیں گے ان کی جیبوں کی تلاشی لے گی۔
آنگن میں گانا بجانا ہو رہا تھا۔ رام دلاری امنگ کے ساتھ گا رہی تھی اور روپ کماری وہیں برآمدے میں اداس بیٹھی ہوئی تھی۔ نہ جانے کیوں اس کے سرمیں درد ہونے لگا تھا۔ کوئی گائے۔ کوئی ناچے اسے کوئی سروکار نہیں۔ وہ تو بدنصیب ہے رونے کے لیے پیدا کی گئی ہے۔
نو بجے رات کے مہمان رخصت ہونے لگے۔ روپ کماری بھی اٹھی یکّہ منگوانے جا رہی تھی کہ رام دلاری نے کہا۔
یکّہ منگوا کر کیا کرو گی بہن مجھے لینے کے لیے ابھی کار آتی ہو گی دو چار دن میرے یہاں رہو پھر چلی جانا۔ میں جیجا جی کو کہلا بھیجوں گی۔‘‘
روپ کماری کا آخری حربہ بھی بے کار ہو گیا۔ رام دلاری کے گھر جا کر دریافت حال کی خواہش یکایک فنا ہو گئی۔ وہ اب اپنے گھر جائے گی۔ اور منہ ڈھانپ کر پڑ رہے گی۔ ان پھٹے حالوں کیوں کسی کے گھر جائے۔ بولی ابھی تو مجھے فرصت نہیں ہے پھر کبھی آؤں گی۔‘‘
’’کیا رات بھر بھی نہ ٹھہرو گی۔‘‘
’’نہیں میرے سر میں زور کا درد ہو رہا ہے۔‘‘
’’اچھا بتاؤ۔ کب آؤ گی۔ میں سواری بھیج دوں گی۔‘‘
’’میں خود کہلا بھیجوں گی۔‘‘
تمھیں یاد نہ رہے گی۔ سال بھر ہو گیا۔ بھول کر بھی نہ یاد کیا۔ میں اسی انتظار میں تھی کہ دیدی بلائیں تو چلوں۔ ایک ہی شہر میں رہتے ہیں پھر بھی اتنی دور کہ سال بھر گزر جائے اور ملاقات نہ ہو۔‘‘
’’گھر کی فکروں سے فرصت ہی نہیں ملتی کئی بار ارادہ کیا کہ تجھے بلا بھیجوں مگر موقعہ ہی نہ ملا۔‘‘
اتنے میں رام دلاری کے شوہر مسٹر گرو سیوک نے آ کر بڑی سالی کو سلام کیا۔ بالکل انگریزی وضع تھی۔ کلائی پر سونے کی گھڑی۔ آنکھوں پر سنہری عینک بالکل اپ ٹوڈیٹ، جیسے کوئی تازہ وارد سوینیی ہو۔ چہرے سے ذہانت، متانت اور شرافت برس رہی تھی۔ وہ اتناخوش رو اور جامہ زیب ہے۔ روپ کماری کو اس بات کا گمان بھی نہ تھا۔
دعا دے کر بولی۔ ’’آج یہاں نہ آتی تو تم سے ملاقات کیوں ہوتی۔‘‘
گروسیوک ہنس کر بولا۔ ’’بجا فرماتی ہیں۔ الٹی شکایت کبھی آپ نے بلایا اور میں نہ گیا۔‘‘
’’میں نہ جانتی تھی کہ تم اپنے کو مہمان سمجھے ہو۔ وہ بھی تمھارا ہی گھر ہے۔‘‘
’’اب مان گیا بھابی صاحب بے شک میری غلطی ہے۔ انشا اللہ اس کی تلافی کروں گا۔ مگر آج ہمارے گھر رہئے۔‘‘
’’نہیں آج بالکل فرصت نہیں ہے پھر آؤں گی لڑکے گھر پر گھبرا رہے ہوں گے۔‘‘
رام دلاری بولی۔ ’’میں کتنا کہہ کر ہار گئی مانتی ہی نہیں۔‘‘
