(Last Updated On: )
دن کا پھول ابھی جاگا تھا
دھوپ کا ہاتھ بڑھا آتا تھا
سرخ چناروں کے جنگل میں
پتھر کا اک شہر بسا تھا
پیلے پتھریلے ہاتھوں میں
نیلی جھیل کا آئینہ تھا
ٹھنڈی دھوپ کی چھتری تانے
پیڑ کے پیچھے پیڑ کھڑا تھا
دھوپ کے لال ہرے ہونٹوں نے
تیرے بالوں کو چوما تھا
تیرے عکس کی حیرانی سے
بہتا چشمہ ٹھہر گیا تھا
تیری خموشی کی شہ پا کر
میں کتنی باتیں کرتا تھا
تیری ہلال سی اُنگلی پکڑے
میں کوسوں پیدل چلتا تھا
آنکھوں میں تری شکل چھپائے
میں سب سے چھپتا پھرتا تھا
بھولی نہیں اُس رات کی دہشت
چرخ پہ جب تارا ٹوٹا تھا
رات گئے سونے سے پہلے
تو نے مجھ سے کچھ پوچھا تھا
یوں گزری وہ رات بھی جیسے
سپنے میں سپنا دیکھا تھا
٭٭٭