“اپنی اس فلم کو ‘مہاتما’ نام دےکر مہاتما گاندھی کے نام کا کاروباری فائدے کے لیے استعمال کیا ہے!” مشہور لکھاری اور بیرسٹر کنہیالال منشی نے جلتا ہوا طعنہ مارتے ہوئے کہا۔
‘مہاتما’ فلم کو سنسر کی قینچی سے صحیح سلامت آزاد کیا جائےاورسنسر بورڈ کی طرف سے ہم لوگوں کے ساتھ جو ناانصافی کی گئی ہے اسے دور کیا جائے، ایسی مانگ کرنے کے لیے میں ان سے ملنے گیا تھا۔ لیکن پہلی سلامی میں ہی انہوں نے مجھے پورا چِت کر دیا۔ میرا خون کھول اٹھا۔ پھر بھی اپنے آپ کو قابو میں رکھتے ہوئے میں نے کہا، “مہان کام کرنے والے سبھی قدیم اورجدید آتماؤں (لیڈروں) کو مہاتما خطاب دیا جا سکتا ہے۔ ویسا ان کا حق بھی ہوتا ہے۔ تین سو برس قبل مہاراشٹر میں چھوت چھات کے خاتمے کا کام کرنے والے سنت ایکناتھ کو ہم نے مہاتما کہا تو کون سا غلط کام کیا؟ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ گاندھی جی کے سوا اور کسی کو مہاتما نہیں کہنا چاہیے؟”
میری یہ ایک دم تیکھی بات شاید منشی جی کو پسند نہیں آئی۔ ‘مہاتما’ فلم پر لگی پابندی ہٹانے کے لیے انھوں نے کچھ بھی نہیں کیا۔ میں بہت بےچین ہو گیا۔ کبھی لگتا کہ اتنی لگن سے بنائی ہوئی یہ فلم، اس میں کاٹ پیٹ کرنے کے بجاے ویسے ہی ڈبے میں بند کر رکھ دوں۔ لیکن سبھی نقطۂ نظر سے وِچار کرنے پر آخر سوچا کہ بال گندھرو جیسے کلاکار نے صرف قرض سے آزاد ہونے کے لیے فلم میں کام کرنا قبول کیا ہے، تو کیا میرے اس فیصلے سے ان کا مقصد ناکام نہیں ہو جائے گا؟ سنت ایکناتھ یا چھوت چھات جیسے متنازعہ موضوع کا انتخاب ہم نے کیا تھا۔ فلم کے موضوع اور اس کے بنانے کے بارے میں بال گندھرو نے مجھ پر پورا بھروسا کیا تھا۔ ایکناتھ کی اداکاری بھی انھوں نے من لگا کر کی تھی۔ ایسی حالت میں غصے میں ہوش کھو کر میں ‘مہاتما’ کو ریلیز کرنا منسوخ کر دیتا ہوں تو معاشی کٹھنائیوں میں گھِرے اس مہان اداکار کے لیے کیا یہ بھروسا توڑنا نہیں ہو گا؟
من مسوس کر میں نے بابوراؤ پینڈھارکر کو فون کیا اور بتایا،”اس عقل مند اور مذہبی سنسر کے بچے کی مرضی کے مطابق ‘مہاتما’ میں جو بھی کانٹ چھانٹ کرنی ہو، کر لیجیے اور کسی طرح اسے پاس کروا لیجیے۔ لیکن اسے یہ بھی صاف صاف بتا دیجیے کہ ایکناتھ ایک مہار کے گھر بھوجن کرنے جاتے ہیں، اس سین کو جوں کا توں رکھنا ہی پڑے گا۔ وہ ایک تاریخی سچ ہے اور اس کو سنسر بھی نظرانداز نہیں کر سکتا۔ یہ بات اپنی طرف سے پورے زور سے کہیے گا اور پھر بھی وہ نہیں مانتے ہیں تو انھیں دھمکی دیجیے گا کہ شانتارام نے کہا ہے کہ اس سین کو آپ نے ذرا بھی چھوا تو میں خود بمبئی آ کرعام جلسہ کروں گا، اخباروں میں آواز اٹھاؤں گا اوراس معاملے کے خلاف عوامی تحریک چھیڑوں گا۔ آپ لوگ مجھے گرفتارکرا لو گے تو بھی پرواہ نہیں۔”
بمبئی میں ‘مہاتما’ ریلیز تو ہوئی، لیکن اس کا نام ‘دھرماتما’ کر دیا گیا۔ سماج بدلنے والوں اورناظرین نے اسے بہت پراثر اور چھو لینے والی فلم کے روپ میں عزت دی۔ اس کے بعد یہی فلم بمبئی صوبے سے باہر پہلے والے ‘مہاتما’ کے ہی نام سے ریلیز کی گئی اور مزے کی بات تو یہ رہی کہ اس کا ایک بھی سین نہ تو سنسر نے کاٹا، نہ ہی کسی سین کو انھوں نے چھوا۔ ان دنوں بھارت میں مختلف صوبوں کے لیے الگ الگ سنسر بورڈ تھے۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ مہاراشٹر میں جنمے ایک مہان سماج سُدھارک سنت کے جیون پربنی فلم پر مہاراشٹر کے ہی سنسر بورڈ کی طرف سے پابندی لگائی گئی اور ہریجن سیوک مہاتما گاندھی کے پیروکار کہلانے والے لوگوں کے کنٹرول میں چل رہی ممبئی سرکار نے اس معاملے میں ہماری کوئی مدد نہیں کی!
کچھ مذہبی لوگوں کی مخالفت کے باوجود یہ فلم مہاراشٹر میں بہت ہی اچھی چلی۔ یہی نہیں، پنجاب، کلکتہ، مدراس وغیرہ صوبوں میں بھی ناظرین نے اس کو کافی سراہا۔ ‘مہاتما’ کا سارا خرچ وصول ہونے میں کوئی خاص دیر نہیں لگی۔ بعد میں سارا منافع ہی منافع رہا۔ معاہدے کے مطابق بال گندھرو کو آدھا منافع دے دیا گیا۔ کامیابی سے وہ قرض سے آزاد ہو گئے اور ہمیں بھی اطمینان ملا کہ ہم نے اپنی ایک اخلاقی ذمےداری کو پورا کر دیا۔
معاہدے کے مطابق بال گندھرو کو اہم کردار دے کر ہم نے ایک اور فلم بنانے کا وِچار کیا۔ ان کی بےانتہا نرم فطرت کے لائق کسی کہانی کی میں کھوج کرنے لگا۔ فتےلال جی کا کہنا تھا کہ بال گندھرو کے لیے کسی اور سنت کے جیون پر ہی اور ایک فلم بنائی جائے۔ سنتوں کے جذبات کو وہ نہایت خوبی کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ فتے لال جی کی بات سے میں بھی اتفاق کرتا تھا۔ سنت تُکارام کے جیون پر مبنی فلم بنائی جائے اور اس میں تُکارام کا کردار بال گندھرو کو دیا جائے، ایسا میں سوچنے لگا۔
لیکن تبھی ایک دن بال گندھرو میرے پاس آئے اور کہنے لگے، “انّا، لوگ کہہ رہے ہیں کہ میں رہا زنانہ کردار کرنے والا اداکار، لہذا مردانہ کردار میں دیکھ کر انھیں بہت اَٹ پٹا سا لگا۔ کم سے کم اب اگلی فلم میں مجھےعورت کا کرداردیا جائے، ایسا ان تمام محبت کرنے والوں کی درخواست ہے۔”
بال گندھرو کی یہ بات سن کر میں تو ٹھنڈا پڑ گیا۔ سمجھ نہیں پایا کہ ان کے کان بھرنے والے ان کے نام نہاد بھکتوں کی اس عقل پر ہنسوں یا ترس کھاؤں! فلم کے ذریعے سے کلاکار کی مورتی کئی گنا بڑی ہوکر پردے پر تصویر ہوا کرتی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی کلاکار کتنا ہی بہترین ہو، ایک عورت جیسی جذباتی اداکاری کرنے کی وہ کتنی ہی کوشش کرے، ایک عورت جیسا دکھائی دینا اس کے لیے ناممکن ہی ہے۔ مجھے تو بال گندھرو کا یہ خیال قطعی پسند نہیں تھا۔ میں نے انھیں سمجھانے کی کافی کوشش کی۔ “آپ اپنے مشیروں کے کہنے میں نہ آئیے۔ اسٹیج اور فلم میں بہت فرق ہے۔ فلم میں آپ کا زنانہ پارٹ اچھا نہیں دکھائی دے گا۔ لوگ اسے پسند نہیں کریں گے۔”
