آموس اوز (Amos Oz) کا عبرانی افسانہ
صبح سویرے، سورج نکلنے سے بھی پہلے، جھاڑیوں سے کبوتروں کی غٹر غوں اس کی کھلی کھڑکی سے ہوا کی مانند تیرتی اندر آنا شروع ہو جاتی ہے۔ گلے سے نکلتی یہ مسلسل آواز جو کسی طور ٹوٹتی نہیں، اسے سکون دیتی ہے۔ چیڑ کے درختوں کی چوٹیوں پر تازی ہوا کے لطیف جھونکے پتوں میں سرسراہٹ پیدا کر رہے ہیں اور پہاڑی کی ڈھلوان پر ایک مرغا بانگ دے رہا ہے۔ دور ایک کتا بھونکتا ہے اور ایک دوسرا اسے جواب دیتا ہے۔ یہ ساری آوازیں اوسنات کو الارم کلاک کے بجنے سے پہلے ہی جگا دیتی ہیں۔ وہ بستر سے باہر نکلتی ہے، الارم بند کرتی ہے، نہاتی ہے اور کام والے کپڑے پہن لیتی ہے۔ ساڑھے پانچ بجے وہ کیبوز *کی لانڈری میں کام کرنے کے لیے نکل جاتی ہے۔ راستے میں وہ بواز اور ایریلا کے اپارٹمنٹ کے پاس سے گزرتی ہے جو تاریکی میں ڈوبا ہے اور بند بھی ہے۔ ’وہ یقیناً ابھی سو رہے ہوں گے‘ ، وہ سوچتی ہے۔ یہ سوچ اس میں نہ حسد پید ا کرتی ہے اور نہ ہی تکلیف دیتی ہے۔ ہاں البتہ اسے ایک مبہم سی بے یقینی گھیر لیتی ہے جیسے سارا کچھ جو ہوا تھا، وہ اس کے ساتھ نہیں بلکہ اجنبیوں کے ساتھ ہوا ہو اور یہ دو ماہ پہلے نہیں بلکہ کئی برس پہلے پیش آیا ہو۔ وہ لانڈری میں پہنچ کر بتی جلاتی ہے کیونکہ دن کی روشنی ابھی بہت مدھم ہے۔ وہ پھر منتظر میلے کپڑوں کے اس ڈھیر پر جھکتی ہے اور سفید کپڑوں کو رنگین سے اور سوتی کپڑوں کو مصنوعی دھاگے سے بُنے کپڑوں سے الگ کرتی ہے۔ جسموں کی تعفن بھری بو گندے کپڑوں سے اٹھتی ہے اورپھرصابن کے سفوف کی مہک میں شامل ہو جاتی ہے۔ اوسنات یہاں اکیلی کام کرتی ہے، اس لیے وہ اپناریڈیو سارا دن چلائے رکھتی ہے تاکہ اپنی تنہائی کے احساس کو کم کر سکے حالانکہ واشنگ مشینوں کی اپنی گڑگڑاہٹ ریڈیو سے نکلتے الفاظ اور موسیقی کا گلا ویسے ہی گھونٹ دیتی ہے۔ ساڑھے سات بجے وہ پہلا چکر پورا کرتی ہے، مشینیں خالی کرتی ہے اور انہیں پھر سے کپڑوں سے بھر دیتی ہے۔ اس بعد وہ ڈائننگ ہال میں ناشتہ کرنے چلی جاتی ہے۔ وہ ہمیشہ سے آہستہ ہی چلتی ہے، جیسے اسے یقین ہی نہ ہو کہ اس نے کہاں جانا ہے یا یہ کہ جیسے اسے پرواہ ہی نہ ہو کہ وہ کہاں جا رہی ہے۔ ہمارے کیبوز میں اوسنات ایک انتہائی خاموش طبع عورت سمجھی جاتی ہے۔
گرمیوں کے آغاز میں ہی بواز اوسنات کو بتا دیتا ہے کہ وہ ایریلا براش کے ساتھ تعلق میں ہے اور اس نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ تینوں جھوٹ کے ساتھ زندگی نہ جئیں اس لیے اس نے طے کر لیا ہے کہ وہ اوسنات کو چھوڑ دے اور اپنی چیزیں ایریلا کے اپارٹمنٹ میں لے جائے۔
