آج فارس اور نور العین کا ریسیپشن تھا۔
سبھی خوش تھے ماسواۓ کبیر شاہ اور اسکی فیملی کے۔
ابرار کو کافی گہری چوٹیں لگیں تھیں۔ یہ وہ زخم تھے جہینں شاید وقت بھر دیتا۔لیکن دل کی ازیت اور یہ تڑپ کہ۔۔۔ عین کسی اور کی ہوگٸی ہے۔۔ اس بات نے اسے مکمل خاموش کر دیا تھا۔
اسکا دماغ ماٶف کر دیا تھا۔
اس نے تو دل وہ جان سے عین کو چاہا۔
عفان کے اس دنیا سے جانے کے بعد اسکا راستہ کلٸیر ہوا تھا۔لیکن فارس نے آ کے ایساراستہ روکا۔۔ کہ وہ منہ کے بل گرا۔
ہاسپٹل۔میں لیٹا وہ زخموں سے چور نیند کے انجکشن سے جلد ہی نیند کی وادیوں میں کھو گیا۔
ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہے۔۔۔!! اللہ نظر بد سے بچاٸے۔
کسی خاتون نے اسٹیج پے آتے عین کے حسن کی تعریف کی۔ تو وہاں موجود الماس بیگم کا چہرہ اندرونی خوشی سے جگمگا گیا۔
عین کی نظریں نیچی ہی رہیں۔
آج صبح جو ہوا اس کے بعد اسے اپنی زندگی بہت مشکل۔میں لگ رہی تھی۔
وہ چاہ کے بھی فارس شاہ کے سامنے خود کو بے قصور ثابت نہ کرپاٸی۔ جسکا اسے بے انتہا دکھ تھا۔
زیان اور فارس شادی ہال۔میں موجود سیکیورٹی کی چیکنگ کر رہے تھے۔ وہ مطمیٸن تھے۔ ہرایک پے نظر تھی۔
دونوں کو اس ہیولے والے شخص کا انتظار تھا۔ انہیں یقین تھا۔ کہ وہ ضرور آۓ گا۔ فارس پے وار کرنے کے لیے۔
اس لیے وہ مکمل الرٹ تھے۔
عین کے پاس سےدعا اٹھ کے اسٹیج سے نیچے اتری تھی ۔ کہ لاٸیٹ آف ہوگٸ۔
فارس اور زیان جو اسٹیج کی جانب بڑھ رہے تھے۔ فوراًچوکنا ہوٸے۔ لوگوں کی اونچی آوازیں اور دھکم پیل شروع ہوگٸی۔ فارس اور زیان بیچ راستے ہی اٹک کے رہ گٸے۔
بھاٸی آپ۔۔۔ اسٹیج پے جاٸیں میں لاٸٹس چیک کر تا ہوں۔۔۔!!
زیان کہتے ساتھ ہی وہاں سے نکلا۔
ابھی زیان کو گٸے کچھ ہی دیر ہوٸی تھی کہ لاٸیٹ آگٸ۔
اسٹیج پے ہلڑ مچا ہوا تھا ۔ فارس بھاگنے والے انداز میں اسٹیج پے گیا۔
دلہن کی جگہ خالی تھی۔
ہاٸے۔۔۔۔ یہ کیا ہوا۔۔۔؟؟ دلہن کہاں گٸ۔۔۔؟؟
سبھی کی زبانوں پے یہی سوال تھا۔
فارس کو خود کا دل ڈوبتا محسوس ہوا۔
ہر طرف دیکھ لیا۔ لیکن عین کا کہیں کچھ پتہ نہ چلا۔
اپنے اعتباری آدمی جو ابرار پے نظر رکھے ہوٸے تھے۔ ان سے رابطہ کیا۔ ابرار کا پوچھا۔ لیکن ان کے یہ بتانے کہ وہ ہاسپٹل میں ہی ہے ۔
