اگلی صبح ناشتے کے ٹیبل سب آ گئی تھی۔ سب نے شروع کر دیا تھا ایلاف ویسے ہی بیٹھی تھی۔ کیونکہ اسکے ہاتھ میں ابھی بھی درد تھا ۔کچھ ہاتھ بھی دائیں تھا۔
“ارے بیٹا کرو ناشتے تم بھی۔”اسے یونہی بیٹھا دیکھ کے ازمیر کے پھوپھو بولیں۔
“ہاتھ کیسا ہے اب تمہارا ۔”ازمیر نے اسکے ہاتھ کا پوچھا تو ایلاف نے اسے گھوری سے نوازا ۔تو وہ مسکرا دیا۔
“کیا ہوا ہے ایلاف ہاتھ کو۔”ثمینہ بیگم نی پوچھا ۔
“وہ رات چائے بنا رہی تھی تو ہاتھ میں گر گئی ۔”ایلاف نے بتایا ۔
“کس سوچ میں تھی جو ہاتھ ہی جلا لیا ۔”علیزے طنزًا بولی۔
“ہاں بلکل ۔دھیان کدھر تھا تمہارا۔”ازمیر کب چپ بیٹھنے والا تھا ۔ایلاف کا دل کیا جس گرم چائے کے وہ سپ لے رہا تھاوہ ہی اس پہ الٹ دے۔ ساتھ ہی ازمیر نے ایلاف کی طرف دیکھتے اپنی ایک آنکھ دبائی۔
“نہیں تو ۔وہ ازمیر میں ۔”ایلاف کے منہ سے گھبراہٹ میں الٹ نکل گیا۔
“کیا میں۔”وہ مصنوعی حیرت سے بولا ہونٹوں پہ مسکراہٹ تھی۔باقی سب بھی ہنس دئیے ۔علیزے کا تو برا حال ہو گیا تھا غصے سے۔
“نہیں میرا مطلب تھا۔میں چائے بنا رہے تھی تو ساتھ میرا دھیان کافی میں بھی تھا۔ازمیر کے بنا رہی تھی۔”اسنے وضاحت دی اور ازمیر کی طرف دیکھنے سےگریز ہی کیا۔
“چلو اب ٹائم پہ مرہم لگانا ۔جلد آ جائے گا آرام ۔”ثمینہ بیگم بولیں ۔
“جی “وہ ناشتہ کئے بغیر ٹیبل سے اٹھ گئی۔
پیچھے سے ازمیر نے ماں کی طرف دیکھا جن کی آنکھوں میں کوئی پیغام تھا ۔جیسے وہ سمجھ کے مسکرایا اور نیپکن سے ہاتھ صاف کرتے اٹھ گیا خود بھی۔
علیزے نے یہ سب مشکل سے برداشت کیا۔وہ ایلاف کو کیسے برداشت کر سکتی تھی۔اسکی اتنی کئیر ۔
“دیکھ لیتی ہوں تمہیں بھی میں۔”وہ تصور میں ایلاف کو لاتے ہوئے بولی۔
کمرے میں آ کے ایلاف نے احدیہ کو کال کی جو یونی چلی گئی تھی۔
“کیا ایمرجنسی آگئی تھی تمہیں جو آج بھی یونی چلی گئی۔”یونی میں آج کل annual function کی تیاریاں چل رہی تھی۔
“ارے ارے ہوا کیا ہے بتاؤ تو۔”احدیہ نے پوچھا۔
“مجھے لگ گئی ہے سمجھ یہ صرف ولید بھائی کے ساتھ ٹائم گزارنے کے بہانے ہیں ۔”ایلاف غصے اے بولی۔
“اچھا اب بتا بھی چکو۔تم نے صبح صبح کیا دیکھ لیا جو اتنے غصے میں ہو۔”وہ مسکرا کے بولی۔
“تمہارے بھائی کو۔”وہ جل کے بولی۔
“واہ ۔اتنی دلکش صبح ۔۔”احدیہ شریر ہوئی۔
“احدیہ بکو مت۔تمہارا بھائی کم ہے اوپر سے تم بھی شروع ہو جاؤں۔”ایلاف روہانسی ہوئی ۔بھوک سے بھی برا حال تھا۔
“اچھا سوری بتاؤ ہوا کیا ہے۔”اب کے اسنے پوچھا ۔