”تم اب چھوٹی بچی نہیں رہیں۔‘‘، وہ کہتا ہے، ”اوسنات، تم جانتی ہو کہ آج کل ساری دنیا میں اس طرح کی چیزیں ہو رہی ہیں اور ہمارا کیبوز بھی اس سے باہر نہیں ہے۔ خوش قسمتی سے ہمارے بچے نہیں ہیں، اگر ہوتے تو یہ ہمارے لیے خاصی مشکل کھڑی کر دیتے۔‘‘، اس نے پھر اسے کہا کہ وہ اپنی سائیکل ساتھ لے جائے گا لیکن ریڈیو اس کے لیے چھوڑ دے گا۔ وہ چاہتا ہے کہ ان کی علیحدگی بھی اسی خوش اسلوبی سے ہو جس طرح انہوں نے اتنے سال ساتھ بتائے ہیں۔ وہ اس بات کو بھی اچھی طرح سمجھتا ہے کہ وہ اس سے خفا ہے، گو کہ ایسا کچھ نہیں ہے جس پر وہ اس سے خفا ہو۔ ”ایریلا کے ساتھ تعلق بنانے کا مطلب تمہیں تکلیف پہچانا ہرگز نہ تھا۔ ایسی چیزیں بس ہو جاتی ہیں۔ ۔ ۔ بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے۔‘‘ بہرحال اسے افسوس ہے۔ وہ اپنی اشیاء فوری طور ہٹا لے گا اور اس کے لیے نہ صرف ریڈیو چھوڑ جائے گا بلکہ باقی چیزیں بھی جن میں البم، کشیدہ کاری والے تکیے اور وہ کافی سیٹ بھی جو انہیں شادی کے تحفے کے طور پر ملا تھا۔
”اچھا۔‘‘، اوسنات کہتی ہے۔
”اچھا سے تمہارا کیا مطلب ہے؟“
”جاؤ۔‘‘، وہ کہتی ہے، ”بس جاؤ۔‘‘
ایریلا براش ایک لمبی، پتلی دبلی مطلقہ تھی۔ اس کی گردن نازک، بال لمبے اور آنکھیں مسکراتی تھیں، جن میں سے ایک میں ہلکا سا بھینگا پن تھا۔ وہ مرغیوں کے باڑے میں کام کرتی اور کیبوز کی ثقافتی کمیٹی کی سربراہ تھی۔ اس کمیٹی کا کام شادیوں، تہواروں اور تعطیلات کے حوالے سے تقریبات منعقد کروانا تھا۔ اس کے علاوہ اس کے ذمے یہ بھی تھا کہ جمعے کی راتوں کو لوگوں کو درس کے لیے بلائے اور بدھ کی راتوں کو ڈائننگ ہال میں دکھانے کے لیے فلموں کا بندوبست کرے۔ اس کے پاس ایک بوڑھی بلی اور ایک ننھا کتا بلکہ کتورا تھا جو اس کے اپارٹمنٹ میں امن و آشتی سے ساتھ رہتے تھے۔ کتا بلی سے خوفزدہ تھا اور اسے کھل کر کھیلنے دیتا جبکہ بلی کتے کو نظرانداز کرتی اور اس کے پاس سے یوں گزر جاتی جیسے وہ موجود ہی نہ ہو۔ وہ دونوں دن کا زیادہ وقت ایریلا کے اپارٹمنٹ میں اونگھتے ہوئے گزارتے۔ بلی صوفے پر ہوتی اور کتا غالیچے پر ہوتا۔ دونوں ایک دوسرے سے لاتعلق نظر آتے۔
ایریلا سال بھر کے لیے ایک مستقل فوج کے افسر افراہیم کی بیاہتا رہی تھی جس نے اسے ایک نوجوان فوجی لڑکی کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ اس کا تعلق بواز سے تب بنا جب ایک روز وہ اس کے اپارٹمنٹ میں پسینے میں بھیگی کام والی، مشینوں کے تیل کے دھبوں بھری ڈانگری پہنے گیا تھا۔ ایریلا نے اسے اپنے ٹپ ٹپ بہتے نلکے کو ٹھیک کرنے کے لیے بلایا تھا۔ اس نے دھاتی بکسوئے والی چمڑے کی پیٹی باندھ رکھی تھی جس میں اس کے اوزار لٹک رہے تھے۔ جب وہ جھکا نلکا ٹھیک کر رہا تھا تو ایریلا اس کی دھوپ میں گندمی ہوئی کمر پر نرمی سے اس وقت تک سہلاتی رہی جب تک وہ اپنا پیچ کس اور کسنے والی چابی چھوڑے بغیر ہی اس کی طرف نہ مڑ گیا۔ وہ تب سے آدھ پون یا گھنٹے کے لیے اس کے اپارٹمنٹ میں چپکے سے جا گھستا لیکن ’یخت‘ کیبوز میں ایسے بھی تھے جو اسے یوں ایریلا کے اپارٹمنٹ میں گھستے دیکھ رہے ہوتے۔ وہ یہ بات خود تک محدود نہ رکھ سکے۔ وہ چہ مگوئیاں کرتے: ”کیا عجیب جوڑی ہے، وہ ایک لفظ بھی نہیں بولتا اور ایریلا ہے کہ وہ ہر وقت چپڑ چپڑ کرتی رہتی ہے۔ رونی سندلِن جو ہر کسی کا مذاق اڑاتا تھا، کہتا: ”شہد ریچھ کو کھا رہا ہے۔‘‘ لیکن کسی نے اوسنات کو نہ بتایا البتہ اس کے دوست اور سہیلیاں اس سے اپنی الفت کا اظہار کرتے رہتے اور طریقے طریقے سے اسے جتلاتے رہتے کہ وہ اکیلی نہیں ہے اور اگر اسے کسی شے کی طلب ہے تو وہ اس کے لیے حاضر ہیں۔ وہ اسی طرح کی باتیں کرتے، اسے بہلاتے رہتے۔
اور پھر بواز نے اپنے کپڑے اپنی بائیسکل کی ٹوکری میں رکھے اور ایریلا کے اپارٹمنٹ میں منتقل ہو گیا۔ وہ دوپہر کے بعد ورکشاپ کے کام سے فارغ ہو کر آتا، کام والے اپنے کپڑے اتارتا اور غسل خانے میں نہانے چلا جاتا۔ وہ دروازے کی اوٹ سے چِلاتا:
”ہاں تو ایریلا، کوئی نئی تازی؟ آج کچھ نیا ہوا؟“، ایریلا حیرانی سے جواب دیتی:
”نیا کیا ہونا تھا؟ کچھ بھی نہیں ہوا۔ آرام سے نہاؤ اور پھر ہم کافی پئیں گے۔‘‘
کچھ دنوں بعد ایریلا کو اپنے لیٹر بکس، جو ڈائننگ ہال کے داخلی دروازے کے پاس ہی دھری میل بکسوں والی الماری کے بائیں طرف آخری رو میں تھا، میں ایک تہہ شدہ رقعہ ملا۔ یہ اوسنات کی گولائیوں والی لکھائی میں لکھا ہوا تھا جسے اس نے عجلت میں نہیں بڑے آرام سے لکھا تھا:
”بواز ہمیشہ اپنی بلڈ پریشر کی گولیاں کھانا بھول جاتا ہے۔ اسے یہ صبح اور رات میں سونے سے پہلے لینی ہوتی ہیں اور صبح اسے اپنی کیلسٹرول والی آدھی گولی بھی کھانی ہوتی ہے۔ اسے اپنے سلاد پر کالی مرچ نہیں چھڑکنی چاہیے اور نہ ہی زیادہ نمک ڈالنا چاہیے۔ اسے کم چکنائی والا پنیر کھانے کی ضرورت ہے اور سٹیک * تو بالکل ہی منع ہے۔ اسے مچھلی اور مرغی کھانے کی اجازت ہے لیکن ان میں بھی تیز مصالحے نہیں ہونے چاہئیں۔ اسے زیادہ میٹھا بھی نہیں کھانا چاہیے۔۔ اوسنات
پی۔ ایس: اسے دودھ کے بغیر کافی بھی کم سے کم پینے کی ضرورت ہے۔‘‘
ایریلا نے اوسنات کو تیکھی، ٹیڑھی اور گھبراہٹ بھری لکھائی میں جواب لکھا اور اس کے لیٹر بکس میں ڈال دیا۔
