(Last Updated On: )
ناؤ آئی وانٹ ٹو انوائیٹ مس جدوہ اینڈ ارینہ ٹو کم آن سٹیج۔” اب ارینہ اور جدوہ کی باری تھی دونوں ہی پر اعتماد تھیں۔ دونوں نے ایک دوسرےکو آخر تک برابر کی ٹکر دی۔ جدوہ کا ٹوپک تھا ایک تیری چاہت ہے ایک میری چاہت ہے (حدیث) اور ارینہ اس کے برعکس اس بات کی ہامی تھی کہ اگر انسان چاہے تو سب کچھ خود کرسکتا ہے۔ کافی دیر مقابلہ کرنے بعد آخر میں جدوہ اپنا موقف ثابت کردیتی ہے اور یہ مقابلہ جیت جاتی ہے۔
سب جدوہ کو مبارکباد دے رہے ہوتے ہیں جب روحان وہاں آتا ہے ۔ جدوہ روحان کو دیکھ کر خوش ہوجاتی ہے لیکن ایک بار پھر روحان اسے اگنور کر کے ارینہ کو تسلی دینے چلا جاتا ہے۔ جدوہ کو اس سے بہت تکلیف ہوتی ہےاور وہ باہر حال میں اپنے اور روحان کے پیرنٹس کے پاس آجاتی ہے اور پھر اس سے ملے بغیر وہاں سے چلی جاتی ہے۔
*****♡♡♡♡♡******
اسلام وعلیکم خالہ! جدوہ کہاں ہے؟” روحان جدوہ کو ملے بغیر چلے جانے کی وجہ سے پریشان ہوجاتا ہے۔ اسلیئے شام کو ملنے اسکے گھر آتا ہے۔
“اپنے روم میں ہے جاؤ وہیں چلے جاؤ۔” اقراء بیگم جو کہ کچن میں کچھ کام کررہی ہوتی ہے اسے کمرے میں جانے کا کہتی ہے۔
“اوکے خالہ۔” وہ وہاں سے سیدھا جدوہ کے کمرے میں چلا جاتا ہے۔
“آگئ کسی کو میری یاد۔” وہ خفگی سے روحان کو اندر آتا دیکھ کہتی ہے۔
“لو ہم بھولے ہی کب تھے ۔” وہ اسکے پاس بیڈ پر آ کر بیٹھ جاتا ہے۔
“جی پتہ ہے مجھے۔” وہ غصّے سے منہ دوسری طرف کر لیتی ہے۔
“اچھا اب ناراضگی چھوڑ دو۔ آؤ کہیں باہر چلیں۔ وہ اس کو مناتے ہوئے باہر چلنے کا کہتا ہے۔
“اور کون کون ہوگا؟” وہ روحان سے پہلے والی ڈنر کی خفگی کا اظہار کرتی ہے۔
“صرف میں اور تم۔” وہ بڑے پیار سے اسے کہتا ہے۔
“پکا؟” وہ تفتیشی نظروں سے اس سے پوچھتی ہے۔
“ہاں۔”
“اچھا پھر ٹھیک ہے چلو۔” وہ اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ وہ اقراء بیگم کو بتا کر چلے جاتے ہیں۔
“جدوہ اب بات بھی کر لو کب تک ناراض رہوگئ۔ بہت ضدی ہوگئ ہو تم۔” وہ روحان سے منہ پھیرے ہوئے ہاتھ باندھے ہوئے ناراض بیٹھی ہوتی ہے۔
“ہاں اب تو میں ضدی ہی لگوں گئ ناں۔ اب کوئ اور اچھی لگنے لگی ہے ناں۔” وہ ناک سکوڑتے ہوئے اپنی ناراضگی برقرار رکھتی ہے۔
“کیا؟” وہ تعجب کے ساتھ چلاتا ہے۔
“تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے ناں۔ یہ فضول بات تمہیں کس نے کہہ دی؟ یار جدوہ تم نے یہ سوچ بھی کیسے لیا۔” وہ چئیر سے اٹھ کر جا کے اس کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتا ہے۔