دونوں بہنیں کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئیں۔ گروسیوک ڈرائیو کرتا ہوا چلا۔ ذرا دیر میں اس کا مکان آ گیا۔ رام دلاری نے پھر روپ کماری سے چلنے کے لیے اصرار کیا مگر وہ نہ مانی۔ لڑکے گھبرا رہے ہوں گے۔ آخر رام دلاری اس سے گلے مل کر اندر چلی گئی۔ گرو سیوک نے کار بڑھائی روپ کماری نے اڑتی ہوئی نگاہ سے رام دلاری کا مکان دیکھا، اور ٹھوس حقیقت سلاخ کی طرح اس کے جگر میں چبھ گئی۔ کچھ دور چل کر گرو سیوک بولا۔
بھابی میں نے اپنے لیے کیسا اچھا راستہ نکال لیا دو چار سال کام چل گیا تو آدمی بن جاؤں گا۔‘‘
روپ کماری نے ہمدردانہ لہجہ میں کہا۔ ’’رام دلاری نے مجھ سے کہا۔ بھگوان جہاں رہو خوش رہو۔ ذرا ہاتھ پیر سنبھال کر رہنا۔‘‘
میں مالک کی آنکھ بچا کر ایک پیسہ لینا بھی گناہ سمجھتا ہوں۔ دولت کا مزا تو جب ہے کہ ایمان سلامت رہے۔ ایمان کھو کے پیسے ملے تو کیا۔ میں ایسی دولت پر لعنت بھیجتا ہوں۔ اور آنکھیں کس کی بچاؤں۔ سب سیاہ سفید تو میرے ہاتھ میں ہے مالک تو کوئی ہے نہیں۔ اس کی بیوہ ہے۔ اس نے سب کچھ میرے ہاتھ میں چھوڑ رکھا ہے میں نے اس کا کاروبار سنبھال نہ لیا ہوتا تو سب کچھ چوپٹ ہو جاتا۔ میرے سامنے تو مالک صرف تین مہینے زندہ رہے۔ مگر بڑا مردم شناس آدمی تھا۔ مجھے سو روپے پر رکھا اور ایک ہی مہینے میں اڑھائی سو کر دیا۔ آپ لوگوں کی دعا سے میں نے پہلے ہی مہینے میں بارہ ہزار کا کام کیا۔
’’کام کیا کرنا پڑتا ہے۔؟‘‘
’’وہی مشینوں کی ایجنسی۔ طرح طرح کی مشینیں منگانا اور بیچنا۔‘‘
روپ کماری کا منحوس گھر آ گیا دروازے پر ایک لالٹین ٹمٹما رہی تھی اس کے شوہر بابو اما ناتھ دروازے پر ٹہل رہے تھے۔ روپ کماری اتری مگر اس نے گرو سیوک سے آنے کے لیے اصرار نہ کیا بے دلی سے کہا ضرور۔ مگر زور نہ دیا اور اما ناتھ تو مخاطب ہی نہ ہوئے۔‘‘
روپ کماری کو وہ گھر اب قبرستان سا لگ رہا تھا۔ جیسے پھوٹا ہوا نصیب ہو، نہ کہیں فرش نہ فرنیچر نہ گملے۔ دو چار ٹوٹی کرسیاں، ایک لنگڑی میز، چار پانچ پرانی دھرانی کھاٹیں۔ یہی اس کے گھر کی بساط تھی۔ آج صبح تک روپ کماری اس گھر میں خوش تھی۔ لیکن اب اسے اس گھر سے مطلق دلچسپی نہ رہی۔ لڑکے اماں اماں کر کے دوڑے۔ مگر اس نے دونوں کو جھڑک دیا۔ سر میں درد ہے وہ کسی سے نہ بولے گی۔ ابھی تک کھانا نہیں پکایا۔ پکاتا کون؟ لڑکوں نے تو دودھ پی لیا ہے مگر اماناتھ نے کچھ نہیں کھایا۔ اسی انتظار میں تھے کہ روپ کماری آئے مگر روپ کماری کے سر میں درد ہے مجبوراً بازار سے پوریاں لانی پڑیں گی۔
روپ کماری نے ملامت آمیز انداز سے کہا۔ تم اب تک میرا انتظار کیوں کرتے رہے میں نے کھانا پکانے کا ٹھیکہ تو نہیں لیا ہے۔ اور جو رات بھر وہیں رہ جاتی؟ آخر ایک مہراجن کیوں نہیں رکھ لیتے۔ یا زندگی بھر مجھی کو پیستے رہو گے؟‘‘
