نغمہ در جاں، رقص بر پا، خندہ بر لب
دل، تمنّاؤں کے بے پایاں الاؤ کے قریب!
دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل
ریگ کے دلشاد شہری، ریگ تو
اور ریگ ہی تیری طلب
ریگ کی نکہت تری پیکر میں، تیری جاں میں ہے!
ریگ صبحِ عید کے مانند زر تاب و جلیل،
ریگ صدیوں کا جمال،
جشنِ آدم پر بچھڑ کر ملنے والوں کا وصال،
شوق کے لمحات کے مانند آزاد و عظیم!
ریگ نغمہ زن
کہ ذرّے ریگ زاروں کی وہ پا زیبِ قدیم
جس پہ پڑ سکتا نہیں دستِ لئیم،
ریگِ صحرا زر گری کی ریگ کی لہروں سے دور
چشمۂ مکر و ریا شہروں سے دور!
ریگ شب بیدار ہے، سنتی ہے ہر جابر کی چاپ
ریگ شب بیدار ہے، نگراں ہے مانندِ نقیب
دیکھتی ہے سایۂ آمر کی چاپ
ریگ ہر عیّار، غارت گر کی موت
ریگ استبداد کے طغیاں کے شور و شر کی موت
ریگ جب اٹھتی ہے، اُڑ جاتی ہے ہر فاتح کی نیند
ریگ کے نیزوں سے زخمی، سب شہنشاہوں کے خواب!
(ریگ، اے صحرا کی ریگ
مجھ کو اپنی جاگتے ذرّوں کے خوابوں کی
نئی تعبیر دے!)
ریگ کے ذرّو، اُبھرتی صبح تم،
آؤ صحرا کی حدوں تک آ گیا روزِ طرب
دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل،
آ چوم ریگ!
ہے خیالوں کے پریزادوں سے بھی معصوم ریگ!
ریگ رقصاں، ماہ و سالِ نور تک رقصاں رہے
اس کا ابریشم ملائم، نرم خو، خنداں رہے!
دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل
یہ تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ
راہ گم کردوں کی مشعل، اس کے لب پر “آؤ! آؤ!”
تیرے ماضی کے خزف ریزوں سے جاگی ہے یہ آگ
آگ کی قرمز زباں پر انبساطِ نو کے راگ
دل، مرے صحرا نوردِ پیر دل،
سر گرانی کی شبِ رفتہ سے جاگ!
کچھ شرر آغوشِ صرصر میں ہیں گم،
اور کچھ زینہ بہ زینہ شُعلوں کے مینار پر چڑھتے ہوئے
اور کچھ تہ میں الاؤ کی ابھی،
مضطرب، لیکن مذبذب طفلِ کمسن کی طرح!
آگ زینہ، آگ رنگوں کا خزینہ
آگ ان لخّات کا سرچشمہ ہے
جس سے لیتا ہے غزا عشّاق کے دل کا تپاک!
چوبِ خشک انگور، اُس کی مے ہے آگ
سرسراتی ہے رگوں میں عید کے دن کی طرح!
آگ کاہن، یاد سے اُتری ہوئی صدیوں کی یہ افسانہ خواں
آنے والے قرنہا کی داستانیں لب پہ ہیں
دل، مرا صحرا نوردِ پیر دل سن کر جواں!
آگ آزادی کا، دل شادی کا نام
آگ پیدائش کا، افزائش کا نام
آگ کے پھولوں میں نسریں، یاسمن، سمبل، شقیق و نسترن
آگ آرائش کا، زیبائش کا نام
آگ وہ تقدیس، دھُل جاتے ہیں جس سے سب گناہ
آگ انسانوں کی پہلی سانس کے مانند اک ایسا کرم
عمر کا اک طول بھی جس کا نہیں کافی جواب!
یہ تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ گر نہ ہو
اِس لق و دق میں نکل آئیں کہیں سے بھیڑیے
اِس الاؤ کو سدا روشن رکھو!
(ریگِ صحرا کو بشارت ہو کہ زندہ ہے الاؤ،
بھیڑیوں کی چاپ تک آتی نہیں!)
آگ سے صحرا کا رشتہ ہے قدیم
آگ سے صحرا کے ٹیڑھے، رینگنے والے،
گرہ آلود، ژولیدہ درخت
جاگتے ہیں نغمہ در جاں، رقص بر پا، خندہ بر لب
اور منا لیتے ہیں تنہائی میں جشنِ ماہتاب
اُن کی شاخیں غیر مرئی طبل کی آواز پر دیتی ہیں تال
بیخ و بُن سے آنے لگتی ہے خداوندی جلاجل کی صدا!
آگ سے صحرا کا رشتہ ہے قدیم
رہروؤں، صحرا نوردوں کے لئے ہے رہنما
کاروانوں کا سہارا بھی ہے آگ
اور صہراؤں کی تنہائی کو ہم کرتی ہے آگ!
آگ کے چاروں طرف پشمینہ و دستار میں لپٹے ہوئے
افسانہ گو
جیسے گردِ چشم مژگاں کا ہجوم؛
اُن کے حیرت ناک، دلکش تجربوں سے
جب دمک اٹھتی ہے ریت،
ذرّہ ذرّہ بجنے لگتا ہے مثالِ سازِ جاں
گوش بر آواز رہتے ہیں درخت
اور ہنس دیتے ہیں اپنی عارفانہ بے نیازی سے کبھی!