” ہاں اب مانو گے بھی کیوں۔” وہ اپنے آنسو چھپاتی ہوئ اپنا منہ دوسری طرف کردیتی ہے۔
“یار پلیز جدوہ میری جان نہ نکالو جو بات ہے مجھے بتا دو۔” وہ اس کے چہرے پر ہاتھ رکھ کر پریشانی کے ساتھ اسے کہتا ہے۔
“وہ ارینہ کے ساتھ تم۔۔۔۔” وہ اسے روتے ہوئے بتاتی ہے۔
” کیا ارینہ کے ساتھ؟” وہ حیرانگی سے اسکی طرف دیکھتا ہے۔
“تم ارینہ کو پسند کرنے لگ گئے ہو۔ میری تو تمہاری لائف میں کوئ جگہ ہی نہیں رہی۔ تم مجھے بھول گئے ہو۔” وہ اسے اپنے دل کی بات بتاتی ہوئے کنٹرول نہیں کرپاتی اور اپنے دونوں ہاتھ منہ پر رکھ کر رونے لگ جاتی ہے۔
“جدوہ تم بھی نہ تم ایک بار تو مجھ سے کہتی ایسی کو ئ بات نہیں ہے۔ یہ بس تمہاری غلط فہمی ہے۔”وہ ٹینشن کے ساتھ اپنا ہاتھ سر پر رکھتے ہوئے اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔
” جدوہ میری آنکھوں میں دیکھو۔” وہ جدوہ کو بازو سے پکڑ کر اپنے ساتھ لگاتا ہے۔
” میں نے پہلے بھی تمہیں کہا تھا کہ تمہاری جگہ نہ تو کوئ لے سکتا ہے اور نہ کوئ لے پائے گا۔ تم بیوی ہو میری اور وہ ارینہ۔۔۔۔۔۔ یار میں نے بتایا تھا ناں کہ اس کے ڈیڈ کے کہنے پر۔۔۔۔ لیکن تم۔۔۔۔ تمہیں اپنے شوہر کی محبت پر ذرا بھی یقین نہیں تھا۔ تم ایک بار کہتی تو۔۔۔۔۔” وہ اس سے سب کہتے ہوئے خود پر کنٹرول نہیں کرپاتا اور اسے چھوڑ کر منہ دوسری طرف کر کے رودیتا ہے۔
“روحان! پلیز مجھے معاف کردو۔۔۔ پلیز روحان۔” وہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے منانے کی کوشش کرتی ہے۔
“پلیز جدوہ اس وقت مجھ سے بات نہ کرو۔” وہ اپنا کندھا پیچھے کرلیتا ہے۔
“پلیز روحان پلیز ایسا نہ کرو میں مر جاؤں گی تمہارے بنا۔ مجھے معاف کردو۔” وہ اسکا یہ غصہ دیکھ کر زمین پر بیٹھ جاتی ہے اور زار و قطار رونے لگ جاتی ہے۔
“خبردار جو آئندہ ایسا کہا۔ اللہ نہ کرے تمہیں کچھ ہو۔” وہ اسکا مرنے کا کہنے پر فوراً سے مڑ کر اسے پکڑ کر کھڑا کرتا ہے۔
“اللہ! چپ کرجاؤ یا ڈنر میں بس یہ آنسو ہی پینے ہیں مائے ڈئیر سوئیٹ ہارٹ۔۔” وہ اسکے آنسو صاف کر کے اسکی ٹھوری پر ہاتھ رکھتے ہوئے پیار کے ساتھ اسے کہتا ہے۔
“اچھا اب پیچھے ہو مجھے بھوک لگی ہے۔” وہ شرماتے ہوئے اپنے بازوؤں سے اسے پیچھے کرتے ہوئے کہتی ہے۔
“اور مجھے پیاس” روحان شرارتی انداز میں کہتا ہے۔
“روحان میں پھر رونے لگ جاؤں گئ۔” جدوہ منہ بناتے ہوئے کہتی ہے۔