”شکریہ۔ تم نے مجھے یہ سب لکھ کر شائستگی کا ثبوت دیا ہے۔ بواز کو سینے میں جلن بھی ہوتی ہے لیکن وہ کہتا ہے کہ اسے کچھ نہیں ہے۔ میں وہ سب کرنے کی کوشش کروں گی جو تم نے مجھے کہا ہے لیکن اسے اپنی صحت کی بالکل پرواہ نہیں۔ وہ اور بھی کئی چیزوں کے بارے میں لا پرواہ ہے۔ تم تو جانتی ہی ہو۔
۔۔ ایریلا براش۔‘‘
اوسنات نے لکھا:
”اگر تم اسے تلی ہوئی، کھٹی یا تیز مصالحوں والی چیزیں کھانے نہ دو تو اس کے سینے میں جلن نہیں ہو گی۔‘‘
ایریلا براش نے کئی دنوں بعد اسے جواب دیا:
”میں اکثر خود سے سوال کرتی ہوں کہ ہم نے کیا کیا؟ وہ اپنے احساسات اور جذبات کو دبائے رکھتا ہے جبکہ میرے بدلتے رہتے ہیں۔ وہ میرے کتے کو تو برداشت کرتا ہے لیکن بلی اسے بری لگتی ہے۔ وہ جب دوپہر میں ورکشاپ سے گھر لوٹتا ہے، تو مجھ سے پوچھتا ہے کہ آج کیا ہوا؟ پھر وہ نہاتا ہے، دودھ کے بغیر کافی پیتا ہے اور میری ہتھیوں والی کرسی پر بیٹھ کر اخبار پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔ میں جب اسے کافی کی بجائے چائے دینے کی کوشش کرتی ہوں تو وہ غصہ ہو جاتا ہے اور زور سے چِلاتا ہے کہ میری ماں بننے کی کوشش مت کرو۔ وہ پھر کرسی پر ہی اونگھنے لگتا ہے اور اخبار نیچے فرش پر گر جاتا ہے۔ اسے شام سات بجے جاگ آتی ہے اور ریڈیو سے نشر ہونے والی خبریں سننے لگتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ کتے کو پیار کرتا ہے اور اس کے منہ سے محبت بھرے کچھ الفاظ بھی نکلتے ہیں لیکن سنائی نہیں دیتے لیکن اگر بلی پیار کی چاہت میں اس کی گود میں چڑھنے کی کوشش کرے تو وہ اسے ایسی نفرت سے دھتکارتا ہے کہ میرا دل مسوس کر رہ جاتا ہے اور بلی تو کیا میں بھی ڈر سے دبک جاتی ہوں۔ میں جب اس سے ایک پھنسے ہوئے دراز کو رواں کرنے کے لیے کہتی ہوں تو وہ نہ صرف اسے ٹھیک کر دیتا ہے بلکہ کپڑوں کی دونوں الماریوں کے دروازے بھی اکھاڑ کر پھر سے صرف اس لیے جوڑنے لگتا ہے کہ وہ چِرچراتے ہیں۔ وہ پھر ہنستے ہوئے کہتا ہے، ”اگر تم کہو تو میں فرش یا چھت کو بھی ٹھیک کر دیتا ہوں۔‘‘ تب میں خود سے پوچھتی ہوں کہ اس میں ایسا کیا تھا جس نے میرا دل موہ لیا تھا اور وہ ابھی بھی مجھے کبھی کبھی اچھا لگنے لگتا ہے، لیکن مجھے اس کا کوئی جواب نہیں ملتا۔ نہانے کے باوجود اس کے ناخن مشینی تیل سے کالے ہوتے ہیں۔ اس کے ہاتھ کھردرے ہیں اور ان پرجا بجا خراشیں ہیں۔ داڑھی مونڈھنے کے بعد بھی اس کی تھوڈی پربالوں کی جڑیں رہ جاتی ہیں۔ ایسا شاید اس لیے ہے کہ وہ ہر وقت اونگھ میں ہوتا ہے۔۔ وہ جب جاگ رہا ہوتا ہے تب بھی لگتا ہے کہ اس پر نیند طاری ہے۔۔ میرے اندر خواہش جاگتی ہے کہ میں اسے جھنجھوڑوں کہ وہ پوری طرح جاگ جائے لیکن ایسا کرنے سے بھی میں اسے کچھ دیر کے لیے ہی جگا پاتی ہوں، تمہیں پتہ ہی ہے کیسے اور ایسا ہمیشہ ہوتا بھی نہیں۔
