عاصم ہوں شہلا آپا۔!
شہلا نے دھیرے سے تھوڑا سا دروازہ کھولا۔۔۔
جی ویر صاحب فرمائیں۔!
مجھے میری بھابھی دیکھنی ہے۔!
اور آپ ابھی تک یہاں پر تشریف فرما ہیں۔؟؟
پیچھے ہٹیں اور مجھے میری بھابھی کا دیدار کروائیں۔!!
اے عاصم۔!! بےصبرے ویر ادھر ہی ہے تمہاری بھابھی کوئی نہیں بھاگی جا رہی ہے۔
کمرے میں تو تم آ نہیں سکتے کیونکہ سامعہ موجود ہے ، ہاں ایک حل ہے اپنی بھابی کو ادھ کھلے دروازے سے دیکھ سکتے ہو۔!
زینہ سامنے آؤ ذرا۔۔!
زینہ شرماتی لڑکھڑاتی لمبی ہیل میں عاصم کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔۔۔
ماشاءاللہ۔!!! چشمِ بددور ۔!!! دل ناشاد۔!! میری بھابھی بالکل مومی گڑیا لگ رہی ہے۔۔ !!!
بھئی مان گئے ہیں ان ماہر ہاتھوں کو جنہوں نے میری بھابھی کو سجایا سنوارا ہے۔۔۔
عاصم نےایک ہی سانس میں تعریفوں کے پل باندھ دیئے۔۔۔ جبکہ زینہ اور شہلا اسکے اس والہانہ استقبال پر مسکرا رہی تھیں۔۔۔
زینہ میری دلی تمنا ہے کہ میری دلہنیا کی سج دھج بھی تم کرواؤ۔!!
زینہ نے شرماتے ہوئے مسکرا کر دیکھا۔۔۔
اے لڑکی شرمانا بس کر دو اب ۔!! تمہارا ہم عمر بھائی ہوں۔۔۔
یہ شرمانا روحیل بھائی کے لیے محفوظ رکھو۔۔۔!!!
ویرے۔!!!
زینہ شرمانا بھول کر عاصم کو گھورنے لگی۔۔۔
اچھا بھئی اب گولہ باری ختم کرو ۔۔!!! تمہارے دلہا صاحب نکاح کے انتظار میں سوکھ کر کانٹا بنتے جا رہے ہیں۔ ایک تو دیدار یار کی تڑپ اور دوسرا محبوب کی بے رخی انکے پلیٹیسلیٹس نہ گھٹا دے۔۔۔
عاصم تمہاری زبان کب رکے گی۔؟ شہلا نے ہنستے ہوئے ٹوکا۔۔ ویسے اس وقت دروازے پر کون تھا جب مجھے کمرے میں بھیج کر خود باہر نکل گئے تھے۔؟؟؟ شہلا سے رہا نہ گیا اور پوچھ بیٹھی۔۔۔
آپا اس وقت دروازے پر دستک کی بات نہیں ہو گی بلکہ روحیل بھائی کے دل پر دستک دینے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔۔۔ عاصم نے نہایت خوبصورتی سے اصل بات کو ٹالا۔۔۔
جبکہ زینہ کا دل روحیل کا نام سن کر عجیب انداز میں دھڑکنے لگا۔۔۔
زینہ گھبرانا نہیں ہے ،میں گاڑی میں تمہارے ساتھ ہی بیٹھوں گا۔بلکہ ماسی امی بھی ساتھ ہی ہونگی۔۔۔ دلہا راجہ کو گاڑی چلانے پر لگاؤں گا تاکہ اسکا دھیان میری بہن کو ہراساں کرنے کی طرف نہ جا سکے ۔۔۔
ویرے۔۔۔!!!
جی ویرے کی بہن۔!! تم بہت شرارتی ہو۔! زینہ نے بول کر منہ بسورا۔۔۔
اچھا پھر میرے جیسی کوئی اور شرارتی سی جلدی سے ڈھونڈو نا۔۔!!
عاصم ۔!!! جی ڈیڈ۔!! بیٹا ادھر آؤ ماسی کے پاس بیٹھو ،میں ذرا اپنی بہو سے مل لوں۔۔۔ ارشاد صاحب نے ساتھ والے کمرے سے عاصم کو پکارا۔۔۔
******************************************
نکاح جیسا پاکیزہ فریضہ نہایت کٹھن مراحل طے کر کے تکمیل کو پہنچا۔۔سب نے سکھ کا سانس لیا جبکہ روحیل اپنے چھٹے نمبر سے زینہ کے ساتھ پیغام رسانی میں مشغول ہو گیا۔۔۔
زینہ بنت حیات اب زینہ زوجہ روحیل کے درجے پر فائز ہو چکی تھی۔۔۔
زینہ میری محبت کی منزل ، میری محبت کی تکمیل تمہیں نکاح کی بہت بہت مبارک ہو۔۔۔
اب تو میرا نمبر بلاک نہیں کرو گی نا۔؟؟بلکہ ایسا کرو باقی پانچوں نمبر بھی انبلاک کر دو۔!
اجازت دو تو تمہیں دیکھنے کے لیے گھر کے اندر آ سکتا ہوں۔۔۔
ویسے تو تمہیں اسلام آباد پہنچنے پر دیکھ لوں گا مگر میرے لیے اس قدر لمبا انتظار مشکل ہو جائے گا۔۔۔
کچھ بھی نہیں کہوں گا۔! صرف ایک جھلک دیکھ کر لوٹ آؤں گا۔۔۔! دوبارہ سے وضاحت دے دوں میں آدم خور نہیں ہوں۔۔
دعا بھیج رہا ہوں اُمید ہے جواب میں مجھے بھی اسی مسنون دعا سے نوازا جائے گا۔!
بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، وبَارَكَ عَلَيْكَ، وجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْرٍ
(اللہ تجھے برکت عطا فرمائے اور تجھ پر برکت کا نزول فرمائے اور تم دونوں کو بھلائی پر جمع کرے۔)
([1]) أخرجه أصحاب السنن إلا النسائي [أبو داود برقم (2130)، والترمذي برقم (1091)، وابن ماجة برقم (1905)]، وانظر: ((صحيح ابن ماجة)) (1/324). (ق).
زینہ کے بجائے سامعہ نے زینہ کا فون جھپٹا۔۔۔
انہیں کا پیغام موصول ہوا ہے جنکا تھا انتظار۔!!
زینہ صاحبہ پیغام پڑھ کر سناؤں یا خود ہی پڑھ لیں گی۔۔۔
سامعہ آج سب کو کیا ہو گیا ہے۔۔؟ زینہ نے شرماتے ہوئے گردن جھکا لی۔۔ بنو شرماؤ نہیں تمہارا ہیرو تمہارے جواب کا منتظر ہے۔! دیدار یار کا متمنی ہے۔۔۔
ہائے اللہ ۔!! میں تو نہیں سامنا کر پاؤں گی سامعہ۔! پلیز منع کر دو۔!
پاگل لڑکی پہلے مکمل پیغام تو پڑھ لو۔!! پھر آپے سے باہر ہونا۔۔۔
زینہ نے ہاتھ میں فون پکڑا ہی تھا کہ دروازے پر دستک نے دل کی حالت ابتر کر دی۔۔
سامعہ پوچھو کون ہے ؟ اگر وہ ہوئے تو میری طرف سے نہ بول دینا پلیز۔۔
تمہارا تو دماغ کام نہیں کرتا البتہ میرا بہت اچھی طرح سے کرتا ہے۔۔۔
جی کون۔؟؟
روحیل۔!!
