ڈی این اے کو عام طور پر ایک برہنہ مالیکول کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے ذہن میں اسکو تصور کریں تو ڈی این اے ڈبل ہیلیکس ایک لمبی اور جگہ جگہ سے موڑ کھاتی ریل کی پٹڑی کی طرح نظر آتا ہے۔ بالکل جیسا ہم نے پچھلی اقساط میں اسکو بیان کیا ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا بالکل نہیں ہے ۔ ایپی جینیٹکس کے اندر بڑی کامیابیاں تبھی ممکن ہو پائیں جب سائنسدانوں نے اس خیال کو سنجیدہ لینا شروع کیا۔ ڈی این اے پروٹینز کیساتھ منسلک ہوتا ہے خاص طور پر ہسٹون پروٹین۔ فی الوقت ایپی جینیٹکس اور جین ریگولیشن کے اندر ساری توجہ چار مخصوص ہسٹون پروٹینز پر مرکوز ہے۔ یہ پروٹینز H2A, H2B، H3 اور H4 ہیں۔ یہ پروٹینز مخصوص ساخت کی حامل ہوتی ہیں جسکو گلوبلر کہا جاتا ہے۔ ٹھوس گیند نما شکل میں پائی جاتی ہیں۔ لیکن اسکے ساتھ ڈھیلی امائنو ایسڈ کی چین بھی ہوتی ہے جو گیند سے باہر نکلی ہوتی ہے۔ اس چین کو ڈی این اے ٹیل (دم) کہتے ہیں۔ ان ہسٹونز میں سے ہر ایک کی دوکاپیاں ملکر ایک ساخت بناتی ہیں جسکو ہسٹون اوکٹامر کہا جاتا ہے۔
ڈی این اے ان ہسٹون اوکٹامرز کے اردگرد مظبوطی سے لپٹا ہوتا ہے اس ساخت کو نیوکلیو سوم کہا جاتا ہے۔ ایک نیوکلیو سوم کیساتھ ایک سو سینتالیس بیس کے جوڑے موجود ہوتے ہیں۔ آج سے دو دہائیاں پہلے تک ہسٹونز کو صرف پیکجنگ پروٹینز کے طور پر جانا جاتا تھا۔ یہ سچ ہے کہ ڈی این کو پیک کرنا ضروری ہے۔ ایک نیوکلئس کا سائز دس مائیکرون ہوتا ہے جو ایک ملی میٹر کے سوویں حصے کے برابر بنتا ہے۔ اگر ڈی این اے کو کھلا چھوڑا جائے تو اسکی لمبائی دو میٹر کے قریب بنتی ہے ۔ نیوکلس کے اندر ڈی این اے ہسٹون اوکٹامرز
کے اردگرد مظبوطی سے لپٹا ہوتا ہے اور یہ اوکٹامرز ایک دوسرے کے اوپر موجود ہوتے ہیں۔ ہمارے کروموسومز کے بہت سارے حصوں پر اس قسم کی ساختیں ہر وقت موجود کثرت کیساتھ موجود ہوتی ہیں۔ یہ وہ والے حصے ہیں جو کسی جین کو کوڈ نہیں کرتے۔ یہ کروموسومز کے آخر کے حصے ہوتے ہیں یا پھر وہ حصے جو ڈی این اے ریپلیکیشن کے بعد کروموسومز کو الگ الگ کرنے کیلئے اہم ہوتے ہیں۔
ڈی این اے کے وہ حصے جہاں پر میتھائی لیشن بہت زیادہ ہوتی ہے وہاں یہ ساختیں بھی زیادہ ہوتی ہیں اور ڈی این اے میتھائی لیشن اس ساخت کو برقرار رکھنے کیلئے اہم بھی ہے۔ یہ ان میکانزم میں سے ایک ہے جن کے تحت لمبے عرصے تک زندہ رہنے والے خلیات جیسے نیورونز کے اندر کچھ جینز کو کئی دہائیوں کیلئے آف رکھا جاتا ہے۔ لیکن ان حصوں کے بارے میں کیا جو اتنی مظبوطی سے مڑے ہوئے نہیں ہوتے اور جہاں جینز موجود ہوتے ہیں جو یا تو آن ہوتے ہیں یا ان میں آن ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہاں پر ہسٹون اپنا کام کرتی ہے۔ ڈی این اے کو لپیٹنے کے لئیے بطور مالیکولر ریل کے علاوہ بھی بہت سے کام ہیں جو یہ کرتی ہیں۔ اگر ڈی این اے میتھائی لیشن رومیو اینڈ جیولئیٹ کے سکرپٹ پر ایک نیم مستقل اضافی نوٹ ہے تو ہسٹون ترامیم زیادہ عارضی اضافے ہیں۔ یہ پینسل کے نشانات کی طرح ہیں جو کہ کچھ فوٹوکاپی سیشنز میں تو باقی رہ جائیں گے لیکن آخرکار مٹ جائیں گے۔
