صبا اکبر آبادی
دل کی زبان سمجھیں گے اہلِ زمانہ کیا
بہروں کی انجمن میں سُنائیں فسانہ کیا
سجدوں سے باز آئیں گے اہلِ زمانہ کیا
لے جاؤ گے اُٹھا کے کہیں آستانہ کیا
میں دورِ اعتکاف میں یہ سوچتا رہا
ساقی پلائے گا تو کروں گا بہانہ کیا
جب تک یہاں ہیں ہم کو غنیمت ہی جانئے
جب اُٹھ کے چل دئیے تو پھر اپنا ٹھکانہ کیا
گلشن سے دشت ، دشت سے لایا ہے تا قفس
اب دیکھئے دکھائے گا یہ آب و دانہ کیا
مانگو دعا کہ باغ نہ تاراجِ وقت ہو
گلشن نہ ہو تو پھر قفس و آشیانہ کیا
قائم یہ کائنات رہے گی اسی طرح
یہ قافلہ کبھی نہیں ہوگا روانہ کیا؟
کیفیت شباب کے پست و بلند ہیں
ورنہ خمارِ صبح و سرورِ شبانہ کیا
سب کچھ سمجھ کے بزم سے ہم جارہے ہیں جب
ایسے میں پھر کہیں گے غزل عاشقانہ کیا
دُنیا میں ہم روایتِ دل بانٹتے رہے
سوچا نہیں کہ مانگ رہا ہے زمانہ کیا
دل کی طرف سے پھیر لیا کیوں نگاہ کو
اس تیرِ بے خطا کا ہے آخر نشانہ کیا
تنکے بکھر رہے ہیں مگر کچھ خبر نہیں
ہم خود بنا کے بھول گئے آشیانہ کیا
یکساں ہے انقلاب طبیعت سے کائنات
ہم خود بدل گئے تو بدلتا زمانہ کیا
میرے ہی عکس نے مرا روکا ہے راستہ
میں کیا بتاؤں ہے پسِ آئینہ خانہ کیا
آنے لگے ہیں وجد میں دیوار و در صباؔ
یادوں نے اُس کی چھیڑ دیا ہے ترانہ کیا