سامعہ نے بند دروازے کے قریب آ کر ہانک لگائی۔۔
بھائی مجھے دو منٹ دیں ،میں اپنا حجاب پہن لوں۔ پھر آپکی بیگم آپ کے حوالے کر کے مجھے بھی گھر کے لئے نکلنا ہے۔۔۔
سامعہ اللہ کا واسطہ ہے نا جاؤ پلیز۔۔ زینہ دبے لہجے میں سامعہ کی منتوں پر اتر آئی۔۔یا پھر آپا کو باورچی خانے سے بلوا دو ۔! اوہ میرا ویر عاصم کدھر چلا گیا ہے۔؟
زینہ گھبراہٹ میں جو منہ میں آ رہا تھا بولے چلے جا رہی تھی۔۔۔
زینہ تم چاہے جو مرضی بولو ۔وہ شخص پورے حق کے ساتھ تمہیں ملنے آیا ہے لہٰذا فضول حرکتوں سے باز رہنا۔۔! سامعہ نے دوٹوک لہجے میں بول کر اپنا نقاب اوڑھا اور لکڑی کےدروازہ کے دونوں پٹ واہ کر دئیے۔۔۔
آئیے بھیا ۔! آپ کی دلہن آپ کی منتظر ہے۔۔۔!
روحیل نے جھکی گردن سے شکریہ ادا کیا اور کمرے کی دہلیز پر قدم رکھ دیا۔۔۔
خوبرو روحیل کالی شیروانی کے ساتھ ہم رنگ کھسہ پہنے غضب ڈھا رہا تھا۔۔ کشادہ جبیں، اٹھتی ناک ، عنابی مسکراتے ہونٹ ، گھنی سیاہ تراشیدہ داڑھی اور گھنے گھنگھریالے بالوں میں جیل لگائے تروتازگی کا سماں باندھ رہا تھا۔۔۔
متوازن قدم اُٹھاتے ہوئے کمرے میں موجود ہستی سے چند قدم کے فاصلے پر جا کھڑا ہوا ۔۔
وہ زینہ مجھے دو پچاس پچاس کے نوٹ درکار ہیں ،ذرا اپنے پرس میں دیکھو شاید پڑے ہوں ، مجھے اچانک ضرورت آن پڑی ہے۔ روحیل نے مصروف لہجے میں جیبیں ٹٹولنی شروع کر دیں۔۔ جبکہ زینہ حیرت سے نشیلی آنکھیں پھاڑے اس انوکھے مطالبے پر ساکت ہو کر رہ گئی۔۔۔
ارے زینہ جلدی کرو یار۔!! ہمیں کچھ دیر بعد اسلام آباد کے لئے نکلنا ہے ۔۔۔روحیل اپنے جلوے بکھیرتا زینہ کو عجیب و غریب مطالبات پر حیران کر رہا تھا۔۔۔
زینہ بیہوش ہونا بھول کر بستر پر پڑے کلچ کو کھول کر دو پچاس پچاس کے نوٹ ڈھونڈنے لگ گئی۔۔۔ ہاتھوں میں ہنوز لرزش تھی مگر اس بات پر مطمئن تھی کہ روحیل نے کوئی اوچھی چھچھروی حرکت نہیں کی۔۔۔ روحیل اپنی ذہانت پر خود کو داد دیئے بنا نہ رہ سکا۔۔ زینہ روحیل کی طرف پشت کیے کلچ کے ساتھ الجھی ہوئی تھی جبکہ روحیل کے پاس زینہ کی سج دھج کو آرام سے دیکھنے کا سنہری موقع ہاتھ آ چکا تھا۔۔
سفید میکسی سلور اور سفید کام سے مزین تھی ، پنوں کی مدد سے سر پر جما کامدار دوپٹہ اسکے نازک سراپے کو چار چاند لگا رہا تھا۔۔ دبلی پتلی سی زینہ ساری پریشانیاں بھول کر نوٹوں کی تلاش میں سرگرداں تھی۔۔۔
زینہ۔!!!
جی ۔۔!!! زینہ ہڑبڑا کر پلٹی۔۔
اگر کلچ میں پیسے نہیں ہیں تو ادھر الماری میں دیکھ لو ، شاید کہیں رکھ کر بھول گئی ہو۔!!!روحیل اپنی ہنسی دبائے سنجیدگی سے گویا ہوا۔۔۔
جی میں دیکھتی ہوں۔! زینہ نے فرمانبرداری کے سارے ریکارڈ توڑتے ہوئے کلچ کو بستر پر رکھ چھوڑا اور لکڑی کی پرانی الماری کے پٹ کھول کر مرتب لباس کو الٹ پلٹ کرنے لگی۔۔۔
کپڑے الٹ پلٹ کرنے کے باوجود بھی کوئی کامیابی حاصل نہ ہوئی۔۔۔
رنجیدہ چہرہ لیے روحیل کی طرف پلٹی۔۔۔
وہ دو پچاس پچاس کے نوٹ نہیں ملے مگر میرے پاس سو کے دو نوٹ ہیں ، شاید آپ کے کام آ جائیں۔! زینہ نے جواب طلب نظروں سے روحیل کو دیکھا۔۔
اضطرابی کیفیت اپنے عروج پر تھی مگر اپنے حواس کو قابو کرنے کی کوشش میں دوبارہ کلچ کی طرف بڑھی۔۔۔پلٹتے ہی لمبی ہیل مڑی اور لڑکھڑا گئی ۔۔ اس سے پہلے کہ گرتی روحیل نے آگے بڑھ کر تھام لیا۔۔۔
چند لمحے تو آنکھوں کے سامنے تارے ٹمٹمانے لگے، اس اچانک افتاد پر دماغ پوری طرح سے سمجھ نہ پایا مگر ہوش میں آتے ہی فوراً خود کو روحیل کی باہوں کے حصار سے چھڑا کر بستر کی جانب بڑھ گئی۔۔منتشر دھڑکنوں کا شور بڑھتا چلا جا رہا تھا۔۔
وہ میں معذرت چاہتی ہوں ،میرے جوتے کی ہیل بہت لمبی ہے۔۔۔زینہ نے مجرموں کی طرح جھکی گردن سے صفائی پیش کی۔۔
کوئی بات نہیں ہو جاتا ہے۔۔! روحیل ہاتھ باندھے شرافت کا پیکر بنا کمرے کے ایک کونے میں کھڑا دوبارہ گویا ہوا۔۔
اگر نوٹ نہیں ملے تو کم از کم مجھے “تبت سنو” ہی ڈھونڈ کر دے دو ۔!!!
جی۔!! دوسرے مطالبے پر زینہ کو ایک اور جھٹکا لگا۔۔۔
آپ تبت سنو کریم کو کیا کریں گے۔؟؟؟ زینہ روحیل کے عجیب و غریب مطالبات پر الجھ کر رہ گئی۔۔۔
مجھے اسکی خوشبو سونگھنی ہے کیونکہ بچپن میں ہماری امی استعمال کرتی تھیں تو تبت کی خوشبو محسوس کر کے ایسے لگتا ہے جیسے امی کہیں آس پاس ہی ہیں۔۔۔
روحیل نے سنجیدگی سے بولا جبکہ اپنے اندر ہنسی کا طوفان دبائے کھڑا تھا۔۔۔
وہ میں نے خود تو کبھی تبت استعمال نہیں کی ہے مگر امی زید کبھی کبھار کر لیتے ہیں ۔ میں ادھر امی کے پرانے سنگھار میز کے دراز میں ڈھونڈتی ہوں۔۔۔
چلو کوئی نہیں میں ادھر بیٹھا تمہارا منتظر ہوں جب تک تم ڈھونڈ نہیں لیتی ہو۔۔! روحیل اطمینان سے زینہ کے کمرے کے کونے سے سرک کر بستر پر آن بیٹھا۔۔۔
ووووووووہ آپ باہر چلے جائیں ،باقی سب کیا سوچیں گے ۔؟؟؟ زینہ نے لرزتی آواز میں بمشکل بولا، اور پھدک کر روحیل سے دور ہٹی۔۔۔
زینہ تم باقیوں کی فکریں چھوڑ دو بس اپنی فکر کرو۔۔۔ تم میری بیوی ہو اور میں تمہارا شوہر ہوں۔۔!!