میری صاف گوئی بال گندھرو کو راس نہیں آئی۔ بگڑ کر بولے، “بھگون، اپنے مِتروں کی رائے سے میں بھی متفق ہوں۔ آپ اگلی فلم میں مجھے زنانہ کردار دینے کے قابل نہیں ہیں تو اچھا ہو کہ آپ مجھے دوسری فلم کے معاہدے سے آزاد کر دیں۔”
اپنے ساتھیوں سے اس موضوع پر بحث کر، میں نے بال گندھرو کو ہمارے معاہدے سے آزاد کر دیا۔ بعد میں کانوں کان خبر ملی کہ کولہاپور کے رائل ٹاکیز کے مالک نے بال گندھرو کو زنانہ کردار دے کر ایک مقبول ناٹک پر مبنی فلم بنا لی ہے۔ سب سے حیرت اور دھکا اس بات سے لگا کہ ہمارے گرو بابوراؤ پینٹر نے اس فلم کو ڈائریکٹ کیا ہے۔ طریقہ کار میں کیسی irony تھی کہ جس بابوراؤ پینٹر نے سن ١٩١٨ء میں اپنی پہلی فلم ‘سیرندھری’ میں عورتوں کا کام عورتوں سے ہی کرایا تھا، وہی فنکار آج ایک مرد کو زنانہ کردار دینے کا سیدھا سادہ غیرفنکارانہ کام کر بیٹھا تھا! مجھے اس پر کافی رنج ہوا۔
بال گندھرو اور بابوراؤ پینٹر جیسے دو دو کلاکاروں کے اکٹھ سے بنائی گئی وہ فلم لوگوں کو قطعی نہیں بھائی اور بری طرح فیل ہو گئی۔
’امرت منتھن’ اور ‘دھرماتما’ فلم کو ملی بھاری کامیابی کے کارن ‘پربھات’ کے ساتھ ہی میرے نام کا بھی ڈنکا بجنے لگا تھا۔ ناظرین مجھے ترقی پسند ڈائرکٹر کے طور پر پہچاننے لگے تھے۔ اس کے علاوہ کمپنی کے لین دین کا سارا کاروبار میں ہی دیکھا کرتا تھا۔ کمپنی میں کاروبار کی خاطر آنے والے سبھی کلاکار، لیکھک، غیرملکی کمپنیوں کے نمائندے میرے دیگر ساتھیوں کے پاس نہ جا کر سیدھے میرے ہی پاس آتے تھے۔ میں اپنے سبھی ساتھیوں سے اُن وزیٹرز، جینٹلمینوں کا تعارف کرا دینے سے کبھی نہیں چُوکتا تھا۔ اس بات کے لیے میں بہت ہی احتیاط برتتا کہ ساتھیوں کو کسی بھی صورت میں حقارت محسوس نہ ہو۔ لیکن کئی بار وہ خود ہی پیچھے رہنا پسند کرتے تھے۔ میری مقبولیت اپنے ساتھیوں کو شاید کہیں نہ کہیں چبھنے لگی ہے، اس کو میں کبھی کبھار محسوس کرنے لگا تھا۔ میرے پیچھے شاید وہ لوگ اس پر بات بھی کرنے لگے تھے: “جسے بھی دیکھو، سیدھا شانتارام بابو کے پاس ہی جاتا ہے۔ اور بابو بھی ہم سب کو ٹال کر اپنی ہی اہمیت بڑھانے کے جذبے سے پیش آتے ہیں۔ فلم کا موضوع، کرداروں کا انتخاب وغیرہ ساری باتیں وہ خود ہی کرتے ہیں۔ یہی کیوں، شوٹنگ کے سمے کیمرا کہاں رکھنا ہے، شاٹ کیسے لینا ہے، اس کے بارے میں بھی وہ ہدایات دیتے ہیں۔” فتے لال جی نے یہ سب باتیں مجھے سنائی تھیں۔
ایک دن جب ہم سب لوگ فرصت میں اکٹھے ہو گئے تھے، تب یہ غلط فہمی دور کرنے کے لیے میں نے اسی موضوع کو اٹھایا۔ میں نے کہا، “دیکھیے، خود آگے ہو کر میں اپنی مشہوری کبھی نہیں کیا کرتا۔ اخبار میں دیے جانے والے اشتہاروں میں بھی بطور ڈائرکٹر اپنی فوٹو چھاپنے کو میں نے ہی منع کر رکھا ہے۔ تھوڑی بہت انگریزی بول لیتا ہوں، اس لیے ہمارے کاروبار سے جُڑے غیرملکی یا دوسرے صوبوں کے لوگ مجھ سے مل لیتے ہیں۔ کئی بار تو آپ ہی لوگ انہیں میرے پاس بھیجتے رہے ہیں۔ کاروبار کی باتیں یا خط و کتابت آپ میں سے کوئی دیکھتا نہیں، اس لیے مجھے دیکھنا پڑتا ہے۔ اچھا ہو کہ آپ میں سے کوئی اس کام کو اپنے ذمے لے لے۔ پھر فلم بنانے پر اپنا دھیان زیادہ فوکس کرنا میرے لیے ممکن ہو جائے گا۔”
میری ویسے تو بہت ہی سیدھی معلوم ہونے والی لیکن صاف باتیں سن کر سب لوگ چپ بیٹھے رہے، لیکن اس کام کی ذمےداری لینے کے لیے ایک بھی آگے نہیں آیا۔ اس کے بعد میں نے بات چھیڑی شوٹنگ کے سمے فوٹوگرافر کو میری طرف سے جانے والی ہدایات کی۔ میں نے ان سب سے بِنا ہچکچاہٹ کے پوچھا، “کیا آپ میں سےکوئی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ سیٹ پر کام کرتے، کسی سین کے لیے مجھے ضروری معلوم ہونے والے کون کس طرح کے ہوں، یہ بتاتے سمے میں آپ میں سے کسی کے بھی ساتھ سختی سے پیش آیا ہوں؟ یا آپ کو بےعزت کرنے کے لیے کبھی کچھ بولا ہوں؟” سب کا جواب ‘نہیں’ میں ہی آنا تھا، سو آ گیا۔ تب میں نے انہیں بتایا، “فلم کی شوٹنگ میں سیٹ پر سب سے اہم ڈائرکٹر ہی ہوا کرتا ہے۔ اس کے دماغ میں فلم کے سبھی فارمولے ہوتے ہیں۔ اس لیے اس کی ہدایات کے مطابق شوٹنگ ہو، تبھی فلم اچھی بن پائے گی۔”
اسی بیٹھک میں میں نے آگے چل کر تجویز رکھی کہ اگلی ڈائرکشن ہم میں سے کوئی اور شخص کرے۔ اس کے تحت کام کرنے کے لیے میں نے اپنی مرضی بھی ظاہر کر دی۔ سب کی رائے رہی کہ اگلی فلم کی ڈائرکشن دھایبرجی کریں۔ مجھے یہ فیصلہ بہت اچھا لگا۔
دوسرے دن فتےلال جی نے دھایبرجی کا ایک پیغام سنایا کہ، “میں جب ڈائرکشن کروں، شانتارام بابو سیٹ پر نہ آئیں، ان کی موجودگی میں میں سہما سہما سا محسوس کروں گا۔”
دھایبرجی کے اس پیغام کے کارن مجھے کچھ برا تو لگا، لیکن اپنے آپ کو جیسے تیسے سنبھال کر میں نے کہا، “ٹھیک ہے، میں سیٹ پر نہیں آؤں گا۔ اتنی ہی فرصت مل جائے گی، جب میں کافی کچھ پڑھ لوں گا۔ پھر اگلی فلم کی کہانی اور سکرین پلے بھی تو لکھنا ہے، وہی کر لوں گا۔”
اُن دنوں میں کافی بےچین سا محسوس کرنے لگا تھا۔ سوچتا، آخر دھایبرجی نے مجھے ٹالا کیوں؟ اور دوسرے ساتھیوں نے بھی انہیں کی بات مان لی! کیوں؟ کیا میری صاف گوئی سے ان کے دل کو ٹھیس لگی؟ ہو سکتا ہے کہ میرے سوبھاؤ میں جو ہٹ دھرمی ہے، ایک طرح کا اتاؤلاپن ہے، کچھ تُنک مزاجی ہے، ایک بار کیے گئے فیصلے پر فوراً عمل کرنے کی جو فطرت ہے، پتا نہیں یہ خوبیاں ہیں یا خامیاں۔۔۔ انھیں کے کارن شاید ایسا ہو رہا ہو۔ مجھ سے کچھ ایسی باتیں ہو گئی ہوں، جن کے کارن میرے ساتھیوں کو ٹھیس لگی ہے۔ لیکن میں نے جان بوجھ کر تو ویسا ہرگز نہیں کیا۔ اور مان لو کیا بھی ہو، تو سواے ‘پربھات’ کے لیے اندرونی لگاؤ کے، کوئی کارن ان کے لیے نہیں ہو سکتا۔ کہیں ایسا تو نہیں۔۔۔ من میں خدشہ جاگا۔۔۔ ‘پربھات’ کے قیام کے وقت ہم لوگوں نے جس آپسی حسد اور جلن کو دفنا کر ہی پربھات کی عمارت کھڑی کی تھی، وہی حسد اور جلن اب پھل پھول کا کھاد پانی پاتے ہی اُگ گئی ہے اور وہ پودا سر اٹھانے لگا ہے؟