“تم نے کب تک آنا ہے مجھے بہت بھوک لگ رہی ۔پلیز ابھی آ جاؤں ۔ورنہ میں بھوک سے ہی مر جانا ۔”ایلاف نے منت کی۔
“تو بھوک لگی کے تو کھاؤں ۔میں کون سا تمہیں اپنے ہاتھوں سے کھلانا ۔”احدیہ حیرت سے کہا ۔
“یہی تو مصیبت میرا ہاتھ جلا ہوا ہے رات کا وہ بھی دائیں ۔بائیں سے میں کھا نہیں پا رہی سارا کچھ میرے پہ ہے گر رہا ۔”ایلاف نے مسئلہ بتایا ۔
“کیا ہوا ہاتھ کو۔”احدیہ نے پوچھا ۔
“تمہارے کھڑوس بھائی کے وجہ سے جلا ہے ۔اور میں رات سے بھوکی ہوں ۔اور اب بھی کچھ نئیں کھایا بھوک سے میرا برا حال ۔میں جب مر جاؤں تب آ جانا ۔”ایلاف نے غصے سے کال بند کر دی۔احدیہ بھی ہنس پڑی ۔اور کال ملانے لگ گئی۔۔۔
فون کی بیل ہوئی ۔تو ازمیر نے ٹرے نیچے رکھ کے کال ریسیو کی احدیہ کا تھا۔
“بھائی آپکا ہاتھ چاہیے تھا ۔”اسنے چھوٹتے ہی پوچھا تھا۔
“واٹ ۔”ازمیر نے حیرت سے پوچھا ۔
“کیا کہہ رہی ہو۔”وہ بولا ۔احدیہ ہنس رہی تھی۔
“جی صحیح سنا ۔آپکی بیگم کو ایک ہاتھ کی ضرورت ہے ۔کیونکہ انکا بھوک سے برا حال ہے۔”ازمیر بات سمجھ ہنس پڑا۔
“تو مدد کے لئے تمہیں بلایا گیا ۔”بات سمجھ کے وہ بھی بولا۔
“جی ۔اور آپ سے بہتر یہ کام کون کر سکتا ہے۔بقول آنکے ہاتھ آپکی وجہ سےجلا۔”احدیہ نے تفصیل بتائی ۔۔وہ کھلکھلا کے ہنس پڑا
” اب جائیں جلد۔ورنہ ۔”اسنے دھمکی دی ۔اور کال بند کر دی۔
وہ دستک دے کے اندر داخل ہوا ۔ہاتھ میں ٹرے تھی۔ایلاف کو بھوک بہت لگی تھی ۔مگر کیسے کھاتی ۔احدیہ کا ویٹ کرنا پڑ رہا تھا ۔
“واپس آ جائیے مراقبےسے۔”اسنے اسے سوچوں میں دیکھ کے کہہ تو وہ فوراً سیدھی ہوئی۔
“آپ ۔”ایلاف نے حیرت سے اسے دیکھا جس کے ہاتھ میں پلیٹ تھی جو اسنے سامنے رکھتے ہوئے بیڈ پہ خود بھی بیٹھ گیا اور اس بھی ہاتھ پکڑ کے سامنے بٹھایا۔
“جی ہاں میں جس کی وجہ سے آپکا ہاتھ جلا ۔”ازمیر نے اسکے ہی انداز میں اسے جواب دیا۔اور بریڈ کا پیس اسکے منہ میں ڈالنے کے لیے ہاتھ اسکے منہ کے طرف بڑھایا۔
“کھاؤ اب ۔”ازمیر نے اسکا منہ بند دیکھ کے ہی کہا ۔
“میں خودکھا لوں گی۔”ایلاف بولی۔
“ہاں اس لئے احدیہ کو بلا رہی تھی۔”ازمیر نے زبردستی نوالہ اسکے منہ میں ڈالا ۔
“ہاں تو آپ کی غلطی کی وجہ سے ہوا۔”ایلاف اسے دیکھ کے بولی۔
“اچھا ایک اور الزام مجھ معصوم لے کھاتے میں ۔”ازمیر نے اسے باتوں میں لگاتے ہوئے چائے کا کپ بھی اسکی طرف بڑھایا۔
“اتنے آپ معصوم نہ بنے ۔”ایلاف بولی۔
“بھئی جب میں ہو ں ہی معصوم تو بننے کی کیا ضرورت ہے۔”ازمیر کا بھی جواب حاضر تھا۔