فارس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے لیا ہو۔۔۔
یاللہ۔۔۔ کیا کروں۔۔۔؟؟
بے اختیار۔۔ فارس کی آنکھیں نم ہوٸیں۔
پولیس وہاں پہنچ چکی تھی۔ اور اپنی سعی کوشش کر رہی تھی۔
سیس ی فوٹیج چیک کی گٸ۔
جہاں ایک ماسک والا آدمی بیک ڈور سے نظر بچا کے اندر جاتا دکھاٸی دیا۔
یہ۔۔یہ۔۔ کون ہے۔۔۔؟؟
فارس نے فوراً پوچھا۔
ہونہ ہو۔۔۔ نور کے غاٸب ہونے کے پیچھے اسی کا ہاتھ ہے۔۔۔
فارس نے یقین سے کہا۔
جبکہ زیان ابھی تک گمصل کھڑا تھا۔
اس شخص نے کوٸی اور نہیں زیان کا ہی ماسک پہنا ہوا تھا۔
مطلب۔۔۔ وہ زیان کا کوٸی دشمن تھا۔ جسے اسکے اپنوں کی خبر مل گٸ تھی۔زیان گہرا سانس کھینچتے وہیں کھڑا دماغ لڑانے لگا۔
لیکن اسکا شک کسی پے نہیں جا رہا تھا۔
کوٸی نہیں جانتا تھا۔ کہ وہ خفیہ ایجینٹ ہے۔۔پھر۔۔۔کوٸی ۔۔۔۔کیسے۔۔۔۔ استک پہنچ سکتا تھا۔۔۔؟؟
کیا ہوا۔۔۔۔؟؟ چلو زیان۔۔۔!!فارس نے زیان کو پکارا تو وہ سوچوں سے باہر آیا۔
بھاٸی۔۔۔۔۔!! زیان نے ہارے ہوٸے انداز میں فارس کو پکارا۔ اسکا لہجہ نم تھا۔
کیاہوا۔۔۔؟؟ فارس ٹھٹھکا۔ وہ میرے ۔۔بارے میں۔۔۔ سب ۔۔جانتا ہے۔۔۔!! زیان نے ماسک کی جانب اشارہ کرتے دھیمے لہجے میں کہا۔
فارس نے ایک کڑی نظر زیان پے ڈالی۔ اور اس کے قریب ہوا۔
وہ جو کوٸی بھی ہے۔۔۔ !! لیکن۔۔ وہ مجھے۔۔۔ نہیں جانتا ۔۔۔۔
زیان کے کان میں سرگوشی کرتا وہ زیان کو بہت ہمت دے گیا تھا۔
چلیں۔۔۔؟؟ فارس نے پیچھے ہوتے کہا۔
Yes boss
زیان مطمیٸن ہوتا فارس کے پیچھے ہی ہولیا۔
ایک بار پھر سے لوگوں کو باتیں بنانے کا موقع مل گیا۔
عین کا غاٸب ہونا سب پے ہی پہاڑ بن کے گرا تھا۔
کوٸی نہیں سمجھ پا رہا تھا۔ کہ عین کہاں جاسکتی ہے۔۔۔؟؟
ماریہ شاہ کی آنلھیں بار بار بھیگ رہی تھیں۔
دلاور شاہ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہے تھے۔
پولیس سے مسلسل رابطے میں تھے۔
جبکہ فارس اور زیان کہاں ہیں کوٸی نہیں جانتا تھا۔
عین کا ہاتھ سر پے گیا۔اسکا سر درد سے پھٹا جارہا تھا۔
وہ بے ہوش ہو گٸ تھی۔ اور ابھی ہوش میں آتے اسے کچھ وقت اپنے حواس بحال کرتے لگا۔
نظریں ادھر ادھر دوڑاٸیں۔