“نہیں نہیں پلیز۔۔۔ یار چلو کھانا کھائیں۔” وہ ہنستے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔
“اچھا چلو اب بیٹھ بھی جاؤ۔” وہ کرسی پیچھے کرتے ہوئے جدوہ کو کہتا ہے جو کہ ہنستے ہوئے مسکرا کر اسی کو دیکھ رہی ہوتی ہے۔
“تھینک یو۔” وہ بیٹھتے ہوئے کہتی ہے۔
“جدوہ میں نے ایک فیصلہ کیا ہے۔” وہ دونوں کھانا کھا رہے ہوتے ہیں جب روحان جدوہ کو کہتا ہے۔
“کیسا فیصلہ؟” وہ تعجب کے ساتھ اسے دیکھتی ہے۔
“یہی کہ میں اپنے اور تمہارے رشتے کے بارے میں کل یونی میں سب کو بتا دوں گا تاکہ آئیندہ ایسا کوئ مسئلہ نہ ہو۔” وہ اسکی بات سن چمچ وہی منہ کے پاس روک دیتی ہے۔
“پر روحان۔۔۔۔۔”
“کچھ بھی نہیں، بس میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔” وہ اسکا ہاتھ مان کے ساتھ دباتے ہوئے اسے سمجھاتا ہے۔
“ٹھیک ہے۔ جیسے تمہیں ٹھیک لگے۔” وہ مسکرا کر ہامی بھر لیتی ہے۔
“اچھا صبح وہ ریڈ فراک پہن کر آنا پلیز۔” وہ اسکوصبح کیلیئے اپنی دی ہوئ ریڈ فراک پہن کر آنے کو کہتا ہے۔
“کیوں؟” وہ حیرت سے اسے دیکھتی ہے۔
“کیونکہ میں چاہتا ہوں جب سب کو میری بیوی کا پتہ چلے تو وہ سب میں سب سے الگ لگ رہی ہو۔” وہ پیار سے اسے دیکھتے ہوئے کہتا ہے۔
“اوئے ڈائنوسار۔۔۔!” وہ ٹیبل کے نیچے سے اسے ٹانگ مار کر اسے چھیڑتی ہے۔
“بل بتوڑی۔۔۔!” وہ مصنوعی غصے کے ساتھ اسے دیکھتا ہے۔
“ہاہاہا۔۔۔” وہ کھلکھلا کر ہنستی ہے۔
“آلویز بی ہیپی۔۔” وہ اسے ایسے مسکراتا دیکھ پیار سے کہتا ہے۔
“اچھا چلو اب گھر چلیں صبح یونی بھی جانا ہے۔ بارہ بج چکے ہیں۔” وہ اپنے ہاتھ میں پہنی گھڑی کی طرف دیکھتی ہوئ روحان کو چلنے کا کہتی ہے۔
“اچھا چلو۔”
******♡♡♡♡♡******
اسلام و علیکم خالہ جان۔” اقراء بیگم لاؤنج میں بیٹھی ہوئ جدوہ کاانتظار کررہی ہوتی ہیں۔
“وعلیکم اسلام۔۔۔ آؤ بیٹا۔” وہ اٹھ کر جدوہ کو گلے لگاتی ہیں۔
“خوش رہو۔” وہ اسے خوش دیکھ اسے سر پر پیار دیتی ہیں۔
“اور میں خالہ جان۔۔۔۔ سارا پیار اپنی بیٹی کو ہی کریں گی اب۔ بیٹے سے کوئ پیار نہیں رہا کیا۔” وہ مصنوعی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے۔
“ارے بیٹا تم تو میرے شہزادے ہو۔” وہ اسکے سر پر پیار دیتی ہوئ کہتی ہیں۔
“اچھا خالہ میں چلتا ہوں اب کافی رات ہوچکی ہے۔”
“نہیں بیٹا آج تم ایسا کرو کہ یہیں رک جاؤ۔ شہر کے حالات بہت خراب ہیں۔صبح یونی بھی یہیں سے چلے جانا۔” وہ اسے جانے سے منع کرتی ہیں۔
“لیکن خالہ میرے کپڑے۔۔۔۔۔”
“تم فکر نہ کرو وہ حسینہ نے بھیج دیئے ہیں۔”
