(Last Updated On: )
دل کو اب حوصلۂ پا وفا ہے کہ نہیں
غمِ بے چہرگیِ حرص و ہوا ہے کہ نہیں
جانتا ہوں کہ نہیں تیرے سوا کوئی خدا
سوچتا ہوں کہ کوئی میرا خدا ہے کہ نہیں
ہمہ تن گوش زمانہ ہے ازل سے، جانے
شور کی بھیڑ میں میری بھی صدا ہے کہ نہیں
میری آنکھوں میں ذرا ڈال کے آنکھیں دیکھو
درد میں چارہ گرو، اپنی دوا ہے کہ نہیں
میری غزلوں کا تاثّر، مری نظموں کا فسوں
ہر ادا حُسن کی اک حُسن ادا ہے کہ نہیں
میں گنہگار ہوں، سُولی پر چڑھا دو مجھ کو
جسے کہتے ہیں محبّت، وہ سزا ہے کہ نہیں
اے ضیا، میں بھی کوئی بھٹکا ہوا راہی ہوں
دور تک سلسلۂ لغزش پا ہے کہ نہیں
٭٭٭