اس خدشے کو دور کرنے کا ایک ہی حل تھا۔ ان سب لوگوں کو کافی مقبولیت ملنی چاہیئے۔ کیشوراؤ دھایبر ‘راجپوت رمنی’ بنا ہی رہے تھے۔ ان کی طرح داملے، فتےلال جی کو بھی کسی فلم کی ڈائرکشن سونپنی چاہیے۔ انھیں بھی ‘پربھات’ فلم ڈائرکٹرکے روپ میں عزت ملنی چاہیے۔
کچھ ہی دنوں میں ‘راجپوت رمنی’ ریلیز ہو گئی۔ لیکن وہ لوگوں کو راس نہیں آئی۔ دھایبرجی کی اس ناکامی کے کارن داملے اور فتےلال جی خودمختارروپ سے ڈائرکشن کرنے کے لیے تیار نہیں ہو رہے تھے۔ لیکن میں نے ہی زور دے کر کہا، “آپ کس بات سے ڈرتے ہیں؟ آپ کی خواہش ہو تو میں آپ کی مدد کروں گا۔”
میری اس یقین دہانی کے کارن انہیں کافی دھیرج بندھا۔ انھوں نے ڈائرکشن کی ذمےداری قبول کی۔ ہم سب لوگ ایک ایسے موضوع کی تلاش کرنے لگے جو ان دونوں کو پسند آئے اور ان سے سنبھلے بھی۔
کبھی فتےلال جی نے ہی سُجھایا تھا کہ بال گندھرو کی اہم کردار والی دوسری فلم سنت تُکارام کے جیون پر بنائی جائے۔ لہذا میں نے وہی موضوع فلم کے لیے لینے کا سجھاؤ رکھا۔ ان دونوں نے میرا سجھاؤ ایک دم مان لیا۔ داملے جی کے مِتر شری شِورام واشیکر کو ہم نے فوراً ہی کمپنی میں بلا لیا۔ انھیں سنت تُکارام کا سکرین پلے لکھنے کو کہا۔
لگ بھگ اسی سمے میری آئندہ فلم کی کہانی پوری ہونے جا رہی تھی۔ عورت کو خودمختاری ملے، عورت اور مرد کا سماج میں برابری کا مقام ہو، اس وِچار کی زوردار حمایت کرنے والی ایک غیرمعمولی اور مزے کی کہانی اس بار میں نے چُنی تھی۔
وہ ١٩٣٥ء کا زمانہ تھا۔ کئی عورتیں ڈاکٹر، پروفیسر، وکیل جیسے پیشوں میں اہلیت سے شرکت کر رہی تھیں۔ سروجنی نائیڈو، کملا نہرو جیسی عورتیں سیاست میں بھی دھڑلے سے حصہ لے رہی تھیں۔ پھربھی عورت کی لا محدود آزادی (Women’s Lib) کے خیالات ان دنوں سماج کے گلے اترنے والے نہیں تھے۔ ایسی صورت میں عورت کو مرد کی غلامی سے آزاد کرنے کے انتہائی جدید اصول پر مبنی فلم کو کامیاب بنانا بہت ٹیڑھی کھیر تھا۔ اسی لیے میں نے پوری فلم کا پس منظر کسی خاص مقام اور وقت سے جڑے نہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ایسا کرنے میں بھلے ہی کہانی نہایت من گھڑت لگے، لیکن ہو میرعملی مقصد ثابت کرنے والی۔ یہ سوچ کر میں نے سمندری ڈاکوؤں کے دریائی جیون پرہی اس کہانی کی تخلیق کی۔ نتیجتاً منظرووں کی شوٹنگ کرتے وقت میں بھی اپنے کافی نئے خیالات کا استعمال کر سکتا تھا۔ یہ مخصوص پس منظر اصلی معلوم ہو،اس لیے میں نے اس فلم کو صرف ہندی زبان میں ہی بنانا طے کیا۔
موضوع کی جدّت کے کارن فتےلال جی کی تخیلاتی طاقت کے پَر نکل آئے۔ مختلف منظروں کے سکیچیز میں ان کا ٹیلنٹ ایسا روپ لیتا کہ کئی بار میں بھی دنگ رہ جاتا تھا۔ عورت کی خودمختاری کے آدرش سے بھری ہیروئن سودامنی کا جوشیلا کام کرنے کے لیے بہت دنوں بعد پھر دُرگا کھوٹے کو مدعو کیا گیا۔ شانتا آپٹے اور واسنتی کو سودامنی کی اہم داسیوں کے رول دیے گئے۔
اس فلم میں تمام عورت جاتی سے نفرت کرنے والے وزیر کی ایک اثردار شخصیت تھی۔ چندرموہن سے کیے گئے معاہدے کی مدت بھی اب ختم ہونے کو تھی۔ کمپنی سے وداع ہونے سے پہلے ایک اچھا، زبردست کردار دینے کا وعدہ میں نے اسے کر رکھا تھا۔ اسی کے مطابق میں نے عورت سے نفرت کرنے والے لنگڑے وزیر کا کام اسے دیا۔ یہ کام بھی ویسے مشکل ہی تھا۔ بیساکھیاں لے کر میں نے اسے سکھایا کہ اس کام کو کس طرح کرنا چاہیے۔
سین تیار کیے جانے لگے۔ اداکاراؤں کے کپڑے وغیرہ سیے جانے لگے۔ دُرگا کھوٹے، شانتا آپٹے اور واسنتی کے لیے فتے لال جی نے پشاوری شلوار اور اوپر تنگ جیکٹ، ایسا مردانہ ٹھاٹ باٹ کا لیکن کافی مدہوش کرنے والا لباس بنوانے کے لیے کہا تھا۔
ایک دن شانتا آپٹے کی میک اپ میں مدد کرنے والی عورت میرے پاس آئی اور کہنے لگی، “شانتا بائی نے نئے کپڑے پہن لیے ہیں اور دیکھنے کے لیے آپ کو بلایا ہے۔‘‘ میں شانتا بائی کے کمرے میں گیا۔ وہ میری طرف پیٹھ کیے کھڑی تھی۔ میری آہٹ سنائی پڑتے ہی وہ پلٹی اور منہ پُھلا کر بولی، “دیکھیے نا، آپ کےدرزی نے یہ جیکٹ کیسی سی رکھی ہے!” اتنا کہہ کر اس نے اپنے ہاتھوں میں کس کر تھامے جیکٹ کے دونوں کنارے کھلے چھوڑ دیے، واقعی میں جیکٹ کی سلائی میں بہت ہی گڑبڑ ہو گئی تھی۔ سامنے کے دونوں حصوں میں کافی فاصلہ رہ جاتا تھا۔ اس میں سے اس کے دونوں پستان صاف کھلے نظر آتے تھے۔ لیکن شانتا بائی میری طرف مسکرا کر دیکھ رہی تھی۔ اس کی ڈھٹائی سے میں حیران رہ گیا اور بولا، “آپ کی جو مددگار ہے، اُس کے ہاتھوں اس جیکٹ کو واپس سلائی ڈپارٹمنٹ میں بھجوا دیجیے اور درزی کو کہلوا بھیجیے کہ آپ کا ناپ ٹھیک سے لے اور اس کے مطابق جیکٹ کو پھر سی کر لائے۔” اور زیادہ کچھ کہے بنا ہی میں اس کمرے سے فورا باہر نکل آیا۔
دوسرے دن شانتا آپٹے میرے کمرے میں آئی اور چٹکی لیتے شوخی سے پوچھنے لگی، “آپ کل اتنے گھبرا کیوں گئے تھے؟”
کل ہوے اس واقعے کے کارن میں ابھی غصے میں ہی تھا، اس لیے میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اپنی آپ بیتی کا رونا رونے لگی۔ اس کا بڑا بھائی اس کا سرپرست، رکھوالا، استاد، سب کچھ تھا۔ بالکل ہی معمولی بہانے پر وہ بات بات میں اسے بینتوں سے پیٹتا تھا۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ کہتے کہتے اس نے ایک دم سہج انداز سے اپنی ساڑی اوپر اٹھائی اور اپنی کھلی جانگھ پرپڑے بینت کے کالے نیلے نشان مجھ کو دکھانے لگی۔
اتنی ملائم جگہ پر انگلی کی موٹائی کے مار کے نشان دیکھ کر میں بھی متاثر ہو گیا اور اس سے پوچھا، “آپ یہ سب برداشت کیوں کر لیتی ہیں؟”
مختلف نظر سے مجھے دیکھتے ہوے اس نے کہا، “کسی ممتا بھرے مرد کا سہارا مل گیا، تو میں گھر چھوڑ دوں گی!”