اس میدان میں کثیر تعداد میں کامیابیاں راکفیلر یونیورسٹی نیویارک کے پروفیسر ڈیوڈ ایلیس کی لیبارٹری سے سامنے آئی ہیں۔ پروفیسر ایلیس ایک دبلے پتلے، نفیس امریکی ہیں جو اپنی ساٹھ سال سے زائد عمر سے کافی چھوٹے نظر آتے ہیں۔ اور اپنے اردگرد کے حلقوں میں کافی مقبول ہیں۔ 1996 کے اندر بہت شاندار پبلیکشنز کے اندر پروفیسر ایلیس اور انکے ساتھیوں نے یہ دکھایا کہ ہسٹون پروٹینز میں خلیوں کے اندر کیمیائی ترمیم ہوتی ہے اور یہ ترمیم مخصوص ترمیم یافتہ نیوکلیوسوم کے ساتھ موجود جینز کے اظہار کو بڑھا دیتی ہیں۔ اس ہسٹون ترمیم کو ایسیٹائیلیشن کا نام دیا گیا۔ یہ کسی ایک ہسٹون ٹیل میں موجود لائیسین نامی امائینو ایسڈ کے اوپر ایک خاص گروپ جسکو ایسیٹائل کہا جاتا ہے کا اضافہ ہے۔ یہ ایک چھوٹی ترمیم ہے اور ڈی این اے میتھائی لیشن کیطرح یہ بھی ایک ایپی جینیٹک میکانزم ہے جو جین کے اظہار کو تبدیل کرتا ہے لیکن نیچے موجود جین کی ترتیب کو کچھ نہیں کہتا۔
1996 میں یہ معاملہ بہت سادہ تھا ڈی این اے میتھائی لیشن جین کو آف کرتی ہے اور ہسٹون ایسیٹائی لیشن جین کو آن کردیتی ہے۔ لیکن جین کا اظہار آن یا آف میکانزم سے تھوڑا الگ ہے۔ یہ کسی آن آف سوئچ سے زیادہ روایتی ریڈیو پر موجود آواز کے ڈائل کی طرح ہے۔ لہذاٰ اس بات میں حیرت نہیں تھی کہ ایک سے زائد ہسٹون ترامیم موجود تھیں۔ ڈیویڈ ایلیس کے ابتدائی کام سے لیکر آج تک ہسٹون پروٹین پر پچاس سے زائد ایپی جینیٹک ترامیم دریافت ہوچکی ہیں۔ یہ تمام ترامیم جین کے اظہار کو ہمیشہ ایک طریقے سے نہیں بدلتی ۔ کچھ ترامیم جین کے اظہار کو بڑھاتی ہیں تو کچھ کم کردیتی ہیں۔ ان ترامیم کے پیٹرن کو ہسٹون کوڈ کہا گیا ہے۔ لیکن ایپی جینیٹکس کے ماہرین کے سامنے مشکل یہ ہے کہ اس کوڈ کو پڑھنا بہت مشکل ہے۔
تصور کریں ایک کروموسوم کو ایک کرسمس کے درخت کے تنے کے طور پر۔ تنے سے نکالنے والی شاخیں ہسٹون ٹیلز ہیں اور ان پر ایپی جینیٹک ترامیم کی صورت میں سجاوٹ کی جاسکتی ہے۔ ہم جامنی رنگ کے چھوٹے چمکیلے پھول اٹھاتے ہیں اور کچھ شاخوں کے اوپر لگادیتے ہیں۔ ہمارے پاس سبز رنگ کی کلیاں بھی ہیں جو ہم کچھ شاخوں پر لگاتے ہیں جن میں سے کچھ پر پہلے جامنی پھول لگ چکے ہیں۔ اب ہم سرخ ستارے اٹھاتے ہیں لیکن ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم انکو ان شاخوں پر نہیں لگا سکتے جنکے ساتھ والی شاخ پر جامنی پھول لگے ہوں۔ سنہری پتیاں اور سبز کلیاں ایک ساتھ نہیں لگائی جاسکتیں۔ اور یہ معاملہ چلتا رہتا ہے مزید پیچیدہ قوانین اور پیٹرنز کیساتھ۔ بالآخر ہم تمام سجاوٹی مواد کو استعمال کرلیتے ہیں اور درخت کے اردگرد بلب لگادیتے ہیں۔ یہ بلب انفرادی جینز کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایک جادوئی سافٹ ویئر پروگرام کی مدد سے ہر بلب کی روشنی کا اندازہ اسکے اردگرد موجود سجاوٹی مواد سے لگایا جاسکتا ہے۔ اسکے امکانات ہیں کہ ہم بہت سے بلب کی روشنی کا اندازہ نہیں لگا سکیں گے کیونکہ کرسمس درخت کی سجاوٹ کا پیٹرن بہت پیچیدہ ہے۔
یہی مشکلات سائنسدانوں کو پیش آرہی ہیں جب وہ اس بات کی پیش گوئی کرتے ہیں کہ کسطرح تمام ہسٹون ترامیم ملکر جین کے اظہار پر اثرانداز ہونگی۔ یہ واضح ہے کہ انفرادی ترامیم کیا کرسکتی ہیں لیکن ان ترامیم کے مختلف کمبی نیشنز کے بارے میں ہم ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔ دنیا بھر میں بہت سی لیبارٹریز ایک دوسرے کیساتھ ملکر مشترکہ پروجیکٹس کے اندر جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے اس بات کو سیکھنے کی کوشش کررہی ہیں کہ اس کوڈ کیسے پڑھا جائے۔ اسکی وجہ ہے کہ گوکہ ہم اس کوڈ کو پڑھنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوپائے لیکن ہم جان چکے ہیں کہ یہ انتہائی اہم ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...