زینہ کے دل کی دھڑکنیں منتشر ہونے لگیں۔۔۔بےقابو دھڑکنوں کا شور عروج پکڑنے لگا۔۔
اب کھڑی کیوں ہو ؟ جلدی سے ڈھونڈو۔!
روحیل نے نرم دھیمے لہجے میں بولا۔۔۔
جی ۔! بت بنی زینہ الماری کے پاس پڑے زمانہ قدیم کے سنگھار میز کو کھنگالنے لگ گئی۔۔۔
تمام چیزیں الٹ پلٹ کر دیں مگر تبت کا حصول ناممکن رہا۔۔۔
مایوس ہو کر روحیل کی طرف پلٹی۔۔۔
تبت بھی نہیں مل رہی ہے۔۔۔ زینہ نے اپنی اندرونی کیفیت کو چھپانے کے لیے مخروطی انگلیاں مروڑنا شروع کر دیا۔۔۔
اچھا کوئی بات نہیں ہے۔! مجھے تم مل گئی ہونا یہی کافی ہے۔۔ روحیل کی محبت پاش نظروں کی تپش زینہ کے چہرے کو جھلسانے لگی۔۔۔
آپ میری طرف ایسے نہیں دیکھیں۔!! زینہ نے مجبور ہو کر بولا۔۔
تو پھر کیسے دیکھوں۔؟؟؟ روحیل نے سنجیدگی سے استفسار کیا۔۔۔
بس اب آپ یہاں سے چلے جائیں، آپ نے بولا تھا کہ ایک جھلک دیکھ کر چلا جاؤں گا مگر آپ گزشتہ دس منٹ سے یہاں پر تشریف فرما ہیں۔۔۔
روحیل کا قہقہہ بلند ہوا۔۔
زینہ کا چہرہ شرم سے لال ہو گیا۔۔
اچھا اب پریشان نہ ہو، تمہیں جی بھر کر دیکھنا مقصود تھا سو دیکھ لیا ۔
تو آپ نے وہ پچاس پچاس کے نوٹ اور تبت کا بہانا گھڑا تھا کیا۔؟؟؟
ہاں تمہیں بیہوش ہونے سے بچانے کے لیے یہی حل سوجھا وگرنہ اس وقت تم بیہوش ہو کر میری باہوں میں جھول رہی ہوتی۔۔۔میرا بنیادی مقصد تمہارے ذہن کو کسی خاص مقصد کی طرف مبذول کروانا تھا۔۔ روحیل نے زینہ کے دماغ میں الجھی گتھی کو فوراً سلجھا دیا۔۔۔
ویسے بہت خوب صورت لگ رہی ہو۔ ماشاءاللہ۔!!روحیل کا مخمور لہجہ اور محبت پاش نظریں زینہ کی بچی کھچی ہمت بھی ہوا ہونے لگی۔
آپ یہاں سے جائیں مجھے گھبراہٹ ہو رہی ہے۔۔۔
زینہ نے لاچارگی سے لرزتی آواز میں بولا۔۔
آپ نے بولا تھا کہ صرف نکاح ہوگا اور بس۔۔!! زینہ نے شکوہ کناں لہجے میں بولا۔۔
تو ابھی صرف نکاح ہی ہوا ہے۔!!
کیوں کچھ اور ہونا باقی ہے کیا ۔؟؟ روحیل کو زینہ کو چھیڑتے ہوئے لطف آ رہا تھا۔۔
آپ اس طرح کی معنی خیز باتیں کریں گے تو پھر میں اسلام آباد نہیں جاؤں گی۔!
اسلام آباد تو تمہیں ہر حال میں جانا پڑے گا ،بہرحال معنی خیز باتوں پر سوچا جا سکتا ہے۔گھبراو نہیں ۔!!
ابھی بس اپنا حجاب پہنو۔! ہمیں کچھ دیر بعد نکلنا ہے۔! روحیل نے کھڑے ہوتے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ بولا۔۔ جبکہ زینہ ہنوز نظریں فرش پر گاڑھے لرز رہی تھی۔۔
زینہ ۔!!
جی۔!
میری طرف دیکھو۔!! روحیل نے نیا حکم نامہ جاری کر دیا۔۔
گھنیری پلکوں کی باڑ پر لرزا طاری تھا البتہ مخاطب کو دیکھنے کی خواہش قطعاً نہ تھی۔۔
زینہ۔!!
چار و ناچار زینہ کو جھکی پلکوں کی باڑ اُٹھانی پڑی ۔ نشیلی آنکھیں ناظر کی آنکھوں سے جا ٹکرائیں۔ بنا ایک لمحے کی تاخیر کیے فورا نظریں جھکا لیں۔۔
آپ مجھے ہراساں کر رہے ہیں۔زینہ نے ایک اور گل افشانی کی۔۔
اچھاااااااااا۔!
شوہر کا بیوی کو محبت بھری نظروں سے دیکھنا ہراسگی میں آتا ہے کیا۔؟؟
بولو جواب دو۔!! روحیل بضد ہونے لگا۔۔
آپ تک میں نے تمام شروط پہنچا دیں تھیں لہذا ان پر عمل بھی کریں۔! زینہ نے گھبراہٹ چھپاتے ہوئے منہ بسورا۔۔
تو تمہیں مجھ سے ابھی تک محبت نہیں ہوئی ہے ۔؟؟
نہیں بالکل بھی نہیں۔!! زینہ کا کورا جواب پاکر روحیل کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گیا۔۔
نہیں ہوئی مگر بہت جلد ہو جائے گی “محبت”.! روحیل نے لفظ محبت پر زور دے کر بولا۔۔
ابھی جلدی سے تیار ہو جاؤ تمہارے استعمال کی تمام چیزیں اسلام آباد تمہیں تمہارے کمرے میں موجود ملیں گی۔۔۔ روحیل نے بولا اور تیزی سے کمرے سے نکل گیا۔۔۔
زینہ نے سینے میں رکی سانس کو خارج کیا ۔۔ ایسے لگ رہا تھا کہ کسی نے کندھوں پر بھاری پتھر باندھ رکھے تھے۔۔۔
روحیل کے بیٹھک میں پلٹتے ہی صحن میں تمام اہل خانہ کی چہل پہل شروع ہو گئی۔۔
زید عاصم ڈرائیور کے ہمراہ گاڑیوں میں مطلوبہ سامان کی منتقلی میں جت گئے۔۔۔ شہلا امی کی ادویات اور باقی ساز و سامان کو کمرے سے نکال کر باہر صحن میں لانے لگی۔۔۔
زینہ کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ عروسی لباس تبدیل کر لے یاپھر ایسے ہی حجاب پہن لے۔۔
کچھ دیر کی سوچ بچار کے بعد سامعہ کو پیغام بھیجا۔۔۔
“سامعہ تم جیسی چالاک لومڑی آج دن تک نہیں دیکھی ہے۔! آج مجھے تم تنہا چھوڑ کر دم دبا کر گھر چلی گئی اور وہ جو رومانویت کا بخار میرے پلے پڑا ہے، نجانے کتنا ضبط کر کے اس سے جان چھڑائی ہے۔ تمہیں پتا بھی ہے مجھے اس شخص سے بہت خوف آتا ہے۔””
زینہ نے نم آلود آنکھوں سے سامعہ کو پیغام بھیجا اور خود بستر پر بیٹھ کر اپنا پسندیدہ شغل پورا کرنے لگی۔۔۔
اے زینہ۔! تم ابھی تک بیٹھی ہوئی ہو پھوہڑ بھابھی۔! عاصم نے کمرے کے سامنے سے گزرتے ہوئے اندر جھانکا۔۔۔
زینہ ہڑبڑا کر فوراً کھڑی ہو گئی۔ نہیں بس میں تیار ہونے لگی ہوں بس امی کو اپنی مکمل تیاری دوبارہ سے دکھا لوں۔۔۔ !