اس پر کیا کہوں، سمجھ میں نہیں آیا۔ یوں ہی کچھ گول مول سا جواب دیا، “اجی، نہیں نہیں! آپ کا بھائی آپ کی بھلائی کی خاطر ہی شاید دوڑدھوپ کرتا ہو گا۔ اس کے من میں کسی طرح کی دُوری نہیں ہو گی، یہ بھی تو ممکن ہے۔۔۔” اور کسی کام کے بہانے میں اسے آفس میں ہی چھوڑ کر باہر کھسک گیا۔
اس واقعے کے بعد میں شانتا آپٹے کے ساتھ ایک فاصلہ رکھ کر ہی پیش آتا۔ کام کے علاوہ الگ کہیں پر بھی اس سے ملاقات نہ ہو، اس کی احتیاط برتتا گیا۔ پھر بھی ‘میک اپ والے نے اچھا میک اپ نہیں کیا’ جیسے کئی بہانے بنا کر وہ مجھے اپنے کمرے میں بلاتی رہی۔
اسی طرح ایک دن اس کے بلا بھیجنے پر اس کے کمرے میں گیا تو یہ مہامایا صرف ایک کچھا پہنے ہی میرے سامنے کھڑی ہو گئی۔ پاس ہی پڑا گاؤن اس کی کایا پر پھینک کر میں نے اسے اچھی خاصی ڈانٹ پلائی، “شانتابائی، آئندہ آپ نے پھر کبھی ایسی حرکت کی تو ‘پربھات’ کے ساتھ آپ نےجو معاہدہ کیا ہے اس کی ذرا بھی پروا نہ کرتے ہوئے میں آپ کو ہماری کسی فلم میں کوئی کام نہیں دوں گا۔”
میری ‘امرجیوتی’ فلم کی رچنا پوری ہو چکی تھی۔ اسی سمے شِورام واشیکر ‘سنت تُکارام’ کا سکرین پلے بھی پورا لکھ کر لے آئے۔ میں نے اس کہانی کو سنا۔ انھوں نے سنت فلموں کی عام دھارا کی طرح اس میں چمتکاروں پر کافی زور دیا تھا۔ بات یہ تھی کہ اس طرح کی چمتکاروں سے بھری سنت فلموں سے عوام اب اوب چکی تھی۔ میں نے واشیکرجی سے کہا کہ اس سکرین پلے کو وہ ایک اور رخ دیں اور تکارام کے جیون پر مبنی نئے سرے سے ایک ایسی کہانی لکھنے کی کوشش کریں جس میں تُکارام ایک آدمی کے روپ میں زیادہ ابھر کر سامنے آ سکیں۔ تکارام کی رحم دل شخصیت، ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری انسانیت وغیرہ خوبیوں کو اہمیت کے ساتھ ظاہر کرنے والی خاندانی محبت اور ممتابھرے منظروں کو لے کر ایک دل چھونے والی کہانی تُکارام کے جیون پر لکھنے کا میرا وچار بہت پہلے سے تھا۔
لہٰذا میں نے تُکارام کا کردار اور ان کے ابھنگوں (قدیم مراٹھی ادب میں گیتوں کی ایک صنف) کی داستان خرید لی۔ دن میں ‘امر جیوتی’ کی شوٹنگ کر لوٹنے کے بعد رات میں دو ایک بجے تک جاگ کر میں نے تُکارام کا جیون اوران کے ادبی ذخیرے کا مطالعہ کیا۔ واشیکرجی کو پھر بلا کر ان کے ساتھ اس پر کافی بحث کی۔ آہستہ آہستہ سیدھی سادی لیکن پراثرکہانی معلوم ہونے لگی۔
اس کے بعد سب سے اہم سوال آ کھڑا ہوا کہ تُکارام اور ان کی پتنی جِجاؤ کے کام کے لیے لائق شخص کہاں سے ڈھونڈے جائیں۔
کبھی ناٹک کہانیوں میں زنانہ کردار کرنے والے وِشنو پنت پاگنیس اب بمبئی میں کسی کیرتن منڈلی کے ساتھ بھجن گایا کرتے تھے۔ کسی سے سُن رکھا تھا کہ وہ بھجن بہت ہی رسیلے ڈھنگ سے گاتے ہیں۔ میں نے وِشنوپنت کو پُونا بلا لیا۔
یہ آدمی بھجن گاتے سمے اتنا مگن ہو جاتا تھا کہ سننے والوں کے احساسات بھی بھکتی رس میں شرابور ہو جاتے تھے۔ مجھے لگا، تُکارام کا کام کرنے کے لیے وِشنو پنت پاگنیس ہی سب سے اہل شخص ہیں۔ داملےجی اور فتےلال کی رائے اس کے الٹ تھی۔ انھوں نے وِشنو پنت کے ناٹکوں میں کیے گئے زنانہ کردار دیکھے تھے اور ان کا خیال تھا کہ تُکارام کا مردانہ کرداران سے کرا لینا بہت مشکل کام ہو گا۔ چونکہ داملےجی اور فتےلال اس فلم کے ڈائریکٹر تھے، ان کی رائے کو مان کر ہم نے چند اور آدمیوں کو بھی پرکھا۔ لیکن ان میں سے ایک بھی میری نظر میں اہل ثابت نہیں ہوا۔ آخر میں وِشنو پنت پاگنیس کو ہی تُکارام کا کام دینے کی درخواست میں نے کی۔
تُکارام کی پتنی ٹھیٹھ دیہاتی تھی، اس لیے ہمارے آرٹسٹ ڈیپارٹمنٹ میں مستقل نوکری کرنے والی اَن پڑھ تانی بائی کو اس کردار کے لیے ہم نے چنا۔ اوپر سے بہت ہی منھ پھٹ اورجھگڑالو، لیکن اندرسے بےحد ممتا بھری رنگیلی دیہاتی عورت کے کردار کے لیے وہ عام شکل و صورت والی دیہاتی عورت مجھے پوری طرح اہل معلوم ہوئی۔
اس فلم کا میوزک ڈائرکٹ کرنے کی ذمےداری کیشوراؤ بھولے کو سونپی گئی۔ اس فلم میں ایک سین کے معقول بولوں والے کسی ابھنگ کی مجھے تلاش تھی: تُکارام ایک کھیت میں رکھوالے کا کام کر رہا ہے۔ فصل کی رکھوالی کرتے سمے وہ ایک ابھنگ گاتا ہے۔ لیکن تُکارام کے بارے لکھی کہانی میں ہمیں اس ارادے کو پیش کرنے والا ایک بھی ابھنگ نہیں ملا۔ لہذا ہار کر میں نے ‘امرت منتھن’ کے سمے ہماری کمپنی میں آئے شاعر شانتارام آٹھولے سے اس سین کے لیے معقول ابھنگ کی تخلیق کرنے کو کہا۔ ان کے لکھے ابھنگ کے بول تھے:
آدھی بیج ایکلے۔
بیج انکرلے روپ واڑھلے
ایکا بیجاپوٹی ترو کوٹی کوٹی۔
پری انتی برہم ایکلے۔۔۔
(معنی: آغاز میں بیج اکیلا ہی ہوتا ہے۔ اس کے پودے پھوٹتے ہیں، پودے بڑھتے ہیں، لمبے لمبے درخت کی شکل لیتے ہیں، لیکن بیج ہوتا تو ایک ہی ہے۔ اسی طرح مخلوقات عالم کو جاری و ساری کر مختلف روپ اختیار کرنے کے بعد بھی وہ پرماتما ایک ہی ہوتا ہے۔)
میں نے ابھنگ پڑھا اور فوراً کہہ دیا، “یہ گیت ایک دم مقبول ہو گا!”