” آپ جو سارا وقت مجھے ڈانٹتے رہتے ۔اپنی خونخوار آنکھوں سے گھورتے رہتے ہیں۔وہ سب کیا ہے پھر۔”وہ باتوں میں لگی اب ازمیر کے ہاتھوں آسانی سے کھا رہی تھی ۔ازمیر نے اسے جان بوجھ کے باتوں میں الجھایا تھا۔
“واقعی ہی تم بھوک میں بہت خطرناک ہوتی ہوں۔شوہر کو کیسے کیسے القاب دے رہی ہوں ۔”وہ خونخوار کہے جانے پہ تاسف سے بولا ۔
اب وہ اسے مزید باتوں میں الجھائے ناشتہ ختم کروا رہا تھا۔
علیزے نے اسماء بیگم اور انکی بیٹی ردا کو انوئیٹ کیا تھا ڈنر پہ۔ساتھ ازمیر ،احدیہ اور ولید کو بھی تو رسماً ایلاف کو بھی بول دیا ۔
ایلاف کا بلکل دل نہ تھا ۔مگر احدیہ کے اصرار پہ اسے جانا پڑا۔پھوپھو لوگوں کو ڈرائیور پہلے ہی چھوڑ آیا تھا۔ولید نے احدیہ کو پک کرنا تھا اور ازمیر نے ایلاف کو لے کے جانا تھا مگر اس سب سے ایلاف بے خبر تھی۔احدیہ نے ایلاف کو ہلکا سا میک اپ کیا کھینچ کے۔
احدیہ باہر نکل گئی ۔کیونکہ ولید کا میسج آ گیا تھا۔
ایلاف بھی احدیہ کو ڈھونڈتے باہر آئی ۔لیکن وہ کہی بھی نہ تھی۔سیل کے بپ پہ اسنے موبائل چیک کیا احدیہ کا ہی میسیج تھا۔
“ایلاف تم بھائی ساتھ آؤں گی ۔have a great journey۔”ساتھ ہارٹ کا اموجی تھا۔ایلاف تو غصے میں واپس مڑی اسے نہیں جانا تھا اب کہیں بھی۔
“ارے کدھر ۔بیٹھیں ۔میں تھوڑا لیٹ ہو گیا ۔آہیں آپ ۔”وہ اسکے لئے فرنٹ ڈور کھولے کھڑا تھا ۔جو ہلکے سے میک اپ میں نفیس سا لباس زیب تن کیے ہوئے تھی۔اسکی دل کی دنیا کو اتھل پتھل کر رہی تھی۔
“مجھےنہیں جانا۔آپ جائیں ۔”وہ کہتے ہی آگے بڑھی۔
“کیوں۔اگر کہی اور چلنا ہے تو وہاں چلتے ہیں ۔”اسنے اسے کھینچ کے پاس کیا۔
“مجھے نہیں جانا کہی۔”ایلاف باضد تھی۔
“اچھا ۔بس یا اور کچھ۔”ازمیر بولا اور ساتھ ہی اسے پکڑے فرنٹ سیٹ پہ بٹھا دیا ۔ایلاف نے لاکھ احتجاج کیا مگر پرواہ کسے تھی۔
“آپ بہت بڑے چیٹر ہیں ۔”ایلاف نے اسے غصے سے دیکھا اور بولی۔
“جو بھی ہوں اب تمہارا ہی ہوں ۔اب گزارا کرنا پڑے گا۔”ازمیر پہ شوخیاں سوار تھی وہ جو پہلو میں بیٹھی تھی۔
“ویسے بہت اچھی لگ رہی ہو۔مجھے اپنی نظروں پہ کنٹرول مشکل ہو رہا ہے۔”ازمیر نے اسکی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کے بولا ۔ایلاف نے اسکی طرف دیکھا جس کی آنکھیں جذبوں سے بھری ہوئی تھی۔
“آپ بہت فضول بولتے ہیں ۔”ایلاف نےمنہ دوسری طرف دیکھا ۔
“لیکن غلط بلکل بھی نہیں بولتا ۔”ازمیر نے دوبدوجواب دیا۔
“کیا خیال ہے کہی اور چلیں ۔تم اور میں ۔”جو باہر دیکھ رہی تھی اسکی بات پہ ایکدم اسکی طرف مڑی ۔اور اور اسکے کاندھے پہ مکے برسا دئیے ۔
