“السلام علیکم خالہ! کیسی ہیں آپ؟” ان کی شادی کو ایک ہفتہ گزر چکا تھا اور اس ایک ہفتے کے دوران احد کی خالہ دو تین بار ان کے گھر ان سے ملنے آ چکی تھیں۔ آج بھی وہ شام کے وقت فاطمہ کا حال چال دریافت کرنے آئی تھیں۔ احد کی ایک ہی خالہ تھیں جو ان سے بے حد قریب تھیں اور ان دونوں کی شادی کروانے میں انہوں نے ہی ایک اہم کردار نبھایا تھا۔ آج بھی لان میں بیٹھ کر چائے کا کپ تھامے باتیں کرتے کرتے وہ ایک بار پھر آبدیدہ ہو گئیں۔ ان کی باتوں نے فاطمہ کو بھی ایک دم اداس کر دیا۔ ذہنی رو ایک بار پھر ماضی میں کہیں بھٹکنے لگی۔
آج سے تقریباً ایک سال پہلے اس وقت وہ اپنی امی کے گھر بیٹھی آرام کررہی تھی جب اچانک موبائل کی گھنٹی بجی۔ موبائل پر دی جانے والی ایکسیڈنٹ کی خبر قیامت بن کر اس کی سماعتوں پر ٹوٹی تھی۔ ایسا لگا کہ ایک پل میں جیسے دنیا ہی اندھیر ہوگئی ہو۔ وہ آناً فاناً ہسپتال پہنچی مگر تب تک سب ختم ہو چکا تھا۔ سارے رشتے ، پوری کائنات راکھ کا ڈھیر بن چکی تھی۔ اور اس کے بعد اسے کسی چیز کا ہوش نہ رہا تھا۔ کب دن ہوتا تھا کب رات آتی تھی اسے کسی چیز کا پتا نہ تھا۔ دوسری طرف احد کا بھی یہی حال تھا۔ وہ کئی کئی دن گھر نہ آتا۔ کبھی کسی دوست تو کبھی یوں ہی سڑکوں پر گاڑی گھماتے گھماتے رات گزار دیتا۔ گھر سے اسے وحشت سی ہونے لگی تھی۔ گھر جاتا تو ہر جگہ سب کی کھلکھلاتی آوازیں گونجتیں۔ کبھی ہانیہ مسکراتے ہوئے سامںے کھڑی ہوجاتی تو کبھی اماں اس پر دم کررہی ہوتیں۔ کبھی عمر اس کے سامنے کھڑا اس سے کوئی سفارش کروا رہا ہوتا تو کبھی اس کی بہن اپںے سسرال کی شکایتیں لے کر اس کے سامنے بیٹھ جاتی۔ اور اب ایک دم سے ہی زندگی ویران ہوگئی تھی۔ وہ اکثر سوچتا کہ وہ بھی ان لوگوں کے ساتھ ہی مر کیوں نہ گیا۔ کیوں وہ اس عذابِ مسلسل کے لئے زندہ رکھا گیا تھا۔ مگر یہی زندگی تھی۔ جسے اللہ زندہ رکھنا چاہتا ہے وہ زندہ رہتا ہی ہے، اسے جینا ہوتا ہی ہے چاہے وہ چاہے یا نہ چاہے اور جبراً ہی سہی مگر وہ دونوں بھی زندگی کی طرف لوٹنے لگے تھے۔ فاطمہ کی بھی عدت ختم ہوگئی تھی اور اس نے جاب کرنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ وہ تھوڑی مصروف ہوجائے۔ احد نے بھی اپنے آپ کو بزنس میں اس طرح کھپا لیا تھا کہ اسے سر کھجانے کی فرصت نہ تھی جب اچانک احد کی خالہ نے ان دونوں کی شادی کر دینے کا شوشہ چھوڑ کر ان کی زندگیوں میں ایک نیا بھونچال کھڑا کر دیا۔ خالہ نے ڈائریکٹ فاطمہ کے والدین سے بات کر کے انہیں بھی راضی کر لیا۔