اچھا جلدی کرو۔!! ماسی کو تو ہم گاڑی میں بٹھانے والے ہیں۔۔۔وہ تمہیں اسلام آباد پہنچ کر دوبارہ دیکھ لیں گی۔۔
اور ہاں فی الحال تم اور
ماسی آ رہے ہو ۔!
کیوں ویرے۔؟؟؟
زید نے کچھ ضروری کام نپٹانے ہیں اور شہلا آپا بھی کہہ رہی ہیں کہ زید کو اکیلے نہیں چھوڑا جا سکتا ہے لہذا دونوں یہاں سے فارغ ہو کر اسلام آباد آ جائیں گے۔۔
اچھا۔! زینہ کا دل گھبرانے لگا۔۔۔
یا اللہ اس شخص سے میرا آمنا سامنا بہت کم ہو۔ پتا نہیں اپنے گھر لے جا کر کیا کرے گا۔۔؟؟
اگر اس بندے نے کسی بات پر وعدہ خلافی کی تو میرے پاس بھی تمام شروط کے سکرین شاٹس موجود ہیں۔۔۔
اس وقت تو بڑے جوش کے ساتھ میری ہاں میں ہاں ملائی جا رہی تھی۔۔
زینہ نے بجھے دل کے ساتھ خود کو حجاب میں لپیٹا اور اپنے اس کمرے کو الوداعی نظروں سے دیکھنے لگی۔۔۔ زندگی کی بہت ساری یادیں اس کمرے سے جڑی تھیں۔۔۔ امی کی ہمراہی میں سونا جاگنا، دکھ درد بانٹنا، اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے پورے ہو جانے پر خوشی سے پھولے نہ سمانا، سبھی کچھ تو چھوٹ رہا تھا۔۔۔ نیا ہمسفر ،نئی جگہ، نئے لوگ اور نیا رہن سہن زینہ کو رلائے جا رہا تھا۔۔۔
یکدم گلا گھٹا فون تھر تھرایا۔۔
“زینہ اگر تم نے اس طرح کی باتیں آئندہ کیں تو میں تمہارا حشر نشر کر دوں گی۔۔ وہ تمہارا محرم ، تمہارا شوہر ہے ، عزت سے رشتہ مانگ کر اپنے گھر کی چار دیواری میں لے جا رہا ہے۔۔ اپنی محفوظ چھت تمہیں سونپ رہا ہے۔اگر مجھے پتا چلا کہ تم نے ڈر کے مارے اس سے ٹھیک طریقے سے بات نہیں کی تو میں نے عبد السمیع کو لے کر تمہاری درگت بنانے اسلام آباد پہنچ آنا ہے۔اس کا گھر اب تمہارا گھر ہے۔۔۔ مجھے دوبارہ شکایت کا موقع نہ ملے۔! سسرال پہنچ کر مجھے اپنی خیریت کا پیغام بھیج دینا”۔۔!!
زینہ پیغام پڑھ کر دل مسوس کر رہ گئی۔ سامعہ بھی آنکھیں پھیر چکی ہے ، سبھی کو روحیل ہی نظر آتا ہے۔ میرے جذبات احساسات کی کسی کو پرواہ نہیں ہے۔۔
نشیلی آنکھیں شکوہ کنائی پر اتر آئیں۔۔ ٹپ ٹپ کرتے چند قطرے بےمول ہو گئے۔۔۔۔
فون اٹھا کر کلچ میں رکھنے لگی تو سکرین پر روحیل کا پیغام جھلملانے لگا۔۔۔
“زینہ کچھ دیر بعد ہمیں نکلنا ہے لہٰذا بنا روئے دھوئے گھر سے نکلنے کےلئے تیار ہو جاؤ.!
مجھے کائنات میں اگر کسی سے محبت ہے تو وہ صرف تم ہو۔! تمہارا رونا مجھے نڈھال کرتا ہے خدارا بہادر بنو۔! تم باڈر پر نہیں بلکہ اپنے سسرال جا رہی ہو ، اپنی ماں کی صحت کی بحالی کی خاطر تمہیں بہادر بننا ہو گا۔ایک اور درخواست اللہ کا واسطہ ہے۔! برائے مہربانی مجھے دیکھ کر ڈرنا چھوڑ دو۔۔
نا ہی تو میرے سینگ نکلے ہیں اور نا ہی میرے پیچھے دم لگی ہے۔
مجھے روتی بسورتی زینہ دکھائی نہ دے ، باہر گاڑی میں تمہارا منتظر ہوں”””۔
صرف تمہارا روحیل۔!!!
ہائے اللہ۔! اس شخص کی اس والہانہ محبت کی سمجھ نہیں آتی ہے۔۔ زینہ نے لرزتے ہاتھوں سے فون کلچ میں قید کیا اور اپنا شرعی لباس درست کرنے لگی۔۔۔
**********************************
رخصتی کا وقت آن پہنچا ۔ امی کو بہت آرام کے ساتھ روحیل کی مرسیڈیز بینز میں بٹھایا گیا۔۔ جبکہ دوسری گاڑی ہونڈا سیویک میں ڈیڈ ڈرائیور کے ہمراہ اگلی نشست پر براجمان ہو گئے۔۔۔
عاصم زید اور شہلا کے ہمراہ زینہ کو خارجی دروازے تک لایا گیا۔۔۔
روحیل نے زینہ کو خارجی دروازے سے نکلتے دیکھا تو فوراً گاڑی سے نکل کر اپنا ہاتھ آگے بڑھایا۔۔۔
زینہ جو کہ پہلے ہی حزن و ملال کی کیفیت سے دوچار تھی، روحیل کا بڑھا ہاتھ دیکھ کر گھبرا گئی۔۔
فوراً پلٹ کر عاصم کو دیکھا۔۔۔
بھابھی صاحبہ اپنے شوہر نامدار کا ہاتھ تھام لیں اور گاڑی میں براجمان ہو جائیں اس سے پہلے کہ یہ آسمانی بدلیاں ہم سب کو بھگو ڈالیں۔۔۔
چار و ناچار زینہ نے روحیل کی طرف دایاں ہاتھ بڑھا دیا جسے تھامتے ہی روحیل نے نرمی سے دبانا واجب سمجھا۔۔۔
یار جنوری میں کس قدر ٹھنڈ بڑھ جاتی ہے۔۔۔عاصم ٹھٹھرتے ہوئے زید سے بغل گیر ہوا ۔۔
اچھا آپا بہت جلد آپ سب دونوں سے ملاقات ہو گی ان شاءاللہ۔۔۔
روحیل نے زینہ کو ماسی امی کے پہلو میں بٹھا کر عقبی دروازہ بند کیا اور زید شہلا کے ساتھ الوداعی سلام دعا کے بعد گاڑی کی اگلی مسافر نشست پر جا بیٹھا۔۔۔
بھیا گاڑی کون چلائے گا ۔؟؟
باہر کھڑے عاصم نے واویلا مچایا۔۔
عاصم شرافت سے گاڑی کے اندر آؤ اور گاڑی تم چلاؤ گے۔!!