وِشنو پنت پاگنیس نے اس کو آواز دی۔ ان کی طرف سے اس ابھنگ کو دی گئی دھن بڑی رسیلی تھی۔ میں نے سنتے ہی اسے قبول کر لیا۔ کیشوراؤ بھولے سے نہ بنوانے کے کارن وہ بہت زیادہ ناراض تو نہیں ہوئے، لیکن اس میں شبہ نہیں کہ بات انoیں بُری ضرور لگی۔
آگے چل کر ایسے ہی ایک سین پر آخری ابھنگ کی دھنیں کیشوراؤ بھولے اور وِشنوپنت پاگنیس دونوں نے الگ الگ دیں۔ داملے فتےلال طے نہیں کر پا رہے تھے کہ دونوں میں سے کس کی دھن زیادہ اچھی ہے۔ آخر انہوں نے فیصلہ مجھ پر چھوڑا۔ میں نے دونوں دھنیں دھیان سے سن لیں۔ بھولے کی بنائی گئی دھن ویسے تھی تو اچھی، لیکن پاگنیس جی کی بنائی گئی دھن یقیناً ہی زیادہ اچھی تھی، مدھر بھی تھی۔ پھر بھی اپنے میوزک ڈائرکٹرکا وقار بنائے رکھنے کے خیال سے میں نے اپنی رائے کے خلاف فیصلہ دیا، “کیشوراؤ کی دھن اچھی ہے۔”
‘تُکارام’ کی بنیادی تیاری پوری ہو گئی۔ داملےجی اور فتےلال جی ‘تُکارام’ کی مکمل ریہرسل کرانی شروع کی۔ اور اس بیچ کچھ دھیما پڑا اپنی ‘امر جیوتی’ فلم کا کام میں نے تیزی سے شروع کر دیا۔
‘امر جیوتی’ کی ہیروئن سودامنی عورت کی آزادی کے لیے اپنی کوششوں کے عروج پر ہے۔ نہ صرف عورت کو مرد کی غلامی سے آزاد کرنے، بلکہ مرد کو عورت کی غلامی میں باندھنے کا آدرش سامنے رکھ کر وہ اس کی تکمیل کے لیے ایڑی چوٹی کا پسینہ بہاتی رہتی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے سودامنی اپنے تمام زنانہ احساسات کو مار کر ایک طرح کی مصنوعی دنیا میں گھومتی رہتی ہے۔ یہ سین کچھ تو غیرفطری اور کچھ نفسیاتی تھے۔ ان کی شوٹنگ کرتے سمے میں نے کئی شاٹس ایک دم غیرمعمولی طریقہ کار سے لیے۔ خصوصا کیمرے کے متنوع کونوں اور اس کی رفتار کا استعمال میں نے نفسیاتی ڈھنگ سے کیا۔
فلم کے دوران کسی کردار کا کوئی مکالمہ سہج نہ ہوتا تو کیمرا گھڑی کے ‘پینڈولم’ جیسا ٹیڑھا ہو جاتا۔ نتیجتاً پردے پر وہ شخص اپنے پاگل پن کا عکاس بن کر ناظرین کو ترچھا دکھائی دیتا تھا۔ جیسے جیسے اس کے وِچار سلجھتے جاتے، پردے پر وہ شخص پھر سیدھا اور نارمل نظر آتا۔ آج اس طرح کے شاٹ لینے کے سسٹم کو ‘پینڈولم شاٹ’ یا ‘لنگر سین’ سسٹم کہا جاتا ہے۔ اس سسٹم کا کامیاب استعمال میں نے سن ١٩٣٦ء میں کیا تھا۔ اس زمانے کے جانکار ناظرین نے اس سسٹم میں موجود ارادے کو دل سے سراہا تھا۔
فلم کے آخری سین میں مایوس سودامنی ایک جہاز پر سوار ہو کر ساگر میں کہیں دور جاتی دکھائی دیتی ہے۔ وہ جہاز کی پتوار سے ٹک کر کھڑی ہے۔ آنکھوں میں زمانے بھر کی ناامیدی ہے۔ سامنے ساگر کی لہریں ہلکورے لے رہی ہیں، چٹان پر جا کر ٹوٹ رہی ہیں، بکھر رہی ہیں۔ انھیں دیکھ کر سودامنی کہتی ہے، “لہریں کتنی تیزی سے آ رہی ہیں۔۔۔۔ جا رہی ہیں۔۔۔ آ رہی ہیں۔۔۔ جا رہی ہیں۔۔ کیا یہی میری زندگی ہے؟”
اس کے پاس ہی ایک کونے میں بیٹھا اس کا فلسفی ساتھی شیکھر سودامنی سے کہتا ہے، “نہیں سودامنی، لہر آئی، پتھروں سے ٹکرائی، اترائی اور لوٹ گئی، یہ درست ہے۔ لیکن اس کے برابر آنے اور ٹکرانے سے پتھر ذراذرا گھستا ہوا ختم ہوئے بنا نہیں رہے گا۔”
“لیکن، یہ کام تو نہ جانے کتنے برسوں میں پورا ہو گا! پھر آدمی کو اپنے مقصد کی کامیابی پر کیسے اطمینان ہو گا؟ اس کی بےاطمینانی کیسے دور ہو گی؟”
“اس کی بےاطمینانی کا اطمینان اس کی لگاتار کوشش میں ہے۔ اجالے کو قائم رکھنے کے لیے دیے سے دیا جلایا جاتا ہے۔ اسی طرح تم نے اپنا کام نندنی کو سونپ دیا ہے۔ اسی میں تمہارے جیون کی کامیابی ہے۔۔”
دامنی کے چہرے پر اطمینان کا احساس چمکنے لگتا ہے۔ کیمرا دھیرے دھیرے دور جاتا ہے۔ دامنی کے جسم سے ایک ننھی سی روشنی نکلتی ہے۔ وہ دوسرے دیپک کو جلاتی ہے اوربجھ جاتی ہے۔ اسی طرح ایک روشنی سے دوسری روشن جلانے کی ایک لڑی ہی شروع ہو جاتی ہے، اس سین کے پس منظر میں ایک معمولی دھن میں گیت سنائی دیتا رہتا ہے:
کارج کی جیوتی سدا ہی جرے
اک جن جائے، دوجا آئے، پھر بھی جیوتی جرے
جیوتن کی اس لگاتارمیں
کرتا ہی وِہرے۔۔۔
(کاموں کی جیوتی سدا جلتی ہی ریتی ہے/ کاموں کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا ہے۔
ایک جاتا ہے دوسرا آجاتا ہے۔ دنیا کے کام دھندھے کبھی نہیں رکتے، کرنے والے بدلتے رہتے ہیں۔)
دیپک کی اس علامت کو دکھا کر ہی ‘امر جیوتی’ فلم شروع ہوتی ہے : پہلے ایک قدیم ڈھنگ کا دیپک کیمرے کی نظر میں آتا ہے، وہ دوسرے دیے کو روشن کرتا ہے۔ اس طرح ایک کے بعد ایک دیگر دیپ روشن ہوتے جاتے ہیں۔ ان کی روشنی سے ہی فلم کا نام ‘امر جیوتی’ پردے پر دکھائی دیتا ہے۔