اور پھر ان کے سر پر ایک اور مصیبت پڑ گئی تھی۔ بلآخر خالہ اور فاطمہ کے والدین کے بے حد اصرار نے دونوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا اور پچیس دسمبر کی رات وہ دونوں اپنے دلی جذبات کا قتل کر کے اس زبردستی کے بندھن میں بندھ گئے۔
_______________
ان کی شادی کو دس دن گزر چکے تھے اور ان دس دنوں میں ان دونوں نے مشکل سے چند ایک بار ہی بات کی ہوگی۔ فاطمہ کو سمجھ ہی نہیں آتا وہ احد سے کیا بات کرے جبکہ دوسری طرف احد بھی اس سے کوئی بات کرنے میں جھجھکتا تھا۔ چھوٹی بھابھی سے ایک دم بیوی کے روپ میں اسے دیکھنا کافی کٹھن مرحلہ تھا۔ آج اتوار کا دن تھا۔ احد لائونج میں رکھے صوفے پر بیٹھا لیپ ٹاپ پر کوئی فلم دیکھ رہا تھا جبکہ فاطمہ مسلسل کچن میں بلاوجہ ہی گھسی ہوئی تھی تاکہ احد سے کم سے کم سامںا ہو۔ اسے اس سے عجیب سی شرم محسوس ہوتی تھی۔
احد بار بار فاطمہ کا بے وجہ کچن میں آنا جانا اور خود کو مصروف ظاهر کرنا نوٹ کر رہا تھا۔ بلآخر اس نے خود ہی فاطمہ کو اپنے پاس بلانے کا فیصلہ کیا۔
“فاطمہ!” وہ جو کچن میں یوں ہی پانی پینے کی غرض سے آئی تھی ایک دم چونک گئی۔ کائونٹر پر رکھا اپنا دوپٹہ اٹھاتی وہ جلدی سے باہر آئی۔
“جی؟”
“یہاں آئو۔” اس نے کچھ سوچتے ہوئے اسے اپنے پاس بلایا۔ وہ ایک دم نظر اٹھا کر اسے دیکھنے لگی۔ دھڑکتے دل کے ساتھ وہ کچھ جھجھکتے ہوئے اس کے برابر آ بیٹھی۔ اس نے لیپ ٹاپ بند کر دیا اور اس کی طرف رخ موڑ کر پوری طرح اس کی طرف متوجہ ہوگیا۔ (انہیں کیا ہوگیا ہے ایک دم سے۔ اس طرح بیٹھے ہیں جیسے میں کسی گول میز کانفرنس کی سربراہ ہوں اور ابھی کوئی اہم فیصلہ سنانے والی ہوں۔) وہ بے اختیار ہی اضطراری انداز میں انگلیاں چٹخانے لگی۔ احد نے بغور اس کی یہ حرکت نوٹس کی اور گہرا سانس لیا۔ وہ جانتا تھا فاطمہ اس سے کچھ جھجھکی ہوئی اور ڈری ڈری سی رہتی ہے اسی لئے اس نے آج اس کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جو بھی تھا اب وہ اس کی بیوی تھی اور اس رشتے کو نبھانے کے لئے اسے ہی خود کچھ کوشش کرنا تھی۔
“آج رات کے کھانے میں کیا پکایا ہے؟”
“میں سوچ رہی تھی کڑاہی بنا لوں۔” اس نے ہلکا سا کھنکھارتے ہوئے جواب دیا۔ وہ کبھی اس سے ایسے سوال نہیں کرتا تھا۔ آج کررہا تھا تو اسے حیرت ہورہی تھی۔
“اممم۔۔ مت پکانا۔ آج ہم کہیں باہر کھانے پرچلتے ہیں۔ بتائو کہاں جانا ہے؟” احد کے ساتھ یوں اکیلے باہر جانے کا سوچ کر ہی اسے عجیب سا لگ رہا تھا۔ مگر پھر بھی اس نے ا سکا دل رکھنے کی خاطر ‘جہاں آپ کہیں’ کہہ کر ہامی بھر لی۔
“ٹھیک ہے پھر تم ریڈی ہوجائو۔ ہم تھوڑی دیر میں نکلتے ہیں۔” وہ اسے ریڈی ہونے کا کہتا ایک بار پھر لیپ ٹاپ آن کرنے لگا تھا جبکہ وہ کچھ مضطرب سی وہاں سے اٹھ گئی۔
