۔۔۔۔۔۔مقامات مقدسہ کی زیارتوں کے بعد ہم السعودیہ ائیرلائنزکے آفس میں گئے۔ وہاں سے اپنی واپسی کی سیٹ کنفرم کرائی اور گیارہ بجے تک اپنے کمرے میں پہنچ گئے۔ ایک گھنٹہ آرام کیا پھر ظہرکی نمازکے لئے مسجد نبوی میں گئے۔ نماز کے بعد تھکاوٹ کااحساس ہونے لگا۔چنانچہ اپنے کمرے میں آکردوپہرکا کھاناکھائے بغیر سوگئے۔ تین بجے جاگے تو عصرکی نماز کی تیاری کرنے لگے۔ مسجد نبوی میں نمازِ عصر کی ادائیگی کے بعد مارکیٹ کی طرف نکل گئے۔ وہاں سے جرمنی میں بچوں کو فون کیا۔رضوانہ، حفیظ،شعیب، عثمان، ٹیپو، مانو سب خیریت سے تھے۔ انہیں اپنی سیٹ کنفرم ہوجانے کی خبردی اور بتایاکہ ہم انشاءاﷲ ۱۲دسمبر کو فرینکفرٹ پہنچ جائیں گے۔نماز مغرب کے بعدکھانا کھایا۔عشاءکے وقت نماز کے لئے پھر مسجد نبوی میں گئے۔نماز عشاءکے بعد پھر قریبی مارکیٹ کی طرف نکل گئے۔وہاں ہلکی پھلکی خریداری کی۔ اپنے کمرے میں آکر سامان پیک کیاکیونکہ کل ۱۰دسمبرکو ہمیں مدینہ سے پھر مکہ واپس جاناہے۔
۔۔۔۔۔۔سامان پیک کرنے کے بعد ہم لیٹے تو نیند آئی گئی۔ پتہ نہیں چلاکب گہری نیند آگئی لیکن صبح تین بجے ہم دونوں بیدارہوکر، تیارہوکرمسجد نبوی میں پہنچ گئے۔ شاید آج دربارِ نبوی میں آخری حاضری کااحساس تھاکہ ہم مسجد کے گیٹ کھلنے سے پہلے ہی وہاں پہنچ گئے تھے۔جیسے ہی گیٹ کھلامیں لپکتاہوا اسطوانۂ تہجد پر پہنچا۔ کل میں نے اسطوانۂ تہجد پر ہی نماز تہجد اداکی تھی اور اسے اپنے لئے بہت بڑا بہت ہی بڑا اعزاز جاناتھالیکن دل میں کہیں یہ خواہش بھی دبی ہوئی تھی کہ عین اس جالی کے نیچے نمازِ تہجد اداکرسکوں جہاں کبھی حضور انور ﷺنےتہجدکینمازیںپڑھیتھیں۔آجیہخواہشخدانےپوریفرمادی۔اسطوانہتہجدکیپہلیصفتھی۔تہجدوالیجالیکےبالکلنیچےمجھےجگہملیاورمیںیہیںجمگیا۔نمازتہجدپڑھی،پھرخاصطورپرسورةرحمنپڑھی۔فجرکینمازبھیاسیجگہ پر اداکی۔ فجر کی نماز کے بعد حسبِ معمول درود شریف اور صلوٰة وسلام کے ساتھ روضۂ رسول پہ حاضری دی۔ مخصوص طریق کارکے مطابق دعائیں پڑھیں۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓکے لئے بھی مخصوص دعائیں پڑھیں۔پھر اپنی دعائیںالوداعی دعائیں شروع کردیں۔ دعائیں اختتام کو پہنچیں تو مجھے ایسے لگاجیسے پُلسیاکسی کو ڈانٹ رہاہو۔میں نے آدھادرود شریف پڑھاتھا، آدھا ابھی پڑھ رہاتھاکہ پُلسیا مجھ تک پہنچ گیا ۔وہ دعا کے لئے اُٹھے ہوئے ہاتھ گرانے کو کہہ رہا تھا۔لہجہ بالکل پاکستانی پولیس والاتھامیں نے درود شریف مکمل کرکے منہ پر ہاتھ پھیرا تو عربی پولیس والا غصے کے تاثرات کے ساتھ واپس چلاگیا۔جہاں تک توحیدباری تعالیٰ پر ایمان کا تعلق ہے۔ یہودی بھی سخت توحیدپرست ہیں اور سکھ حضرات تو اتنے موحد ہیں کہ ان کے نزدیک ہندواور مسلمان دونوں پتھرکی پوجاکرنے والے ہیں، صرف اتنے سے فرق کے ساتھ کہ ہندوپتھر کو گھڑکرپوجتاہے اور مسلمان اَن گھڑپتھر(حجراسود) کو پوجتاہیپر بابا یہ کیسی توحید پرستی ہے جو یہودیوں اور سکھوں کی مزعومہ توحیدپرستی سے بھی بڑھ گئی ہے۔ جب میں اسطوانہ تہجد پر تھا۔ میرے آگے روضۂ رسول تھا، اسی کی سیدھ میں واقع اصحاب صفہ کے چبوترے سے بھی سجدہ کریں تو روضہ شریف سامنے ہوتاہے۔ اسطوانۂ تہجد سے اسی سیدھ میں۔ حرم مسجدنبوی کے اخیر تک چلے جائیں تو روضۂ رسول کی چوڑائی جتنے حصہ کی ساری صفوں کے نمازیوں کے سامنے روضۂ رسول ہوتاہے۔ اس کے سامنے ہونے کے باوجود ہزاروں لوگ اسی رُخ پرنماز پڑھ رہے ہیں،رکوع اور سجدے کررہے ہیں۔ اگر روضۂ رسول کے سامنے ہونے والا سجدہ خداکی بارگاہ میں ہی جارہاہے۔ یہ کوئی شرک نہیں ہے تو پھر جالی کے سامنے دعاکے لئے ہاتھ اٹھانے سے کونسا شرک عظیم ہوگیاتھا؟
۔۔۔۔۔۔۔قرآن شریف میں ارشادخداوندی ہے۔ ”حکم سارا تو اللہ کے اختیار میں ہے“ (سورة انعام:۵۸)۔ اس اختیارمیں خداکی شرکت بلاغیرے کاواضح فرمان موجود ہے۔ ”وہ اپنے حکم اور اپنے فیصلے میں کسی کو اپنا شریک نہیں بناتا“(سورہ کہف:۲۷) یہاں خدائی احکامات اور فیصلوں میں کسی اور کی شمولیت کو واضح الفاظ میں شرک سے جوڑدیاگیاہے اب یہ آیات دیکھیں جن میں رسول کی شرکت صاف صاف ظاہر ہورہی ہے۔
۱۔ ”پس تیرے رب کی قسم ہے کہ جب تک وہ ہر اُس بات میں جس کے متعلق ان میں جھگڑاہوجائے تجھے حکم نہ بنائیں اور پھر جو فیصلہ توکرے اس سے اپنے نفوس میں کسی قسم کی تنگی نہ پائیں اور پورے طورپرفرماں بردار نہ ہوجائیں، ہرگز ایمان دار نہ ہوں گے“(سورة النسائ:۶۶)
۲۔”جب اﷲ اور اس کا رسول کسی معاملے میں فیصلہ کردیں“(سورة احزاب:۳۷)
۔۔۔۔۔۔اب خدائی حکم اور فیصلے میں رسول کی پوری شرکت ہوگئی۔ کیا نعوذباللہ یہ کہہ دیاجائے کہ وہ خداجواپنے حکموں اور فیصلوں میں کسی کو اپنا شریک نہیں بناتاتھا، اس نے خود ہی ایک شریک بنالیاہے۔ لاحول ولاقوة الا باللہ العلی العظیم۔ میں خود شرک کی جاہلانہ حرکات اور رسومات سے متنفر ہوں۔شاید ایک بہت ہی چھوٹا سا وہابی میرے اندر بھی کہیں چھپاہواہے لیکن میں موحد پن کے نام پر بہت زیادہ سخت رویہ اختیارکرنے والوں کے بھی خلاف ہوں۔ ایسے سخت گیر لوگ فقست قلوبہم والے حکم کے نیچے آتے ہیں۔سیدھی سی بات ہے خداکو ہم نے رسول کے وسیلے سے ہی جانا اورماناہے۔ رسول کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک بشری اور ایک الوہیبشری حیثیت تووہی ہے جس میں رسول بھی ہم جیسے عام انسانوں کی طرح چلتاپھرتا، کھاتاپیتا، زندگی بسرکرتادکھائی دیتاہے۔ لیکن الوہی مقام میں وہ صرف ایک آلہ بن جاتاہے۔ جیسے ریڈیوسیٹ سے آواز آرہی ہوتی ہے۔ یہ ریڈیوپاکستان، لاہور ہےیایہ آل انڈیا ریڈیو کی اردو سروس ہے۔ ویسے تو بے شک ریڈیو سیٹ ہی بول رہاہوتاہے لیکن حقیقتاًاس نے مذکورہ اسٹیشن کی فریکوئنسی پر اصل مرکزکی آواز کو نشرکیاہوتاہے۔ تو رسول بھی اسی طرح بول رہاہوتاہے اور وہ اس کی اپنی نہیں، خدا کی آواز ہوتی ہے۔ یہ خدائی جلووں کابڑااظہارہے کہ وہ خداجو موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میںایک درخت کے ذریعے سے بولاتھا: ”اے موسیٰ!میں خداہوں۔ سارے جہانوں کارب“ (سورة قصص:۳۱)وہی خدا آنحضرت ﷺکےزمانےمیںکسیدرختکیبجائےبراہراستحضوراکرمﷺکیزبانمبارکسےبولرہاتھا:
وماینطق عن الھوٰی ہ ان ہواِلّا و حیّ یوحٰی (سورة النجم:۴،۵)
۔۔ میں یہودیوں کی توحیدپرستی کی قدرکرتاہوں، سکھوں کی پتھرپرستی سے بیزاری کومحبت کی نظر سے دیکھتاہوں ہوں۔ اسی طرح مسلمانوں میں جو موحدفرقے بے تکی مشرکانہ رسومات کے خلاف ہیں وہ بھی قابل قدر ہیں۔لیکن ان سب کاموحدانہ موقف تصویر کاایک رخ ہے۔ اب اسی نکتے پر ہی غور کرلیں کہ سجدہ تو ہم نے خداکے حضور کرناہوتاہے لیکن ناک اور ماتھازمین پر رکھ دیتے ہیں۔ کیا اس پر ارض پرستی کا، دھرتی پوجا کا الزام نہیں لگایاجاسکتا؟ نتیجہ یہ نکلاکہ زیادہ باریکی میں جانا ٹھیک نہیں ہوتا میں ان رسومات او رافعال کو بھی اچھانہیں کہتاجن سے شرک کا واضح اندیشہ ہو۔ لیکن کسی برترروحانی دیار اور مقدس مقام پر جاکر کسی سے اگر بے اختیاری میں کچھ ہوتاہے تو اس پر ڈنڈالے کر نہیں کھڑاہو جاناچاہیے۔ وہی مولانا روم والی بات کہ نشہ کے سرور میں وہ ہے اور بدمستیاں تم کررہے ہو ویسے بعد میں مبارکہ نے بتایاتھاکہ خواتین روضۂ اقدس کے سامنے ہاتھ اٹھاکردعا مانگ رہی تھیں۔ مبارکہ نے بھی دعامانگی تھی۔انہیں کسی نے نہیں روکاٹوکا۔اللہ تعالیٰ سعودی عرب کی لیڈی پولیس کو جزائے خیردے اور مردانہ پولیس کو ہدایت دے۔
۔۔۔۔۔۔روضۂ رسولپر حاضری دینے کے بعدمیں نے دورِ نبوی کی مسجد کے سارے حصہ پر چلنے کی سعادت حاصل کی۔ریاض الجنة کے نیچے بیٹھ کر قرآن شریف کی تلاوت کی۔ دو نفل اداکئے۔ پھر مسجد سے باہرآنے سے پہلے اصحاب صفہ کے چبوترہ پرجاکر پہلی صف میں دونفل اداکئے اور پھر باہرآگیا۔ تقریباً اتنے ہی وقت میں مبارکہ بھی باہرآگئی تھی۔ کل اور آج۔۔۔ دونوں دن ہم دونوں تہجد کے وقت سے لے کر صبح آٹھ بجے تک مسجد نبوی میں برکات و انوار سے فیضیاب ہوتے رہے۔ مسلسل چارگھنٹے تک کسی اکتاہٹ کے بغیر، پولیس والوں کی رخنہ اندازی کے باوجود نہ صرف مرا ذہنی، قلبی اور روحانی ارتکاز قائم رہابلکہ انبساط و سرور کی انوکھی کیفیتیں بھی سرشار کرتی رہیں۔ حرم شریف مسجد نبوی سے باہر آکر اس کی طرف پلٹ کر دیکھااور پھر ہم درود شریف پڑھتے ہوئے آہستہ قدموں کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف جانے لگے وہاں پہنچ کر ناشتہ کیا۔ ۱۰بجے تک تیاری مکمل کرکے ہم مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ جانے کے لئے روانہ ہوئے۔اس بار اچھی سروس والی بس کی بجائے ہمیں ایک نکمی سی گاڑی میں سفرکرناپڑا۔ہم پنا سامان اٹھائے بس اسٹینڈ کو ڈھونڈرہے تھے کہ بس اسٹینڈ کی طرف رہنمائی کرنے والے ایک صاحب نے اس بس کی نشاندہی کرکے اسی پر سوار کرادیا۔ یہ بس لب سڑک کھڑی تھی۔جیسے ہمارے ملک میں فلائنگ کوچ کے نام پر کھڑکھڑاتی ہوئی بسیں چلائی جاتی ہیںیہ بھی کچھ اسی قسم کی گاڑی تھی۔اس گاڑی میں سرگودھاکے (غالباً چک ۵۲کے) تین باپ بیٹے بھی موجودتھے۔ مولوی قسم کی چیز لگتے تھے۔ساڑھے بارہ بجے تک ان میں سے کسی ایک نے مجھ سے صلاح کے انداز میںکہانماز پڑھنے کے لئے گاڑی رکنی چاہیے۔ میں نے کہاڈرائیور خود ہی روکے گا۔اس کے باوجود مولوی صاحب کے ایک بیٹے نے ڈرائیور کو مخاطب کرتے ہوئے صلوٰت صلوٰت کی آواز بلندکی۔ جواب میں ڈرائیورنے عربی میں پتہ نہیں کیاکہالیکن اس کے لہجے سے ایسے لگاجیسے کہہ رہاہوکوئی مناسب جگہ آجائے، میں گاڑی روک لوں گااسکے بعد بمشکل پندرہ بیس منٹ گذرے ہوں گے۔بیک مرر میں دیکھاتو ڈرائیور کو بارباراونگھ آرہی تھی۔ میں نے اردو میں شورمچادیا۔ اے میاں ڈرائیور!ہوش میں آؤ تینوں پاکستانیوں کو تو میری بات سمجھ میں آگئی لیکن باقی سارے مسافر حیران تھے کہ اسے بیٹھے بٹھائے کیاہوگیاہے ڈرائیور بھی وقتی اونگھ سے ہوش میں آگیاتھالیکن اسے بھی سمجھ نہیں آئی کہ میں نے شورکیوں مچایاتھا۔آخر ظہرکی نماز کے وقت فجر کی اذان سے مخصوص الفاظ کام آئے۔ میں نے ڈرائیور کی طرف اشارہ کرکے کہا الصلوٰة خیر من النوم (نماز نیند سے بہتر ہے) سارے مسافر یہ سن کر ہنس پڑے اور ڈرائیور کے چہرے پر بھی ہلکی سی مسکراہٹ آگئی۔ مزید فائدہ یہ ہواکہ اب باقی مسافروں نے بھی ڈرائیور کویہ سمجھانا شروع کردیاتھاکہ واقعی نماز نیندسے بہترہے لہٰذا اب کسی مناسب جگہ پر گاڑی روک لے۔ ڈرائیور نے ایک نہایت گھٹیا اور مہنگے ہوٹل کے سامنے گاڑی روکی۔ ہم نے تو ہوٹل کی حالت دیکھ کر ہی کھاناکھانے کا ارادہ ختم کردیا۔ بعد میں سرگودھوی بھائیوں نے بتایاکہ ہوٹل جتناگھٹیاہے اتنامہنگا بھی ہے۔
٭٭٭