‘امر جیوتی’ کی ایڈیٹنگ کا کام تیزی سے چل رہا تھا کہ ایک دن داملےجی اور فتےلال جی ایڈیٹنگ روم میں آئے۔ وہ کافی پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ انھوں نے کہا، “پاگنیس اور تانی بائی سے ہم کافی دنوں سے ریہرسل کرا رہے ہیں، لیکن ہمیں نہیں لگتا کہ ان دونوں سے اپنے اپنے کردار بن پائیں گے۔ اچھا ہو کہ آپ ایڈیٹنگ کا یہ کام کچھ دن کے لیے ملتوی رکھیں اور ریہرسل ڈپارٹمنٹ میں آ کر ایک بار دیکھ تو لیں۔ آپ چاہیں تو خود ریہرسل لے سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہی طے کریں کہ ان دونوں کو یہ اہم کردار دینے ہیں یا نہیں۔”
میں نے ‘امرجیوتی’ کی ایڈیٹنگ کا کام فوراً روک دیا اور پہلے ریہرسل ڈپارٹمنٹ میں گیا۔ وِشنوپنت اور تانی بائی دونوں سے ریہرسل کرانا میں نے شروع کیا۔ داملےجی اور فتےلال جی کی بات صحیح تھی۔ ان دونوں سے کام برابر بن ہی نہیں پا رہا تھا۔ میں نے دونوں کو اداکاری کر کے دکھائی۔ وہ دونوں میرے بتائے مطابق اداکاری کرنے کی کوشش کرنے لگے۔
ایک دن ریہرسل سے پہلے وِشنو پنت پاگنیس میرے کمرے میں آئے اور بڑی منتیں کرتے ہوئے کہنے لگے، “انّا، یہ کام مجھ سے کبھی نہیں ہو گا۔ آپ تکارام کے رول کے لیے کوئی اور آدمی کھوجیں۔”
پاگنیس ہار گئے تھے، لیکن میں نہیں ہارا تھا۔ ان کا حوصلہ بڑھانے اور پھر خوداعتمادی جگانے کے لیے میں نے جھوٹ کہہ دیا، “کل میں نے آپ کا کام دیکھا اور مجھے یقین ہو گیا کہ آپ اس کام کو ضرور ہی اچھی طرح کر لیں گے۔ آپ صرف ایک کام کریں، تُکارام کی چال ڈھال کی، چلنے پھرنے کی، اٹھنے بیٹھنے اور بولنے چالنے کی حرکت میں کر کے دکھاؤں، ہوبہو نقل کرنے کی کوشش کریں۔”
میرے کہنے کے کارن ان میں ضرور ہی کہیں اعتماد جاگا ہو گا۔ دوسرے ہی دن سے وہ من لگا کر کام کرنے لگے۔
پہلے دن تو ان سے کام کچھ ٹھیک سے بن نہیں پا رہا تھا۔ لیکن ان کا جوش بڑھانے کے لیے میں ہر روز کہتا، ’’آج آپ کا کام کل سے زیادہ اچھا بن پڑا ہے۔‘‘ انہیں اس طرح میں برابر ترغیب دیتا گیا۔
ایک ہفتہ بیت گیا۔ پھر ایک بار ناامید ہو کر پاگنیس نے کہا، “نہیں جی انّا، آپ جیسا کام مجھ سے نہیں بن سکتا!”
سچ کہا جائے تو میں بھی کچھ کچھ ناامید ہو چلا تھا۔ لیکن پاگنیس کی بہت ہی مدھر آواز، رسیلی گائیکی سٹائل اور اٹوٹ گائیکی میں جھلکنے والی شیرینی ان کے فریق کو مضبوط کیے ہوئے تھی۔ میں نے پھر کمر کسی اور انہیں حقیقت میں اپنے آپ کو دھیرج دلاتے ہوئے کہا، “آپ تو بیکار ہی نا امید ہوئے جا رہے ہیں۔ آپ کے کام میں ہر روز برابر ترقی دکھائی دے رہی ہے۔ چلیے آج میں آپ کو پھر اداکاری کر کے دکھاتا ہوں۔ باریکی سے دھیان دیجیے۔ اس پر غور کیجیے۔ رات میں ویسا ہی کر کے دیکھیے۔ میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں، کل آپ اس سین کو ایک دم مکمل ڈھنگ سے کرنے والے ہیں!”
دوسرا دن آیا۔ کل کر کے دکھائے گئے سین کی ریہرسل کرنے کا سمے آ گیا۔ پاگنیس اس سین میں ایک دم سو فیصد نہ سہی، لیکن اپنا کام کافی سدھے ڈھنگ سے کر رہے تھے۔ میں نے انہیں دلی شاباشی دی۔
شروع شروع میں تکارام کی پتنی کا کام کرتے سمے بوکھلا جانے والی تانی بائی کو بھی اداکاری سکھانے میں میں نے کافی محنت کی۔ مشق سے انھیں بھی اپنا کام اتنے سدھے ہوئے ڈھنگ سے کرنا آ گیا کہ ان کی جاندار ایکٹنگ سے کئی بار داملےجی اور فتےلال جی بھی دھنگ رہ گئے۔
تُکارام کی شوٹنگ شروع کرنے کے ایک دن پہلے پاگنیس میرے پاس آئے اور پوچھنے لگے، انّا، کل آپ شوٹنگ کے سمے موجود تو رہیں گے نا؟”میں نے کہا، “اجی وِشنوپنت، اب تو آپ کی اداکاری ایک دم سیدھی سی ہونے لگی ہے۔ پھر بھی آپ سے کس طرح کام کرا لینا چاہیے، داملےجی اور فتح لال جی کو اچھی طرح معلوم ہو گیا ہے۔ اب شوٹنگ کے سمے آپ کو قطعی دقت آنے والی نہیں۔‘‘
“وہ تو سب ٹھیک ہی ہے، لیکن کم سے کم میرے کام کے سین کے سمے تو آپ ضرور ہی موجود رہا کیجیے گا۔ میرا کام اتنا ہی اچھا بن پڑے گا۔” یہ سوچ کر کہ داملےجی اور فتےلال جی کو میرا موجود رہنا ممکنہ طور پر پسند نہیں آئے گا، میں نے اس ذمےداری کو ٹالنا چاہا، لیکن پاگنیس جی کی درخواست کے سامنے میری ایک نہ چلی۔
ایک بار تو پاگنیس نے مجھے اچھی خاصی مصیبت میں ڈال دیا۔ ایک اہم سین کی شوٹنگ جاری تھی۔ کام کرتے سمے پاگنیس اچھی طرح کھو گئے تھے۔ میں نے ان سے کہا، “واہ، وِشنوپنت، بہت ہی کمال کر دیا آپ نے!”
