تاجدار عادل
دل سے اُسکی نظر نے باتیں کیں
دھوپ میں اک شجر نے باتیں کیں
روبرو اس کے آج پنہچے تھے
آج عجزِ ہنر نے باتیں کیں
وہ اچانک ملا تو کیا کہتے
چشمِ گریہ اثر نے باتیں کیں
دل میں اس وقت ہُو کا عالم تھا
جب نظر سے نظر نے باتیں کیں
دل میں آئی جب اُس کی یاد کبھی
کیسی سنسان گھر نے باتیں کیں
اس کے رستے میں کب میں تنہا تھا
مجھ سے میرے سفر نے باتیں کیں
جب وہ آیا تو زندگی آئی
گھر کے دیوار و در نے باتیں کیں
جب میں کئی برس کے بعد گیا
مجھ سے بچپن کے گھر نے باتیں کیں
خوش سمجھتا رہا وہ جب بھی ملا
کیسی حُسنِ نظر نے باتیں کیں
ملنے آیا تھا وہ خموشی سے
کس قدر میرے ڈر نے باتیں کیں
روبرو اس کے ہم خموش رہے
اپنے شام و سحر نے باتیں کیں
خاک کا خاک ہی سے رابطہ ہے
کوزے سے کوزہ گر نے باتیں کیں
وہ بچھڑ کر چلا تو سمجھایا
روک کر رہگزر نے باتیں کیں
دل شکستوں کی کون سنتا بھلا
ہمتِ بال و پر نے باتیں کیں
ساری دنیا خموش سنتی رہی
اور عجب خیر و شر نے باتیں کیں
وہ جب آیا نہیں تو پھر عادلؔ
مجھ سے دیوار و در نے باتیں کیں