_______________
الماری کھولے کھڑی وہ اپنے کپڑے دیکھتی عجیب شش و پنج میں مبتلا ہوگئی تھی۔ اسے سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا وہ کیا پہنے۔ اسے یاد آیا ایک عرصہ سے اس نے خود کو آئینہ میں جیسے دیکھنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ جو کپڑے ہاتھ لگتے وہ پہن کر نکل جاتی۔ عمر کے انتقال کے بعد یہ ساری چیزیں جیسے اس کے لئے بے معنی سی ہوگئی تھیں مگر آج وہ احد کے ساتھ کم از کم اس سر جھاڑ منہ پھاڑ والے حلیے میں نہیں جا سکتی تھی۔ اپنے کپڑوں کو دیکھتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ اس نے ایک عرصے سے کوئی نیا جوڑا بھی نہیں بنوایا تھا اور جو پرانے کپڑے تھے انہیں وہ پہن پہن کر گھس چکی تھی۔ بہرحال ایک گہرا سانس لیتے ہوئے اس نے ایک گہرے نیلے رنگ کا شیفون کا سوٹ نکالا۔ لمبی قمیص کے ساتھ نیلے رنگ کا ہی ٹراؤزر اس پر خوب جچتا تھا۔ اسے یاد تھا یہ سوٹ اسے عمر نے اس کی سالگرہ پر تحفے میں دیا تھا۔ یاسیت سے مسکراتی وہ کپڑے تبدیل کرنے چلی گئی۔ جلدی جلدی ہلکا پھلکا میک اپ کیا اور چہرے کے گرد نیلے رنگ کا ہی دوپٹہ اچھے سے لپیٹ لیا یوں کہ اس کے سارے بال ڈھک گئے۔ وہ شروع سے حجاب نہیں پہنتی تھی۔ یہ کام اس نے شادی کے بعد شروع کیا تھا کیونکہ عمر کو اس کے لمبے کالے بال بے حد پسند تھے۔ وہ۔کہتا تھا کہ ان کالی گھٹاؤں جیسی زلفوں کا حسن صرف میرے لئے ہونا چاہئے لہٰذا انہیں ڈھک کر رکھو تو زیادہ بہتر ہے اور اسی لئے اس نے حجاب شروع کیا تھا۔ آج بھی وہ عمر کی یہ باتیں یاد کرکے ایک دم سے پثمردہ نظر آنے لگی تھی۔ وہ جو کرتی ، جو پہنتی ، جہاں جاتی ہر جگہ عمر کی یادیں بکھری پڑی تھیں اور ہر یاد اس کے زخموں کو ایک بار پھر ہرا کر دیتی۔
______________
جب تک وہ تیار ہو کر باہر آئی احد گاڑی نکال چکا تھا اور اب ایک ہاتھ سے سگریٹ کے کش لیتا دوسرا ہاتھ پینٹ کی جیبوں میں ڈالے غالباً اس کا انتظار کررہا تھا۔ اس نے دیکھا آج وہ بھی شادی کے بعد پہلی بار اس طرح فارملی تیار ہوا تھا۔ سیاہ رنگ کی شرٹ اور خاکی پینٹ پہنے وہ واقعی بے حد وجییہ لگ رہا تھا۔ نجانے کیوں مگر بے اختیار ہی وہ اسے دیکھے گئی۔ اس کی نگاہوں کا ارتکاز محسوس کر کے احد بھی اس کی طرف متوجہ ہوا اور دم بخود رہ گیا۔ ایک پل کو اسے گمان ہوا اس کے سامنے فاطمہ نہیں ہانیہ کھڑی ہے۔ اسی کی طرح حجاب لئے اپنے دوپٹے سے الجھتی ہانیہ ایک دم نظروں کے سامنے گھوم گئی۔ ہانیہ شروع سے ہی حجاب لیتی تھی اور اسی نے فاطمہ کو اس طرح حجاب باندھنا سکھایا تھا۔ اس نے سختی سے لب بھینچ لئے۔ وہ چاہ کر بھی یہ باب اپنی زندگی سے نہیں مٹا سکتا تھا۔ اسے “آئو بیٹھو” کہتا وہ خود بھی فرنٹ سیٹ پر آ بیٹھا۔