اماناتھ نے اس کی طرف مظلوم اور پرسوال حیرت کی نگاہ ڈالی۔ اس کی برہمی کا کوئی سبب ان کو سمجھ نہ آیا۔ روپ کماری سے انھوں نے ہمیشہ بے عذر اطاعت پائی تھی۔ بے عذر ہی نہیں خوش دلانہ بھی۔ انھوں نے کئی باراس سے مہراجن رکھ لینے کی تجویزاور خواہش ظاہر کی تھی مگر اس نے ہمیشہ یہی کہا کہ آخر میں بیٹھے بیٹھے کیا کروں گی؟ چار پانچ روپے کا خرچ بڑھانے سے کیا فائدہ یہ رقم تو بچ رہے گی تو بچوں کے لیے مکھن آ جائے گا۔ اور آج وہ اتنی بے دردی سے شکایت کر رہی ہے۔
اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے بولے۔ ’’مہراجن رکھنے کے لیے میں نے تم سے کئی بار کہا‘‘
’’تولا کر کیوں نہ دیا۔ میں اسے نکال دیتی تو کہتے۔‘‘
’’ہاں یہ غلطی ہوئی۔‘‘
تم نے کبھی سچّے دل سے نہیں کہا۔ محض مہراجن لینے کے لیے کہا تمھارے دل میں کبھی میرے آرام کا خیال آیا ہی نہیں۔ تم تو خوش تھے کہ اچھی لونڈی مل گئی ہے ایک روٹی کھاتی ہے اور چپ چاپ پڑی رہتی ہے۔ اتنی سستی لونڈی اور کہاں ملتی۔ محض کھانے اور کپڑے پر۔ وہ بھی جب گھر بھر کی ضرورتوں سے بچے پچھتّر روپلیاں لا کر میرے ہاتھ میں رکھ دیتے ہو اور ساری دنیا کا خرچ۔ میرا دل ہی جانتا ہے کہ مجھے کتنی کتر بیونت کرنی پڑتی ہے کیا پہنوں کیا اوڑھوں۔ تمھارے ساتھ زندگی خراب ہو گئی۔ وہ مرد ہی ہوتے ہیں جو بیویوں کے لیے آسمان کے تارے توڑ کر لاتے ہیں۔ گروسیوک ہی کو دیکھو۔ تم سے کم پڑھا ہے۔ عمر میں تم سے کہیں چھوٹا ہے۔ مگر پانچ سو روپیہ مہینہ لاتا ہے اور رام دلاری رانی بنی بیٹھی ہے تمھارے لیے یہ ہی پچھتّر بہت ہیں۔ رانڈ مانڈ میں ہی خوش۔ تم ناحق مرد ہوئے تمہیں تو عورت ہونا چاہئے تھا۔ اوروں کے دل میں کیسے کیسے ارمان ہوتے ہیں مگر میں تو تمھارے لیے گھر کی مرغی، باسی ساگ ہوں۔ تمھیں کوئی تکلیف ہوتی ہی نہیں۔ تمھیں تو کپڑے بھی اچھے چاہئے، کھانا بھی اچھا چاہیے کیوں کہ تم مرد ہو۔ باہر سے کما کر لاتے ہو۔ میں چاہے جیسے رہوں تمھاری بلاسے۔۔۔‘‘
یہ سلسلہ کئی منٹ تک جاری رہا۔ اور بے چارے اماناتھ خاموش سنتے رہے۔ اپنی دانست میں انھوں نے روپ کماری کو شکایت کا کوئی موقعہ نہیں دیا ان کی تنخواہ کم ہے ضرور مگر یہ ان کے بس کی بات تو ہے نہیں۔ وہ دل لگا کر اپنا کام کرتے ہیں۔ افسروں کو خوش رکھنے کی ہمیشہ کوشش کرتے ہیں۔ اس سال بڑے بابو کے چھوٹے صاحبزادے کو چھ مہینے تک بلا ناغا پڑھایا۔ اسی لیے تو وہ خوش ہیں اور اب کیا کریں۔ روپ کماری کی برہمی کا راز تو انھیں معلوم ہو گیا۔ اگر گرو سیوک پانچ سو روپیہ لاتا ہے تو بے شک خوش نصیب ہے۔ لیکن دوسروں کی اونچی پیشانی دیکھ کر اپنا ما تھا تو نہیں پھوڑا جاتا اسے یہ موقعہ مل گیا دوسروں کو یہ موقعے کہاں ملتے ہیں۔ وہ تحقیق کریں گے کہ واقعی اسے پانچ سو ملتے ہیں یا محض گپ ہے اور بالفرض ملتے ہوں گے تو اس پر کیا روپ کماری کو یہ حق ہے کہ انھیں نشانۂ ملامت بنائے اگر وہ اسی طرح روپ کماری سے زیادہ حسین، زیادہ خوش سلیقہ عورت دیکھ کر اسے کوسنا شروع کر دیں تو کیسا ہو۔ روپ کماری حسین ہے۔ شیریں زبان ہے۔ خوش مذاق ہے۔ بے شک۔ لیکن اس سے زیادہ حسین زیادہ شیریں زبان، زیادہ خوش مذاق عورت دنیا میں معدوم نہیں ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ان کی نظروں میں روپ کماری سے زیادہ حسین عورت دینا میں نہ تھی، لیکن وہ جنون اب باقی نہیں رہا۔ جذبات کی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں آئے انھیں ایک مدت گزر گئی اب تو انھیں ازدواجی زندگی کا کافی تجربہ ہے۔ ایک دوسرے کے عیب و ہنر معلوم ہو گئے ہیں۔ اب تو صابر و شاکر رہ کر ہی ان کی زندگی عافیت سے کٹ سکتی ہے۔ روپ کماری اتنی موٹی سی بات بھی نہیں سمجھتی۔
پھر بھی انھیں روپ کماری سے ہمدردی ہوئی۔ اس کی سخت کلامیوں کا انھوں نے کچھ جواب نہ دیا۔ شربت کی طرح پی گئے۔ اپنی بہن کا ٹھاٹ دیکھ کر ایک لمحہ کے لیے روپ کماری کے دل میں ایسے دل شکن، مایوس کن غیر منصفانہ خیالات کا پیدا ہونا بالکل فطری ہے۔ وہ کوئی فلا سفر نہیں۔ تارک الدنیا نہیں کہ ہر حال میں اپنے طبعی سکون کو قائم رکھے۔ اس طرح اپنے دل کو سمجھا کر اماناتھ دریافتِ حال کی مہم کے لیے آمادہ ہو گئے۔
ایک ہفتہ تک روپ کماری ہیجان کی حالت میں رہی۔ بات بات پر جھنجھلاتی۔ لڑکوں کو ڈانٹتی شوہر کو کوستی، اپنی تقدیر کو روتی۔ گھر کا کام تو کرنا ہی پڑتا تھا۔ ورنہ نئی آفت آ جاتی لیکن اب کسی کام سے اسے دلچسپی نہ تھی۔ گھر کی جن پرانی دھرانی چیزوں سے اسے دلی تعلق ہو گیا تھا جن کی صفائی اور سجاوٹ میں وہ منہمک رہا کرتی تھی۔ ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتی۔ گھر میں ایک ہی خدمت گار تھا۔ اس نے جب دیکھا کہ بہو جی خود گھر کی طرف سے لا پرواہ ہیں تو اسے کیا غرض تھی کہ صفائی کرتا۔ دونوں بچے بھی ماں سے بولتے ڈرتے تھے۔ اور اماناتھ تو اس کے سایہ سے بھی بھا گتے تھے۔ جو کچھ ان کے سامنے آ جاتا زہر مار کر لیتے اور دفتر چلے جاتے۔ دفتر سے لوٹ کر دونوں بچوں کو ساتھ لے کر اور کہیں گھومنے نکل جاتے۔ روپ کماری سے کچھ بولتے روح فنا ہوتی تھی۔ ہاں ان کی تفتیش جاری تھی۔