بھیا۔!!!!
جی چھوٹے۔!!!
روحیل نے عاصم کی نقل اتاری۔۔
جبکہ عقب میں بیٹھی زینہ امی کے ساتھ لگ کر ہنوز اشکبار تھی۔۔۔
روحیل نے پلٹ کر عقب میں دیکھا۔۔
ماسی آپ نے پریشان بالکل بھی نہیں ہونا ، ہم میرپور سے اسلام آباد تقریباً اڑھائی گھنٹے میں پہنچ جائیں گے ان شاءاللہ۔۔۔
اللہ تم دونوں کو سکھی رکھے بیٹا۔۔ !
کوئی پریشانی نہیں ہے ۔ گاڑی میں سردی نام کی کوئی چیز نہیں ہے ، مجھے تو نشست کے اندر اور پاؤں کے ذریعے بھی گرمائش پہنچ رہی ہے۔۔۔!
ماسی چند دن قبل ان نشستوں کی گرمائش کا نظام درست کروایا ہے۔۔ اور مجھے خوشی ہے کہ آپ آرام دہ طریقے سے منزل مقصود تک پہنچ پائیں گی ۔۔۔
بس بیٹا اللہ تمہیں اپنے غیبی خزانوں سے مالا مال کر دے۔ آمین۔۔
زید شہلا دونوں ہاتھ ہلاتے نظروں سے اوجھل ہونے لگے ، سست روی سے گاڑی ڈھلوان نما شاہراہِ سے اتر کر مرکزی شاہراہ پر برق رفتاری سے چلنے لگی۔۔۔
بیٹا سفر کی دعا پڑھ لیں۔!!!
(«اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا، وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ، اللهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِي سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى، اللهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا، وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ، اللهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ، وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ، اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ، وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ، وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَالْأَهْلِ»صحیح مسلم:1342)
اللہ سب سے بڑا ہے،اللہ سب سے بڑا ہے،اللہ سب سے بڑا ہے،پاک ہے وہ ذات جس نے ہمارے لئے اسے مسخر کیا، جبکہ ہم اسے مطیع کرنے والے نہیں تھے اور یقینا ہم اپنے رب کی طرف ہی لوٹنے والے ہیں، اے اللہ! ہم تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور تقوی کا سوال کرتے ہیں۔ اور اس عمل کا جسے توپسند کرتا ہے۔ اے اللہ! ہم پر ہمارا یہ سفر آسان کردے اور ہم سے اس کی دوری کو لپیٹ دے۔ اے اللہ سفر میں تو ہی ہمارا ساتھی اور گھروالوں پر نگہبان ہے، اے اللہ میں سفر کی مشقت، تکلیف وہ منظر اور مال اور گھر والوں میں برے لوٹنے سے تیری پناہ میں آتا ہوں۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لاتے تو یہی کلمات کہتے اور مزید اضافہ کرتے:
(«آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ»)
ہم لوٹنے والے، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے اور اپنے رب کی تعریف کرنے والے ہیں۔
گاڑی میرپور کے احاطے سے نکل کر منگلا ڈیم کے پل پر برق رفتاری سے چلتی چلی جا رہی تھی۔ لاغر شہناز بیگم گاڑی میں رکھے گئے فالتو تکیوں کا سہارا لے کر نیم دراز ہو گئیں جبکہ دوسری طرف زینہ خاموشی سے ماں کی نشست سے لٹکی ٹانگوں کو اپنے گود میں رکھتے ہوئے دبانے لگی۔۔۔
گاڑی میں چھائے سناٹے کو روحیل نے توڑا۔۔
ماسی امی کچھ کھانا پینا ہے تو بتائیں آگے منگلا چھاؤنی آ رہی ہے۔
ارے نہیں بیٹا۔! بھوک نہیں ہے ۔ بس مغرب سے پہلے خیر خیریت سے اسلام آباد پہنچ جائیں یہی کافی ہے۔۔۔
ماسی چائے پی لیں۔!
ارے نہیں بیٹا ۔! اپنے گھر والی بات ہے ۔ ضرورت ہوئی تو ضرور بولوں گی۔۔۔
زینہ تمہیں کچھ چاہئیے۔؟؟؟ روحیل نے یکدم پلٹ کر زینہ کو پکارا۔۔
نننن نہیں مجھے بھی ضرورت نہیں ہے۔۔۔
زینہ کی لرزتی آواز روحیل کو اچھی طرح باور کروا چکی تھی کہ وہ کس قدر خوفزدہ ہے۔۔۔
میں ذرا ڈیڈ کی خیریت دریافت کرلوں ، وہ ہم سے دس منٹ قبل میرپور سے نکل آئے تھے۔۔روحیل نے خودکلامی کرتے ہوئے جیب سے فون نکالنے کے لیے ہاتھ ڈالا ہی تھا کہ فون تھرتھرانے لگا۔۔۔
“ڈیڈ ابھی میں آپ کو ہی فون ملانے والا تھا۔۔
جی ڈیڈ عاصم ہی گاڑی چلا رہا ہے۔۔جی زینہ ماسی بھی خیریت سے ساتھ ہی ہیں، بس ہم جی ٹی روڈ دینہ کے قریب پہنچنے والے ہیں ان شاءاللہ۔”
ڈیڈ سے الوداعی کلمات کے فوراً بعد روحیل کی انگلیاں زینہ کو پیغام رسانی میں برق رفتاری سے چلنے لگیں۔۔
پیغام زینہ کے فون میں منتقل ہو چکا تھا مگر فون کلچ ندارد میں مقید تھا۔۔
روحیل نے پانچ منٹ کے انتظار کے بعد زینہ کو مخاطب کیا۔
زینہ۔!!!
جججججججی۔! زینہ کے گلے سے پھنسی ہوئی آواز نکلی۔۔۔
تمہارے فون کی بیٹری چارج ہے۔؟؟؟
میں دیکھتی ہوں۔زینہ لرزتے ہاتھوں سے کلچ کھول کر فون کی بیٹری دیکھنے لگی تو روحیل کے دو پیغام جھلملا رہے تھے۔۔
زینہ۔!!!
جججججججی۔
بیٹری دیکھی ہے ۔؟ روحیل نے سنجیدگی سے استفسار کیا۔۔
جی اسی فیصد بیٹری باقی ہے۔۔ زینہ نے فوراً جواب دیا۔۔۔
جبکہ فون پر روحیل کے پیغامات کی بھرمار ہوتی چلی جا رہی تھی۔۔۔
چار و ناچار پیغامات کھولے۔۔۔
اگر میرے ساتھ پیغامات پر بات نہیں کرو گی تو میں تمہیں اس گاڑی سے اتروا کر اپنے ساتھ اکیلے اسلام آباد لے کر جاؤں گا۔! سمجھی تم۔!!