وہ کوٸی کال کوٹھری تھی۔ فوراً وہا ں سے اٹھی۔ اندھیرا ابھی بھی بد ستور تھا۔
اور اندھیرے سے تو اسکی جان جاتی تھی۔ وہاں صرف ایک بند کھڑکی تھی۔ وہ اس بند کھڑکی کے پاس آٸی۔
کوٸی ہے۔۔۔؟؟ پلیز۔۔۔ ہماری مدد کرو۔۔۔۔!! وہ کھڑکی کافی اونچی تھی۔ عین وہاں تک نہیں پہنچ پا رہی تھی۔
یاللہ ہم کہاں پھس گٸے۔۔۔؟؟
عین کی آنکھیں آنسوٶں سے بھیگنے لگیں۔
کافی شور مچانے کے بعد بھی وہاں کوٸی نہ آیا۔
تو تھک ہار وہیں دیوار کے ساتھ ٹیک لگاتی بیٹھ گٸ۔
اور۔۔ میں فارس شاہ ۔تم سے وعدہ کرتا ہوں۔۔ تم خود اس بات کا سب کے سامنے اعتراف کرو گی۔۔۔ اور بتاٶ گی سب کو۔۔۔ سب کچھ۔۔۔!! اور اس دن۔۔۔ تمہیں۔۔ میں اپنے ہاتھوں سے موت کی نیند سلاٶں گا۔
فارس کے کہے الفاظ اسکی سماعت سے پھر سے ٹکراٸے۔
شاید ۔۔ وہ قبولیت کی گھڑی تھی۔۔۔ فارس شاہ۔۔۔
دیکھو۔۔ آج ہم۔۔۔ یہاں۔۔ سب سے دور۔۔۔ہیں۔۔ اور۔۔ کب۔۔ موت کی نیند سوجاٸیں۔۔ کوٸی پتہ نہیں۔۔۔!! وہ گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹتی پھوٹ پھوٹ کے رو دی۔
کہ تبھی دروازہ کھلنے کی آواز آٸی۔
اس نے سر اٹھا کے آنے والے کو لرزیدہ نظروں سےدیکھا۔
کوون ہو۔۔تم۔۔۔۔؟؟ عین نے ڈرتے ہوٸے پوچھا۔
وہ اندھیرے میں اسکا چہرہ نہ دیکھ پاٸی۔
تیرے عشق میں ڈوب گٸے ہیں ہم۔۔۔۔
ورنہ آدمی تھے بڑے کام کے۔۔۔۔۔
ایک دم روشنی ہوٸی۔
اور سامنے والے کا ماسک سے چھپا چہرہ واضح ہوا۔
عین نے پلک جھپک بار بار دیکھنا چاہا۔ لیکن۔۔۔ وہ وہی تھا۔۔۔جس نے اس رات حملہ کیا تھا۔۔۔
ہاں۔۔۔ اسکی نظروں کا دھوکانہیں۔۔تھا۔۔
لوکیشن۔۔۔ کا پتہ چلا۔۔۔؟؟
فارس نے ارسم سے پوچھا۔ جو زیان اور فارس کے ساتھ گاڑی میں تھا۔ اور پولیس کی دو اور گاڑیاں انہیں فالو کررہی تھیں۔
زیان ڈراٸیو کر رہاتھا۔
زیان یہاں سے لیفٹ لو۔۔۔۔!!
ارسم کے کہنے پے زیان نے گاڑی موڑی۔
فرنٹ سیٹ پے بیٹھے فارس نے گن نکال کے اسے چیک کیا۔
آج یہ۔۔۔ مجھ سے بچ نہیں پاٸے گا۔
بھاٸی۔۔۔ !! بھابھی۔۔۔۔ ان کے قبضے میں ہے۔۔۔!!
زیان نےکچھ باور کرانا چاہا۔
فارس نے ایک نظر اسے دیکھا۔
نور کو کچھ نہیں ہوگا۔
یقین سے کہتا وہ سامنے ونڈ اسکرین کے پار دیکھنے لگا۔
جہاں انکی منزل بس آنے ہی والی تھی۔
فون اٹھاٶ۔۔۔ !! ڈیم۔۔۔۔۔۔!!