ہلکا سا میوزک آن کرتا وہ گاڑی ریسٹورانٹ کی طرف دوڑانے لگا۔ فاطمہ کو بے حد افسوس ہوا۔ اس نے تو ایک تعریفی نگاہ بھی اس کی طرف نہ ڈالی تھی۔ اگر عمر ہوتا تو اسے دیکھ کر تعریفوں کے پل باندھ دیتا مگر وہ تو عمر تھا ناں اور عمر جیسا اس دنیا میں کوئی ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
ریسٹورانٹ کے اندر داخل ہوتے ہی انواع و اقسام کے پکوان کی خوشبو ان کے نتھنوں سے ٹکرائی۔ وہ اسے ایسے ریسٹورانٹ لایا تھا جہاں اکثر کپلز ہی آتے تھے اور کینڈل لائٹ ڈنر کا مزہ لیتے تھے۔ ہلکی زرد روشنی نے پورے ریسٹورانٹ کو بڑا ہی خواب دیدہ بنا دیا تھا۔ وہاں بہت سی سیاہ رنگ کی میز کرسیاں رکھی تھیں اور ہر میز پر تازہ گلاب کا ایک گلدان اور موم بتی روشن تھی۔ گلابوں کی خوشبو بڑی ہی مسرور کن محسوس ہوتی تھی۔ وہ دونوں بھی ایک میز پر بیٹھ گئے۔ اسے امید نہ تھی کہ احد اسے اس طرح کینڈل لائٹ ڈنر کروانے لانے والا ہے۔ وہ کچھ مزید آکورڈ سی ہونے لگی۔ ویٹر آرڈر لینے آیا تو احد نے اپنے لئے اسٹیک اور فاطمہ کی پسند کے مطابق لزانیہ آرڈر کیا۔ ویٹر گیا تو وہ خاموشی سے ارد گرد کا جائزہ لینے لگی۔ اسے بار بار احد کی نگاہ خود پر پڑتی محسوس ہوتی جس سے وہ جز بز ہورہی تھی جبکہ احد بار بار اسے دیکھتا اور سوچتا کہ کہاں سے اور کیا بات شروع کرے کیونکہ ایسا ماحول اور ایسی خاموشی اسے بھی ستا رہی تھی۔
“آپ پہلے یہاں آئے ہیں کبھی؟” احد کی نگاہوں سے کنفیوز ہو کر ہی اس نے اچانک سوال کر دیا۔
“ہاں کئی بار ہانیہ اور میں…” احد ایک دم دانتوں تلے زبان دبا گیا۔
“آئی ایم سوری۔ میرا مطلب تھا ہاں آیا ہوں۔” فاطمہ اس کی بات پر چونکی ضرور مگر اسے احد کا یوں کہنا اور پھر بات بدل دینا برا نہیں لگا تھا۔ اس کے منہ سے ہانیہ کا ذکر نکلنا اور اسے یاد کرنا فطری تھا۔
کچھ پل یوں ہی گزر گئے اور پھر ویٹر کھانا لے آیا۔ کھانے کے دوران احد بلکل خاموش رہا تھا اور وہ اس کی اس عادت کو جانتی تھی کہ احد کھاتے ہوئے بات نہیں کرتا۔ اسے یاد آیا اماں کھانے کی میز پر اکثر عمر کو کھاتے ہوئے بولنے پر ٹوکتے ہوئے احد کی ہی مثال دیتیں کہ کیسے وہ خاموشی سے کھانا کھاتا ہے۔
ڈنر کر کے وہ دونوں ہوٹل کا دروازہ کھول کر باہر کی طرف بڑھنے لگے جب سامنے سڑک پر نگاہ پڑتے ہی فاطمہ کا رنگ فق ہوگیا۔ ایک دل دہلا دینے والے منظر نے اس کے رونگٹے کھڑے کر دیے۔
___________
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...