موبائل استعمال کے لئے ہوتا ہے ناکہ چھپانے کے لیے رکھا ہوا ہے۔۔۔
یا اللہ۔! یہ شخص تو میرے سر پر سوار ہوتا جا رہا ہے۔ زینہ بے بسی سے گاڑی سے باہر کے مناظر میں خود کو مصروف کرنے کی کوشش کرنے لگی۔۔
تکیوں پر نیم دراز امی بھی دواؤں کے زیر اثر غنودگی میں چلی گئیں۔۔
بےکل زینہ کا دل آنے والے دنوں کی وجہ سے خوفزدہ تھا۔۔ کوشش کے باوجود بھی آنکھیں دغابازی کا تحیہ کر چکی تھی۔۔۔
بھابھی۔!! بھابھی۔!!بھابھی۔!! کہاں کھو گئی ہیں۔۔
اپنی سوچوں میں گم زینہ تیسری پکار پر یکدم چونکی۔۔
جی ویرے۔! زینہ کی گھٹی ہوئی آواز نکلی۔۔
بھابھی ابھی تو بھیا کی سنگت ملی نہیں ہے تو ہم مسکینوں سے نظریں موڑ لیں ہیں ۔
ارے نہیں ویرے ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔۔ زینہ کا دھیما لہجہ بمشکل عاصم کی سماعتوں تک پہنچ پایا۔۔بھابھی تمہیں یاد ہے ایک بار جب ہم سب عید پر منگلا قلعہ گئے تھے اور بھیا نے تمہیں دھکا دے کر جھولے سے گرایا تھا۔۔؟؟
ننننہیں مجھے تو یاد نہیں ہے۔۔زینہ نے جان چھڑانی چاہی مگر روحیل زینہ کی نفسیات سے بخوبی واقف تھا اسلئے بولے بنا نہ رہ پایا۔۔
زینہ کا حافظہ بہت تیز ہے عاصم ، تم میری بیوی کو خواہ مخواہ تنگ نہ کرو۔۔۔!
واہ واہ بڑے بھیا، چند گھنٹے قبل نکاح ہوا ہے اور ابھی سے زن مریدی کا سرٹیفیکیٹ بھی لے لیا ہے۔۔۔ یعنی چھوٹا بھائی جو سالوں سے آپ کے ساتھ ہے اسکی خوبیاں نظر نہیں آتیں ہیں ، جو اکیلا پردیس کی خاک چھانتا پھرتا ہے ۔۔جسے ایک عدد شریف زوجہ محترمہ کی بھی ضرورت ہے۔۔۔
زینہ شدید گھبراہٹ کے باوجود بھی عاصم کی شکوہ کنائی پر اپنے نقرئی قہقہے پر قابو نہ رکھ سکی ۔۔۔
زینہ کی کھنکتی آواز گاڑی میں جلترنگ بجا گئی۔۔
روحیل نے زینہ کی ہنسی کی کھنک پہلی بار سنی تو دل نے دوبارہ سننے کی چاہ کر دی۔۔۔
روحیل کی انگلیاں پھرتی سے موبائل پر چلنے لگیں۔۔۔
“زینہ تمہاری کوئل جیسی آواز میرے کانوں میں رس گھول گئی ہے۔۔ میں نے ایسی دلفریب ہنسی پہلے کبھی نہیں سنی ۔۔۔ ماضی میں جب بھی تم سے بات ہوئی تو تم ہمیشہ ہتھے سے اکھڑی ہوئی ملی ۔۔اب اگر مجھے پیغام کا جواب موصول نہ ہوا تو میں نے تمہیں پانچ منٹ کے اندر اندر اس گاڑی سے نیچے اتروا لینا ہے۔ تم بخوبی جانتی ہو میں قول و فعل کا پکا ہوں۔”!
زینہ نے روحیل کا پیغام پڑھا تو جسم سے جان نکلتی محسوس ہونے لگی۔۔۔
یا ربی۔!! اس شخص نے تو ایک بھی شرط پر عمل درآمد نہیں کرنا۔۔۔
زینہ کے دل میں عجیب و غریب وسوسے سر اٹھانے لگے۔۔۔
چند لمحے سوچ کر جوابی پیغام ٹائپ کرنے لگی۔۔۔
“آپ نے وعدہ کیا تھا کہ مجھے ہراساں نہیں کریں گے مگر آپ نے میرا خون خشک کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔۔آپ کی نکاح والی ضد تو پوری ہو چکی ہے، اب سفر میں نئی ضد کی دھمکی کارگر ثابت نہیں ہو گی۔”!
روحیل نے زینہ کا جوابی پیغام پڑھتے ساتھ مسکرانا شروع کر دیا۔۔۔
“شروط میں پیغام رسانی پر کوئی پابندی نہیں تھی اور اپنی منکوحہ سے پیغام رسانی پر لطف کی نیت رکھنا قابل قبول ہے نا کہ میں کسی غیر نامحرم لڑکی سے گپیں ہانکوں”۔۔
“میں کہیں بھاگی نہیں جا رہی ہوں۔! آپ کے گھر ہی جا رہی ہوں”۔!
“مگر میں اس سفر کو یادگار بنانا چاہتا ہوں۔!
میرا یہ پہلا سفر ہے جو میں اپنی منکوحہ کے ہمراہ طے کر رہا ہوں”۔!
زینہ نا چاہتے ہوئے بھی روحیل کے پیغامات کا جواب دینے پر مجبور ہو گئی۔۔
برائے مہربانی آپ آرام فرمائیں۔!
زینہ کے بغیر آرام کہاں ہے ۔؟؟؟
“آپ پھر پٹڑی سے اترنا شروع ہو گئے ہیں۔!!
بات طے تھی کہ آپ پٹڑی سے نہیں اتریں گے”۔
ہائے کاش۔!! میں صحیح معنوں میں پٹڑی سے اتر سکتا۔
آپ لاعلاج ہیں۔!!
“روحیل کا علاج صرف زینہ حیات کے پاس موجود ہے لیکن زینہ حیات اپنی چھوٹی سی دنیا میں اس قدر مگن ہو چکی ہے جسے کھرے کھوٹے کی پہچان نہیں رہی”۔۔
بھیا یہ آپ دونوں کا میرے ساتھ گاڑی میں بیٹھنے کا کیا فائدہ ہے کہ میں اکیلا ادھر بیٹھا سڑ رہا ہوں ۔ عاصم نے چند لمحے کے لیے گردن موڑ کر روحیل کو گھورا۔۔۔
کوئی بات نہیں چھوٹے ۔!! اپنے غیر شادی شدہ ہونے کا فائدہ اٹھاؤ اور گاڑی دوڑاتے جاؤ۔!!
روحیل نے عاصم کو بولتے ساتھ قہقہہ لگایا۔
یار یہ غیر شادی شدہ تو میرا لقب بنتا جا رہا ہے۔ زینہ بھابھی میری شادی کی ذمّہ داری اب تمہارے ذمے ہیں۔ یہ میرے بھیا تو چاہتے ہیں کہ میرے سر سے بال اڑ جائیں تو تب میں شادی کی خوشی دیکھوں۔۔!
دونوں بھائیوں کی نوک جھونک جاری ہوئی تو زینہ نے شکر ادا کیا کہ روحیل کا دھیان اس سے ہٹ جائے گا مگر روحیل بھی اپنے نام کا ایک تھا۔۔۔
عاصم کے ساتھ ساتھ وہ زینہ کے ساتھ روابط میں ہم آہنگی بڑھانے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہا تھا۔۔۔
“یہ مت سمجھنا کہ میں تمہیں بھول جاؤں گا اور عاصم کی باتوں میں محو رہوں گا۔مجھے تم دن رات اپنی نظروں کے سامنے چاہئے ہو۔”
ٹھیک پانچ منٹ کے وقفے بعد زینہ کا فون دوبارہ تھرتھرایا۔۔۔
“مجھے لگتا ہے آپ میں صبر کی بہت کمی ہے”۔! زینہ نے زچ ہو کر لکھا۔
“میرے خیال میں بہت صبر ہے بالخصوص تمہارے معاملے میں گزشتہ دو ماہ سے میرپور کی خاک چھانتا رہا ہوں۔! ابھی تو بہت ساری باتیں ، بہت سے حقائق پر تم سے باتیں کرنی ہیں ان شاءاللہ۔”
زینہ نے پیغام پڑھ کر جواب دیئے بغیر فون دوبارہ کلچ میں رکھ دیا۔۔
عاصم یار گاڑی ذرا ایک طرف روکو۔!!