کبیر شاہ موباٸیل پے کال پے کال کیے جارہے تھے۔
وہ سب حویلی واپس تو آچکے تھے۔۔اور سبھی پریشان حال بھی تھے۔
ان سب میں نامحسوس انداز سے کبیر شاہ کا غاٸب ہونا دلاور شاہ سے چھپا نہ رہ سکا۔
آخر۔۔۔ یہ فون کیوں نہیں اٹھا رہا۔۔۔؟؟
کبیر شاہ خود سے مخاطب تھا۔
کون فون نہیں أٹھا رہا کبیر شاہ۔۔۔؟؟
دلاورشاہ کی آمد پے وہ بری طرح چونکے۔
اور دلاور شاہ کی جانب مڑے
کون۔۔۔ہو تمم۔ ؟؟
ماسک والا وہ شخص اندر آیا۔
عین کو اس کے ماسک سے خوف محسوس ہوا۔
اور سامنے آتے اس نے اپنا ماسک ایک دم سے اتارا۔۔۔۔۔۔!!
اب۔۔۔ر۔۔ا۔۔ر۔۔
عین کے منہ سے ٹوٹ کے الفاظ نکلے۔۔!!
وہ بے یقینی سے اسے دیکھتی کھڑ ی ہوٸی۔
ہاہاہاہاہاہ۔۔۔۔۔۔ کھاگٸ ناں۔۔ دھوکا۔۔۔۔۔!!
بلکہ۔۔ تمہاری جگہ۔۔۔ کوٸی بھی ہوتا۔۔۔۔وہ دھوکا کھا ہی جاتا۔۔۔۔!!
وہ گھما پھرا کے بات کرتا ساتھ مسکرا بھی رہا تھا۔
عین نے غور کیا۔۔۔ وہ ابرار ہی تو تھا۔۔۔ یا۔۔۔کوٸی۔۔۔اور۔۔۔؟؟
اتنا حیران نہ ہو جانِ من۔۔۔۔۔
ہم نہیں ہیں۔۔۔ تمہارے صنم۔۔۔۔
وہ شعر کہتا پھر سے ہنسا تھا۔
کون ہو تم۔۔۔؟؟ عین کو اس سے ڈر محسوس ہوا۔
اسکی ہنسی کو بریک لگا۔اس نے گن نکالی۔
عین کو گن دیکھ جھٹکالگا۔
بہت ظالم۔ہوتی ہے یہ محبت۔۔۔۔
کہیں کانہیں چھوڑتی یہ کمبخت۔۔۔۔
جانتی ہو۔۔۔!! بہت سمجھایا اسے میں نے۔۔۔
لیکن نہیں سنا کچھ بھی اس نے۔۔۔
اس نے گن لوڈ کی۔
عین کی سانس رکی۔
وہ اسے مارنے کے در پے تھا۔
تم۔۔۔ہمیں ۔۔۔کیوں۔۔۔ مارنا ۔۔۔ چاہتے ہو۔۔۔؟؟؟
عین نے ہمت کرتے پوچھا۔تو ایک لمحے کے لیے چونکا۔
اوہ۔۔۔۔!!منہ پے ہاتھ رکھا۔ اور حیران ہونے کی ایکٹنگ کرنے لگا۔
یہ تو۔۔۔ میں نے سوچا ہی نہیں۔۔
جو تم نے کہا ابھی۔۔۔۔
وہ ہر بات ایسے شعر کے ٹکڑوں میں کر رہا تھا۔ کہ عین کو کوفت ہوٸی۔
چلوتمہاری یہ بھی خواہش پوری کیے دیتا ہوں۔
زخم اپنے پھر سے ادھیڑ دیتا ہوں۔۔۔۔۔
کیا ہی۔۔۔ حسین اتفاق تھا۔
ایک کے ساتھ ایک جڑواں تھا۔۔۔
ہاں۔۔۔ فارس کے ساتھ عفان۔۔۔
ابرار کے ساتھ ارباز۔۔۔