اس پر وہ سہج انداز سے کہہ گئے، “انّا، آخر اس ناچیز کی ہستی ہی کیا ہے، آپ کے بنا؟ آپ نے سکھایا ویسا ہی میں نے کر دکھایا۔ آپ میرے گرو ہیں!” یہ کہہ کر پاگنیس نے میری حالت اور بھی مشکل بنا دی۔ بھگوان جانے اسے سن کر داملےجی اور فتےلال جی نے کیا کیا نہیں سوچا ہو گا! میں سیٹ پر پھر لمحہ بھر بھی نہیں ٹھہرا۔
‘امر جیوتی’ فلم بمبئی میں ریلیز ہوئی۔ شروع میں دیپ کی روشنی سے بننے والی فلم کے کریڈٹ نام والے کارڈ دیکھ کر ناظرین اتنے جذباتی ہو جاتے تھے کہ ‘ڈائرکشن وی شانتا رام’ کا رڈ دکھائی دیتے ہی تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے سینما ہال گونج اٹھتا۔
اس فلم میں ماسٹر کرشن راؤ کا دیا گیا سنگیت بہت ہی مقبول ہو گیا۔ خاص کر شانتا آپٹے کے گائے گئے ‘سنو سنو اے ون کے پرانی’ (سنو اے بن کے باسی) گیت کے اسی ہزار فونوگراف ہاتھوں ہاتھ بک گئے۔ اس گیت نے گراموفون ریکارڈ کی بِکری کا ریکارڈ قائم کیا۔
چندرموہن کو کچھ برس قبل دیے گئے قول کے مطابق، اس فلم میں اس کی لنگڑے وِلن کے کردار کے کارن وہ پھر مقبولیت کی چوٹی پر پہنچ گیا۔ فلم ناقدین نے دُرگا کھوٹے کی بہت ہی سلجھی ہوئی ایکٹنگ کی بھی تعریف کی۔ ‘امرجیوتی’ دیکھنےکے بعد ناظرین اتنے جذباتی ہوجاتےتھےکہ میں تھیٹرمیں ہوتا تو مجھے ڈھونڈ لیتے اور مجھے دلی مبارکباد دیتے۔ ساتھ ہی سبھی پوچھتے، “آپ کی اگلی فلم کون سی ہے؟”
ان سبھی انتہائی پُرجوش شائقین کو میں ایک ہی جواب دیتا، “اجی، ابھی ابھی تو اس فلم کی ذمےداری کا بوجھا ڈھو کر آپ کے سامنے رکھا ہے۔ اب ذرا کھلی ہوا میں سانس تو لینے دیجیے۔ اس کے بعد اگلی فلم کے بارے میں اپنی خواہشات کا بوجھ آپ خوشی سے میرے سر پر ڈالیے گا!”
‘امر جیوتی’ کا ڈنکا سارے دیس میں بجنے لگا۔ ادھر پُونا میں تُکارام’ فلم کے ایک نہایت مدھر اور ممتابھرے فیملی سین کی شوٹنگ چالو تھی:
سورج ماتھے پر آ چکا ہے۔ تُکارام کی پتنی ان کے لیے دوپہر کا کھانا سر پر لیے پہاڑی چڑھ کر اس برگد کے پیڑ کے نیچے آ بیٹھتی ہے جہاں تُکارام بھگوان کا دھیان لگا کر بیٹھا ہوتا ہے۔ تُکارام کچھ حیرت کے انداز سے پوچھتا ہے:
“تمہیں کیسے پتا چلا کہ میں یہاں بیٹھا ہوں؟”
بھولی بھالی جِجاؤ شرما کر جواب دیتی ہے، “مردوں کو بھلا یہ باتیں کاہے کو سمجھ میں آویں؟ اس کے لیے تو انھیں بھی ہم جیسی عورت ہی بننا پڑے ہے!”
اس کے بعد وہ بڑے پیار سے تُکارام کو جوار کی روٹی کا سوکھا کھانا پروس کر کھانے کی درخواست کرتی ہے۔ اس کا پیار دیکھ کر تُکارام گدگدا جاتا ہے اور کہتا ہے، “اسے کہتے ہیں نا سچا پیار! یہی ہے سچی بھکتی! اس بھکتی کے زور پر جیسے تم نے مجھے کھوج کر پا لیا، اسی طرح میں بھی اپنے پانڈورنگ (وِشنو کا ایک اوتار) کو کھوج کر پا سکوں گا!”
جِجاؤ پانڈورنگ کا نام سن کر جھنجھلا اٹھتی ہے اور ایک روٹی پروستی ہے۔ تُکارام روٹی کا پہلا ٹکڑا توڑتا ہے اور جِجاؤ کو بھی اپنے ساتھ کھانے کی کافی درخواست کرتا ہے۔ وہ شرما کر ‘نا نا’ کہتی رہتی ہے۔ تُکارام روٹی کا نوالہ جِجاؤ کے منھ کے پاس لے جاتا ہے۔ جِجاؤ لجّا کے مارے گڑی جاتی ہے اور بہت ہی حیا کے انداز سے اس غیرآباد بَن میں آس پاس یہ دیکھ لیتی ہے کہ کہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا، اور بعد میں فوراً ہی تُکارام کے ہاتھ کا وہ نوالہ اپنے منھ میں ڈال لیتی ہے۔
تُکارام کے ہاتھ سے نوالہ کھاتے کھاتے وہ کسی انوکھے جذبے کی دنیا میں کھو جاتی ہے۔ اسی کیفیت میں اپنے سے ہی بڑبڑاتی ہے، “بہت میٹھا، بہت میٹھا لاگے ہے!”
اس کا وہ پیار دیکھ تکارام اپنے آپ کو خوش قسمت مانتا ہوا کہتا ہے، “واقعی یہ میرا اچھا نصیب ہے کہ تم نے مجھے ایسی پتنی دی، ہے پانڈورنگا!”
“پانڈیا نے دی؟ اجی وہ خوب دے گا! میرے باپو نے دی ہے تم کو۔ پانڈیا لاکھ کہے گا مجھے اپنی بیٹی۔ نام نہ لیجا اس موے کلموہے کا میرے سامنے۔۔ ” جِجاؤ ایک دم غصہ ہو کر بولنے لگتی ہے۔
تُکارام پوچھتا ہے، “جِجاؤ، کیا سچ مچ تم میرے وِٹّھل کی بھکتی نہیں کرتی ہو؟”
“دھت، وِٹھل ہوئے گا تمرا دیوتا۔ ہوئے گا تمرے واسطے بہت بڑا، پر میرا دیوتا تو تمرے وِٹھل سے بھی بڑا ہے گا۔”
“اچھا؟ نام کیا ہے تمھارے دیوتا کا؟”
“میرے دیوتا کا نام؟ (شرما کر غصے کی اداکاری کرتے ہوئے) اب روٹی کھاؤ بھی چپ چاپ۔ (تُکارام کو پیار سے دیکھتی ہے) میرا دیوتا اِہاں بیٹھو ہے گا میرے سامنے، روٹی کھا رہو ہے۔ تمرا دیوتا کھاتا ہے روٹی تمرے سنگ؟” تُکارام لاجواب ہو کر جِجاؤ کو دیکھتا رہتا ہے۔
’تکارام’ فلم کے بارے میں فتےلال جی کے گھرایک بار بحث چل رہی تھی اور میں اس سین میں پورا رنگ گیا تھا۔ اوپر لکھے لفظ بولتا جا رہا تھا اور واشیکر بیٹھے اسے لکھتے جا رہے تھے۔
شوٹنگ کے سمے اس جذباتی سین کا شاٹ داملے فتےلال سے ویسا نہیں بن پا رہا تھا جیسا کہ بننا چاہیے تھا۔ اس سین کے لیے ضروری مدھرتا اور سہج، سچے، اور نرمل پیار کی اداکاری وِشنو پنت اور گوری (تانی بائی کا فلمی نام) سے امید کے مطابق نہیں ہو پا رہی تھی۔ کافی کوشش کرنے کے باوجود یہ حال تھا۔ آخر داملے فتے لال کی خواہش کے مطابق میں نے اس شاٹ کی شوٹنگ کی۔ فلم کا یہی بنیادی نقطہ ثابت ہو گیا۔
‘تُکارام’ فلم کے ڈائرکٹر تھے تو داملے فتےلال، لیکن مجھ پر تو یہی دھن سوار ہو گئی تھی کہ یہ فلم میری اپنی ہے۔ اس لیے اس کے چھوٹے سے چھوٹے سین پر بھی میں باریکی سے دھیان دیتا تھا۔ اسی وچار سے ایک سے ایک نئے نئے خیالات سوجھتے تھے۔ ان سبھی خیالات کو میں کھلے طور پر داملےجی اور فتے لال کے سامنے پیش کرتا تھا۔ یہ سب میں گہرے تعلق کے جذبے سے ہی کر رہا تھا۔