میرے خیال میں زینہ نے کبھی اتنا لمبا سفر پہلے طے نہیں کیا تو یہ بیٹھ بیٹھ کر تھک گئی ہو گی۔۔میں چاہتا ہوں اسے پانچ منٹ کے لیے چہل قدمی کے لیے لے جاؤں۔۔۔
سنتے ساتھ زینہ کے پسینے چھوٹ گئے۔۔۔ جی چاہا بول دے کہ اسے نہیں جانا مگر کسی نئی کٹھن فرمائش سے بچنے کے لیے لب سی لیئے۔۔۔
گاڑی رک گئی۔
بھابھی صاحبہ آپ تشریف لے جائیں میں اکیلی جان یہاں پر بیٹھا آپ کا منتظر ہوں۔۔۔عاصم نے گاڑی ایک ریسٹورنٹ کے وسیع احاطے میں جا کھڑی کی۔۔
گاڑی رکتے ہی روحیل فوراً اپنی نشست سے اتر کر عقبی نشست کا دروازہ کھولنے کے لیے بنا تاخیر کے آن دھمکا۔۔۔
زینہ باہر نکلو۔!!
زینہ کا جی چاہا رو دے مگر امی کی صحت کو مدِنظر رکھتے ہوئے صبر کا دامن نہ چھوڑا۔۔۔
آہستگی سے سوئی ہوئی ماں کی ٹانگیں سیٹ پر رکھیں اور خود اپنا حجاب سیدھا کرتے ہوئے گاڑی سے چار و ناچار باہر نکل آئی۔۔۔
ویرے۔۔!!
جی۔! عاصم نشست سے سر ٹکائے بیٹھا تھا فوراً سیدھا ہوا۔
کیا بات ہے زینہ بھابھی۔؟
وہ ویرے امی کا خیال رکھنا۔! زینہ نے عاصم کو تنبیہہ کی اور مجبوراً سامنے کھڑے روحیل کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
چلو۔!!
روحیل نے ہاتھ آگے بڑھایا۔
زینہ نے احتجاجی نظروں سے انکار کرنا چاہا مگر پھر مجبوراً ہاتھ تھام لیا۔ گاڑی سے چند گز کے فاصلے پر پہنچ کر رہا نہ گیا۔۔
آپ کو پتا ہے مجھے چلنا بھی آتا ہے۔
اچھا۔!! یہ تو بہت خوشی کی بات ہے تم چل پھر لیتی ہو مگر یاد ہے نا جب دن میں تم میری باہوں میں جھول گئی تھی۔۔روحیل نے زینہ کا نرم و نازک ہاتھ دبایا ہے۔۔
وہ میں صرف لمبی ہیل کی وجہ سے لڑکھڑا گئی تھی وگرنہ کبھی بھی نہ گرتی۔ زینہ کا روٹھا لہجہ روحیل کو مسکرانے پر مجبور کر گیا۔۔
“لمبی ہیل نے لاج رکھ لی ورنہ لڑکھڑانا تو ایک بہانا تھا۔”!
کیا آپ سمجھتے ہیں کہ میں جان بوجھ کر لڑکھڑائی تھی۔؟؟
سمجھتا نہیں ہوں بلکہ یقین ہے۔!! روحیل نے زینہ کے ڈھکے چہرے سے ظاہر ان دو نشیلی آنکھوں میں جھانکا۔۔۔
آپ میرا ہاتھ چھوڑیں۔! زینہ نے بچوں کی طرح ہاتھ چھڑا کر بھاگنا چاہا۔۔۔
زینہ کان کھول کر سن لو۔! یہ ہاتھ اگر تھاما ہے تو کسی میں اتنی جرآت نہیں ہے کہ چھڑوا سکے۔۔۔!
آپ ہر وقت جنونی گفتگو کیوں کرتے ہیں۔؟؟
زینہ نے زچ ہو کر پوچھا۔۔۔
کیونکہ میں سچا ہوں۔! میرے جزبے سچے ہیں۔! میری امنگیں سچی ہیں۔!
اب یہ کپکپانا بند کرو تاکہ میری یہ باتیں تمہارے اس ننھے سے دماغ میں بیٹھ سکیں ۔۔!!
زینہ نے ہری گھاس کی روش پر چلتے ہوئے روحیل سے دوبارہ ہاتھ چھڑانے کی ناکام کوشش کی ۔۔۔
زینہ میرے پاس تمام شرعی ، دنیاوی حقوق و واجبات محفوظ ہیں لہٰذا اپنی یہ بچوں والی ضد چھوڑ دو اور اچھی بیوی بن کر رہنا سیکھو۔!!
میں آپ کی بیوی نہیں ہوں۔! ایک اور کمزور احتجاج۔
اچھا بیوی نہیں ہو تو اور کیا ہو .؟؟
میں صرف آپکی منکوحہ ہوں ۔!!
تو چلو ٹھیک ہے منکوحہ سے بیوی بنانے میں کونسا کوہ کاف جانا پڑے گا۔!
دیکھا ہے ۔!!
کیا۔؟؟ روحیل نے زینہ کو سنگی بینچ کی طرف لے جاتے ہوئے چڑانے کے لیے پوچھا۔۔
آپ کو میں نے بولا تھا کہ میرے ساتھ معنی خیز گفتگو سے اجتناب فرمائیں مگر آپ میری کسی بات کو اہمیت ہی نہیں دیتے ہیں۔ زینہ روہانسی سی ہو کر ہاتھ چھڑا کر بینچ کی طرف بڑھ گئی۔۔
اووووووووہ اچھا۔!!! میں واقعی بھول گیا تھا۔۔
ویسے میں تو بالکل سادہ گفتگو کرنے کا عادی ہوں یہ الگ بات ہے کہ سامع میری بات کو کوئی اور رنگ دے۔۔۔
مجھے رنگ دینے کا کوئی شوق نہیں ہے۔!
زینہ نے نروٹھے لہجے میں بولا۔!
دل دکھانے کا تو بہت شوق ہے نا۔! روحیل نے محبت سے چور لہجے میں بولا۔۔۔
میں یہ والا شوق بھی نہیں رکھتی ہوں۔!
میرے خیال میں تو یہ تمہارا پسندیدہ مشغلہ ہے ۔۔۔!
آپ کو کس نے بتایا ہے۔؟؟
بھئی میں نے خود دیکھا ہے ، خود تجربہ کیا ہے اور ابھی بھی کر رہا ہوں۔۔۔
کیا ۔؟؟
تمہارے اوپر تجربہ۔!!
روحیل جان بوجھ کر بات کو طول دینے لگا ، وہ چاہتا تھا کہ زینہ کے دل و دماغ میں شکوک وشبہات کسی طرح سے نکلیں ، زینہ اس سے پوچھے ، شکوہ کرے اور روٹھے ۔۔۔ اتفاقاً روحیل کی یہ خواہش بھی اپنے منصوبے کے مطابق پوری ہو رہی تھی۔۔۔
باتوں باتوں میں دونوں سنگی بینچ سے اٹھ کر لہلہاتی فصلوں کی طرف چلنے لگے ، گندم کی ہری بالیں اور سرسوں کے پیلے پھول اپنے جلوے بکھیر رہے تھے۔ ہری بھری گھاس کی روش پر چلتے ہوئے زینہ گویا ہوئی۔۔ مجھے واپس جانا ہے۔! امی کیا سوچیں گی۔؟
امی یہی سوچیں گی کہ میری بیٹی اپنے شوہر کے ہمراہ محفوظ ہے ۔۔
نہیں مجھے شرم آتی ہے۔!! آپ بار بار شوہر بیوی والی گردان نہ کیا کریں۔۔۔
تو اور کیا بولوں۔؟؟
تمہارا بھائی تو بولنے سے رہا ۔۔۔
دوستی کرنے کے لیے تم تیار نہیں ہو وگرنہ میں تمہیں اپنی دوست کہہ کر پکار سکتا ہوں۔۔مگر یاد رکھنا دل میں دوست نہیں بیوی ہی رہو گی۔۔ !