“وہ کیوں؟” وہ حیرت سے پوچھتا ہے۔
“کیونکہ ہمیں اندازہ تھا کہ آج تم لوگ لیٹ آؤ گے اور کچھ نہیں۔”
“چلیں ٹھیک ہے خالہ جان پھر کافی بنا دیں۔ بہت تھک گیا ہوں۔” وہ صوفے پر بیٹھ ہاتھ سے سر دباتے ہوئے کہتا ہے۔
“ٹھیک ہے بیٹا۔”
“امی آپ رہنے دیں میں بنا دیتی ہوں۔ بہت ٹائم ہوگیا ہے آپ جا کر ریسٹ کریں۔” وہ اقراء بیگم کو کمرے میں بھیج کافی بنانے چلی جاتی ہے۔
“یہ لو کافی۔” وہ اسکے قریب آ کر بیٹھتے ہوئے ایک کافی کا مگ اسے پکڑاتی ہے اور ایک اپنے ہاتھوں میں لیے سپ لیتی ہے۔
“تھینکس۔” وہ مسکرا کر اسکا شکریہ ادا کرتا
“روحان!” وہ اسکے کندھے پر سر رکھتے ہوئے کہتی ہے۔
“ہاں۔” وہ کندھے پر سر رکھے جدوہ کی طرف دیکھتا ہے۔
“تم مجھ سے کتنا پیار کرتے ہو؟” وہ کافی کا سپ لیتے ہوئے پوچھتی ہے۔
” کیوں کوئ شک؟”
“اتنا کہ جتنا یہاں نہیں کیا جا سکتا۔ میں تمہاری خاطر دنیا چھوڑے کو تیار ہوں۔” وہ اسکے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہتا ہے۔
“سچ میں؟” وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھتی ہے۔
“تمہاری قسم۔” وہ اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہتا ہے۔
“اچھا چلو اب جا کے سوجاؤ میں بھی سونے جارہی ہوں۔” وہ کافی کے مگ کچن میں رکھتے ہوئے کہتی ہے۔
“اوکے گڈ نائٹ۔” وہ گیسٹ روم میں چلا جاتا ہے۔
******♡♡♡♡♡******
“ہیلو گائز! کیسے ہو سب؟” ارینہ اور علیشا کلاس کی کچھ گلز کے ساتھ موبائل پر پکس دیکھ رہی ہوتی ہیں جب روحان اور جدوہ وہاں آتے ہیں۔ دونوں نے ریڈ کلر پہنا ہوتا ہے۔ اتفاقاً ہی حسینہ بیگم نے جدوہ کیلیئے ریڈ اور بلیک لائینگ والی شرٹ بھیجی ہوتی ہے۔
“ہائے! واؤ آج تو سیم سیم کلر۔” سماویہ ارینہ کی فرینڈ ان دونوں کو دیکھ نوٹس کرتی ہے
“ہاں میں تم لوگوں کو ایک راز بتانا چاہتا تھا تو سوچا کچھ اسپیشل کیا جائے۔” روحان اسکی بات کا جواب دیتے ہوئے کہتا ہے۔
“کیا؟” ارینہ ایکساٹمنٹ کے ساتھ اس سے پوچھتی ہے۔
“یہی کہ میرا اور جدوہ کا نکاح ہوچکا ہے۔” روحان جدوہ کے کندھے پر بازو رکھتے ہوئے کہتا ہے۔
ارینہ روحان کہ یہ بات سن کر سکتے میں آجاتی ہے۔ وہ کچھ نہیں کہہ پاتی۔
“کیا ہوا ارینہ؟” روحان ارینہ کو دیکھ اسے کہتا ہے۔
“کچھ نہیں۔۔۔ بس ایک ضروری کام یاد آگیا ہے۔ میں آتی ہوں۔” وہ وہاں سے چلی جاتی ہے۔
“اچھا چلو اب کینٹین۔ چھپے رستم۔ اب پینلٹی بھی بھرو۔” علیشا ان سب کو لیے کینٹین کی طرف چلی جاتی ہے۔
******♡♡♡♡♡******