اس فلم کا ایک سین:
چھترپتی شواجی مہاراج وِٹّھل مندر میں تُکارام کے گائے جا رہے ابھنگوں کو سننے میں مگن ہو گئے ہیں۔ تبھی شِواجی کو پکڑنے کے لیے مسلمان سپاہی مندر پر دھاوا بول دیتے ہیں۔ لیکن مندرمیں بیٹھا ہر شخص انھیں شِواجی معلوم ہوتا ہے۔ اس احساس کے کارن سپاہی تذبذب میں پڑ جاتے ہیں اور ‘توبہ توبہ’ کہتے ہوئے گھبرا کر لوٹ جاتے ہیں۔ نام سنکیرتن کے رنگ میں رنگے شِواجی کا تحفظ اپنے وِٹھو رائے نے ہی کیا ہے، ایسا مان کر تُکارام کی خوشی کا ٹھکانا نہیں رہتا۔ اسی لطف میں وہ گانے ناچنے لگتا ہے:
“وانو کتی رے سدیا، وٹھورایا، دن وتسلا۔۔۔” (بھجن)
تُکارام کی یہ میٹھی خوشی موجود سارے لوگوں پر چھا جاتی ہے۔ دیوالئے (مندر) اسی خوشی میں شرابور ہو جاتا ہے، باغ باغ ہو اٹھتا ہے۔ اسی آنند کی انتہا ہوتی ہے۔ سچدانند، یونی پرماتما، وہ پرماتما (پرماتما کے نام ) وہ سانولا سلونا وِٹھورایا بھی اس لطف میں مجسم ظاہر ہو کر تُکارام کی گائیکی کی لَے اور تال پر ڈولنے لگتا ہے، ناچنے لگتا ہے۔ اس سرخوشی کے منظر کا یہ شاٹ اس سین کا کلائمکس تھا۔ لیکن سب لوگوں کے ساتھ وِٹھوبا بھی خوشی سے چُور ہوکر ناچے، یہ خیال داملے فتےلال کو پسند نہیں تھا۔ لیکن میں نے اس سین کو اسی ڈھنگ سے فلمانے کی ضد کر لی۔ میں نے ایسا بھی کہہ دیا کہ ناظرین کو پسند نہ آیا تو اس شاٹ کو ہم لوگ بعد میں فلم سے نکال دیں گے۔ میں اپنی ضد پر اڑا رہا اور اپنے بیٹے پربھات کمار کو، جو وِٹھوبا کی مورتی کے جیسا ہی بونا، سانولا اور بڑی بڑی آنکھوں والا تھا، وِٹھوبا کا لباس پہنا کر اس سین کو فلما ہی لیا کہ وِٹھوبا کی پتھر مورتی زندہ ہو اٹھی ہے اور تُکارام کے گانے کے ساتھ ناچنے لگی ہے۔
تکارام کی شوٹنگ مکمل ہونے آئی تھی۔ اب ایک دم آخری سین کی شوٹنگ کی تیاریاں ہو رہی تھیں جس میں تُکارام بینکٹھ (آسمان) چلے جاتے ہیں۔ اس سمے کسی ضروری کام سے میں ممبئی گیا تھا۔ اچانک پُونا سے فون آیا۔ فون پرملی خبر سے میرا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ سٹوڈیو میں بنایا گیا جہاز، اسے اوپر کی طرف کھینچنے والے رسے ٹوٹ جانے کے کارن وِشنو پنت پاگنیس اور دوسرے کلاکاروں اور ٹیکنیشنوں کے ساتھ نیچے گر پڑا تھا۔ بمبئی کا کام ادھورا چھوڑ کر میں پہلی گاڑی سے پُونا لوٹ گیا۔ وِشنو پنت کو کوئی خاص چوٹ ووٹ نہیں آئی ہے، یہ بات مجھے اسٹیشن پر ہی معلوم ہو گئی۔ میں نے راحت کی سانس لی۔ جلدی جلدی میں سیدھا سٹوڈیو جا پہنچا۔
وِشنوپنت سٹوڈیو کے ایک کمرے میں آرام کر رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی اٹھے اور میرے گلے لگ کر جذباتی ہو کر بولے، “انّا، میں بال بال بچ گیا! آپ یہاں ہوتے تو جہاز ہرگز نہ گرتا! میں داملےجی اور فتے لال جی سے کہہ ہی رہا تھا کہ انّا کے بمبئی سے لوٹ آنے کے بعد ہم لوگ اس سین کو لیں لیکن انھوں نے میری بات مانی نہیں!”
وِشنو پنت بہت ہی گھبرائے ہوئے تھے۔ میں نے انھیں حوصلہ دیا، “دیکھیے، وِشنو پنت، آخر یہ تو ایک حادثہ ہے۔ کسی کے یہاں رہنے یا نہ رہنے سے وہ ہوا، ایسی بات نہیں ہے۔ آپ بالکل گھبرائیے نہیں۔ ڈبل رسا باندھنے کا انتظام کرتے ہیں۔ تب تو بنے گی نا بات؟”
کچھ دنوں بعد، سب کچھ منظم کر لیا گیا اور پھر اسی سین کو پوری احتیاط سے فلما لیا گیا۔ ‘تکارام’ کی ایڈیٹنگ پوری ہوئی۔ پرنٹ تیار ہو گئے۔ شہر کے ‘پربھات’ تھئیٹر میں ہم لوگوں نے رات کے بارہ بجے ‘تُکارام’ دیکھا۔ پہلے ٹرائل کے بعد میں نے کچھ منظروں کو تھوڑا آگے پیچھے کیا۔ کچھ منظروں کو کاٹا چھانٹا۔ اس سمے ہی بابوراؤ پینڈھارکر ‘تکارام’ دیکھنے کے لیے ہی پُونا آئے تھے۔ وہ فیملی کے ساتھ کچھ دن کے لیے لوناولا گئے۔ مجھے بھی انہوں نے کچھ دن آرام کے لیے لوناؤلا آنے کا دعوت نامہ دیا تھا۔
‘تُکارام’ کا سارا کام ختم ہونے کے بعد بابوراؤ پینڈھارکر کی اس دعوت کو قبول کر میں لوناؤلا گیا۔
یہ توقدرتی ہی تھا کہ حال ہی میں پوری کی گئی ‘تُکارام’ فلم کے بارے میں وہاں بات چیت چھڑ جاتی۔ ٹرائل ریلیز کے بعد ‘تُکارام’ کے بارے میں کیشوراؤ دھایبر نے بابوراؤ پینڈھارکر کے پاس جو وِچار ظاہر کیے تھے، بابوراؤ نے مجھے بتا دیے:
“جھانجھ منجیرا کوٹتے رہنے والے سنتوں کی فلموں کے دن کبھی کے لد چکے ہیں۔ ایسی حالت میں داملے جی، فتےلال جی کو شانتارام باپو نے ناحق سنت فلم بنانے کے جھمیلے میں ڈال دیا! لیکن یہ شانتارام جی نے جان بوجھ کر کیا ہے۔ اس وجہ سے کہ داملےجی فتےلال جی کو انہیں نیچے گرانا تھا! اس لیے کہ وہ دنیا کو دکھانا چاہتے تھے کہ داملے فتےلال جی کو کچھ بھی آتا واتا نہیں! وہ اپنی خدائی قائم کرنا چاہتے ہیں، اس لیے! ہمیشہ وہ ہی بادشاہ بنے رہیں، اس لیے! آپ دیکھتے جائیے، یہ فلم ایک دم بری طرح فیل ہونے جا رہی ہے!”
ویسے تو مجھے کچھ کچھ بھنک مل چکی تھی کہ ‘راجپوت رمنی’ کی ناکامی کے بعد میرے بارے میں یہ افواہ جان بوجھ کر پھیلائی جا رہی ہے۔ لیکن میرے پیچھے اس طرح کے الزام لگائے جانے سے میں جل بھن گیا۔ اپنے بارے میں اس طرح کے اوچھے وچار سن کر میرا تو خون کھولنے لگا۔ میں نے آپے سے باہر ہو کر کہا:
“بابوراؤ، تب تو آپ ضرور دیکھیں گے اورسبھی دیکھیں گے، فلم چلے گی، لوگ اسے پسند کریں گے، اس میں مجھے شبہ نہیں۔ مجھے پورا یقین بھی ہے! اور اگر یہ فلم نہ چلی توآپ یقین جانیے، میں ڈائرکشن کرنا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دوں گا!”
اس پر بابوراؤ پینڈھارکر بھونچکے سے میرا منھ تاکتے ہی رہ گئے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...