عین کی آنکھیں حیرت سے پوری کھل گٸیں۔
لیکن قسمت دیکھو۔۔۔
سب کو سب کچھ ملا۔
بس۔۔ ارباز رہ گیا اکیلا۔۔۔۔
وہ افسردہ ہوا۔
میرے وجود کو چھاپا یا گیا۔
مجھے سب کی نظروں سے بچایا گیا۔
کیا قصور تھا میرا۔۔۔؟؟
بس ایک ہی بھاٸی تھا میرا۔۔۔۔
درد جب حد سے بڑھا۔۔۔
مجھ سے قتل وہ ہوا۔۔۔۔
عین کی آنکھیں بھیگی جا رہی تھیں۔
وہ کس کے قتل کی بات کر رہا ہے۔
جان گیا تھا وہ راز میرا۔
دلہا بننا تھا اسے تیرا۔۔۔۔
وہ جو اسے دیکھے جارہی تھی۔
اسکی اس بات پے عین کا دل بہت زوروں سے دھڑکا۔
بلایا اسے۔۔ اس سہانی صبح۔۔۔
بنابتاٸے کسی کو وہ وہاں پہنچا۔
بہت سمجھایا۔۔۔ مت کر مت کر۔۔۔
ضدی تھا بہت۔۔مانتا وہ پھرکیونکر۔۔۔؟؟
اور پھر۔۔۔۔
وہ عین کی طرف بڑھا۔ اسکی آنکھیں سرخ انگارہ ہورہی تھیں۔عین ڈر کے مارے کانپے جارہی تھی۔
چلی ایک گولی۔۔۔ہوٸی جو دل کے پار۔۔۔
اسنے گن عین کے دل پے تانی۔
وہیں عین کو اس کی بات ساری سمجھ میں آگٸ۔
تم۔۔۔تم۔۔۔ارباز۔۔۔ہو۔۔۔ ۔۔۔۔ عفان کے۔۔۔قاتل؟؟
ہکلاتے ہوٸے بولی۔
بہت۔۔۔ جلدی سمجھ آگٸ۔۔۔
انٹرسٹنگ۔۔۔
لیکن۔۔۔۔۔یہ۔راز۔۔ راز ہی رہے گا۔۔
اب۔۔تم۔۔۔گڈ باۓ اینڈٹاٹا۔۔۔۔!
وہ طنزیہ ہنسی ہنستا گن کا ٹریگر دبانے لگا کہاسی لمحے فارس اندر داخل ہوا ۔
اوراسکے گن والے ہاتھ پے گولی چلاٸی۔
وہ تڑپ کررہ گیا۔
فارس کو۔دیکھ عین نے شکر کاکلمہ پڑھا۔
بھاگ کے فارس کے پاس پہنچنا چاہا۔
لیکن رستے میں ہی ارباز نے اسے جا لیا۔اسکی گردن کے گرد بازو ڈالے اسپے گن تانی۔
نہ۔نہ۔۔۔نہ۔۔۔ فارس شاہ۔۔۔ یہ غلطی بھول کے بھی نہ کرنا۔۔ ورنہ۔۔۔تمہاری یہ چاند سی بیوی ۔۔۔جاٸے گی جان سے!!
گن عین کے دل۔کے مقام پے رکھے وہ دیوانوں کی طرح بولا تھا۔
اس سے کچھ بھی بعید نہ تھا۔ وہ پاگل۔انسان کچھ بھی کر سکتا تھا۔
نور کو چھوڑ دو۔۔۔!! ورنہ۔۔۔۔!! فارس نے ایک نظر نور پے ڈالی گن کا رخ ارباز کی جانب موڑا۔
اچھا۔۔۔۔میں بے وقوف ہوں۔۔۔کیا۔۔۔؟؟ ارباز قہقہہ مار کے ہنسا۔
ہرگز نہیں۔۔۔ اگر۔۔۔ اسکی سلامتی چاہتے ہو تو۔۔ میرے راستے سے ہٹ جاٶ۔۔۔!!
