(Last Updated On: )
دیار شوق میں جو سر اُٹھائے پھرتے ہیں
سروں پہ اپنے وہ پتھر اُٹھائے پھرتے ہیں ّ
نہ میکدہ ہے، نہ ساقی، مگر یہ تشنہ لبی
کہ رند ہاتھوں میں ساغر اٹھائے پھرتے ہیں
سکوں تلاشنے والے ہم ایسے دیوانے
ازل سے شور ش محشر اٹھائے پھرتے ہیں
قفس کا رنگ نہ اڑ جائے کیوں، کہ مُرغِ اسیر
دل و دماغ سے ہر ڈر اٹھائے پھرتے ہیں
کہاں وہ درد جو کرتا ہے آپ اپنی دوا
کہاں وہ زخم جو نشتر اٹھائے پھرتے ہیں
نکل کے خلد سے، کیا جانے، کس لئے اب تک
ہم آسماں کو زمیں پر اٹھائے پھرتے ہیں
شدید تر جنہیں احساسِ تشنگی ہے ضیا
وہ قطرہ قطرہ سمندر اٹھائے پھرتے ہیں
٭٭٭