(Last Updated On: )
خورشید اقبال(جگتدل،مغربی بنگال)
دیوارِ احتیاط گری ، آگ لگ گئی
چنگاری اک ذرا سی اڑی ، آگ لگ گئی
تم نے کہی تو ہم نے سنی سن کے چپ رہے
ہم نے جب ایک بات کہی آگ لگ گئی
دشوار اصل میں تو بجھانا ہے میرے دوست
لگنے کو، ایک تیلی جلی، آگ لگ گئی
ماحول ہی تھا آگ کے لائق بنا ہوا
جب ہی تو کوئی بات نہ تھی، آگ لگ گئی
اک زندگی اور اتنے مسائل مرے خدا
سیلاب آ گیا ،تو کبھی آگ لگ گئی
پلکوں میں اپنی خواب ادھورا لئے ہوئے
بے چارہ سو رہا تھا ،تبھی آگ لگ گئی
خورشیدؔ آگ آپ ہی لگتی نہیں کبھی
تم نے ہی احتیاط نہ کی ، آگ لگ گئی