ارباز نے نیا پینترابدلا۔
ابھی وہ عین کو نقصان پہنچاٸے بنا اسکے سہارے سے وہاں سے نکلنا چاہتا تھا۔
تم۔۔۔۔! تمہارے لیے بہتر ہوگا۔۔۔ تم خود کوقانون کے حوالے کردو۔
فارس نے اسے دھمکی دی۔
ہاہاہاہاہاہ۔۔۔۔۔ فارس شاہ۔۔۔ مجھے دھمکی دینے کی پوزیشن میں ہو تم۔کیا۔۔۔؟؟
مجھےتو۔۔۔ ویسے بھی موت آنی ہے۔۔۔تو جاتے جاتے ۔۔۔تمہاری اس خوبصورت بیوی کو بھی ساتھ لے جاٶں گا۔۔۔
اچھا ہے کمپنی رہے گی۔ ایک خوبصورت دوشیزہ کی۔۔۔
وہ کہتے ہوٸے طنز سے ہنس بھی رہاتھا۔
فارس آگے بڑھا۔ لین ارباز نے گولی اس کے پاٶں کے قرب چلا کے اسے قریب آنے سے روکا۔
عین کی چینخ نکل گٸ۔ اسے لگا فارس کو گولی لگی ہے۔
خبردار۔۔۔ یہ غلطی نہ کرنا۔
دوبارہ گن عین کی کنپٹی پے رکھی۔ وہ وہیں تھم گٸ۔
آنکھوں میںخوف و حرا لیے وہ فارس کوفیکھے جا رہی تھی۔ جس کینظریں ارباز پے ٹکیں تھیں۔
اگر تم پیچھے نہ ہٹے تو۔۔ اس لڑکی کا بھیجا گیا۔۔۔۔!!
ارباز نے دھمکی دی۔
زیان پولسی کے ساتھ پورے ایریا کو گھیرچکا تھا۔
وہ اکیلا تھا۔ اکا کوٸی ساتھی نہیں تھا۔
زین اندر داخل ہوا۔ اندر کی پوزین دیکھتے وہ ٹھٹھکا۔
آجاٶ۔۔۔ برو۔۔۔ تمہاری ہی کمی تھی۔۔۔
ارباز زور سے قہقہہ مار کے ہنسا تھا۔
عین کو وہ کوٸی ساٸیکو ہی لگا تھا۔
چلو۔۔۔شاباش۔۔۔ گن پھینکو ۔۔۔۔ !! اورراستے سے ہٹو۔
ارباز نے آرڈر لگانے والے انداز میں کہا۔
فارس ٹس سے مس نہ ہوا۔
بھاٸی۔۔۔۔!! گن پھینک دیں۔۔۔ بھابھی۔۔۔ا کے قبضے میں ہے۔۔۔!!
زیان نے اپنی گن نیچے رکھتے فارس کو کہا۔
لیکن فارس کی قہر کی نظر ارباز سے نہیں ہٹ رہی تھی۔ اور نشانہ بھی اس کے دل کا لیا ہوا تھا۔
بھاٸی۔۔۔۔۔بھاٸی۔۔۔!! زیان نے پکارا۔ تو اس نے دھیرے سے گن نیچے رکھی۔ لیکن ارباز سے نظر نہ ہٹاٸی۔
چلو۔۔۔۔ا ب ۔۔۔۔ راستہ چھوڑو۔
بہت سکون سے اس نے اگلاآرڈر لگایا۔
زیان ساٸیڈپے ہوا۔ لیکن فارس نہ ہٹا۔
ہٹو۔۔۔۔ راستے سے۔۔ وہ عین کو ساتھ لیے آگے بڑھا۔
فاس لب بھینچے زرا سے ایک طرف ہوا۔
اس نے ایک نظر بھی نور کو نہ دیکھا تھا۔
وہ جانتا تھا اسے دیکھنے کا مطلب۔۔۔ وہ کمزور پڑ جاتا اور ۔۔وہ ارباز کو وہاں سے فرار کا راستہ دکھا دیتا۔
اور اس بار وہ اسے بھاگنے نہیں دے سکتا تھا۔
تمہارے پاس آخری موقع ہے ارباز ۔۔۔۔ ختم کرو۔۔۔سب اور خود کو قانون کے حوالے کر دو۔۔۔