یہ تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ گر نہ ہو
ریگ اپنی خلوتِ بے نور و خود بیں میں رہے
اپنی یکتائی کی تحسیں میں رہے
اِس الاؤ کو سدا روشن رکھو!
یہ تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ گر نہ ہو
ایشیا، افریقہ پہنائی کا نام
(بے کار پہنائی کا نام)
یوروپ اور امریکہ دارائی کا نام
(تکرارِ دارائی کا نام!)
میرا دل، صحرا نوردِ پیر دل
جاگ اٹھا ہے، مشرق و مغرب کی ایسی یک دلی
کے کاروانوں کا نیا رویا لئے:
یک دلی ایسی کہ ہوگی فہمِ انساں سے وراء
یک دلی ایسی کہ ہم سب کہہ اٹھیں
“اس قدر عجلت نہ کر
اژدہامِ گل نہ بن!”
کہہ اُٹھیں ہم:
“تُو غمِ کُل تو نہ تھی
اب لخّتِ کُل بھی نہ بن
روزِ آسائش کی بے دردی نہ بن
یک دلی بن، ایسا سنّاٹا نہ بن،
جس میں تابستاں کی دو پہروں کی
بے حاصل کسالت کے سوا کچھ بھی نہ ہو!”
اِس “جفا گر” یک دلی کے کارواں یوں آئیں گے
دستِ جادو گر سے جیسے پھوٹ نکلے ہوں طلسم،
عشقِ حاصل خیز سے، یا زورِ پیدائی سے جیسے نا گہاں
کھُل گئے ہوں مشرق و مغرب کے جسم،
۔۔جسم، صدیوں کے عقیم!
کارواں فرخُندہ پے، اور اُن کا بار
کیسہ کیسہ تختِ جم و تاجِ کے
کوزہ کوزہ فرد کی سطوت کی مے
جامہ جامہ روز و شب محنت کا خے
نغمہ نغمہ حرّیت کی گرم لِے!
سالکو، فیروز بختو، آنے والے قافلو
شہر سے لوٹو گے تم تو پاؤ گے
ریت کی سرحد پہ جو روحِ ابد خوابیدہ تھی
جاگ اٹھی ہے “شکوہ ہائے نے” سے وہ
ریت کی تہ میں جو شرمیلی سحر روئیدہ تھی
جاگ اٹھی ہے حرّیت کی لَے سے وہ!
اِتنی دوشیزہ تھی، اِتنی مرد نا دیدہ تھی صبح
پوچھ سکتے تھے نہ اُس کی عمر ہم!
درد سے ہنستی نہ تھی،
ذرّوں کی رعنائی پہ بھی ہنستی نہ تھی،
ایک محجوبانہ بے خبری میں ہنس دیتی تھی صبح!
اب مناتی ہے وہ صحرا کا جلال
جیسے عزّ و جل کے پاؤں کی یہی محراب ہو!
زیرِ محراب آ گئی ہو اُس کو بیداری کی رات
خود جنابِ عزّ و جل سے جیسے اُمّیدِ زفاف
(سارے نا کردہ گناہ اُس کے معاف!)
صبحِ صحرا، شاد باد!
اے عروسِ عزّ و جل، فرخندہ رُو، تابندہ خُو
تو اک ایسے حجرۂ شب سے نکل کر آئی ہے
دستِ قاتل نے بہایا تھا جہاں ہر سیج پر
سینکڑوں تاروں کا رخشندہ لہو، پھولوں کے پاس!
صبحِ صحرا، سر مرے زانو پہ رکھ کر داستاں
اُن تمنّا کے شہیدوں کی نہ کہہ
اُن کی نیمہ رس امنگوں، آرزوؤں کی نہ کہہ
جن سے ملنے کا کوئی امکاں نہیں
شہد تیرا جن کو نوشِ جاں نہیں!
آج بھی کچھ دور، اِس صحرا کے پار
دیو کی دیوار کے نیچے نسیم
روز و شب چلتی ہے مبہم خوف سے سہمی ہوئی
جس طرح شہروں کی راہوں پر یتیم
نغمہ بر لب تا کہ اُن کی جاں کا سنّاٹا ہو دور!
آج بھی اِس ریگ کے ذرّوں میں ہیں
ایسے ذرّے، آپ ہی اپنے غنیم
آج بھی اِس آگ کے شُعلوں میں ہیں
وہ شرر جو اِس کی تہ میں پر بریدہ رہ گئے
مثلِ حرفِ نا شنیدہ رہ گئے!
صبحِ صحرا، اے عروسِ عزّ و جل
آ کہ اُن کی داستاں دہرائیں ہم
اُن کی عزّت، اُن کی عظمت گائیں ہم
صبح، ریت اور آگ، ہم سب کا جلال!
یک دلی کے کارواں اُن کا جمال
آؤ!
اِس تہلیل کے حلقے میں ہم مل جائیں
آؤ!
شاد باد اپنی تمنّاؤں کا بے پایاں الاؤ!