اوسنات، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا، جب میں تمہارے بارے میں نہ سوچوں اور خود سے نفرت نہ کروں۔ میں سوچتی ہوں کہ میں نے تمہارے ساتھ جو کیا، کیا اس کے لیے کہیں کوئی معافی ہے؟ بعض اوقات میں خود سے یہ کہتی ہوں کہ شاید اوسنات کو اس بات کی زیادہ پرواہ نہیں، شاید اسے بواز سے پیار ہی نہیں تھا؟ یہ جاننا مشکل ہے۔ تم شاید یہ سوچو کہ میں نے تمہیں دکھ دینے کے لیے ہی یہ سب کیا اور بواز کو چُنا لیکن ایسا نہیں تھا، ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ مرد اور عورت کا ایک دوسرے کی جانب متوجہ ہونا، کھنچنا یا کشش رکھنا اچانک ہی عجیب بلکہ کچھ مضحکہ خیز لگنے لگتا ہے۔ کیا تمہیں بھی ایسا لگتا ہے؟ اگر تمہارے بچے ہوتے تو تم اور میں نے اس سے بھی کہیں زیادہ اذیت جھیلنی تھی۔۔ اور اس کا کیا بنتا؟ اس کو اصل میں کیسا محسوس ہوتا؟ کوئی بھی اس بارے میں کیا کہہ سکتا ہے؟ تم بہت اچھی طرح جانتی ہو کہ اسے کیا کھانا اور کیا نہیں کھانا چاہیے۔۔ لیکن تمہیں پتہ ہے کہ اس کے کیا جذبات ہیں، ہیں بھی کہ نہیں؟ وہ کیسے سوچتا ہے کہ یا سوچتا ہی نہیں؟ میں نے اس سے ایک بار پوچھا تھا کہ اسے کسی قسم کا پچھتاوا تو نہیں ہے تو وہ بولا: ”دیکھو، تمہیں پتہ ہے اور تم خود دیکھ سکتی ہو کہ میں یہاں تمہارے پاس ہوں اور اُس کے ساتھ نہیں۔‘‘
اوسنات، میں چاہتی ہوں کہ تم یہ جان لو کہ تقریباً ہر رات جب وہ سو جاتا ہے تو میں بستر میں لیٹی، اندھیرے بیڈ روم میں پردوں کی درزوں سے در آتی چاندنی کو تکتی رہتی ہوں اور خود سے سوال پوچھتی رہتی ہوں کہ اگر میں ’تم‘ ہوتی تو کیا ہونا تھا۔ میں تمہارے دھیمے پن اور خاموشی سے بہت متاثر ہوں اور خواہش رکھتی ہوں کہ میں اس کا کچھ حصہ ہی خود میں جذب کر سکوں۔ بعض اوقات میں بستر سے اٹھ جاتی ہوں، کپڑے پہنتی ہوں اور دروازے تک جاتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ میں بھری رات میں ہی تمہارے پاس جاؤں اور تمہیں تفصیل اور وضاحت سے سب کچھ بتاؤں لیکن میں تمہیں کیا وضاحت دے سکتی ہوں؟ میں منٹوں دیوڑھی میں کھڑی رہتی ہوں، تاروں بھرے آسمان کو تکتی ہوں اور ستاروں کے اس جھرمٹ کو ڈھونڈتی ہوں جو ہل کی شکل بناتے ہیں۔ میں پھر واپس جا کر کپڑے اتار دیتی ہوں اور بستر میں لیٹ کر جاگتی رہتی ہوں۔ وہ سکون سے خراٹے بھر رہا ہوتا ہے اور مجھے اچانک شدت سے یہ خواہش ہونے لگتی ہے کہ مجھے اپنے پورے وجود کے ساتھ اس وقت کہیں اور ہونا چاہیے۔ کہیں اور نہ سہی شاید تمہارے کمرے میں تمہارے ساتھ ہی لیکن تمہیں یہ بات سمجھنا ہو گی کہ میرے ساتھ ایسا، رات میں اس وقت ہی ہوتا ہے جب میں لیٹی جاگ رہی ہوتی ہوں اور سو نہیں پاتی۔ مجھے اس وقت یہ بھی سمجھ نہیں آ رہی ہوتی کہ کیا ہو گیا تھا اور یہ کیوں ہوا، تب مجھے تم سے قربت کا شدید احساس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر میں تمہارے ساتھ لانڈری میں کام کرنا چاہوں گی جہاں صرف ہم دونوں ہی ہوں۔ میں تمہارے لکھے دونوں مختصر رقعے ہر جیب میں رکھتی ہوں، انہیں باہر نکالتی ہوں اور بار بار پڑھتی ہوں۔ میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ تمہارے لکھے ہر لفظ کی میرے لیے اہمیت ہے اور ان الفاظ سے بھی میں بہت متاثر ہوں جو تم نے نہیں لکھے۔ کیبوز میں لوگ ہمارے بارے میں باتیں کرتے ہیں۔ وہ بواز پر حیران ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں بس پاس سے گزری، جھُکی اور میں نے اسے تم سے توڑ کر الگ کر لیا۔۔ اور بواز ہے کہ اسے پرواہ ہی نہیں کہ وہ کام کے بعد کس اپارٹمنٹ میں جاتا ہے اور کس بستر میں سوتا ہے۔ رونی نے ایک دن دفتر کے قریب مجھے آنکھ ماری، دانت نکالے اور بولا: ”ہاں تو مونا لیزا کیا نلکے سے پانی اب تک بہہ رہا ہے۔۔ ہیں؟“ میں نے اسے کوئی جواب نہ دیا اور شرمساری سے گردن جھکا کر وہاں سے چل دی۔ بعد میں گھر پہنچ کر میں خوب روئی۔ بعض اوقات میں رات میں اس کے سونے کے بعد روتی ہوں، اس کی وجہ سے نہیں یا تم کہہ سکتی ہو کہ صرف اس کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ اپنی وجہ سے اور تمہاری وجہ سے بھی۔ کبھی کبھی میں اس سے پوچھتی ہوں : ”بواز تم کیا ہو؟“ وہ جواب دیتا ہے: ”کچھ بھی نہیں۔‘‘ میں خالی پن کی طرف کھچی تھی۔۔ جیسے وہ اندر سے خالی ہے۔۔ جیسے وہ سیدھا تنہائی کے صحرا سے آیا ہو لیکن میں یہ سب تمہیں کیوں بتا رہی ہوں؟ آخر یہ سب سن کر تمہیں تکلیف تو ہوتی ہو گی اور میں تمہاری تکلیف میں اضافہ نہیں کرنا چاہتی۔ اس کے برعکس میں تمہاری تنہائی میں شریک ہونا چاہتی ہوں ویسے ہی جیسے میں نے تنہائی کے ایک خاص لمحے میں اسے چھونا چاہا تھا۔