ایک دن اماناتھ دفتر سے لوٹے تو ان کے ساتھ گروسیوک بھی تھے۔ روپ کماری نے آج کئی دن کے بعد زمانہ سے مصالحت کر لی تھی اوراس وقت سے جھاڑن لیے کرسیاں اور تپائیاں صاف کر رہی تھی کہ گروسیوک نے اسے اندر پہنچ کر سلام کیا۔ روپ کماری دل میں کٹ گئی۔ اماناتھ پر بے حد غصّہ آیا۔ انھیں یہاں لا کر کیوں کھڑا کر دیا۔ نہ کہنا نہ سننا۔ بس بلا لائے اسے اس حالت میں دیکھ کر گروسیوک نے دل میں کیا سمجھا ہو گا۔ مگر انھیں عقل آئی ہی کب تھی۔ وہ اپنا پردہ ڈھانکتی پھرتی ہے اور آپ اسے کھولتے پھرتے ہیں۔ ذرا بھی شرم نہیں۔ جیسے بے حیائی کا جامعہ پہن لیا ہے۔ خوامخواہ اسے ذلیل کرتے ہیں۔
دعا دے کر عافیت پوچھی اور کرسی رکھ دی۔ گروسیوک نے بیٹھے ہوئے کہا آج بھائی صاحب نے میری دعوت کی ہے میں ان کی دعوت پر تو نہ آتا۔ لیکن انھوں نے کہا کہ تمھاری بھابی کا سخت تقاضہ ہے۔ تب وقت نکالنا پڑا۔
روپ کماری نے بات بنائی ’’تم سے اس دن رواروی میں ملاقات ہوئی دیکھنے کو جی لگا ہوا تھا۔‘‘
گروسیوک نے در و دیوار پر نظر ڈالی اور کہا۔ ’’اس پنجرے میں تو آپ لوگوں کو بڑی تکلیف ہوتی ہو گی۔‘‘
روپ کماری کو اب معلوم ہوا کہ یہ کتنا بد مذاق ہے۔ دوسروں کے جذبات کی اسے بالکل پرواہ نہیں۔ یہ اتنی سی بات بھی نہیں سمجھتا ہے کہ دینا میں سبھی تقدیر والے نہیں ہوتے۔ لاکھوں میں کہیں ایک ایسا بھاگوان نکلتا ہے کسی قدر ترش ہو کر بولی،
’’پنجرے میں رہنا کٹگھرے میں رہنے سے اچھا ہے۔ پنجرے میں معصوم چڑیاں رہتی ہیں۔ کٹگھر تو درندوں کا مسکن ہوتا ہے۔‘‘
گرو سیوک کنایہ نہ سمجھ سکا بولا۔ ’’مجھے تو اس گھر میں حبس ہو جائے۔ دم گھٹ جائے۔ میں آپ کے لیے اپنے گھر کے پاس ایک گھر طے کر دوں گا خوب لمبا چوڑا۔ آپ سے کچھ کرایہ نہ لیا جائے گا۔ مکان ہماری مالکن کا ہے۔ میں بھی تو اسی کے مکان میں رہتا ہوں۔ سینکڑوں مکان ہیں اس کے پاس سینکڑوں سب میرے اختیار میں ہیں۔ جس کو جو مکان چاہوں دے دوں۔ میرے اختیار میں ہے کرایہ لوں یا نہ لوں۔ میں آپ کے لیے اچھاسا مکان ٹھیک کر دوں گا۔ جو سب سے اچھا ہے میں آپ کا بہت ادب کرتا ہوں۔‘‘
روپ کماری سمجھ گئی۔ حضرت اس وقت نشہ میں ہیں۔ جب ہی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ ان کی آنکھیں سکڑ گئیں ہیں۔ رخسار کچھ پھول گئے تھے۔ زبان میں ہلکی سی لغزش تھی۔ جو ہر لمحہ نمایاں ہوتی جاتی تھی۔ ایک جوان، خوبصورت، شریف چہرہ، رکیک اور بے غیرت بن گیا تھا۔ جسے دیکھ کر نفرت ہوتی تھی۔
