کائنات میں پائی جانے والی سب سے غیرمعمولی شے آپ کے سر کے اندر ہے۔ کائنات کا چپہ چپہ چھانا جائے تو بھی غالباً کوئی بھی شے اس قدر پیچیدہ، شاندار اور زیادہ فنکشن کرنے والی نہ ملے جتنا آپ کے کانوں کے درمیان پایا جانے والا تین پاونڈ کا یہ عضو ہے۔
اس قدر حیران کن شے ہونے کے باوجود انسانی دماغ دیکھنے میں کچھ بھی غیرمعمولی نہیں لگتا۔ یہ 75 سے 80 فیصد کے درمیان پانی ہے۔ باقی زیادہ تر پروٹین اور فیٹ ہیں۔ حیرت انگیز یہ ہے کہ یہ تین عام سے مادے ایسے مل جاتے ہیں کہ ہماری سوچ، یادداشت، تصور، تصویر، جمالیاتی ذوق اور دیگر چیزیں پیدا کرتے ہیں۔ اگر دماغ کو سر سے نکال لیا جائے تو آپ کو ھیرت ہو گی کہ یہ کتنا نرم ہے۔ یہ نرم مکھن کی طرح ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
اور دماغ کے ساتھ بڑا تناقض یہ ہے کہ ہمارے لئے دنیا کا تجربہ تخلیق کرنے والے اس عضو نے کبھی خود دنیا نہیں دیکھی۔ یہ خاموشی اور تاریکی میں رہتا ہے۔ جیسا کسی اندھیری کوٹھڑی میں بند قیدی۔ اس کے پاس خود تکلیف محسوس کرنے کا طریقہ نہیں۔ اس کے کوئی جذبات نہیں۔ نہ یہ گرم دھوپ اور نہ ہی نرم ہوا کو محسوس کر سکتا ہے۔ دماغ کے لئے دنیا برقی نبضوں کا کھیل ہے۔ اور اس سادہ اور برہنہ انفارمیشن میں سے یہ آپ کے لئے تین ڈائمنشن والی متحرک اور حسیات طور پر مصروف دنیا کی تخلیق کرتا ہے۔
خاموشی سے بیٹھا ہوا، کچھ نہ کرنے والا دماغ تیس سیکنڈ میں اتنی انفارمیشن پراسس کرتا ہے جو ہبل سپیس ٹیلی سکوپ نے تیس سال میں کی تھی۔ نیچر نیورسائنس کے ایک آرٹیکل کے مطابق، اس کا ایک کیوبک ملی میٹر (ریت کے ذرے کے برابر) حصہ دو ہزار ٹیرا بائیٹ انفارمیشن رکھنے کے قابل ہے اور مکمل انسانی دماغ اتنی انفارمیشن رکھنے کے، جو تمام دنیا کا ڈیجیٹل مواد ہے۔
اور اگر بالفرض کائنات میں پائی جانے والی سب سے غیرمعمولی شے یہ نہیں تو پھر واقعی میں ہم بہت ہی پرسرار عجوبے رکھنے والی کائنات میں رہتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دماغ کا وزن ہمارے جسم کا دو فیصد ہے جبکہ یہ بیس فیصد توانائی خرچ کرتا ہے۔ نوزائیدہ بچوں میں یہ 65 فیصد ہے۔ اور بچوں کی ہر وقت سوئے رہنے کی ایک وجہ یہ ہے۔ بڑھتا دماغ انہیں تھکا دیتا ہے۔
دماغ توانائی کے حساب سے مہنگا ہے لیکن اس کو استعمال کرنے میں انتہائی چابکدست ہے۔ اسے روزانہ کی چار سو کیلوریز درکار ہیں۔ یہ ایک پیسٹری کھانے سے مل جائیں گی۔ ذرا کوشش کریں کہ ایک پیسٹری کی توانائی سے لیپ ٹاپ کو چوبیس گھنٹے چلائے جانے میں کتنی کامیابی ہو سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جسم کے دوسرے اعضا کے برعکس دماغ اپنی کیلوریز یکساں ریٹ پر خرچ کرتا ہے، خواہ آپ کچھ بھی کر رہے ہوں۔ گہرے دماغی کام سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اپنی تمام تر طاقت کے ساتھ، آپ کے دماغ میں کچھ بھی ایسا نہیں جو انسانوں سے خاص ہے۔ بالکل وہی حصے ہیں ۔۔۔۔ نیورون، ایگزون، گینگلیا وغیرہ ۔۔۔۔ جو کسی چوہے یا بکرے کے دماغ میں۔ وہیل اور ہاتھی کا دماغ ہم سے بہت بڑا ہے۔ ان کے جسم بھی بڑے ہیں لیکن اگر ایک چوہے کو ہمارے سائز کا کر دیا جائے تو اس کا دماغ ہمارے جتنا ہی ہو گا۔ اور کئی پرندوں میں یہ تناسب اس سے بھی بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیورون دوسرے خلیات سے مختلف ہیں۔ یہ لمبے اور سخت تار کی طرح ہیں۔ ان کا کام برقی سگنل کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانا ہے۔ اپنے سرے پر یہ شاخوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں، جنہیں ڈینڈرائٹ کہا جاتا ہے۔ یہ چار لاکھ تک ہو سکتی ہیں۔ ہر نیورون ہزاروں دوسرے نیورون کے ساتھ رابطہ رکھتا ہے اور یہ کھرب ہا کھرب کنکشن ہیں۔ ڈیوڈ ایگلمین کے مطابق، دماغ کے ٹشو کے ایک مکعب سینٹی میٹر میں اتنے کنکشن ہیں جتنے ہماری کہکشاں کے ستارے۔ اور اس الجھاوٗ میں ہماری ذہانت پنہاں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور دماغ کے بارے میں سب سے غیرمعمولی اور تجسس والی چیز یہ ہے کہ یہ کتنا غیرضروری ہے۔ اس زمین پر رہنے کے لئے، آپ کو شاعری کرنے، فلسفہ کرنے یا یہ والا آرٹیکل پڑھنے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں۔ تو پھر اتنی توانائی اور رِسک ذہنی صلاحیت پر کیوں جس کی ضرورت نہ تھی؟۔ یہ سوال دماغ کے بارے میں ان کئی سوالات میں سے ہے جو آپ کا دماغ آپ کو نہیں بتا پائے گا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...