زیان نے اسے آخری بار سمجھاتے کہا۔
ہاہاہاہاہہا۔۔۔۔ ختم ہی تو کررہا ہوں۔۔۔!! جو کہانی۔۔۔ عفان کی موت کے بعد بھی نہیں ختم ہوٸی۔۔۔ اب وہ۔۔۔ اس لڑکی کی موت کے بعد۔۔۔ ختم ۔۔۔۔۔۔
ابھی اس کے الفاظ منہ میں تھے۔ کہ فارس عفان کا نام سن آپے سے باہر ہوگیا۔ نیچے جھک پسٹل۔اٹھاٸی اور ایک لمحے کی دیری کیےبنا ارباز کی پسٹل والے ہاتھ کا نشانہ لے کے گولی چلاٸی۔
گولی لگنے سے اسکی بات پوری نہ ہو پاٸی۔
وہ زخمی ہوا۔ توعین کو دھکا دیتا وہ وہاں دروازے سے باہر بھاگا۔
فارس دوسری گولی چلاتا۔ لیکن عین کو گرتا دیکھ اسے سنبھالنے آگے بڑھ گیا۔
اگر وہ اسے نہ تھامتاتووہ لوہے کے بنے تار پے گرتی ۔ جو اس کے آر پار ہوجاتی۔
اسے تھامتا وہ اسے اپنے ساتھ لگا گیا۔
زیان فوراً ارباز کے پیچھے لپکا۔
پولیس نے چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔
وہ پھر بھی بچتا بچاتا وہاں سے چھپ چھپا کےنکلنے کی کوشش میں تھا۔
نور۔۔۔۔!! ٹھیک۔۔ ہو ناں۔۔۔؟؟ اسے اپنے ساتھ لگاٸے سکون کا سانس خارج کرتےوہ اس سے پوچھ رہا تھا۔
وہ کچھ بھی تو نہ بولی۔۔۔ بس ایک ٹک اسے دیکھے جا رہی تھی۔
اور فارس اسکی آنکھوں کے موتی دیکھے جا رہا تھا۔
وہ اسکی بانہوں میں تھی۔
وہ۔۔۔وہ۔۔۔۔ فا۔۔۔ن کککا۔۔۔ قاتل۔۔۔۔!! عین نے آنسو ضبط کرتے فارس سے کہنا چاہا۔
شیییییی!! اسے۔۔۔ دماغ سے نکال دو۔۔۔ !! جسٹ ریلیکس۔۔۔!!
فارس نے اسے ٹوکا۔ اور دوبارہ اپنے ساتھ لگایا۔
اتنے میں زیان واپس آیا۔
بھاگ گیا ہے۔۔۔!! زیان نے دانت پیستے کہا۔
کوٸی بات نہیں ۔۔۔ زخمی ہے۔۔۔۔!!اب نہیں بچے گا۔۔۔ وہ۔۔
فارس نےپر سکون ہوتے کہا۔
آپ بھابھی کو گھر لے جاٸیں۔۔۔اور کبیر شاہ اور اسکی فیملی کا آج سدِ باب ہو جانا چاہیے۔
ایک عزم سے کہتے وہ پلٹا۔
ہم پولیس کے ساتھ سرچ کررہے ہیں۔۔۔ اس بار نہیں چھوڑوں گا اسے۔۔۔
زیان انتہاٸی غصے سے کہتا باہر نکلا۔
فارس بھی ڈری سہمی عین کو بار لے کے آیا۔
گاڑی کی فرنٹ سیٹ پے بٹھاتا خود ڈراٸیونگ سیٹ پے آبیٹھا۔
اور گاڑی اسٹارٹ کی اس بات سے انجان کے ارباز نے اس گاڑی کا بریک آٸل نکال دیا تھا۔
گاڑی کے نکلتے وہ درخت کی اوٹ سے ہنستا ہوا سامنے آیا۔
کوٸی نہیں بچے گا ۔۔۔ فارس شاہ۔۔۔
اپنی مہرومیوں کا بدلہ ہر ایک سے لوں گا۔۔ گن گن کے۔۔۔ بازو کو پکڑے وہ وہاں سے نکلتا غاٸب ہوتا چلا گیا۔