اس وقت ایک بجنے والا ہے، وہ ٹانگیں پیٹ سے لگائے سو رہا ہے جیسے بچہ ماں کے پیٹ میں۔ کتا اس کے قدموں میں سو رہا ہے اور بلی میرے پاس میز پر لیٹی ہے۔ اس کی پیلی آنکھیں میرے ہاتھ کی حرکت کو دیکھ رہی ہیں۔ میرا ہاتھ جو خمیدہ لیمپ کی روشنی میں لکھے جا رہا ہے۔ میں جانتی ہوں یہ سب لکھنا بیکار ہے، مجھے لکھنا بند کرنا ہو گا، تم شاید اس رقعے کو پڑھو گی بھی نہیں جو چار صفحوں پر پھیل چکا ہے۔ تم شاید اسے پھاڑ کر پھینک دو گی۔ شاید تم یہ سوچو کہ میرا دماغ چل گیا ہے اور ایسا ہے بھی، میں سچ میں پاگل ہو چکی ہوں۔ ہمیں ملنا چاہیے اور گفتگو کرنی چاہیے؟ بواز کی خوراک کے بارے میں یا اس کی دوائیوں کے بارے میں نہیں (میں کوشش کرتی ہوں کہ اسے بھولنے نہ دوں۔ سچی میں کوشش کرتی ہوں لیکن ہر بار کامیاب نہیں ہوتی۔ تم اس کے اڑیل پن کو جانتی ہو، اس میں حقارت کا عنصر لگتا توہے لیکن اس میں اس کی بے پرواہی کا دخل زیادہ ہے۔) ہم بالکل ہی مختلف چیزوں کے بارے میں بات کر سکتے ہیں جیسا کہ سال کے موسموں کے بارے میں یا پھر گرمیوں کی تاروں بھری رات کے بارے میں۔ مجھے ستاروں اور ان کے جھرمٹوں کو دیکھنے کا شوق ہے۔ شاید تمہیں بھی ہو؟
اوسنات! میں منتظر ہوں کہ تم مجھے رقعہ لکھ کر بتاؤ کہ تمہارا کیا خیال ہے۔ دو لفظ ہی کافی ہوں گے۔ میں انتظار کروں گی۔‘‘
یہ خط جو اس کے لیٹر بکس میں پڑا اس کا منتظر تھا، اوسنات نے اس کا جواب نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اسے دو بار پڑھا، تہہ کیا اور دراز میں رکھ دیا۔ اب وہ ساکت کھڑی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی ہے۔ باڑ کے پاس تین بلونگڑے ہیں : ایک اپنے پنجے چاٹنے میں مصروف ہے، دوسرا جھکا بیٹھا ہے یا شاید اونگھ رہا ہے لیکن اس کے کان یوں کھڑے ہیں جیسے کسی مہین آواز کو سننا چاہ رہا ہو؛ تیسرا اپنی دُم کے تعاقب میں گھومے جا رہا ہے، وہ گرتا ہے لڑھکتا ہے اور نرمی سے لوٹ پوٹ ہو رہا ہے۔ وہ بہت ہی چھوٹا ہے۔ ہلکی ہوا کے جھونکوں سے پردے ہل رہے ہیں، ان میں اتنی خنکی ہے کہ یہ چائے کی پیالی کو ٹھنڈا کر سکتے ہیں۔ اوسنات کھڑکی سے ہٹ کر صوفے پر تن کر بیٹھ جاتی ہے۔ اس کے ہاتھ گھٹنوں پر دھرے ہیں اور آنکھیں بند ہیں۔ جلد ہی شام ہو جائے گی اور وہ ریڈیو پر ہلکی پھلکی موسیقی سنتے ہوئے کتاب پڑھے گی۔ پھر وہ کپڑے اتارے گی، انہیں قرینے سے تہہ کر کے رکھے گی، اگلے دن کام پر پہننے والے کپڑوں کو پھیلائے گی، نہائے گی اور بستر میں لیٹ کر سو جائے گی۔
اس کی راتیں اب بے خواب ہوتی ہیں اور وہ صبح سویرے الارم کلاک کی گھنٹی بجنے سے پہلے ہی اٹھ جاتی ہے۔ اسے کبوتر جگاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔
نوٹس:
کیبوز = اشتراکی کمیون
(بینر میں فریدا کاہلو کی پینٹنگ برتی گئی ہے۔)
( عبرانی افسانوں کی اپنی زیر طبع کتاب سے)
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...