کہاں سے پھیلا ہوا ہے یہ سلسلہ کہاں تک
گزر گیا سیل ہمتوں کا
بنا کے یہ کوس کوس صدیوں کی رہگزر سی
پہاڑ چلہ چڑھی کمانوں سے تیر پھینکیں
تو آسماں گر پڑے زمیں پر
رواں دواں وقت کے بہاؤ میں
ایک لمبی دراڑ جیسے پڑی ہوئی ہے
عظیم دیوار سر اٹھائے کھڑی ہوئیے
جھکے ہوئے آسماں کے نیچے
جو اس صحیفے کو عکس در عکس بانٹتا ہے
یہ رزمیہ۔۔ ۔۔ جو لہو کی شفاف روشنی سے
لکھا گیا ہے
زمیں پہ چنگاریاں اڑاتے ہوئے وہ آئے
جو بازوؤں سے بلندیوں کا خراج
لیتے رہے
شکم کو اناج دے کر
مشقتیں جن کی باندیاں تھیں
لہو کے نمکین ذائقے
رقص کرتے رہتے تھے
جن کے ہونٹوں کے آستاں پر
یہیں پہ جسموں کے پیڑ گرتے تھے راکھ بن کر
کڑکتی آواز۔۔ ۔۔ جبر کی چابکوں کی بجلی
انہی پہاڑوں پہ کوندتی تھی
یہیں پہ محنت کے نقش گرنے
لہو کے پانی میں سنگ گوندھے
صدائے تیشہ اٹھی تو آنکھوں سے پھوٹ نکلیں
بقا کی نہریں
زمیں کو اس کی بلندیوں کی طرف اٹھایا
افق کو باندھا افق سے اس نے
قدیم قوت کی رخش نے دس ہزار ‘لی’ کی مسافتوں میں فنا کے تاتاریوں کے لشکر کو مات دے دی
یہیں پہ محنت کے نقش گرنے
سلوں کو پہنا دیے سلاسل
بٹے ہوئے خود گرفت قلعوں کی باڑ توڑی
اسی نے کوہوں کے سر پہ گاڑا
ہزیمتوں، نصرتوں کا پرچم
کشود کر کے جسے اڑایا
کئی زمانوں کے وارثوں نے
جو اڑ رہا ہے
نشیب کو آسماں کی جانب اڑا رہا ہے
جو کل کو کل سے ملا رہا ہے
٭٭٭
تمھارے نام آخری خط
آج سے تقریباً پندرہ سال قبل یعنی جون 2008میں شمس الرحمٰن فاروقی صاحب نے ’اثبات‘ کااجرا کرتے ہوئے اپنے خطبے...