“بس اتنا سا غصہ ۔مطلب ہم جا سکتے ہیں ۔”اسے تنگ کرنے میں ازمیر کو مزہ آرہا تھا۔
“ازمیر ۔”وہ غصے سے بولی۔
“جی حاضر خدمت ہے میڈم۔”اسنے اپنا سر خم کیا ۔
اور ایلاف نے تنگ آ کے پلئیر آن کر لیا۔اور وہاں معاملہ ہی الٹ تھا ۔Justin bieberکی آواز ازمیر کے دل کی عکاسی کر رہی تھی۔
I used to believe
We were burnin’ on the edge of somethin’ beautiful
Somethin’ beautiful
Sellin’ a dream
Smoke and mirrors
Keep us waitin’ on a miracle
On a miracle
Say, go through the darkest of days
Heaven’s a heartbreak away
Never let you go, never let me down
Oh, it’s been a hell of a ride
Driving the edge of a knife
Never let you go, never let me down
ازمیر جذبوں سے چُور آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا ۔ایلاف نے ہاتھ بٹھا کے پلئیر بند کرنا چاہا تو ازمیر نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا ۔ایلاف کے لاکھ مزاحمت کے باوجود بھی نہ چھوڑا۔
Don’t you give up, nah-nah-nah
I won’t give up, nah-nah-nah
Let me love you
Let me love you
Don’t you give up, nah-nah-nah
I won’t give up, nah-nah-nah
Let me love you
Let me love you
Oh baby, baby
Don’t fall asleep
At the wheel, we’ve got a million miles ahead of us
Miles ahead of us
All that we need
Is a rude awakening
To know we’re good enough
Know we’re good enough
Don’t you give up, nah-nah-nah
I won’t give up, nah-nah-nah
Let me love you
Let me love you
Don’t you give up, nah-nah-nah
ایلاف گاڑی سے اتری۔وہ آگے بڑھنے لگی ہی تھی کہ ازمیر نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔
“کیا کر رہے ہیں ۔کوئی دیکھ لے گا۔”ایلاف نے ادھر ادھر دیکھ کے بولا۔
“بیوی ہو تم میری ۔دیکھنے دو کسی کو بھی ۔میں کون سا ڈرتا ہوں کسی سے ۔”ازمیر پہ شوخیاں سوار تھیں۔
“جی بلکل آپ تو ڈراتے ہیں۔”ایلاف جھٹ بولی۔
“میں پیار بھی بہت کرتا ہوں ۔”ادھر ایلاف کی گھوری پڑی اور ازمیر کا قہقہہ ابلا۔
“یار ایک تو تم ڈراتی بہت ہو مجھے گھور گھور کے ۔”
ازمیر اسکی برف متوجہ تھا۔
“آپ تو جیسے ڈر جاتے ہیں مجھ سے ۔”ایلاف برا سا منہ بنا کے بولی۔
ازمیر آگے بڑھا تو کچھ یاد آنے پہ ایلاف کے قدم ڈھیلے پڑ گئے۔
“کیا ہو ایلاف۔”ازمیر نے اسکے روکے قدم دیکھ کے پوچھا۔
“وہ اندر۔اگر آج پھر کچھ ہوا۔”ایلاف کو پچھلا واقعہ یاد آنے پہ ڈر لگا۔