اس نے ایک لمحہ بعد پھر بہکنا شروع کیا۔ میں آپ کا بہت ادب کرتا ہوں۔ آپ میری بڑی بھابی ہیں۔ آپ کے لیے میری جان حاضر ہے۔ آپ کے لیے مکان کا انتظام کرنا میرے لیے کچھ مشکل نہیں۔ میں مسز لوہیا کا مختار ہوں۔ سب کچھ میرے اختیار میں ہے سب کچھ، میں جو کچھ کہتا ہوں وہ آنکھیں بند کر کے منظور کر لیتی ہیں۔ مجھے اپنا بیٹا سمجھتی ہے۔ میں ان کی ساری جائداد کا مالک ہوں۔ مسڑ لوہیا نے مجھے بیس روپیہ کا نوکر رکھا تھا۔ بڑا مالدار آدمی تھا مگر یہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس کی دولت کہاں سے آتی تھی۔ کسی کو معلوم نہیں۔ میرے سوا کوئی جانتا نہیں۔ وہ خفیہ فروش ہے۔ کسی سے کہنا نہیں۔ وہ خفیہ فروش تھا۔ کوکین بیچتا تھا۔ لاکھوں کی آمدنی تھی اس کی۔ میں بھی اب وہی کام کرتا ہوں۔ ہر شہر میں ہمارے ایجنٹ ہیں۔ مسڑ لوہیا نے مجھے اس فن میں یکتا کر دیا۔ جی ہاں مجال نہیں کہ مجھے کوئی گرفتار کر لے۔ بڑے بڑے افسروں سے میرا یارانہ ہے۔ ان کے منہ میں نوٹوں کے پلندے ٹھونس ٹھونس کر ان کی آواز بند کر دیتا ہوں۔ کوئی چوں نہیں کر سکتا حساب میں لکھتا ہوں ایک ہزار دیتا ہوں پانچ سو باقی یاروں کا ہے۔ بے دریغ روپے آتے ہیں۔ بے دریغ خرچ کرتا ہوں۔ بڑھیا کو تو رام نام سے مطلب ہے۔ سادھو سنتوں کی سیوا میں لگی رہتی ہے اور بندہ چین کرتا ہے۔ جتنا چاہوں خرچ کروں۔ کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔ کوئی بولنے والا نہیں۔ (جیب سے ایک نوٹوں کا بنڈل نکال کر)یہ آپ کے قدموں کا صدقہ ہے مجھے دعا دیجئے۔ جو ایمان اور اصول کے اپا سک ہیں۔ انھیں دولت لات مارتی ہے۔ دولت تو انھیں پکڑتی ہے جو اس کے لیے اپنا دین ایمان سب کچھ نثار کرنے کو تیار ہیں۔ مجھے برا نہ کہئے۔ جتنے دولت مند ہیں سب لٹیرے ہیں۔ میں بھی انھیں میں ایک ہوں۔ کل میرے پاس روپے ہو جائیں اور میں ایک دھرم شالہ بنوا دوں۔ پھر دیکھئے میری کتنی واہ واہ ہوتی ہے۔ کون پوچھتا ہے۔ مجھے یہ دولت کہاں سے ملی۔ ایک وکیل گھنٹہ بھر بحث کر کے ایک ہزار سیدھا کر لیتا ہے۔ ایک ڈاکٹر ذرا سا نشتر لگا کر پانچ سو روپیہ مار لیتا ہے۔ اگر ان کی آمدنی جائز ہے تو میری آمدنی بھی جائز ہے۔ جی ہاں جائز ہے۔ ضرورت مندوں کو لوٹ کر مالدار ہو جانا ہماری سوسائٹی کا پرانا دستور ہے۔ میں بھی وہی کرتا ہوں جو دوسرے کرتے ہیں۔ زندگی کا مقصد ہے عیش کرنا۔ میں بھی لوٹوں گا۔ عیش کروں گا اور خیرات کروں گا۔ ایک دن لیڈر بن جاؤں گا۔ کہئے تو گنوا دوں۔ یہاں کتنے لوگ جوا کھیل کر کروڑ پتی ہو گئے۔ کتنے عورتوں کا بازار لگا کر کروڑ پتی ہو گئے۔
اماناتھ نے آ کر کہا۔ ’’مسڑ گرو سیوک کیا کر رہے ہو۔ چلو چائے پی لو۔ ٹھنڈی ہو رہی ہے۔‘‘