دیکھا ہے نا آپ پھر دوغلی معنی خیز بات کر رہے ہیں۔!!
یا اللہ۔!! میں کدھر جاؤں ۔؟؟ کس لڑکی سے پالا پڑ گیا ہے۔؟روحیل نے رک کر سر تھام لیا۔۔۔جبکہ زینہ نے پھسر پھسر رونا شروع کر دیا۔۔۔
زینہ میں تمہیں مطلع کر رہا ہوں اگر ایک منٹ کے اندر اندر رونا بند نہ کیا تو میں نے تمہیں اپنی باہوں میں بھر کر لے جانا ہے ، تم گاڑی تک قدموں پر چل کر نہیں جاؤ گی۔!! پھر نہ کہنا کہ مجھے ویرے اور امی سے شرم آتی ہے۔۔۔۔ اسے صرف دھمکی نہ سمجھنا۔!!
پھسر پھسر رونا تیز تیز بھاں بھاں میں منتقل ہونا شروع ہو گیا۔۔
ٹھیک ہےاگر تم یہی چاہتی ہو تو ایسے ہی سہی۔۔روحیل زینہ کو اٹھانے کے لیے آگے بڑھا مگر زینہ نے دوڑ لگا دی۔۔زینہ تم سمجھتی ہو میرے سے تیز بھاگ سکتی ہو تو یہ تمہاری خام خیالی ہے۔۔ !
روحیل نے پھرتی سے بھاگ کر زینہ کو جا لیا۔ ایک لمحے کی تاخیر کے زینہ روحیل کی باہوں میں مچل رہی تھی۔۔
پلیز مجھے نیچے اتار دو۔! زینہ کی منت سماجت شروع ہو گئی۔
مجھے حقیقتا ویرے اور امی کو دیکھ کر شرم آئے گی ۔۔۔
آئندہ میری بات مانو گی نا ۔؟؟
مانوں گی ۔! پلیز مجھے نیچے اتار دیں۔! روہانسی زینہ کی منتیں اپنے عروج پر تھیں۔۔
زینہ کی اشکبار آنکھوں اور بےبسی کو دیکھتے ہوئے روحیل نے زینہ کو آرام سے نیچے اتارا۔۔
آپکی بات مانوں گی مگر جائز والی۔بولتے ساتھ زینہ نے پانچ منٹ کی مسافت پر کھڑی گاڑی کی طرف بنا پلٹےدوڑ لگا دی۔۔۔ جبکہ روحیل سر جھٹک کر رہ گیا۔۔
زینہ تم واقعی مجھے ناکوں چنے چبوانے کا سوچ کر آئی ہو مگر میرا نام بھی روحیل ہے۔۔ تم اپنی سوچوں سے بڑھ کر مجھے پاؤ گی۔۔
تم میری اور صرف میری ہو۔! تمہاری سوچوں کے تمام راستے میرے سے شروع ہو کر مجھ پر ہی رکیں گے۔۔
******************************************
جب زینہ ہانپتی کانپتی گاڑی تک پہنچی تو عاصم کو اپنی نشست پر اونگھتے ہوئے پایا۔۔۔
ویرے دروازہ کھولو۔!!
زینہ نے عاصم کے شیشے کو تھپتھپایا۔۔۔
عاصم ہڑبڑا کر سیدھا ہوا اور فوراً باہر نکل کر عقبی نشست کا دروازہ کھولا۔۔
زینہ بھابھی ۔! ہانپ کیوں رہی ہو۔؟؟
وہ دراصل اسے ریس لگانے کا شوق ہو رہا تھا ۔ زینہ کے منہ کھولنے سے قبل ہی روحیل اسکے سر پر آن دھمکا اور بات کو اچک لیا۔۔جبکہ زینہ کو روحیل کی جنونی طبیعت سے مزید خوف آنے لگا۔۔۔
“میرے سے بھاگ کر آئی ہو نا گھر پہنچنے پر تمہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا”۔!!
کلچ میں پڑا فون تھرتھرایا۔۔
ناچاہتے ہوئے بھی زینہ نے پیغام کو بغور پڑھا اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑنے لگے ۔ اللہ جانے اب اور کونسی آزمائشوں کا سامنا کرنا باقی ہے۔
روحیل کاش میری زندگی میں نہ آتے یا پھر میں اپنی ماں کی صحت کی بنا پر اتنی مجبور نہ ہوتی ۔۔ میں کبھی بھی اس رشتے کے لیے حامی نہ بھرتی۔۔۔
ٹپ ٹپ آنسو برسنے لگے۔۔
“میں نے تمہیں پہلے بھی بولا ہے کہ مت رویا کرو مگر تمہیں سمجھ کیوں نہیں آتی ہے۔؟ تمہیں پتا ہے تمہارا رونا مجھے اذیت سے دوچار کرتا ہے”۔۔۔
زینہ نے پیغام پڑھتے ساتھ ہی سامنے روحیل کی نشست کو دیکھا جو بنا پلٹے زینہ کے بارے میں فیصد درست اندازہ لگا رہا تھا۔۔
اس شخص کو کیسے پتا چلا ہے کہ میں رو رہی ہوں۔۔۔ یہ تو مجھے میرے سے زیادہ جاننے لگا ہے۔۔
“آپ میری فکر نہ کریں اور کچھ دیر سو جائیں تاکہ میری سزا میں کمی واقع ہو جائے”۔۔۔
ہاہاہاہا ہاہاہاہا “کسی پاکیزہ کردار سے محبت کرنا اگر سزا ہے تو میں یہ سزا تمہیں بار بار دونگا”۔!
لاعلاج۔!!! زینہ نے زچ ہو کر لکھا۔۔۔
ابھی معالجہ آگئی ہے تو علاج کا حصول ناممکن نہیں رہا ہے۔۔۔
“میں امی کے فزیوتھیراپیسٹ کی تکمیل تک آپ کے یہاں ٹھہروں گی، پھر مجھے میرپور لوٹنا ہے”۔!!
“زینہ حیات تمہاری تمام کشتیاں میں میرپور جلا کر آیا ہوں، واپسی کے تمام راستے بند ہو چکے ہیں۔ اچھی طرح سے دماغ میں بیٹھا لو” ۔!!
اسی نوک جھونک میں گاڑی ایک عالیشان تین منزلہ کوٹھی کے سامنے آن رکی۔۔۔
چوکیدارنے لپک کر خارجی دروازے کے بڑے بڑے پٹ واہ کر دیئے۔۔
گاڑی چند لمحوں میں باغیچے کے ساتھ بنی اینٹوں کی کشادہ روش پر آن رکی۔۔۔
یار عاصم۔! ڈیڈ ابھی تک نہیں پہنچے ہیں؟ روحیل نے حیرت سے پوچھا ۔۔۔
اچھا چلو تم ماسی امی کی وہیل چیئر نکالو۔! میں ڈیڈ کو کال کرتا ہوں۔