“ایلاف تم میری بیوی ہو ۔عزت ہو میری ۔کسی میں اتنی جرات نہیں کہ وہ تمہیں کچھ کہہ سکے۔اور ہاں پچھلے واقعہ پہ بھی اسکی اچھی خاصی درگت بنا چکا ہوں۔اب اسکی جرات نا ہو گی۔اور وہ مجھ سے معذرت بھی کر چکا ہے۔”ازمیر نے اسے بتایا
“لیکن اگر تم کمفرٹیبل نہیں ہو تو ہم نہیں جائیں گے۔”ازمیر نے پوچھا۔
“نہیں اب واپس کیوں جانا ۔لیکن آپ وعدہ کریں ۔میری ساتھ ہی رہیں گے۔”وہ ڈرے انداز میں بولی۔اسنے اسکا ہاتھ دبا کر تحفظ کا احساس دلایا ۔
علیزے ازمیر کے آگے بچھی جا رہی تھی۔مگر ازمیر کو ایلاف کو دیکھنے سے فرصت نہ تھی۔سارے ٹائم ایلاف ازمیر کی نظروں کے حصار میں رہی تھی۔اور جب جب علیزے نے نظروں کا ارتکاز دیکھا تو وہ بری طرح جل گئی۔
ڈائننگ ٹیبل پہ بھی ازمیر ایلاف کے ساتھ والی چئیر پہ آکے بیٹھ گیا۔سب نے کھانا شروع کر دیا تھا۔ازمیر کو نا جانے کیا سوجھی ایلاف کا پکڑ لیا تھا بھی دائیں ہاتھ اسکا ۔۔اب ایلاف پریشان بیٹھی تھی۔ نہ کچھ بول سکتی تھی نہ ہی کچھ کر سکتی تھی۔ہاتھ کھینچنا چاہ مگر بے سود ۔ازمیر مگن کھانا کھا رہا تھا جس کچھ ہو ہی نہ ہو۔
“بیٹا آپ تو کچھ لے ہی نہیں رہی ۔”علیزے کی ماما ایلاف کو یونہی بیٹھے دیکھ کے پوچھا ۔
“ایلاف کھانا اچھا نہیں لگا کیا۔”ازمیر نے چہرے پہ سنجیدگی لاتے ہوئے پوچھا ۔
“نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔کھانا بہت اچھا ہے۔”ایلاف نے ازمیر کی طرف دیکھ کی دانت پیسے۔
وہ اپنی پلیٹ پہ جھک گیا ۔ہاتھ پہ گرفت برقرار تھی۔ ایلاف کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔
“ہاتھ کیسا ہے اب تمہارا ۔”علیزے نے بھی طنزیہ پوچھا ۔
“جی بہتر ہے اب ۔”ایلاف ہنس بھی نہ پائی ۔میسج ٹون پہ ازمیر نے میسج چیک کیا تھا ۔
لائف کا میسج تھا ۔
“پلیز ازمیر چھوڑیں ہاتھ۔”التجا تھی۔وہ مسکرا دیا
“اوکے ۔بٹ شرط پہ ۔”اسنے لگے ہاتھوں شرط رکھی ۔
“ازمیر آپ ۔بتائیں ۔”ایلاف نےجلدی اے ٹائپ کیا۔
“کینڈل لائٹ ڈنر پہ جانا ہو گا میرے ساتھ۔”ازمیر نے مسکراتے ہوئے ٹائپ کیا ۔
ایلاف نے بپ پہ فوراٗ چیک کیا۔
“جو کہیں گے آپ مجھے منظور ہے ۔”ایلاف نے رپلائی کیا۔ازمیر کو یہ ہی امید تھی ۔وہ جلد از جلد ہاتھ چھڑوانا چاہ رہی تھی۔
ایلاف نے میسج کھولا تو ڈھیر سارے کس ایموجی تھے۔
“انتہائی بے ہودگی ہے یہ ۔”ایلاف نے جل بھن کے رپلائے کیا۔ازمیر مسکرا دیا ۔
“بعد میں بتاؤں گا کیا ہے یہ۔”ٹائپ کر کے سینڈ کیا۔
اب ہاتھ چھوڑ دیا تھا ازمیر نے۔
علیزے کو سب سمجھ آرہا تھا۔غصے سے اسکے چہرا سرخ ہو رہا تھا ۔