گروسیوک اٹھا۔ پیر لڑکھڑائے اور زمین پر گر پڑا۔ پھر سنبھل کر اٹھا اور جھومتا جھامتا ٹھوکریں کھاتا باہر چلا گیا۔ روپ کماری نے آزادی کا سانس لیا۔ یہاں بیٹھے بیٹھے اس کا دم گھٹ رہا تھا۔ کمرہ کی ہوا جیسے کچھ بھاری ہو گئی تھی۔ جو ترغیبیں کئی دن سے اچھے اچھے دل آویز روپ بھر کر اس کے سامنے آ رہی تھیں۔ آج اسے ان کی اصلی مکر وہ گھناؤنی صورت نظر آئی۔ جس سادگی، خلوص اور ایثار کی فضا میں اب تک زندگی گزر رہی تھی اس میں حرام کاری اور آبلہ فریبی کا گزر نہ تھا۔ ان داموں میں وہ دنیا کی ساری دولت اور سارے عیش بھی خریدنے کو آمادہ نہ ہو سکتی تھی۔ اب وہ رام دلاری کی تقدیر سے اپنی تقدیر کا بدلہ نہ کرے گی۔ وہ اپنے حال میں خوش ہے۔ رام دلاری پر اسے رحم آیا۔ جو نمود و نمائش کے لیے اپنے ضمیر کا خون کر رہی ہے۔ مگر ایک ہی لمحہ میں گروسیوک کی طرف سے اس کا دل نرم پڑ گیا۔ جس سوسائٹی میں دولت پجتی ہے، جہاں انسان کی قیمت اس کے بینک اکاؤنٹ اور شان و شوکت سے ہانکی جاتی ہے۔ جہاں قدم قدم پر ترغیبوں کا جال بچھا ہوا ہے اور سوسائٹی کا نظام اتنا بے ڈھنگا ہے کہ انسان کی حد، غضب اور فرومائیگی کے جذبات کو اکساتا رہتا ہے۔ وہاں گرو سیوک اگر رو میں بہہ جائے تو تعجب کا مقام نہیں۔
اس وقت اماناتھ نے آ کر کہا۔ ’’یہاں بیٹھا بیٹھا کیا بک رہا تھا۔ میں نے تو اسے رخصت کر دیا۔ جی ڈرتا تھا کہیں اس کے پیچھے پولیس نہ لگی ہو۔ کہیں میں نا کردہ گناہ پکڑا نہ جاؤں گا۔‘‘
روپ کماری نے اس کی طرف معذرت خواہانہ نظر سے دیکھ کر جواب دیا۔ ’’وہی اپنی خفیہ فروشی کا ذکر کر رہا تھا۔‘‘
مجھے بھی مسز لوہیا سے ملنے کی دعوت دے گیا ہے۔ شاید کوئی اچھی جگہ مل جائے۔
جی نہیں آپ کلرکی کیے جائیے اسی میں آپ کی خیریت ہے۔
مگر کلرکی میں عیش کہاں۔ کیوں نہ سال بھر کی رخصت لے کر ذرا ادھر کا بھی لطف اٹھاؤں۔
مجھے اب وہ ہوس نہیں رہی۔
میں تم سے آ کر یہ قصّہ کہتا تو تمھیں یقین نہ آتا۔
ہاں یقین تو نہ آتا۔ میں تو قیاس بھی نہ کر سکتی کہ اپنے فائدے کے لیے کوئی آدمی دینا کو زہر کھلا سکتا ہے۔
مجھے سارا قصّہ معلوم ہو گیا تھا۔ میں نے اسے خوب شراب پلا دی کہ نشہ میں بہکنے لگے اور سب کچھ خود قبول کرے گا۔
للچائی تو تمھاری طبیعت بھی تھی۔
ہاں للچائی تو ہے مگر عیب کرنے کے لیے جس ہنر کی ضرورت ہے وہ کہاں سے لاؤں گا؟
ایشور نہ کرے وہ ہنر تم میں آئے مجھے تو اس بیچارے پر ترس آتا ہے معلوم نہیں راستہ میں اس پر کیا گزر رہی؟‘‘
نہیں وہ تو اپنی کار پر تھے۔
روپ کماری ایک منٹ تک زمین کی طرف دیکھتی رہی پھر بولی۔
تم مجھے دلاری کے گھر پہنچا دو ابھی شاید میں اس کی مدد کر سکوں۔ جس باغ کی وہ سیر کر رہی ہے اس کے چاروں طرف درندے گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ شاید میں اسے بچا سکوں۔‘‘
٭٭٭